(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا شهاب بن عباد، حدثنا سفيان بن عيينة، عن امي المرادي، قال: قال علي رضوان الله عليه: "تعلموا العلم، فإذا علمتموه، فاكظموا عليه ولا تشوبوه بضحك، ولا بلعب فتمجه القلوب".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا شِهَابُ بْنُ عَبَّادٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أُمَيٍّ الْمُرَادِيِّ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِ: "تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ، فَإِذَا عَلِمْتُمُوهُ، فَاكْظِمُوا عَلَيْهِ وَلَا تَشُوبُوهُ بِضَحِكٍ، وَلَا بِلَعِبٍ فَتَمُجَّهُ الْقُلُوبُ".
اُمی المرادی سے مروی ہے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: علم سیکھو، اور جب علم حاصل کر چکو تو اس کی حفاظت کرو، ہنسی مذاق، کھیل کود سے اسے خلط ملط نہ کرو کہ دل اسے نکال پھینکیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 602]» اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [حلية الأولياء 300/7]، [الجامع 213]
فضیل بن غزوان سے مروی ہے: علی بن حسین رحمہ اللہ نے فرمایا: جو ایک بار ہنسا اس نے علم کی ایک بار کلی کر دی۔ یعنی ہنسنا اور قہقہے لگانا عالم کی شان نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل محمد بن حميد، [مكتبه الشامله نمبر: 603]» اس قول کی سند محمد بن حمید کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [زوائد عبدالله على زهد الإمام أحمد 166]، لیکن [حلية الأولياء 133/3] اور [شعب الايمان 1830] میں یہ روایت صحیح سند سے موجود ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل محمد بن حميد
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن يوسف، عن سفيان، ان عمر رضي الله عنه، قال لكعب: "من ارباب العلم؟، قال: الذين يعملون بما يعلمون، قال: فما اخرج العلم من قلوب العلماء؟، قال: الطمع".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ لِكَعْبٍ: "مَنْ أَرْبَابُ الْعِلْمِ؟، قَالَ: الَّذِينَ يَعْمَلُونَ بِمَا يَعْلَمُونَ، قَالَ: فَمَا أَخْرَجَ الْعِلْمَ مِنْ قُلُوبِ الْعُلَمَاءِ؟، قَالَ: الطَّمَعُ".
سفیان سے مروی ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اہل علم کون لوگ ہیں؟ کہا: جو علم کے مطابق عمل کرتے ہیں، فرمایا: اور علماء کے دل سے علم کو کس چیز نے خارج کر دیا؟ جواب دیا: (طمع) لالچ نے۔
تخریج الحدیث: «إسناده معضل، [مكتبه الشامله نمبر: 604]» اس روایت کی سند سے دو راوی ساقط ہیں، لہٰذا یہ روایت معضل ہے، دیگر کسی محدث نے اسے روایت نہیں کیا، لیکن عبداللہ بن سلام سے صحیح سند کے ساتھ یہ روایت (594) پر گزر چکی ہے۔
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن حميد، حدثنا محمد بن بشر، حدثنا عبد الله بن الوليد، عن عمر بن ايوب، عن ابي إياس، قال: كنت نازلا على عمرو بن النعمان فاتاه رسول مصعب بن الزبير حين حضره رمضان بالفي درهم، فقال: إن الامير يقرئك السلام، وقال: إنا لم ندع قارئا شريفا إلا وقد وصل إليه منا معروف، فاستعن بهذين على نفقة شهرك هذا، فقال: اقرئ الامير السلام، وقل له: "إنا والله ما قرانا القرآن نريد به الدنيا ودرهمها".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي إِيَاسٍ، قَالَ: كُنْتُ نَازِلًا عَلَى عَمْرِو بْنِ النُّعْمَانِ فَأَتَاهُ رَسُولُ مُصْعَبِ بْنِ الزُّبَيْرِ حِينَ حَضَرَهُ رَمَضَانُ بِأَلْفَيْ دِرْهَمٍ، فَقَالَ: إِنَّ الْأَمِيرَ يُقْرِئُكَ السَّلَامَ، وَقَالَ: إِنَّا لَمْ نَدَعْ قَارِئًا شَرِيفًا إِلَّا وَقَدْ وَصَلَ إِلَيْهِ مِنَّا مَعْرُوفٌ، فَاسْتَعِنْ بِهَذَيْنِ عَلَى نَفَقَةِ شَهْرِكَ هَذَا، فَقَالَ: أَقْرِئْ الْأَمِيرَ السَّلَامَ، وَقُلْ لَهُ: "إِنَّا وَاللَّهِ مَا قَرَأْنَا الْقُرْآنَ نُرِيدُ بِهِ الدُّنْيَا وَدِرْهَمَهَا".
