(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا يعلى، حدثنا محمد بن عون، عن إبراهيم بن عيسى، قال: قال ابن مسعود: "لا تعلموا العلم لثلاث: لتماروا به السفهاء، وتجادلوا به العلماء، ولتصرفوا به وجوه الناس إليكم، وابتغوا بقولكم ما عند الله، فإنه يدوم ويبقى، وينفد ما سواه". [في إسناده محمد بن عون وهو متروك. وباقي رجاله ثقات] وبهذا الإسناد، قال: "كونوا ينابيع العلم، مصابيح الهدى، احلاس البيوت، سرج الليل، جدد القلوب، خلقان الثياب، تعرفون في اهل السماء، وتخفون على اهل الارض".[إسناده ضعيف](حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْنٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عِيسَى، قَالَ: قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: "لَا تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ لِثَلَاثٍ: لِتُمَارُوا بِهِ السُّفَهَاءَ، وَتُجَادِلُوا بِهِ الْعُلَمَاءَ، وَلِتَصْرِفُوا بِهِ وُجُوهَ النَّاسِ إِلَيْكُمْ، وَابْتَغُوا بِقَوْلِكُمْ مَا عِنْدَ اللَّهِ، فَإِنَّهُ يَدُومُ وَيَبْقَى، وَيَنْفَدُ مَا سِوَاهُ". [في إسناده محمد بن عون وهو متروك. وباقي رجاله ثقات] وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، قَالَ: "كُونُوا يَنَابِيعَ الْعِلْمِ، مَصَابِيحَ الْهُدَى، أَحْلَاسَ الْبُيُوتِ، سُرُجَ اللَّيْلِ، جُدُدَ الْقُلُوبِ، خُلْقَانَ الثِّيَابِ، تُعْرَفُونَ فِي أَهْلِ السَّمَاءِ، وَتَخْفَوْنَ عَلَى أَهْلِ الْأَرْضِ".[إسناده ضعيف]
سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تین چیزوں کے واسطے علم حاصل نہ کرو (تاکہ) بے وقوف سے تکرار کرو، اس کے ذریعہ علماء سے جھگڑا کرو، یا اس کے ذریعہ لوگوں کے چہرے اپنی طرف موڑ لو (یعنی انہیں اپنا گرویدہ بنا لو)، اپنے کلام سے وہی اجر تلاش کرو جو اللہ کے پاس ہے، جو ہمیشہ باقی رہے گا اور جو اس کے سوا ہے وہ ختم ہو جائے گا۔
تخریج الحدیث: «في إسناده محمد بن عون وهو متروك. وباقي رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 261، 262]» اس روایت کی سند میں محمد بن عون متروک ہیں، لیکن [حلية الاولياء 77/1] میں اس کا شاہد موجود ہے۔ نیز دیکھئے: [الفقيه 810]، [جامع بيان العلم 257]
وضاحت: (تشریح احادیث 259 سے 261) مرفوع حدیث میں ہے: «لَا تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ لِتُبَاهُوا بِهِ الْعُلَمَاءَ، أَوْ لِتُمَارُوا بِهِ السُّفَهَاءَ، أَوْ لِتَصْرِفُوا وُجُوهَ النَّاسِ إِلَيْكُمْ، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَهُوَ فِي النَّارِ.» مطلب یہ کہ ”جس نے اس لئے علم حاصل کیا کہ علماء سے جھگڑا کرے، جاہلوں سے تکرار کرے، اور لوگوں کو اپنا ہم نوا بنائے، تو وہ جہنم میں جائے گا۔ “ دیکھئے: [ترمذي 2654]، [ابن ماجه 259-260] اس روایت کو شیخ البانی نے [صحيح الجامع 7247] میں صحیح کہا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده محمد بن عون وهو متروك. وباقي رجاله ثقات
(حديث موقوف) اخبرنا ابو عاصم، حدثنا محمد بن عمارة بن حزم، حدثني عبد الله بن عبد الرحمن، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا يطلب هذا العلم احد لا يريد به إلا الدنيا، إلا حرم الله عليه عرف الجنة يوم القيامة".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَارَةَ بْنِ حَزْمٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَطْلُبُ هَذَا الْعِلْمَ أَحَدٌ لَا يُرِيدُ بِهِ إِلَّا الدُّنْيَا، إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرْفَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
عبداللہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس علم کو (یعنی علم دین کو) کسی نے دنیا حاصل کرنے کے لئے سیکھا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس پر جنت کی خوشبو تک حرام فرما دے گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى عبد الله بن عبد الرحمن وهو مرسل بل ربما كان معضلا، [مكتبه الشامله نمبر: 263]» یہ حدیث مرسل یا معضل ہے، لیکن اس کا معنی صحیح اور شواہد موجود ہیں۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6178]، [أبوداؤد 3664]، [ابن ماجه 252]، [جامع بيان العلم 1145]، [مسند أحمد 338/2]، [مسند أبى يعلی 6373]، [صحيح ابن حبان 78]، دیکھئے: [موارد الظمآن 89]
