سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
مقدمہ
حدیث نمبر: 531
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا الوليد بن شجاع، حدثنا ابو معاوية، حدثنا الاعمش، عن مسلم يعني ابن صبيح، عن عبد الرحمن بن هلال العبسي، عن جرير بن عبد الله رضي الله عنه، قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم"فحث الناس على الصدقة، فابطئوا حتى بان في وجهه الغضب"، ثم إن رجلا من الانصار جاء بصرة، فتتابع الناس حتى رئي في وجهه السرور، فقال: "من سن سنة حسنة، كان له اجره، ومثل اجر من عمل بها من غير ان ينقص من اجورهم شيء، ومن سن سنة سيئة، كان عليه وزره، ومثل وزر من عمل بها من غير ان ينقص من اوزارهم شيء".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ شُجَاعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ مُسْلِمٍ يَعْنِي ابْنَ صُبَيْحٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هِلَالٍ الْعَبْسِيِّ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"فَحَثَّ النَّاسَ عَلَى الصَّدَقَةِ، فَأَبْطَئُوا حَتَّى بَانَ فِي وَجْهِهِ الْغَضَبُ"، ثُمَّ إِنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ جَاءَ بِصُرَّةٍ، فَتَتَابَعَ النَّاسُ حَتَّى رُئِيَ فِي وَجْهِهِ السُّرُورُ، فَقَالَ: "مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً، كَانَ لَهُ أَجْرُهُ، وَمِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يُنْقَصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ، وَمَنْ سَنَّ سُنَّةً سَيِّئَةً، كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهُ، وَمِثْلُ وِزْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يُنْقَصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ".
سیدنا جریر بن عبدالله رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو خطبہ دیا اور لوگوں کو صدقے کی ترغیب دی، لیکن لوگوں نے تاخیر کی حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر غصے کے آثار نمایاں ہو گئے، بعدہ انصار کا ایک آدمی ایک تھیلی لے کر آیا، پھر لوگوں کا تانتا لگ گیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر خوشی کے آثار دیکھے گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اچھی بات جاری کرے تو اس کے لئے اپنا اجر بھی ہے اور عمل کرنے والے کا بھی اجر ہے، اور عمل کرنے والوں کے اجر میں کچھ کمی نہ ہو گی، اور جو بری بات رائج کرے تو اس پر اپنے کئے کا بوجھ ہو گا، اور جو اس پر عمل کرے گا اس کا بھی بوجھ ہو گا، عمل کرنے والوں کے بوجھ و گناہ میں کوئی کمی نہ ہو گی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 531]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ لالکائی نے [شرح أصول اعتقاد أهل السنة 5] میں اسے ذکر کیا ہے۔ نیز دیکھئے: تخريج رقم (529)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 532
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الوهاب بن سعيد، حدثنا شعيب هو ابن إسحاق، حدثنا الاوزاعي، حدثني حسان بن عطية، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "انا اعظمكم اجرا يوم القيامة، لان لي اجري ومثل اجر من اتبعني".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ هُوَ ابْنُ إِسْحَاق، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "أَنَا أَعْظَمُكُمْ أَجْرًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، لِأَنَّ لِي أَجْرِي وَمِثْلَ أَجْرِ مَنْ اتَّبَعَنِي".
حسان بن عطیہ نے بیان کیا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن تم سب سے زیادہ میرا اجر ہو گا، ایک تو میرا اپنا اجر دوسرے مجھے میری اتباع کرنے والے کا بھی اجر ملے گا۔

تخریج الحدیث: «مرسل وإسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 532]»
یہ مرسل روایت ہے، لیکن سند صحیح ہے۔ «وانفرد به الدارمي» ، لیکن اس کی تائید حدیث «من سن سنة حسنة» سے ہوتی ہے جو اس باب کے شروع میں مذکور ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: مرسل وإسناده صحيح
حدیث نمبر: 533
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا مالك بن إسماعيل، حدثنا عبد السلام، عن ليث، عن بشر، عن انس رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من دعا إلى امر ولو دعا رجل رجلا، كان يوم القيامة موقوفا به، لازما بغاربه , ثم قرا: وقفوهم إنهم مسئولون سورة الصافات آية 24".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ بِشْرٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ دَعَا إِلَى أَمْرٍ وَلَوْ دَعَا رَجُلٌ رَجُلًا، كَانَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَوْقُوفًا بِهِ، لَازِمًا بِغَارِبِهِ , ثُمَّ قَرَأَ: وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ سورة الصافات آية 24".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی چیز کی طرف بلائے چاہے ایک آدمی ایک آدمی ہی کو دعوت دے تو وہ قیامت کے دن اس دعوت کی بنا پر روک دیا جائے گا، اس کی دعوت کا وبال اسے چمٹا ہو گا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: «﴿وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ﴾» انہیں روک لو، کیونکہ ان سے سوال کئے جائیں گے۔ [الصافات: 24/37]