ابوایاس نے کہا: میں عمرو بن نعمان کے پاس مقیم تھا کہ مصعب بن زبیر کا قاصد رمضان میں دو ہزار درہم لے کر ان کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا: امیر (محترم) نے آپ کو سلام کہا ہے اور حکم دیا ہے کہ ہم کسی بھی معزز قاری کو بنا کسی تحفہ تحائف کے نہ چھوڑیں اس لئے یہ دو ہزار اس مہینہ کا خرچ قبول فرمایئے۔ عمرو بن نعمان نے کہا: ان امیر محترم کو میرا سلام کہو، اور ان سے کہدو الله کی قسم ہم نے قرآن (کریم) کو دنیا اور دراہم کی چاہت میں نہیں پڑھا ہے۔
تخریج الحدیث: «محمد بن حميد ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 605]» اس روایت کی سند میں محمد بن حمید ضعیف ہیں، لیکن [مصنف ابن أبى شيبه 10054] میں جید سند سے یہ روایت موجود ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 598 سے 604) خلوصِ وللّٰہیت کا یہ بہترین نمونہ ہے اور اپنے علم کو مال و دولت کی طمع سے بچا کر محفوظ رکھا جاسکتا ہے، اسی میں عزت ہے، وقار ہے، اور علم کی سربلندی ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: محمد بن حميد ضعيف
(حديث مرفوع) اخبرنا اسد بن موسى، حدثنا معاوية، حدثنا الحسن بن جابر، عن المقدام بن معدي كرب الكندي رضي الله عنه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:"حرم اشياء يوم خيبر: الحمار وغيره"، ثم قال: "ليوشك الرجل متكئا على اريكته، يحدث بحديثي فيقول: بيننا وبينكم كتاب الله، ما وجدنا فيه من حلال، استحللناه، وما وجدنا فيه من حرام، حرمناه، الا وإن ما حرم رسول الله، هو مثل ما حرم الله تعالى".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ جَابِرٍ، عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ الْكِنْدِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"حَرَّمَ أَشْيَاءَ يَوْمَ خَيْبَرَ: الْحِمَارَ وَغَيْرَهُ"، ثُمَّ قَالَ: "لَيُوشِكُ ِالرَّجُل مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ، يُحَدَّثُ بِحَدِيثِي فَيَقُولُ: بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ كِتَابُ اللَّهِ، مَا وَجَدْنَا فِيهِ مِنْ حَلَالٍ، اسْتَحْلَلْنَاهُ، وَمَا وَجَدْنَا فِيهِ مِنْ حَرَامٍ، حَرَّمْنَاهُ، أَلَا وَإِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ، هُوَ مِثْلُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ تَعَالَى".
سیدنا مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ نے روایت کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن کچھ چیزیں گدھا وغیرہ حرام فرمائیں، پھر فرمایا: ”عنقریب آدمی اپنی مسند پر تکیہ لگائے میری حدیث بیان کرتے ہوئے کہے گا: ہمارے تمہارے درمیان کتاب اللہ موجود ہے، اس میں ہم کو جو حلال چیز ملے اسی کو ہم حلال سمجھیں، اور جو کچھ اس میں حرام پائیں اسے حرام سمجھیں، سنو! اللہ کے رسول نے جو حرام کر دیا وہ بیشک حرام اور اسی طرح ہے جو اللہ تعالیٰ نے حرام فرما دیا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 606]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 132/4]، [ترمذي 2666]، [ابن ماجه 12]، [دارقطني 58]، [بيهقي 331/9] وغيرہم۔
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن عيينة، عن ابي إسحاق الفزاري، عن الاوزاعي، عن يحيى بن ابي كثير، قال: "السنة قاضية على القرآن وليس القرآن بقاض على السنة".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق الْفَزَارِيِّ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: "السُّنَّةُ قَاضِيَةٌ عَلَى الْقُرْآنِ وَلَيْسَ الْقُرْآنُ بِقَاضٍ عَلَى السُّنَّةِ".
