نعمان بن قیس سے مروی ہے کہ عبیدہ بن عمرو نے وفات سے پہلے اپنی کتابیں منگائیں اور انہیں مٹا دیا، نیز فرمایا: مجھے ڈر ہے کہ کچھ لوگ انہیں پائیں اور انہیں ان کے مناسب مقام پر نہ رکھیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 481]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6353]، [طبقات ابن سعد 63/6]، [العلم لأبي خيثمه 112]، [تقييد العلم ص: 61، 62] و [جامع بيان العلم 363، 364]
(حديث مقطوع) اخبرنا الحكم بن المبارك، وزكريا بن عدي، عن عبد الواحد بن زياد، عن ليث، عن مجاهد،"انه كره ان يكتب العلم في الكراريس".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، وَزَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ،"أَنَّهُ كَرِهَ أَنْ يُكْتَبَ الْعِلْمُ فِي الْكَرَارِيسِ".
مجاہد رحمہ اللہ نے کاپیوں میں علم کی باتیں لکھنے کو ناپسند فرمایا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف ليث وهو: ابن أبي سليم، [مكتبه الشامله نمبر: 482]» اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن کچھ اسلاف سے بسند صحیح کتابت کی کراہت ثابت ہے۔ یہ اثر دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6359] و [تقييد العلم ص: 47]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف ليث وهو: ابن أبي سليم
(حديث مقطوع) اخبرنا عبد الرحمن بن صالح، حدثنا ابن المبارك، عن الاوزاعي، قال: "ما زال هذا العلم عزيزا يتلاقاه الرجال حتى وقع في الصحف، فحمله، او دخل فيه غير اهله".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، قَالَ: "مَا زَالَ هَذَا الْعِلْمُ عَزِيزًا يَتَلَاقَاهُ الرِّجَالُ حَتَّى وَقَعَ فِي الصُّحُفِ، فَحَمَلَهُ، أَوْ دَخَلَ فِيهِ غَيْرُ أَهْلِهِ".
امام اوزاعی رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ علم جب تک لوگوں سے زبانی حاصل کیا جاتا رہا تو قوی تھا تا آنکہ مصحف میں لکھا جانے لگا، تو پھر نااہل لوگوں نے اسے اٹھانا یا اس میں داخل ہونا شروع کر دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 483]» اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تقييد العلم ص: 64] و [جامع بيان العلم 371]
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا يوسف بن موسى، حدثنا ابو داود الطيالسي، اخبرنا شعبة، عن يونس، قال: "كان الحسن يكتب ويكتب، وكان ابن سيرين لا يكتب ولا يكتب".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يُونُسَ، قَالَ: "كَانَ الْحَسَنُ يَكْتُبُ وَيُكْتِبُ، وَكَانَ ابْنُ سِيرِينَ لَا يَكْتُبُ وَلَا يُكْتِبُ".
یونس بن عبید نے کہا: امام حسن بصری رحمہ اللہ لکھتے لکھاتے تھے اور امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نہ لکھتے اور نہ لکھاتے تھے۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 484]» اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 387، 390]
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا يزيد، اخبرنا العوام، عن إبراهيم التيمي، قال: بلغ ابن مسعود رضي الله عنه: ان عند ناس كتابا يعجبون به، فلم يزل بهم حتى اتوه به، فمحاه، ثم قال: "إنما هلك اهل الكتاب قبلكم: انهم اقبلوا على كتب علمائهم، وتركوا كتاب ربهم".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، قَالَ: بَلَغَ ابْنَ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَنَّ عِنْدَ نَاسٍ كِتَابًا يُعْجَبُونَ بِهِ، فَلَمْ يَزَلْ بِهِمْ حَتَّى أَتَوْهُ بِهِ، فَمَحَاهُ، ثُمَّ قَالَ: "إِنَّمَا هَلَكَ أَهْلُ الْكِتَابِ قَبْلَكُمْ: أَنَّهُمْ أَقْبَلُوا عَلَى كُتُبِ عُلَمَائِهِمْ، وَتَرَكُوا كِتَابَ رَبِّهِمْ".
