سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ہم حدیث یاد کرتے تھے تا آنکہ تم نے اس میں ملاوٹ کر دی، اور حدیث تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد کی جاتی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 441]» اس کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: مقدمہ [مسلم 13/1] و [الكامل لابن عدي 62/1]
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن ليث، عن طاوس، عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنه، قال: "يوشك ان يظهر شياطين قد اوثقها سليمان عليه السلام يفقهون الناس في الدين".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: "يُوشِكُ أَنْ يَظْهَرَ شَيَاطِينُ قَدْ أَوْثَقَهَا سُلَيْمَانُ عَلَيْهِ السَّلامُ يُفَقِّهُونَ النَّاسَ فِي الدِّينِ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: قریب ہے کہ شیاطین ظہور پذیر ہوں، جنہیں سلیمان علیہ السلام نے باندھ رکھا تھا، جو لوگوں کو دین کی سمجھ اور فقہ سکھائیں گے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف ليث بن أبي سليم. وهو موقوف، [مكتبه الشامله نمبر: 442]» اس اثر کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: مقدمہ [صحيح مسلم 7/1]، [الكامل لابن عدي 59/1]، [اللآلي المصنوعة 250/1]، [الفقيه 153/2]، [مصنف عبدالرزاق 20807]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف ليث بن أبي سليم. وهو موقوف
(حديث مقطوع) اخبرنا احمد بن عبد الله، حدثنا زائدة، عن هشام، عن محمد، قال: "انظروا عمن تاخذون هذا الحديث، فإنه دينكم".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ: "انْظُرُوا عَمَّنْ تَأْخُذُونَ هَذَا الْحَدِيثَ، فَإِنَّهُ دِينُكُمْ".
امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا: خیال رکھو کہ تم یہ حدیث کس سے یا کیسے آدمی سے لے رہے ہو، کیونکہ یہی تمہارا دین ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 443]» اس قول کی سند صحیح ہے، جیسا کہ گزر چکا ہے۔ دیکھئے اثر رقم (398، 433)۔
وضاحت: (تشریح احادیث 432 سے 443) ان تمام آثار سے معلوم ہوا کہ علم الحدیث والاسانید اصل دین ہے جس کا اہتمام ضروری ہے۔ اور محدّثین کرام رحمہم اللہ روایتِ حدیث میں بہت باریک بینی اور احتیاط سے کام لیتے ہیں۔
(حديث مقطوع) اخبرنا موسى بن خالد، حدثنا معتمر، عن ابيه، قال: "ليتقى من تفسير حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم كما يتقى من تفسير القرآن".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: "لِيُتَّقَى مِنْ تَفْسِيرِ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا يُتَّقَى مِنْ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ".
معتمر نے اپنے باپ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی تفسیر سے اسی طرح بچنا چاہیے جس طرح قرآن پاک کی تفسیر سے بچا جاتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 444]» اس روایت کی سند جید ہے، لیکن امام دارمی کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیا۔
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا صدقة بن الفضل، حدثنا معتمر، عن ابيه، قال: قال ابن عباس: "اما تخافون ان تعذبوا، او يخسف بكم ان تقولوا: قال رسول الله، وقال فلان؟".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: "أَمَا تَخَافُونَ أَنْ تُعَذَّبُوا، أَوْ يُخْسَفَ بِكُمْ أَنْ تَقُولُوا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ، وَقَالَ فُلَانٌ؟".
سیدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: کیا تمہیں خوف نہیں آتا کہ تم عذاب دیئے جاؤ یا تمہیں دھنسا دیا جائے یہ کہنے کے عوض: «قال رسول الله وقال فلان» یعنی اللہ کے رسول نے یہ فرمایا اور فلاں نے یہ کہا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 445]» اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الفقيه 379، 380] و [جامع بيان العلم 2095، 2097]
(حديث مقطوع) اخبرنا الحسن بن بشر، حدثنا المعافى، عن الاوزاعي، قال: كتب عمر بن عبد العزيز رحمه الله تعالي: "إنه لا راي لاحد في كتاب الله، وإنما راي الائمة فيما لم ينزل فيه كتاب، ولم تمض به سنة من رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا راي لاحد في سنة سنها رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا الْمُعَافَى، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، قَالَ: كَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ رَحِمَهُ الله تَعالَيَ: "إِنَّهُ لَا رَأْيَ لِأَحَدٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَإِنَّمَا رَأْيُ الْأَئِمَّةِ فِيمَا لَمْ يَنْزِلْ فِيهِ كِتَابٌ، وَلَمْ تَمْضِ بِهِ سُنَّةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا رَأْيَ لِأَحَدٍ فِي سُنَّةٍ سَنَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا: عمر بن عبدالعزيز رحمہ اللہ نے تحریر فرمایا کہ اللہ کی کتاب میں کسی کی رائے (قابل قبول) نہیں اور ائمہ کرام کی رائے بھی اس بارے میں قبول ہو گی جس میں کتاب اللہ یا سنت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم میں کچھ نہ ملے، اور جس سنت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری کیا اس میں رائے کی گنجائش نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 446]» اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الإبانة 100]، [الشريعة: 59]، [جامع بيان العلم 1307]
(حديث مقطوع) حدثنا موسى بن خالد، حدثنا معتمر بن سليمان، عن عبيد الله بن عمر، ان عمر بن عبد العزيز رحمه الله خطب، فقال:"يا ايها الناس، إن الله لم يبعث بعد نبيكم نبيا، ولم ينزل بعد هذا الكتاب الذي انزل عليه كتابا، فما احل الله على لسان نبيه فهو حلال إلى يوم القيامة، وما حرم على لسان نبيه فهو حرام إلى يوم القيامة، الا وإني لست بقاض ولكني منفذ، ولست بمبتدع ولكني متبع، ولست بخير منكم، غير اني اثقلكم حملا، الا وإنه ليس لاحد من خلق الله ان يطاع في معصية الله، الا هل اسمعت؟".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ رَحِمَهُ الله خَطَبَ، فَقَالَ:"يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَبْعَثْ بَعْدَ نَبِيِّكُمْ نَبِيًّا، وَلَمْ يُنْزِلْ بَعْدَ هَذَا الْكِتَابِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْهِ كِتَابًا، فَمَا أَحَلَّ اللَّهُ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ فَهُوَ حَلَالٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَا حَرَّمَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ فَهُوَ حَرَامٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، أَلَا وَإِنِّي لَسْتُ بِقَاضٍ وَلَكِنِّي مُنَفِّذٌ، وَلَسْتُ بِمُبْتَدِعٍ وَلَكِنِّي مُتَّبِعٌ، وَلَسْتُ بِخَيْرٍ مِنْكُمْ، غَيْرَ أَنِّي أَثْقَلُكُمْ حِمْلًا، أَلَا وَإِنَّهُ لَيْسَ لِأَحَدٍ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ أَنْ يُطَاعَ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، أَلَا هَلْ أَسْمَعْتُ؟".
عبیداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ عمر بن عبدالعزيز رحمہ اللہ نے خطبہ دیا تو فرمایا: لوگو! بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کے بعد کوئی نبی نہیں بھیجا، اور نہ اس کتاب کے بعد جو آپ پر نازل فرمائی، کوئی کتاب نازل کی، پس جو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان میں حلال فرما دیا وہ قیامت تک حلال ہے، اور جو اپنے نبی کی زبان سے حرام فرما دیا وہ قیامت تک حرام ہے، سنو! میں قاضی نہیں بلکہ تنقید کرنے والا ہوں، اور میں بدعت ایجاد کرنے والا بھی نہیں، بلکہ اتباع کرنے والا ہوں، اور تم سے بہتر بھی نہیں ہوں سوائے اس کے کہ میرے اوپر تم سے زیادہ بوجھ (ذمے داری) ہے، اور سنو! اللہ کی مخلوق میں سے کوئی ایسا نہیں جس کی اللہ کی معصیت میں اطاعت کی جائے، سنو! کیا میں نے تمہیں سنا دیا؟
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 447]» اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [طبقات ابن سعد 250/5] و [المعرفة للفسوي 574/1]
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا عبيد الله بن سعيد، حدثنا سفيان بن عيينة، عن هشام بن حجير، قال: كان طاوس يصلي ركعتين بعد العصر، فقال له ابن عباس:"اتركها قال: إنما نهي عنها ان تتخذ سلما، قال ابن عباس: فإنه قد نهي عن صلاة بعد العصر، فلا ادري اتعذب عليها ام تؤجر، لان الله يقول: وما كان لمؤمن ولا مؤمنة إذا قضى الله ورسوله امرا ان يكون لهم الخيرة من امرهم ومن يعص الله ورسوله فقد ضل ضلالا مبينا سورة الاحزاب آية 36"، قال سفيان:"تتخذ سلما، يقول: يصلي بعد العصر إلى الليل".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حُجَيْرٍ، قَالَ: كَانَ طَاوُسٌ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ:"اتْرُكْهَا قَالَ: إِنَّمَا نُهِيَ عَنْهَا أَنْ تُتَّخَذُ سُلَّمًا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَإِنَّهُ قَدْ نُهِيَ عَنْ صَلَاةٍ بَعْدَ الْعَصْرِ، فَلَا أَدْرِي أَتُعَذَّبُ عَلَيْهَا أَمْ تُؤْجَرُ، لِأَنَّ اللَّهَ يَقُولُ: وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالا مُبِينًا سورة الأحزاب آية 36"، قَالَ سُفْيَانُ:"تُتَّخَذَ سُلَّمًا، يَقُولُ: يُصَلِّي بَعْدَ الْعَصْرِ إِلَى اللَّيْلِ".
ہشام بن حجیر نے کہا: امام طاؤوس رحمہ اللہ نماز عصر کے بعد دو رکعت نماز پڑھا کرتے تھے، چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے کہا: اسے ترک کر دیجئے، امام طاؤوس رحمہ اللہ نے کہا: اس سے اس لئے منع کیا گیا ہے تاکہ یہ سیڑھی نہ بنائی جائے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: بلاشبہ عصر کے بعد کسی بھی نماز سے روکا گیا ہے، اس لئے میں نہیں جانتا کہ تمہیں اس پر عذاب دیا جائے گا یا اجر، اس لئے کہ الله تعالیٰ فرماتا ہے: کسی مومن مرد یا عورت کو الله اور اس کے رسول کے فرمان کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا، اور الله اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے گا، وہ صریح گمراہی میں پڑے گا [الاحزاب: 36/33] ۔ سفیان نے کہا: «تُتَّخَذَ سُلَّمًا»(یعنی) فرماتے ہیں عصر کے بعد سے رات تک نماز پڑھے۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 448]» اس روایت کی سند جید ہے۔ امام بیہقی نے [سنن 453/2] میں، ابن عبدالبر نے [جامع بيان العلم 2339] میں اور خطیب نے [الفقيه والمتفقه 386] میں اسی سند سے نیز [385] میں دوسری سند سے اور عبدالرزاق نے [مصنف 3975] میں ذکر کیا ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن العلاء، حدثنا ابن نمير، عن مجالد، عن عامر، عن جابر رضي الله عنه، ان عمر بن الخطاب رضوان الله عليه اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم بنسخة من التوراة، فقال: يا رسول الله، هذه نسخة من التوراة، فسكت، فجعل يقرا ووجه رسول الله يتغير، فقال ابو بكر رحمة الله عليه: ثكلتك الثواكل، ما ترى ما بوجه رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فنظر عمر إلى وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: اعوذ بالله من غضب الله، ومن غضب رسوله صلى الله عليه وسلم، رضينا بالله ربا، وبالإسلام دينا، وبمحمد نبيا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"والذي نفس محمد بيده، لو بدا لكم موسى فاتبعتموه وتركتموني، لضللتم عن سواء السبيل، ولو كان حيا وادرك نبوتي لاتبعني".