وضاحت: (تشریح حدیث 261) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ دنیا بنانے کے لئے جس نے علمِ دین حاصل کیا تو وہ جنت میں داخل ہونا تو کجا جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا، اس لئے علمِ دین خالصاً لوجہ اللہ حاصل کرنا چاہئے، جیسا کہ حدیث ہے: «مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا يُبْتَغَى بِهِ وَجْهُ اللَّهِ، لَا يَتَعَلَّمُهُ إِلَّا لِيُصِيبَ بِهِ عَرَضًا مِنَ الدُّنْيَا، لَمْ يَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ»[صحيح الجامع 60350] اور جو شخص اللہ کی رضا کی خاطر علم حاصل کرے اس کے لئے بشارت ہے: « ﴿وَمَنْ يَتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا . وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهُ﴾[الطلاق: 2، 3] »”جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لیے راہ ہموار بنا دیتا ہے اور ایسی جگہ سے اس کو روزی دیتا ہے جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کر پاتا اور جو اللہ پر اعتماد کرتا ہے وہ اس کے لیے کافی ہے۔ “
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى عبد الله بن عبد الرحمن وهو مرسل بل ربما كان معضلا
(حديث مرفوع) اخبرنا مجاهد بن موسى، حدثنا عبد الله بن نمير، عن مالك بن مغول، قال: قال رجل للشعبي: افتني ايها العالم، فقال: "العالم من يخاف الله عز وجل".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِلشَّعْبِيِّ: أَفْتِنِي أَيُّهَا الْعَالِمُ، فَقَالَ: "الْعَالِمُ مَنْ يَخَافُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ".
ایک آدمی نے امام شعبی رحمہ اللہ سے کہا: اے عالم (دین) مجھے فتویٰ دیجئے، تو انہوں نے کہا: عالم وہ ہے جو الله عزوجل کا خوف رکھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 264]» اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 17517]، [حلية الأولياء 311/4]
وضاحت: (تشریح حدیث 262) یعنی علم حاصل کر لینے سے کوئی عالم نہیں بن جاتا، بلکہ عمل اور تقویٰ و اخلاص جب تک نہ ہو وہ عالم نہیں بن سکتا۔
(حديث مقطوع) اخبرنا اخبرنا عثمان بن عمر، حدثنا عمر بن مزيد، عن اوفى بن دلهم انه بلغه، عن علي رضي الله عنه، قال: "تعلموا العلم، تعرفوا به، واعملوا به، تكونوا من اهله، فإنه سياتي بعد هذا زمان لا يعرف فيه تسعة عشرائهم المعروف، ولا ينجو منه إلا كل نؤمة، فاولئك ائمة الهدى ومصابيح العلم، ليسوا بالمساييح، ولا المذاييع البذر"، قال ابو محمد: نؤمة: غافل عن الشر، المذاييع: كثير الكلام، والبذر: النمامون.(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ مَزْيَدٍ، عَنْ أَوْفَى بْنِ دَلْهَمٍ أَنَّهُ بَلَغَهُ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: "تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ، تُعْرَفُوا بِهِ، وَاعْمَلُوا بِهِ، تَكُونُوا مِنْ أَهْلِهِ، فَإِنَّهُ سَيَأْتِي بَعْدَ هَذَا زَمَانٌ لَا يَعْرِفُ فِيهِ تِسْعَةُ عُشَرَائِهِمْ الْمَعْرُوفَ، وَلَا يَنْجُو مِنْهُ إِلَّا كُلُّ نُؤْمَةٍ، فَأُولَئِكَ أَئِمَّةُ الْهُدَى وَمَصَابِيحُ الْعِلْمِ، لَيْسُوا بِالْمَسَايِيحِ، وَلَا الْمَذَايِيعِ الْبُذُرِ"، قَالَ أَبُو مُحَمَّد: نُؤَمَةٌ: غَافِلٌ عَنْ الشَّرِّ، الْمَذَايِيعُ: كَثِيرُ الْكَلَامِ، وَالْبُذْرِ: النَّمَّامُونَ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: علم حاصل کرو، اسی کے ذریعہ پہچانے جاؤ گے، اس پر عمل کرو تو اہل علم کہلاؤ گے، بعد میں ایسا زمانہ آئے گا کہ دس میں سے نو آدمی معروف (بھلائی) کو جانیں گے ہی نہیں، اور صرف زاہد ہی اس سے نجات پا سکیں گے، وہی ہدایت کے امام، علم کے چراغ ہیں جو شرارت انگیزی کرنے والے چغل خور نہ ہوں گے۔ ابومحمد نے کہا کہ «نؤمة» برائی سے غافل اور «المذاييع» بہت زیادہ بات کرنے والے کو کہتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه منقطع أوفى بن دلهم لم يسمع عليا فيما نعلم، [مكتبه الشامله نمبر: 265]» اس روایت میں انقطاع ہے، لیکن اس کے رجال ثقہ ہیں، تخریج کے لئے دیکھئے: [الزهد لأحمد ص:103] و [شعب الإيمان 9670]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه منقطع أوفى بن دلهم لم يسمع عليا فيما نعلم