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف ليث بن أبي سليم، [مكتبه الشامله نمبر: 533]»
لیث بن ابی سلیم کی وجہ سے اس کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 3226]، [التاريخ الكبير للبخاري 86/2]، [المستدرك 430/2]، [تفسير طبري 48/23]، [الدر المنثور 273/5]، امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن غریب کہا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف ليث بن أبي سليم
حدیث نمبر: 534
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عمرو بن عاصم، حدثنا حماد بن سلمة، عن عاصم، عن الشعبي، ان ابن مسعود رضي الله عنه، قال: "اربع يعطاها الرجل بعد موته: ثلث ماله إذا كان فيه قبل ذلك لله مطيعا، والولد الصالح يدعو له من بعد موته، والسنة الحسنة يسنها الرجل فيعمل بها بعد موته، والمائة إذا شفعوا للرجل شفعوا فيه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: "أَرْبَعٌ يُعْطَاهَا الرَّجُلُ بَعْدَ مَوْتِهِ: ثُلُثُ مَالِهِ إِذَا كَانَ فِيهِ قَبْلَ ذَلِكَ لِلَّهِ مُطِيعًا، وَالْوَلَدُ الصَّالِحُ يَدْعُو لَهُ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهِ، وَالسُّنَّةُ الْحَسَنَةُ يَسُنُّهَا الرَّجُلُ فَيُعْمَلُ بِهَا بَعْدَ مَوْتِهِ، وَالْمِائَةُ إِذَا شَفَعُوا لِلرَّجُلِ شُفِّعُوا فِيهِ".
امام شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: چار چیزیں ہیں جو آدمی کو قیامت کے دن عطا کی جائیں گی: اس کے مال کا تہائی حصہ، اگر اس میں موت سے قبل الله تعالیٰ کا مطیع و فرماں بردار تھا، دوسرے نیک صالح اولاد جو اس کی وفات کے بعد اس کے لئے دعا کرتی رہے، تیسرے وہ اچھا طریقہ جو انسان رائج کرے اور اس کی موت کے بعد اس پر عمل کیا جاتا رہے۔ چوتھے سو آدمی جو اس شخص کے لئے سفارش کریں ان کی سفارش اس کے حق میں قبول کی جائے گی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى عبد الله ولكن مثله لا يقال بالرأي، [مكتبه الشامله نمبر: 534]»
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تک اس روایت کی سند صحیح ہے۔ نیز اس طرح کی باتیں اپنی طرف سے یا رائے اور قیاس سے نہیں کہی جاسکتی ہیں، اس روایت کو امام دارمی کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیا، نیز صدقۂ جاریہ، الولد الصالح، والسنۃ الحسنۃ کے شواہد صحیحہ موجود ہیں۔ حدیث میں ہے: ”جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ بھی منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین قسم کے اعمال کے: صدقۂ جاریہ، وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے، اور نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے۔“ یہ حدیث آگے (578) نمبر پر آ رہی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى عبد الله ولكن مثله لا يقال بالرأي
45. باب مَنْ كَرِهَ الشُّهْرَةَ وَالْمَعْرِفَةَ:
45. جس نے شہرت اور خاص پہچان کو ناپسند کیا اس کا بیان
حدیث نمبر: 535
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا احمد بن الحجاج، حدثنا سفيان بن عيينة، عن الاعمش، قال: "جهدنا بإبراهيم حتى ان نجلسه إلى سارية، فابى".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَجَّاجِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، قَالَ: "جَهَدْنَا بِإِبْرَاهِيمَ حَتَّى أَنْ نُجْلِسَهُ إِلَى سَارِيَةٍ، فَأَبَى".
اعمش (سلیمان بن مہران) نے کہا: ہم نے امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کو مجبور کیا کہ انہیں ستون کے پاس بٹھا دیں، لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 535]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تاريخ أبى زرعه 1997] و [مصنف ابن أبى شيبه 6680]

