(حديث موقوف) اخبرنا وقال ابو هريرة رضي الله عنه: "إني لاجزئ الليل ثلاثة اجزاء: فثلث انام، وثلث اقوم، وثلث اتذكر احاديث رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا وقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: "إِنِّي لَأُجَزِّئُ اللَّيْلَ ثَلَاثَةَ أَجْزَاءٍ: فَثُلُثٌ أَنَامُ، وَثُلُثٌ أَقُومُ، وَثُلُثٌ أَتَذَكَّرُ أَحَادِيثَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں رات کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہوں: ایک تہائی سوتا ہوں، ایک تہائی قیام کرتا ہوں اور ایک تہائی احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم یاد کرتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 272]» اس روایت کی سند مذکورہ بالا روایت کی طرح ہے، لیکن یہ روایت امام دارمی کے علاوہ کسی نے نقل نہیں کی ہے۔
(حديث مقطوع) اخبرنا الحسن بن عرفة، حدثنا جرير، عن الحسن بن عمرو، عن إبراهيم، قال: "من ابتغى شيئا من العلم يبتغي به وجه الله سبحانه، آتاه الله منه ما يكفيه".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: "مَنْ ابْتَغَى شَيْئًا مِنْ الْعِلْمِ يَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللَّهِ سُبْحَانَهُ، آتَاهُ اللَّهُ مِنْهُ مَا يَكْفِيهِ".
امام ابراہیم النخعی رحمہ اللہ نے فرمایا: جو شخص الله تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے علم حاصل کرے الله تعالیٰ اس کو اتنا دیتا ہے جو اس کے لئے کافی ہوتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 273]» اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 17248]، [حلية الأولياء 228/4] و [العلم لأبي خيثمة 111]
وضاحت: (تشریح احادیث 269 سے 272) یہ آیتِ شریفہ: « ﴿وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا [2] وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ﴾[الطلاق: 2، 3] » کی تفسیر ہے۔ یعنی جو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرے اللہ تعالیٰ اس کے لئے راستہ نکال دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق عطا کرتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔ ان تمام روایات میں علم حاصل کرنے کے ساتھ اس پر عمل کی ترغیب ہے، نیز یہ کہ علم کا حصول اور عملِ صالح ہر ایک میں خلوص وللّٰہیت بے حد ضروری ہے، ورنہ سب کچھ ضائع کر دیا جائے گا۔
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا ابو النعمان، حدثنا ثابت بن يزيد، حدثنا عاصم، قال: سالت الشعبي عن حديث، فحدثنيه، فقلت: إنه يرفع إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: "لا، على من دون النبي صلى الله عليه وسلم احب إلينا، فإن كان فيه زيادة او نقصان، كان على من دون النبي صلى الله عليه وسلم".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، قَالَ: سَأَلْتُ الشَّعْبِيَّ عَنْ حَدِيثٍ، فَحَدَّثَنِيهِ، فَقُلْتُ: إِنَّهُ يُرْفَعُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "لَا، عَلَى مَنْ دُونَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيْنَا، فَإِنْ كَانَ فِيهِ زِيَادَةٌ أَوْ نُقْصَانٌ، كَانَ عَلَى مَنْ دُونَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عاصم نے بیان کیا: میں نے امام شعبی رحمہ اللہ سے ایک حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھے وہ حدیث بتائی، میں نے کہا: یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کی جاتی ہے؟ کہا: نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو ہیں (ان کی طرف حدیث منسوب کرنا) ہم کو محبوب ہے کیونکہ اگر (حدیث میں) کمی یا زیادتی ہو تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دوسرے کی (طرف منسوب) ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الشعبي، [مكتبه الشامله نمبر: 274]» اس قول کی سند شعبی سے صحیح ہے، اور اس کو ابن ابی شیبہ نے [مصنف 6275] میں ذکر کیا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الشعبي
(حديث مرفوع) اخبرنا إسحاق بن عيسى، حدثنا حماد بن زيد، عن ابي هاشم، عن إبراهيم، قال:"نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن المحاقلة والمزابنة"، فقيل له: اما تحفظ عن رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثا غير هذا؟، قال: بلى، ولكن اقول: قال عبد الله: قال علقمة، احب إلي.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ:"نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ"، فَقِيلَ لَهُ: أَمَا تَحْفَظُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا غَيْرَ هَذَا؟، قَالَ: بَلَى، وَلَكِنْ أَقُولُ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: قَالَ عَلْقَمَةُ، أَحَبُّ إِلَيَّ.
امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا، کہا گیا کیا آپ کو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے علاوہ کوئی اور حدیث یاد نہیں؟ فرمایا: یاد تو ہے، لیکن مجھے قال عبدالله، قال علقمہ کہنا زیادہ پسند ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 275]» اس قول کی سند صحیح ہے لیکن مرسل ہے، اور حدیث محاقلہ و مزابنہ متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 2207]، [صحيح مسلم 1539] اس حدیث کی مزید تفصیل کتاب البيوع میں آگے آ رہی ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 272 سے 274) «محاقله»: کھڑی کھیتی کو پکنے سے پہلے بیچنا۔ «مزابنه»: کچی کھجور پکنے سے پہلے پکی کھجور کے بدلے بیچنے کو کہتے ہیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو مرسل
اسماعیل بن عبیداللہ نے کہا: سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث بیان کرتے تو کہتے: «قال كذا أو نحوه أو شبهه أو شكله»(یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح، اس جیسا یا اس کے معنی میں فرمایا)۔
تخریج الحدیث: «إسناده فيه علتان: إسماعيل بن عبيد الله المخزومي لم يدرك أبا الدرداء ومحمد بن كثير الثقفي الصنعاني ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 276]» اس روایت میں دو خرابیاں ہیں، اسماعیل کا لقاء سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں، اور محمد بن کثیر ضعیف ہیں اور اس کو ابوزرعہ نے [تاريخ 1473] میں اور خطیب نے [الكفاية ص: 206] میں ذکر کیا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده فيه علتان: إسماعيل بن عبيد الله المخزومي لم يدرك أبا الدرداء ومحمد بن كثير الثقفي الصنعاني ضعيف
ربیعہ بن یزید نے کہا: سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ جب کوئی حدیث بیان فرماتے تو کہتے: «اللهم إلا هكذا أو كشكله»، یعنی یہ حدیث ایسے یا اس کے مثل ہے۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه منقطع: ربيعة بن يزيد لم يدرك أبا الدرداء، [مكتبه الشامله نمبر: 277]» اس روایت کے رجال ثقات ہیں لیکن اس میں انقطاع ہے، ربیعہ نے بھی سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کو دیکھا نہیں، لہٰذا اس قول کی نسبت سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کی طرف صحیح نہیں ہے۔ اور یہ روایت [تاريخ أبى زرعة 1484]، [الكفاية ص: 205]، [مجمع الزوائد 612]، [تدريب الراوي 103/2] میں موجود ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه منقطع: ربيعة بن يزيد لم يدرك أبا الدرداء
(حديث مرفوع) حدثنا عثمان بن عمر، اخبرنا ابن عون، عن مسلم ابي عبد الله، عن إبراهيم التيمي، عن ابيه، عن عمرو بن ميمون، قال:"كنت لا تفوتني عشية خميس إلا وآتي فيها عبد الله بن مسعود رضي الله عنه، فما سمعته يقول لشيء، قط: قال رسول الله، حتى كانت ذات عشية، فقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فاغرورقتا عيناه وانتفخت اوداجه، فانا رايته محلولة ازراره، وقال: او مثله، او نحوه، او شبيه به".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ مُسْلِمٍ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ:"كُنْتُ لَا تَفُوتُنِي عَشِيَّةُ خَمِيسٍ إِلَّا وَآتِي فِيهَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَمَا سَمِعْتُهُ يَقُولُ لِشَيْءٍ، قَطُّ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ، حَتَّى كَانَتْ ذَاتَ عَشِيَّةٍ، فَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَاغْرَوْرَقَتَا عَيْنَاهُ وَانْتَفَخَتْ أَوْدَاجُه، فَأَنَا رَأَيْتُهُ مَحْلُولَةً أَزْرَارُهُ، وَقَالَ: أَوْ مِثْلُهُ، أَوْ نَحْوُهُ، أَوْ شَبِيهٌ بِهِ".