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: علم حاصل کرنے کے بعد جس قدر ہو سکے عمل کرو، جب تک عمل نہ کرو گے اللہ تعالیٰ تمہیں ہرگز علم کا بدلہ نہیں دے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده رجاله ثقات غير أن يزيد بن جابر الأزدي لم يدرك معاذ بن جبل، [مكتبه الشامله نمبر: 266]» اس اثر کی سند میں یزید بن جابر کا لقاء سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں، رجال اس کے ثقات ہیں۔ ابن المبارک نے [الزهد 62] میں، اور ابونعیم نے [حلية الأولياء 236/1] میں اسے ذکر کیا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده رجاله ثقات غير أن يزيد بن جابر الأزدي لم يدرك معاذ بن جبل
(حديث مقطوع) اخبرنا عبد الله بن خالد بن حازم، حدثنا الوليد بن مزيد، قال: سمعت عبد الرحمن بن يزيد بن جابر يحدث، عن سعد، انه اتى ابن منبه فساله عن الحسن، وقال له: كيف عقله؟ فاخبره، ثم قال: إنا لنتحدث، او نجد في الكتب انه: "ما آتى الله سبحانه عبدا علما فعمل به على سبيل الهدى، فيسلبه عقله حتى يقبضه الله إليه".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ خَالِدِ بْنِ حَازِمٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مَزْيَدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ يُحَدِّثُ، عَنْ سَعْدٍ، أَنَّهُ أَتَى ابْنَ مُنَبِّهٍ فَسَأَلَهُ عَنْ الْحَسَنِ، وَقَالَ لَهُ: كَيْفَ عَقْلُهُ؟ فَأَخْبَرَهُ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّا لَنَتَحَدَّثُ، أَوْ نَجِدُ فِي الْكُتُبِ أَنَّهُ: "مَا آتَى اللَّهُ سًبْحَانَه عَبْدًا عِلْمًا فَعَمِلَ بِهِ عَلَى سَبِيلِ الْهُدَى، فَيَسْلُبَهُ عَقْلَهُ حَتَّى يَقْبِضَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ".
سعد سے مروی ہے کہ وہ وہب بن منبہ کے پاس آئے تو انہوں نے حسن بصری رحمہ اللہ کے بارے میں پوچھا کہ ان کی عقل و سمجھ کا کیا حال ہے؟ سعد نے ان کا حال بتایا، پھر بتایا کہ ہم نے کتب (سماویہ) میں پڑھا ہے کہ الله تعالیٰ نے جس بندے کو بھی علم عطا فرمایا ہے اور اس نے ہدایت کے راستے پر چلتے ہوئے عمل کیا تو اللہ تعالیٰ اس کی عقل سلب نہیں کرے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کی روح قبض کر کے اس کو اپنے پاس بلا لے۔
تخریج الحدیث: «في إسناده سعد وما عرفته وباقي رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 267]» اس روایت کی سند میں راوی ”سعد“ کے بارے میں معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کون ہیں، باقی رواة ثقات ہیں۔ حوالہ دیکھئے: [شعب الإيمان 1883]
وضاحت: (تشریح احادیث 263 سے 266) اس روایت سے معلوم ہوا کہ عالم باعمل کی عقل مرتے دم تک باقی رہتی ہے، گرچہ یہ روایت اسرائیلیات میں سے ہے لیکن آیتِ شریفہ « ﴿ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ [5] إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ...﴾[التين: 5، 6] » سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ اس آیت میں انسان کے ارذل العمر تک پہنچ جانے کا اشارہ ہے جس وقت عقل و شعور میں سفلہ پن آجاتا ہے، لیکن مومنین اس سے محفوظ رہتے ہیں۔ ہم نے اپنے اساتذہ کرام میں سے کتنے ایسے دیکھے جو لگ بھگ سو سال کی عمر تک پہنچے لیکن عقل و سمجھ برقرار رہی۔ محدّثِ عصر اور فقیہ دوران سماحۃ الشيخ ابن باز رحمہ اللہ کا جس رات انتقال ہوا، نماز وغیرہ سے فارغ ہو کر معاملات سنتے اور ڈکٹیٹ کراتے رہے، 17 معاملات آپ نے انجام کو پہنچائے اور فجر سے پہلے مالکِ حقیقی سے جا ملے، اور آخر وقت تک عقل و شعور کی حالت قابلِ رشک تھی۔ «(تغمده اللّٰه بواسع رحمته)» اسی طرح شیخ الحدیث مولانا عبدالجبار صاحب شکراوی کو دیکھا۔ «غفر اللّٰه له.»
