سنن دارمي
مقدمه
مقدمہ
56. باب في إِعْظَامِ الْعِلْمِ:
علم کی عظمت کا بیان
حدیث نمبر: 670
أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الْكُمَيْتِ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ وَهْبٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: "مَرَّ سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بِالْمَدِينَةِ وَهُوَ يُرِيدُ مَكَّةَ، فَأَقَامَ بِهَا أَيَّامًا، فَقَالَ: هَلْ بِالْمَدِينَةِ أَحَدٌ أَدْرَكَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَقَالُوا لَهُ: أَبُو حَازِمٍ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ , فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ، قَالَ لَهُ: يَا أَبَا حَازِمٍ، مَا هَذَا الْجَفَاءُ؟، قَالَ أَبُو حَازِمٍ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، وَأَيُّ جَفَاءٍ رَأَيْتَ مِنِّي؟، قَالَ: أَتَانِي وُجُوهُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ وَلَمْ تَأْتِنِي، قَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أُعِيذُكَ بِاللَّهِ أَنْ تَقُولَ مَا لَمْ يَكُنْ، مَا عَرَفْتَنِي قَبْلَ هَذَا الْيَوْمِ، وَلَا أَنَا رَأَيْتُكَ، قَالَ: فَالْتَفَتَ سُلَيْمَانُ إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ شِهَابٍ الزُّهْرِيِّ، فَقَالَ أَصَابَ الشَّيْخُ: وَأَخْطَأْتُ، قَالَ سُلَيْمَانُ: يَا أَبَا حَازِمٍ، مَا لَنَا نَكْرَهُ الْمَوْتَ؟، قَالَ: لِأَنَّكُمْ أَخْرَبْتُمْ الْآخِرَةَ، وَعَمَّرْتُمْ الدُّنْيَا، فَكَرِهْتُمْ أَنْ تَنْتَقِلُوا مِنْ الْعُمْرَانِ إِلَى الْخَرَابِ، قَالَ: أَصَبْتَ يَا أَبَا حَازِمٍ، فَكَيْفَ الْقُدُومُ غَدًا عَلَى اللَّهِ؟، قَالَ: أَمَّا الْمُحْسِنُ، فَكَالْغَائِبِ يَقْدُمُ عَلَى أَهْلِهِ، وَأَمَّا الْمُسِيءُ، فَكَالْآبِقِ يَقْدُمُ عَلَى مَوْلَاهُ، فَبَكَى سُلَيْمَانُ، وَقَالَ: لَيْتَ شِعْرِي مَا لَنَا عِنْدَ اللَّهِ؟، قَالَ: اعْرِضْ عَمَلَكَ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ، قَالَ: وَأَيُّ مَكَانٍ أَجِدُهُ؟، قَالَ: إِنَّ الأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ {13} وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِي جَحِيمٍ {14} سورة الانفطار آية 13-14، قَالَ سُلَيْمَانُ: فَأَيْنَ رَحْمَةُ اللَّهِ يَا أَبَا حَازِمٍ؟، قَالَ أَبُو حَازِمٍ: رَحْمَةَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنْ الْمُحْسِنِينَ، قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ: يَا أَبَا حَازِمٍ، فَأَيُّ عِبَادِ اللَّهِ أَكْرَمُ؟