وضاحت:
(تشریح احادیث 529 سے 535)
یعنی انہیں کسی خاص جگہ بیٹھنے سے انکار تھا کہ یہ نہ کہا جائے کہ ابراہیم فلاں جگہ بیٹھتے تھے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 536
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا عفان، حدثنا ابو عوانة، عن مغيرة، عن إبراهيم"انه كان يكره ان يستند إلى السارية".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ"أَنَّهُ كَانَ يَكْرَهُ أَنْ يَسْتَنِدَ إِلَى السَّارِيَةِ".
مغیرہ بن مقسم سے مروی ہے کہ امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ ساریہ سے لگ کر بیٹھنا ناپسند کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 536]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [طبقات ابن سعد 190/6] اس میں عفان: ابن مسلم ہیں اور ابوعوانہ کا نام وضاح بن عبداللہ ہے اور مغیرہ: ابن مقسم ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 537
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا الحكم بن المبارك، حدثنا ابو عوانة، عن مغيرة، قال: "كان إبراهيم لا يبتدئ الحديث حتى يسال".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مُغِيرَةَ، قَالَ: "كَانَ إِبْرَاهِيمُ لَا يَبْتَدِئُ الْحَدِيثَ حَتَّى يُسْأَلَ".
مغیرہ بن مقسم نے کہا: امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کسی کے طلب کئے بنا حدیث بیان نہیں کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 537]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم و فضله 362]، [طبقات ابن سعد 192/6]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 538
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا عبد الله بن سعيد، حدثنا يونس بن بكير، حدثنا الاعمش، عن خيثمة، قال: كان الحارث بن قيس الجعفي وكان من اصحاب عبد الله، وكانوا معجبين به،"فكان يجلس إليه الرجل والرجلان فيحدثهما، فإذا كثروا، قام وتركهم".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ خَيْثَمَةَ، قَالَ: كَانَ الْحَارِثُ بْنُ قَيْسٍ الْجُعْفِيُّ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللَّهِ، وَكَانُوا مُعْجَبِينَ بِهِ،"فَكَانَ يَجْلِسُ إِلَيْهِ الرَّجُلُ وَالرَّجُلَانِ فَيُحَدِّثُهُمَا، فَإِذَا كَثُرُوا، قَامَ وَتَرَكَهُمْ".
خیثمہ نے کہا: حارث بن قیس الجعفی جو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں سے تھے، اور لوگ ان پر فخر کیا کرتے تھے، ان کے پاس ایک یا دو آدمی بیٹھتے تو انہیں کوئی حدیث بیان کرنے لگتے تھے، پھر جب ان کی تعداد بڑھ جاتی تو کھڑے ہو کر چلے جاتے اور انہیں چھوڑ دیتے۔ (یعنی زیادہ لوگوں میں شہرت پانا انہیں پسند نہ تھا)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 538]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، اور خیثمہ: ابن عبدالرحمٰن ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 539
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا احمد بن عبد الله بن يونس، حدثنا ابو شهاب، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، قال: قيل له حين مات عبد الله رضي الله عنه: لو قعدت فعلمت الناس السنة؟، فقال: "اتريدون ان يوطا عقبي؟".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ، حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قِيلَ لَهُ حِينَ مَاتَ عَبْدُ اللَّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: لَوْ قَعَدْتَ فَعَلَّمْتَ النَّاسَ السُّنَّةَ؟، فَقَالَ: "أَتُرِيدُونَ أَنْ يُوطَأَ عَقِبِي؟".
ابراہیم سے مروی ہے جب سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو علقمہ (بن قیس) سے کہا گیا: کاش آپ (ابن مسعود کی جگہ) بیٹھیں اور لوگوں کو (ان کی طرح) سنت کی تعلیم دیں، کہا: کیا تم چاہتے ہو کہ میری ایڑی کچل دی جائے؟ (یعنی اپنے پیچھے آنے والوں سے میں فتنے میں پڑ جاؤں)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 539]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [طبقات ابن سعد 60/6] و [حلية الأولياء 100/2]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 540
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن العلاء، حدثنا ابن إدريس، قال: سمعت هارون بن عنترة، عن سليم بن حنظلة، قال: اتينا ابي بن كعب لنتحدث إليه، فلما قام قمنا، ونحن نمشي خلفه، فرهقنا عمر رضي الله عنه، فتبعه فضربه عمر بالدرة، قال: فاتقاه بذراعيه، فقال: يا امير المؤمنين، ما نصنع؟، قال: "او ما ترى؟ فتنة للمتبوع، مذلة للتابع".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ: سَمِعْتُ هَارُونَ بْنَ عَنْتَرَةَ، عَنْ سُلَيْمِ بْنِ حَنْظَلَةَ، قَالَ: أَتَيْنَا أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ لِنَتَحَدَّثَ إِلَيْهِ، فَلَمَّا قَامَ قُمْنَا، وَنَحْنُ نَمْشِي خَلْفَهُ، فَرَهَقَنَا عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَتَبِعَهُ فَضَرَبَهُ عُمَرُ بِالدِّرَّةِ، قَالَ: فَاتَّقَاهُ بِذِرَاعَيْهِ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَا نَصْنَعُ؟، قَالَ: "أَوَ مَا تَرَى؟ فِتْنَةً لِلْمَتْبُوعِ، مَذَلَّةً لِلتَّابِعِ".
سلیم بن حنظلہ نے کہا کہ ہم سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تاکہ بات چیت کریں، جب وہ کھڑے ہوئے تو ہم بھی کھڑے ہو گئے اور ان کے پیچھے چلنے لگے، پس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہم سے قریب ہوئے اور ابی رضی اللہ عنہ کے پیچھے جا کر انہیں درے سے ضرب لگائی۔ راوی نے کہا: جسے انہوں نے اپنی کلائی سے روکا، اور کہا: اے امیر المؤمنین! کیا کرتے ہو؟ فرمایا: دیکھتے نہیں (یہ لوگوں کا پیچھے چلنا) متبوع کے لئے فتنہ اور پیچھے چلنے والے کے لئے ذلت و رسوائی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 540]»
اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6366]، [الزهد الكبير للبيهقي 303]، [الجامع لأخلاق الراوي 931] و [حلية الأولياء 12/9]

وضاحت:
(تشریح احادیث 535 سے 540)
یعنی متبوع جس کے پیچھے چلا جا رہا ہے اس کے فتنے میں پڑنے کا اندیشہ ہے کہ دل میں بڑا پن اور ریاء نہ آ جائے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد

Previous    50    51    52    53    54    55    56    57    58    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.