عمرو بن میمون نے کہا کہ میں ہر جمعرات کی شام کو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آتا تھا۔ اور میں نے ان کو کبھی بھی قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے نہیں سنا، ایک شام انہوں نے قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا تو آنکھیں بھر آئیں، گردن کی رگیں پھول گئیں، میں نے دیکھا کرتے کے بٹن کھلے ہیں اور انہوں نے کہا: «مثله أو نحوه أو شبيه به» ۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 278]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 23]، [مصنف ابن أبى شيبه 6273]، [المحدث الفاصل ص: 549]
وضاحت: (تشریح احادیث 274 سے 277) یعنی مارے خوف اور ادب کے ان کا یہ حال تھا کہ آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور پھر آخر میں فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا، یا اس جیسا، یا اس کے مشابہ فرمایا، اسی پر اکتفا نہیں کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا۔
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا اشعث، عن الشعبي، وابن سيرين، ان ابن مسعود رضي الله عنه، كان إذا حدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في الايام، تربد وجهه، وقال: "هكذا او نحوه، هكذا او نحوه".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا أَشْعَثُ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، وَابْنِ سِيرِينَ، أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، كَانَ إِذَا حَدَّثَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْأَيَّامِ، تَرَبَّدَ وَجْهُهُ، وَقَالَ: "هَكَذَا أَوْ نَحْوَهُ، هَكَذَا أَوْ نَحْوَهُ".
امام شعبی اور امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہما نے روایت کیا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایام کے بارے میں کوئی حدیث بیان کرتے تو ان کا چہرہ سرخ ہو جاتا اور وہ کہتے: «هكذا أو نحوه، هكذا أونحوه»(یعنی اس طرح یا اس کے ہم معنی آپ نے فرمایا)۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه أشعث بن سوار، [مكتبه الشامله نمبر: 279]» اس روایت کی سند اشعث بن سوار کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن آگے صحیح سند سے آ رہی ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 277) ان تمام روایات سے صحابہ و تابعین کے احتیاط کا پتہ چلتا ہے، نیز یہ کہ وہ ڈرتے تھے کہ یہ کہیں کہ: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا، اور حقیقت میں ان کے حافظے میں کمی واقع ہوگئی ہو اور وہ ہلاکت میں پڑ جائیں، اس لئے وہ یہ کہنا پسند کرتے تھے کہ علقمہ یا عبداللہ نے یہ کہا، یا یہ کہ ایسا فرمایا، یا اس کے مثل یا مشابہ فرمایا، یا یہ کہتے تھے: «أو كما قال صلى اللّٰه عليه وسلم» ۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه أشعث بن سوار
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا سهل بن حماد، حدثنا شعبة، حدثنا توبة العنبري، قال: قال لي الشعبي: "ارايت فلانا الذي يقول: قال رسول الله، قال رسول الله؟ قعدت مع ابن عمر سنتين، او سنة ونصفا، فما سمعته يحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا، إلا هذا الحديث".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا تَوْبَةُ الْعَنْبَرِيُّ، قَالَ: قَالَ لِي الشَّعْبِيُّ: "أَرَأَيْتَ فُلَانًا الَّذِي يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ؟ قَعَدْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ سَنَتَيْنِ، أَوْ سَنَةً وَنِصْفًا، فَمَا سَمِعْتُهُ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ".
توبہ عنبری نے کہا کہ امام شعبی رحمہ اللہ نے مجھ سے کہا: تمہاری فلاں شخص کے بارے میں کیا رائے ہے جو کہتے رہتے ہیں قال رسول الله، قال رسول اللہ؟ میں تو (صحابی رسول) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس دو ڈیڑھ سال تک بیٹھا رہا اور ”اس حدیث“ کے علاوہ کبھی ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث بیان کرتے نہیں سنا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 280]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المصنف 6278]، [المحدث الفاصل 739]، [البيهقي 323/9]
امام شعبی رحمہ اللہ نے کہا: میں سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایک سال تک بیٹھتا رہا لیکن میں نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث ذکر کرتے نہیں سنا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 281]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 26]، [مصنف ابن أبى شيبه 6279]، [المحدث الفاصل 739]