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنُسْخَةٍ مِنْ التَّوْرَاةِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذِهِ نُسْخَةٌ مِنْ التَّوْرَاةِ، فَسَكَتَ، فَجَعَلَ يَقْرَأُ وَوَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ يَتَغَيَّرُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيهِ: ثَكِلَتْكَ الثَّوَاكِلُ، مَا تَرَى مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَنَظَرَ عُمَرُ إِلَى وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ، وَمِنْ غَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَوْ بَدَا لَكُمْ مُوسَى فَاتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي، لَضَلَلْتُمْ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ، وَلَوْ كَانَ حَيًّا وَأَدْرَكَ نُبُوَّتِي لَاتَّبَعَنِي".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس توراۃ کا ایک نسخہ لے کر تشریف لائے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ توریت کا نسخہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور عمر رضی اللہ عنہ اسے پڑھنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک بدلنے لگا تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کھونے (گم کرنے) والی مائیں تمہیں کھو دیں (گم کر دیں)، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو دیکھتے نہیں ہو؟ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کی طرف دیکھا تو کہا: میں اللہ کے غضب اور اس کے رسول کے غضب سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، ہم اللہ کے رب ہونے اور اسلام کے دین اور محمد کے نبی ہونے سے راضی ہیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، اگر موسیٰ علیہ السلام بھی تمہارے لئے ظاہر ہو جائیں اور تم ان کی اتباع کرو اور مجھے چھوڑ دو تو تم سیدھے راستے سے بھٹک جاؤ گے (گمراہ ہو جاؤ گے) اگر وہ (موسیٰ) زندہ ہوتے اور میری نبوت کو پا لیتے تو وہ بھی میری اتباع کرتے۔“
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 449]» یہ سند مجالد کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن حدیث حسن ہے، اس کو ابن ابی شیبہ نے [مصنف 6472] میں، ابن ابی عاصم نے [السنة 50] میں اور ابن عبدالبر نے [جامع بيان العلم 1495، 1497] میں اسی سند سے ذکر کیا ہے۔
(حديث مقطوع) حدثنا قبيصة، اخبرنا سفيان، عن ابي رباح شيخ من آل عمر، قال: راى سعيد بن المسيب رجلا يصلي بعد العصر الركعتين يكبر، فقال له: يا ابا محمد، ايعذبني الله على الصلاة؟، قال: "لا، ولكن يعذبك الله بخلاف السنة".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي رَبَاحٍ شَيْخٌ مِنْ آلِ عُمَرَ، قَالَ: رَأَى سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ رَجُلًا يُصَلِّي بَعْدَ الْعَصْرِ الرَّكْعَتَيْنِ يُكَبِّرُ، فَقَالَ لَهُ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ، أَيُعَذِّبُنِي اللَّهُ عَلَى الصَّلَاةِ؟، قَالَ: "لَا، وَلَكِنْ يُعَذِّبُكَ اللَّهُ بِخِلَافِ السُّنَّةِ".
آل عمر کے ایک شخص ابورباح نے کہا: سعید بن المسيب رحمہ اللہ نے عصر کے بعد ایک آدمی کو کثرت سے دو رکعت نماز پڑھتے دیکھا، اس نے دریافت کیا: اے ابومحمد! (سعید بن المسیب کی کنیت) کیا اللہ تعالیٰ نماز پڑھنے پر مجھے عذاب دے گا؟ انہوں نے کہا نہیں (نماز پڑھنے پر تو نہیں) بلکہ سنت کی خلاف ورزی پر اللہ تعالیٰ تمہیں ضرور عذاب دے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 450]» اس روایت کی سند جید ہے، اور ابورباح کا نام عبداللہ بن رباح القرشی ہے، اور اسے خطیب نے [الفقيه والمتفقه 387] میں سند حسن سے ذکر کیا ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 443 سے 450) ان آثار و اقوال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع کی ترغیب اور بدعات و مختلف آراء سے بچنے کی تلقین ہے، اور وہ کام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا اس سے دور رہنے کی ہدایت اور دردناک عذاب کی وعیدِ شدید ہے، چاہے وہ خلافِ سنّت کام نماز ہی کیوں نہ ہو، جیسا کہ اس آخری روایت میں مذکور ہے۔ واللہ اعلم۔