، قَالَ: أُولُو الْمُرُوءَةِ وَالنُّهَى، قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ: يَا أَبَا حَازِمٍ، فَأَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟، قَالَ أَبُو حَازِمٍ: أَدَاءُ الْفَرَائِضِ مَعَ اجْتِنَابِ الْمَحَارِمِ، قَالَ سُلَيْمَانُ: فَأَيُّ الدُّعَاءِ أَسْمَعُ؟، قَالَ أَبُو حَازِمٍ: دُعَاءُ الْمُحْسَنِ إِلَيْهِ لِلْمُحْسِنِ، قَالَ: فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟، قَالَ: لِلسَّائِلِ الْبَائِسِ، وَجُهْدُ الْمُقِلِّ لَيْسَ فِيهَا مَنٌّ وَلَا أَذًى، قَالَ: فَأَيُّ الْقَوْلِ أَعْدَلُ؟، قَالَ: قَوْلُ الْحَقِّ عِنْدَ مَنْ تَخَافُهُ أَوْ تَرْجُوهُ، قَالَ: فَأَيُّ الْمُؤْمِنِينَ أَكْيَسُ؟، قَالَ: رَجُلٌ عَمِلَ بِطَاعَةِ اللَّهِ وَدَلَّ النَّاسَ عَلَيْهَا، قَالَ: فَأَيُّ الْمُؤْمِنِينَ أَحْمَقُ؟، قَالَ: رَجُلٌ انْحَطَّ فِي هَوَى أَخِيهِ وَهُوَ ظَالِمٌ، فَبَاعَ آخِرَتَهُ بِدُنْيَا غَيْرِهِ، قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ: أَصَبْتَ، فَمَا تَقُولُ فِيمَا نَحْنُ فِيهِ؟، قَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَوَ تُعْفِينِي؟، قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ: لَا، وَلَكِنْ نَصِيحَةٌ تُلْقِيهَا إِلَيَّ، قَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنَّ آبَاءَكَ قَهَرُوا النَّاسَ بِالسَّيْفِ، وَأَخَذُوا هَذَا الْمُلْكَ عَنْوَةً عَلَى غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ، وَلَا رِضًا لَهُمْ حَتَّى قَتَلُوا مِنْهُمْ مَقْتَلَةً عَظِيمَةً، فَقَدْ ارْتَحَلُوا عَنْهَا، فَلَوْ أُشْعِرْتَ مَا قَالُوا، وَمَا قِيلَ لَهُمْ؟، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَائِهِ: بِئْسَ مَا قُلْتَ يَا أَبَا حَازِمٍ، قَالَ أَبُو حَازِمٍ: كَذَبْتَ، إِنَّ اللَّهَ أَخَذَ مِيثَاقَ الْعُلَمَاءِ لَيُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا يَكْتُمُونَهُ، قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ: فَكَيْفَ لَنَا أَنْ نُصْلِحَ؟، قَالَ: تَدَعُونَ الصَّلَفَ، وَتَمَسَّكُونَ بِالْمُرُوءَةِ، وَتَقْسِمُونَ بِالسَّوِيَّةِ، قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ: كَيْفَ لَنَا بِالْمَأْخَذِ بِهِ؟، قَالَ أَبُو حَازِمٍ: تَأْخُذُهُ مِنْ حِلِّهِ، وَتَضَعُهُ فِي أَهْلِهِ، قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ: هَلْ لَكَ يَا أَبَا حَازِمٍ أَنْ تَصْحَبَنَا فَتُصِيبَ مِنَّا وَنُصِيبَ مِنْكَ؟ قَالَ: أَعُوذُ بِاللَّهِ، قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ: وَلِمَ ذَاكَ؟