امام اوزاعی رحمہ اللہ سے مروی ہے، یحییٰ بن ابی کثیر نے فرمایا: سنت قرآن کی تشریح و فیصلہ کرنے والی ہے اور قرآن سنت کی شرح کا فیصلہ کرنے والا نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 607]» اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الإبانة 88، 89]، [السنة للمروزي 103]، [جامع بيان العلم 2353] جو صحیح سند سے مذکور ہے۔
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن كثير، عن الاوزاعي، عن حسان، قال: "كان جبريل ينزل على النبي صلى الله عليه وسلم بالسنة كما ينزل عليه بالقرآن".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ حَسَّانَ، قَالَ: "كَانَ جِبْرِيلُ يَنْزِلُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالسُّنَّةِ كَمَا يَنْزِلُ عَلَيْهِ بِالْقُرْآنِ".
امام اوزاعی رحمہ اللہ سے مروی ہے، حسان نے کہا: جبریل (علیہ السلام) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اسی طرح سنت لے کر آتے جس طرح قرآن لے کر آپ پر نازل ہوتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير، [مكتبه الشامله نمبر: 608]» اس قول کی سند محمد بن کثیر کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن دوسرے صحیح طرق سے بھی مروی ہے۔ دیکھئے: [الإبانة 219، 220]، [مراسيل أبى داؤد 536]، [شرح اعتقاد أهل السنة 99] و [السنة للمروزي 102]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن كثير، عن الاوزاعي، عن مكحول، قال: "السنة سنتان: سنة الاخذ بها فريضة، وتركها كفر، وسنة الاخذ بها فضيلة، وتركها إلى غير حرج".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ مَكْحُولٍ، قَالَ: "السُّنَّةُ سُنَّتَانِ: سُنَّةٌ الْأَخْذُ بِهَا فَرِيضَةٌ، وَتَرْكُهَا كُفْرٌ، وَسُنَّةٌ الْأَخْذُ بِهَا فَضِيلَةٌ، وَتَرْكُهَا إِلَى غَيْرِ حَرَجٍ".
امام اوزاعی رحمہ اللہ سے مروی ہے: مکحول رحمہ اللہ نے فرمایا: سنت دو قسم کی ہوتی ہے، ایک وہ جس کو پکڑنا (تھامنا) فرض اور چھوڑنا کفر ہے، دوسری وہ سنت کہ اس پر عمل کرنا (باعث) فضیلت اور ترک کرنے میں کوئی حرج نہ ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير الصنعاني، [مكتبه الشامله نمبر: 609]» اس روایت کی سند بھی محمد بن کثیر کے باعث ضعیف ہے، لیکن اس کا شاہد صحیح سند سے موجود ہے۔ دیکھئے: [السنة للمروزي 105]، [الإبانة 101]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير الصنعاني
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن سلمة، عن يعلى بن حكيم، عن سعيد بن جبير"انه حدث يوما بحديث عن النبي صلى الله عليه وسلم، فقال رجل: في كتاب الله ما يخالف هذا؟، قال: لا اراني احدثك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وتعرض فيه بكتاب الله، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم اعلم بكتاب الله تعالى منك".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ"أَنَّهُ حَدَّثَ يَوْمًا بِحَدِيثٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَجُلٌ: فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا يُخَالِفُ هَذَا؟، قَالَ: لَا أُرَانِي أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتُعَرِّضُ فِيهِ بِكِتَابِ اللَّهِ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَ بِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى مِنْكَ".
سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بیان کی تو ایک آدمی نے کہا: اللہ کی کتاب میں اس کے مخالف (حکم) ہے؟ انہوں نے کہا: میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سناتا ہوں، تم اسے اللہ کی کتاب پر پیش کرتے ہو، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی کتاب کو تم سے زیادہ سمجھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 610]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الشريعة للآجرى ص: 58]، [الإبانة 81]، [الجامع 352]
وضاحت: (تشریح احادیث 604 سے 609) یعنی ناممکن ہے کہ حدیث صحیح کلامِ الٰہی کے مخالف ہو۔
عون بن عبداللہ سے مروی ہے سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کی جائے تو یہ یقین رکھو کہ وہ بات بہت زیادہ موافقت والی، بہت زیادہ ہدایت والی و بہت زیادہ تقویٰ والی ہے۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه منقطع عون بن عبد الله لم يدرك ابن مسعود، [مكتبه الشامله نمبر: 611]» اس روایت کی سند میں انقطاع ہے، کیونکہ عون کا لقاء سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں۔ اس روایت کو دیکھئے: [ابن ماجه 19]، [مسند أحمد 385/1] و [مسند أبى يعلی 5259]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه منقطع عون بن عبد الله لم يدرك ابن مسعود