ابراہیم تیمی نے کہا: سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو خبر لگی کہ کچھ لوگوں کے پاس کتاب ہے جس پر وہ فخر کرتے ہیں، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اسے مٹا دیا اور پھر فرمایا: تم سے پہلے اہل کتاب اس لئے ہلاک ہوئے کہ وہ اپنے علماء کی کتابوں کی طرف متوجہ ہو گئے اور رب کی کتاب کو ترک کر دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 485]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تقييد العلم ص: 56] و [جامع بيان العلم 319 نحوه]
امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے عبیدہ (بن عمرو السلمانی) سے کہا: میں آپ سے جو سنتا ہوں اسے لکھ لوں؟ فرمایا: نہیں، میں نے کہا: اگر لکھا ہوا مل جائے تو اسے پڑھ لوں؟ فرمایا: نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 486]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تقييد العلم ص: 45]، [جامع بيان العلم 360]، [مصنف ابن أبى شيبه 6356]، [العلم لأبي خيثمه 150]
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا الجريري، عن ابي نضرة، قال: قلت لابي سعيد الخدري رضي الله عنه: الا تكتبنا، فإنا لا نحفظ؟، فقال: "لا، إنا لن نكتبكم، ولن نجعله قرآنا، ولكن احفظوا عنا كما حفظنا نحن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَلَا تُكْتِبُنَا، فَإِنَّا لَا نَحْفَظُ؟، فَقَالَ: "لَا، إِنَّا لَنْ نُكْتِبَكُمْ، وَلَنْ نَجْعَلَهُ قُرْآنًا، وَلَكِنْ احْفَظُوا عَنَّا كَمَا حَفِظْنَا نَحْنُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ابونضرہ نے کہا: میں نے سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ ہمیں لکھائیں گے نہیں؟ ہم حفظ نہیں کر سکتے، انہوں نے فرمایا: نہیں، ہم تمہیں ہرگز نہیں لکھائیں گے اور اس لکھے ہوئے کو قرآن نہیں بننے دیں گے، ہاں ہم سے احادیث یاد کر لو جس طرح ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 487]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ابونضرة کا نام منذر بن مالک ہے۔ حوالہ دیکھئے: [تقييد العلم ص: 37]، [جامع بيان العلم 338، 340]، [مصنف ابن أبى شيبه 6491]، [المحدث الفاصل 363]
امام اوزاعی رحمہ اللہ سے مروی ہے: میں نے ابوکثیر کو کہتے سنا، کہا: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: ابوہریرہ نہ لکھتے ہیں اور نہ لکھاتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير الصنعاني ولكنه لم ينفرد به بل تابعه عليه المعافى بن عمران وهو ثقة فيصح الإسناد، [مكتبه الشامله نمبر: 488]» اس روایت کی سند محمد بن کثیر کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن المعافیٰ بن عمران سے بھی اسی طرح مروی ہے جو ثقہ ہیں۔ دیکھئے: [تقييد العلم ص: 42]، [العلم 140]، [جامع بيان العلم 357]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير الصنعاني ولكنه لم ينفرد به بل تابعه عليه المعافى بن عمران وهو ثقة فيصح الإسناد
(حديث مقطوع) اخبرنا اسد بن موسى، حدثنا شعبة، عن ابي موسى، عن حميد بن هلال، عن ابي بردة: "انه كان يكتب حديث ابيه، فرآه ابو موسى، فمحاه".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ: "أَنَّهُ كَانَ يَكْتُبُ حَدِيثَ أَبِيهِ، فَرَآهُ أَبُو مُوسَى، فَمَحَاهُ".
ابوبردہ سے مروی ہے کہ وہ اپنے والد کی حدیث لکھا لیا کرتے تھے، ابوموسیٰ نے انہیں ایسا کرتے دیکھا تو اس کو مٹا دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لجهالة أبي موسى، [مكتبه الشامله نمبر: 489]» اس اثر کی سند ابوموسیٰ کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن [المحدث الفاصل 369] و [تقييد العلم ص: 39، 40] میں صحیح سند سے مروی ہے۔ نیز دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6495]، [العلم 153] و [جامع بيان العلم 347]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لجهالة أبي موسى
(حديث مقطوع) اخبرنا الوليد بن شجاع، حدثني قريش بن انس، قال: قال لي ابن عون: "والله ما كتبت حديثا قط".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ شُجَاعٍ، حَدَّثَنِي قُرَيْشُ بْنُ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ لِي ابْنُ عَوْنٍ: "وَاللَّهِ مَا كَتَبْتُ حَدِيثًا قَطُّ".
قریش بن انس نے بیان کیا کہ ابن عون نے مجھ سے کہا: قسم اللہ کی میں نے کبھی کوئی حدیث نہیں لکھی، اور ابن عون نے کہا: ابن سیرین رحمہ اللہ نے بھی فرمایا: نہیں، قسم الله کی میں نے کبھی کوئی حدیث نہیں لکھی۔
تخریج الحدیث: «إلى قوله في الحديث الشريف " ما كتبت حديث قط " أسناده فيه قريش بن أنس وقد اختلط وهو من رجال البخاري في صحيحه. وإلى نهاية الحديث الشريف " هؤلاء وما تقول " إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 490]» اس روایت کی سند میں قریش بن انس کو اختلاط ہوگیا تھا، اور اس اثر کو رامهرمزی نے [المحدث الفاصل 368] میں ذکر کیا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إلى قوله في الحديث الشريف " ما كتبت حديث قط " أسناده فيه قريش بن أنس وقد اختلط وهو من رجال البخاري في صحيحه. وإلى نهاية الحديث الشريف " هؤلاء وما تقول " إسناده صحيح