، قَالَ: أَخْشَى أَنْ أَرْكَنَ إِلَيْكُمْ شَيْئًا قَلِيلًا فَيُذِيقَنِي اللَّهُ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ، قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ: ارْفَعْ إِلَيْنَا حَوَائِجَكَ؟، قَالَ: تُنْجِينِي مِنْ النَّارِ وَتُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ، قَالَ سُلَيْمَانُ: لَيْسَ ذَاكَ إِلَيَّ، قَالَ أَبُو حَازِمٍ: فَمَا لِي إِلَيْكَ حَاجَةٌ غَيْرُهَا، قَالَ: فَادْعُ لِي، قَالَ أَبُو حَازِمٍ: اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ سُلَيْمَانُ وَلِيَّكَ، فَيَسِّرْهُ لِخَيْرِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَإِنْ كَانَ عَدُوَّكَ، فَخُذْ بِنَاصِيَتِهِ إِلَى مَا تُحِبُّ وَتَرْضَى، قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ: قَطُّ، قَالَ أَبُو حَازِمٍ: قَدْ أَوْجَزْتُ وَأَكْثَرْتُ إِنْ كُنْتَ مِنْ أَهْلِهِ، وَإِنْ لَمْ تَكُنْ مِنْ أَهْلِهِ فَمَا يَنْفَعُنِي أَنْ أَرْمِيَ عَنْ قَوْسٍ لَيْسَ لَهَا وَتَرٌ؟، قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ: أَوْصِنِي، قَالَ: سَأُوصِيكَ وَأُوجِزُ: عَظِّمْ رَبَّكَ وَنَزِّهْهُ أَنْ يَرَاكَ حَيْثُ نَهَاكَ، أَوْ يَفْقِدَكَ حَيْثُ أَمَرَكَ، فَلَمَّا خَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ، بَعَثَ إِلَيْهِ بِمِائَةِ دِينَارٍ، وَكَتَبَ إِلَيْهِ: أَنْ أَنْفِقْهَا وَلَكَ عِنْدِي مِثْلُهَا كَثِيرٌ، قَالَ: فَرَدَّهَا عَلَيْهِ وَكَتَبَ إِلَيْهِ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أُعِيذُكَ بِاللَّهِ أَنْ يَكُونَ سُؤَالُكَ إِيَّايَ هَزْلًا، أَوْ رَدِّي عَلَيْكَ بَذْلًا وَمَا أَرْضَاهَا لَكَ، فَكَيْفَ أَرْضَاهَا لِنَفْسِي؟ وَكَتَبَ إِلَيْهِ: إِنَّ مُوسَى بْنَ عِمْرَانَ لَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْيَنَ، وَجَدَ عَلَيْهَا رِعَاءً يَسْقُونَ، وَوَجَدَ مِنْ دُونِهِمْ جَارِيَتَيْنِ تَذُودَانِ، فَسَأَلَهُمَا، فَقَالَتَا: لا نَسْقِي حَتَّى يُصْدِرَ الرِّعَاءُ وَأَبُونَا شَيْخٌ كَبِيرٌ {23} فَسَقَى لَهُمَا ثُمَّ تَوَلَّى إِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ {24} سورة القصص آية 23-24، وَذَلِكَ أَنَّهُ كَانَ جَائِعًا خَائِفًا لَا يَأْمَنُ، فَسَأَلَ رَبَّهُ وَلَمْ يَسْأَلْ النَّاسَ، فَلَمْ يَفْطِنْ الرِّعَاءُ وَفَطِنَتْ الْجَارِيتَانِ، فَلَمَّا رَجَعَتَا إِلَى أَبِيهِمَا، أَخْبَرَتَاهُ بِالْقِصَّةِ وَبِقَوْلِهِ، فَقَالَ أَبُوهُمَا وَهُوَ شُعَيْبٌ: هَذَا رَجُلٌ جَائِعٌ، فَقَالَ لِإِحْدَاهُمَا: اذْهَبِي فَادْعِيهِ، فَلَمَّا أَتَتْهُ، عَظَّمَتْهُ وَغَطَّتْ وَجْهَهَا، وَقَالَتْ: إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا