(حديث مقطوع) اخبرنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا روح، حدثنا حجاج الاسود، قال: قال ابن منبه: "كان اهل العلم فيما مضى يضنون بعلمهم عن اهل الدنيا، فيرغب اهل الدنيا في علمهم، فيبذلون لهم دنياهم، وإن اهل العلم اليوم بذلوا علمهم لاهل الدنيا، فزهد اهل الدنيا في علمهم، فضنوا عليهم بدنياهم".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ الْأَسْوَدُ، قَالَ: قَالَ ابْنُ مُنَبِّهٍ: "كَانَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِيمَا مَضَى يَضَنُّونَ بِعِلْمِهِمْ عَنْ أَهْلِ الدُّنْيَا، فَيَرْغَبُ أَهْلُ الدُّنْيَا فِي عِلْمِهِمْ، فَيَبْذُلُونَ لَهُمْ دُنْيَاهُمْ، وَإِنَّ أَهْلَ الْعِلْمِ الْيَوْمَ بَذَلُوا عِلْمَهُمْ لِأَهْلِ الدُّنْيَا، فَزَهِدَ أَهْلُ الدُّنْيَا فِي عِلْمِهِمْ، فَضَنُّوا عَلَيْهِمْ بِدُنْيَاهُمْ".
حجاج الاسود سے مروی ہے وہب بن منبہ نے فرمایا: ماضی میں اہل علم اپنے علم کو دنیا داروں سے بچاتے تھے، تو دنیا دار ان کے علم میں رغبت رکھتے تھے، اور اپنی دنیا ان پر لٹا دیتے تھے، لیکن آج کے اہل علم نے اپنے علم کو دنیا داروں پر لٹایا ہے تو دنیا دار ان کے علم سے دست کش ہو گئے، اور اپنی دنیا کو ان سے بچا لیا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه: حجاج الأسود لم يدرك وهبا فيما نعلم والله أعلم، [مكتبه الشامله نمبر: 672]» اس روایت کی سند میں انقطاع ہے، کیونکہ حجاج (بن ابی زیاد) نے وہب کو نہیں پایا۔ دیکھئے: [حلية الأولياء 29/4]، [الجرح والتعديل 160/3] و [ميزان الاعتدال 460/1]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه: حجاج الأسود لم يدرك وهبا فيما نعلم والله أعلم