سورة القصص آية 25 فَشَقَّ عَلَى مُوسَى حِينَ ذَكَرَتْ: أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا، وَلَمْ يَجِدْ بُدًّا مِنْ أَنْ يَتْبَعَهَا، إِنَّهُ كَانَ بَيْنَ الْجِبَالِ جَائِعًا مُسْتَوْحِشًا، فَلَمَّا تَبِعَهَا، هَبَّتْ الرِّيحُ فَجَعَلَتْ تَصْفِقُ ثِيَابَهَا عَلَى ظَهْرِهَا فَتَصِفُ لَهُ عَجِيزَتَهَا، وَكَانَتْ ذَاتَ عَجُزٍ، وَجَعَلَ مُوسَى يُعْرِضُ مَرَّةً، وَيَغُضُّ أُخْرَى، فَلَمَّا عِيلَ صَبْرُهُ، نَادَاهَا: يَا أَمَةَ اللَّهِ، كُونِي خَلْفِي وَأَرِينِي السَّمْتَ بِقَوْلِك ذَا، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى شُعَيْبٍ إِذَا هُوَ بِالْعَشَاءِ مُهَيَّأً، فَقَالَ لَهُ شُعَيْبٌ: اجْلِسْ يَا شَابُّ فَتَعَشَّ، فَقَالَ لَهُ مُوسَى: أَعُوذُ بِاللَّهِ، فَقَالَ لَهُ شُعَيْبٌ: لِمَ؟ أَمَا أَنْتَ جَائِعٌ؟، قَالَ: بَلَى، وَلَكِنِّي أَخَافُ أَنْ يَكُونَ هَذَا عِوَضًا لِمَا سَقَيْتُ لَهُمَا، وَإِنَّا مِنْ أَهْلِ بَيْتٍ لَا نَبِيعُ شَيْئًا مِنْ دِينِنَا بِمِلْءِ الْأَرْضِ ذَهَبًا، فَقَالَ لَهُ شُعَيْبٌ: لَا يَا شَابُّ، وَلَكِنَّهَا عَادَتِي وَعَادَةُ آبَائِي نُقْرِي الضَّيْفَ، وَنُطْعِمُ الطَّعَامَ، فَجَلَسَ مُوسَى، فَأَكَلَ، فَإِنْ كَانَتْ هَذِهِ الْمِائَةُ دِينَارٍ عِوَضًا لِمَا حَدَّثْتُ، فَالْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ فِي حَالِ الِاضْطِرَارِ أَحَلُّ مِنْ هَذِهِ، وَإِنْ كَانَ لِحَقٍّ لِي فِي بَيْتِ الْمَالِ، فَلِي فِيهَا نُظَرَاءُ، فَإِنْ سَاوَيْتَ بَيْنَنَا، وَإِلَّا فَلَيْسَ لِي فِيهَا حَاجَةٌ".
ضحاک بن موسیٰ نے بیان کیا کہ سلیمان بن عبدالملک مکہ جاتے ہوئے مدینہ سے گزرے تو وہاں کچھ دن قیام کیا، پوچھا: کیا مدینہ میں کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی کو پایا؟ لوگوں نے کہا: ابوحازم نے، چنانچہ ان کو بلایا اور جب وہ ان کے پاس داخل ہوئے تو سلیمان نے کہا: ابوحازم یہ کیا بے رخی ہے؟ ابوحازم نے عرض کیا: امیر المؤمنین! کیسی بے رخی آپ نے مجھ سے محسوس کی؟ کہا: اہل مدینہ کے بہت سے لوگ میرے پاس آئے، لیکن تم نہیں آئے؟ عرض کیا: امیر المؤمنین! میں آپ کو الله کی پناہ میں دیتا ہوں اس چیز سے جو سرزد نہیں ہوئی، آپ نے آج سے قبل مجھے پہچانا نہیں، اور نہ میں نے آپ کو دیکھا۔ راوی نے کہا: سلیمان، محمد بن شہاب زہری کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: شیخ صحیح فرماتے ہیں، میں نے ہی غلط کہا، پھر خلیفہ سلیمان نے دریافت کیا: ابوحازم کیا بات ہے، ہم موت کو ناپسند کرتے ہیں؟ عرض کیا: اس لئے کہ آپ نے آخرت کو برباد کر لیا اور دنیا بسالی ہے، اس لئے آبادی سے ویرانی کی طرف جانا ناپسند کرتے ہو، فرمایا: ابوحازم! تم نے سچ کہا، لیکن کل کو اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضری کیسے ہو گی؟ عرض کیا نیکی کرنے والا اس غائب کی طرح ہے جو اپنے اہل کے پاس آتا ہے، لیکن برائی کرنے والا اس بھگوڑے غلام کی طرح جو اپنے آقا کے پاس آتا ہے۔ یہ سن کر امیر المؤمنین سلیمان بن عبدالملک رونے لگے اور کہا: پتہ نہیں اللہ کے پاس ہمارے لئے کیا ہے؟ ابوحازم نے کہا: اپنے عمل کا کتاب اللہ سے موازنہ کیجئے۔ سلیمان نے کہا: قرآن میں کہاں اس چیز کو دیکھوں؟ ابوحازم نے کہا: ”بیشک اچھے نیک لوگ جنت میں ہوں گے اور فساق وفجار جہنم میں ہوں گے۔“ [الانفطار 13/82-14 ] سلیمان نے کہا: پھر الله تعالیٰ کی رحمت کہاں ہے؟ ابوحازم نے جواب دیا۔ «﴿رَحْمَةَ اللهِ قَرِيْبٌ مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ﴾» ”اللہ کی رحمت محسنین کے قریب ہے۔“ خلیفہ سلیمان نے کہا: ابوحازم! اللہ کے کون سے بندے سب سے زیادہ معزز و مکرم ہیں۔ عرض کیا اخلاق و عمل والے۔ کہا: اے ابوحازم! کون سے اعمال سب سے بہتر ہیں؟ عرض کیا: فرائض کی ادائیگی اور حرام کاموں سے اجتناب۔ پوچھا: کون سی دعا سب سے زیادہ قبول ہوتی ہے؟ عرض کیا: محسن الیہ کی دعا (اپنے محسن کے لئے)۔ کہا: اور سب سے زیادہ اچھا کون سا صدقہ ہے؟ عرض کیا: جو صدقہ بھوکے سوالی کے لئے اور کم مال والا محنت کر کے صدقہ کرے اور جس میں احسان جتانا اور ایذا رسانی نہ ہو۔ سلیمان: تو سب سے انصاف والا قوال کیا ہے؟ عرض کیا: جس سے ڈرتے اور امید رکھتے ہو اس کے سامنے سچی بات۔ سلیمان: اور ایمان والوں میں سب سے زیادہ سمجھ دار کون ہے؟ ابوحازم: وہ آدمی جو اللہ کی اطاعت گزاری کرے اور اسی کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرے، سلیمان: اور اہل ایمان میں سب سے زیادہ بے وقوف کون ہے؟ جواب: وہ آدمی جو اپنے بھائی کی غلط خواہش میں ملوث ہو اور وہ بھائی اپنی اس خواہش میں ظالم ہو۔ سلیمان نے کہا: آپ نے سچ کہا، ہمارے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ عرض کیا: امیر المؤمنین! کیا آپ مجھے اس سے معاف فرمائیں گے؟ کہا: نہیں، بس مجھے نصیحت کر دو۔ عرض کیا: اے امیر المؤمنین! آپ کے آباء نے لوگوں کو تلوار کے ذریعے زیر کیا، اور یہ بادشاہت بنا مسلمانوں کے مشورے و رضامندی کے زبردستی حاصل کی۔ یہاں تک کے بے شمار قتل کئے اور وہ سب ہمیں چھوڑ کر چلے گئے، کاش آپ سمجھیں کہ انہوں نے کیا کیا، اور لوگوں نے ان کے بارے میں کیا کہا؟ سلیمان کے مصاحبین میں سے کسی نے کہا: ابوحازم! تم نے کتنی بری بات کہی ہے؟ ابوحازم نے کہا: تم نے جھوٹ بولا، اللہ نے علماء سے عہد لیا ہے کہ لوگوں کے لئے بیان کر دیں اور چھپائیں نہیں۔ خلیفہ سلیمان نے ان سے کہا: ہم کس طرح اس کی اصلاح کر سکتے ہیں؟ عرض کیا: جب تم غرور و گھمنڈ چھوڑ دو گے، اخلاق کو اپناؤ گے، اور انصاف سے کام لو گے۔ سلیمان نے کہا: ہم اس کو کس طرح لے سکتے ہیں؟ ابوحازم نے کہا: جب اس کو حلال طریق سے لو گے اور جو اس کے اہل ہیں انہیں دو گے۔ سلیمان: ابوحازم! کیا یہ ممکن ہے کہ آپ ہمارے مصاحب رہیں، ہمیں آپ سے فائدہ پہنچے، اور آپ ہم سے مستفید ہوں، کہا: میں (اس سے) اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ سلیمان: ایسا کیوں؟ عرض کیا: مجھے ڈر ہے کہ اگر تھوڑا سا آپ کی طرف جھکاؤ اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے دنیا و آخرت میں ڈبل عذاب کا مزہ چکھائے۔ سلیمان: اپنی حاجات و ضروریات پیش کیجئے۔ عرض کیا: آپ مجھے جہنم سے نجات دلا دیجئے اور جنت میں داخل کرا دیجئے۔ فرمایا: یہ تو میرے بس میں نہیں ہے، ابوحازم نے کہا: اس کے علاوہ آپ سے مجھے کوئی حاجت نہیں۔ فرمایا: پھر میرے لئے دعا کر دیجئے۔ ابوحازم دعا گو ہوئے۔ اے اللہ! اگر سلیمان تیرے ولی ہیں تو دنیا و آخرت کی بھلائی ان کے لئے آسان کر دے، اور اگر وہ تیرا دشمن ہے تو اس کی پیشانی اپنی محبت و رضا مندی کی طرف پھیر لے۔ سلیمان: کافی ہے۔ ابوحازم: میں نے اختصار اور کچھ تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ شاید تم اس کے اہل ہو اور اگر اس کے اہل نہیں تو مجھے ایسی کمان سے تیر پھینکنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا جس میں تانت نہ ہو۔ سلیمان: مجھے وصیت کیجئے۔ عرض کیا: میں آپ کو مختصر وصیت کروں گا۔ اپنے رب کی تعظیم کیجئے، اور اس سے اپنے آپ کو بچایئے کہ آپ کو وہ وہاں دیکھے، جہاں دیکھنے سے آپ کو منع کیا ہے، یا وہاں گم پائے جہاں موجود رہنے کا آپ کو حکم دیا ہے۔ جب ابوحازم خلفیہ کے پاس سے چلے گئے تو خلیفہ نے سو دینار ان کے لئے بھیجے اور لکھا کہ یہ خرچ کیجئے، اور آپ کے لئے اس کے مثل میرے پاس بہت کچھ ہے۔ راوی نے کہا: ابوحازم نے وہ دنانير واپس کر دیئے اور لکھ بھیجا: اے امیر المؤمنین! میں آپ کو اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں، اس چیز سے کہ آپ کے مجھ سے سوالات بکواس ہوں، یا آپ کے لئے میرے جوابات بے کار ہوں، اور جو چیز مجھے آپ کیلئے پسند نہیں اپنے لئے اسے کیسے پسند کر سکتا ہوں۔ ان کے لئے مزید لکھا کہ موسیٰ بن عمران علیہ السلام جب مدین کے کنوئیں کے پاس پہنچے تو چرواہوں کو پانی پلاتے پایا اور وہیں دو لڑکیوں کو الگ کھڑے اپنی بکریوں کو روکتے دیکھا، تو ان سے ماجرا پوچھا، لڑکیوں نے جواب دیا: جب تک یہ چرواہے واپس نہ لوٹ جائیں، ہم پانی نہیں پلاتیں۔ اور ہمارے والد بڑی عمر کے بوڑھے ہیں، پس انہوں نے خود ان جانوروں کو پانی پلا دیا۔ پھر سائے کی طرف ہٹ آئے اور کہنے لگے: اے پروردگار! تو نے جو کچھ بھلائی میری طرف اتاری ہے، میں اس کا محتاج ہوں۔ [قصص: 23/28-24] اور یہ اس لئے کہ وہ بھوکے اور ڈرے ہوئے غیر محفوظ تھے (اس حال میں بھی) اپنے رب سے مانگا، لوگوں سے نہیں مانگا، وہ چرواہے کچھ نہ سمجھے، لڑکیاں سمجھ گئیں اور جب اپنے باپ کے پاس آئیں تو یہ قصہ اور ان کی دعا سنائی، ان کے والد جو شعیب () انہوں نے کہا: یہ آدمی بھوکا لگتا ہے، اور ان میں سے ایک لڑکی سے کہا: جاؤ اسے بلا لاؤ، پس جب وہ لڑکی ان کے پاس آئی تو تعظیم بجا لائی، اپنے چہرے کو چھپایا اور عرض کیا: میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے جانوروں کو جو پانی پلایا ہے اس کی اجرت دیں [قصص 25/28] ، موسیٰ علیہ السلام پر یہ شاق گزرا کہ اپنے عمل کی اجرت لیں، لیکن لبیک کہنے کے سوا چارہ نہ تھا، کیونکہ ڈرے سہمے بھوکے پیاسے پہاڑوں میں تھے۔ لہٰذا اس لڑکی کے پیچھے چلنے لگے، جب ہوا چلتی تو وہ اپنے کپڑوں کو اپنی کمر پر کس لیتی جس سے اس کے کولہے ظاہر ہو جاتے، وہ کولہے والی تو تھی ہی اور موسیٰ علیہ السلام کی یہ حالت تھی کہ کبھی منہ پھیر لیتے اور کبھی آنکھ بند کر لیتے، جب پیمانہ صبر لبریز ہو گیا تو کہا: اے اللہ کی بندی! میرے پیچھے ہو جا اور اپنی آواز سے راستہ بتاتی جا، پھر جب شعیب علیہ السلام کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ وہ کھانے کا انتظام کئے ہوئے ہیں، شعیب علیہ السلام نے کہا: بیٹھو اے نوجوان! اور کھانا تناول کرو، موسیٰ علیہ السلام نے اعوذ باللہ پڑھا، شعیب علیہ السلام نے کہا: کیوں کیا تم بھوکے نہیں ہو؟ عرض کیا: جی بھوکا تو ہوں، لیکن ڈرتا ہوں کہ یہ میرے عمل کا بدلہ نہ ہو اور میں ایسے گھرانے کا فرد ہوں کہ ہم اپنے دین کو زمین کے برابر سونے کے بدلے بھی نہیں بیچتے۔ شعیب علیہ السلام نے کہا: نہیں اے نوجوان! یہ اجرت نہیں بلکہ میری اور میرے آباء و اجداد کی عادت ہے کہ ہم مہمان نوازی کرتے، کھانا کھلاتے ہیں۔ لہٰذا موسیٰ علیہ السلام بیٹھے اور کھانا کھا لیا۔ سو یہ سو دینار اگر میرے بیان کا بدل تھے تو مردار خون اور خنزیر اضطراری حالت میں اس سے زیادہ حلال ہیں اور اگر بیت المال سے میرا حق ہیں تو مجھ جیسے دوسرے بھی ہیں، کاش آپ ہمارے درمیان مساوات برتیں، ورنہ ان دیناروں کی مجھے کوئی حاجت نہیں۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده مسلسل بالمجاهيل، [مكتبه الشامله نمبر: 673]»
اس روایت کی سند میں کئی راوی مجہول ہیں، اس لئے ضعیف ہے۔ محمد بن عمر، علی بن وہب، ضحاک بن موسیٰ، ان میں سے کسی کا بھی ترجمہ نہیں مل سکا۔ تخریج دیکھئے: [حلية الأولياء 234/3 -237]، یہ روایت اقوال زرین کا بہترین مجموعہ ہیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده مسلسل بالمجاهيل