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده سعد وما عرفته وباقي رجاله ثقات
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقام و مرتبے کے اعتبار سے بدترین آدمی وہ عالم ہو گا جو اپنے علم سے فائدہ نہ اٹھائے۔ یعنی علم کے مطابق عمل نہ کرے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف جدا ابن القاسم هو عبد الغفار بن القاسم بن قيس قال ابن المديني: " كان يضع الحديث "، [مكتبه الشامله نمبر: 268]» یہ روایت بہت ضعیف ہے، دوسرے طریق سے بھی مروی ہے، لیکن وہ بھی ضعیف ہیں۔ دیکھئے: [الزهد لابن المبارك 40]، [حلية الأولياء 223/1]، [جامع بيان العلم 1078]
وضاحت: (تشریح حدیث 266) یہ روایت گرچہ ضعیف ہے لیکن علم بلا عمل وبالِ جان ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے قیامت کے دن عالم سے پوچھا جائے گا: «(فَمَاذَا عَمِلْتَ بَعْدَ مَا عَلِمْتَ؟)» اور عمل نہ کرنے کے باعث وہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ «(أعاذنا اللّٰه منه)» ۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف جدا ابن القاسم هو عبد الغفار بن القاسم بن قيس قال ابن المديني: " كان يضع الحديث "
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس کے علم میں اضافہ ہوتا ہے درد بھی بڑھ جاتا ہے (یعنی خشیت الہٰی اور انابت الی اللہ میں اضافہ ہو جاتا ہے)۔
تخریج الحدیث: «في إسناده علتان: الأولى مالك بن دينار لم يدرك أبا الدرداء فالإسناد منقطع والثانية: أبو قدامة وهو: الحارث بن عبيد وهو ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 269]» اس اثر کی سند میں انقطاع ہے اور ابوقدامہ حارث بن عبید ضعیف ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 900]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده علتان: الأولى مالك بن دينار لم يدرك أبا الدرداء فالإسناد منقطع والثانية: أبو قدامة وهو: الحارث بن عبيد وهو ضعيف
اخبرنا وقال ابو الدرداء: "ما اخاف على نفسي ان يقال لي: ما علمت، ولكن اخاف ان يقال لي: ماذا عملت".أخْبَرَنَا وَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: "مَا أَخَافُ عَلَى نَفْسِي أَنْ يُقَالَ لِي: مَا عَلِمْتَ، وَلَكِنْ أَخَافُ أَنْ يُقَالَ لِي: مَاذَا عَمِلْتَ".
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے اس کا ڈر نہیں کہ کہا جائے تم نے کیا علم حاصل کیا؟ بلکہ ڈر یہ ہے کہ مجھے کہا جائے عمل کیسا کیا؟
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 270]» یہ اثر متعدد کتب میں ہے، لیکن سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [الزهد لابن المبارك 39]، [جامع بيان العلم 1201]، [اقتضاء العلم والعمل 54]، [مصنف ابن أبى شيبه 16446]، [الزهد لأحمد 136]، [حلية الأولياء 213/1]
وضاحت: (تشریح احادیث 267 سے 269) یہ حدیث «يوتي يوم القيامة ............ فماذا عملت» کی طرف اشارہ ہے (یعنی قیامت کے دن پوچھا جائے گا علم حاصل کرنے کے بعد عمل کتنا کیا تھا)۔ اور اس میں صحابیٔ جلیل سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کی فضیلت ہے کہ ڈرتے ہیں قیامت کے دن اللہ کے نزدیک یہ سوال نہ کیا جائے کہ کیا عمل کیا؟
سیدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رات کے کچھ وقت میں علم کا مذاکرہ کرنا پوری رات کی عبادت سے بہتر ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 271]» اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 20469]، [جامع بيان العلم 107] لیکن بیہقی نے [المدخل 459] میں صحیح سند سے ذکر کیا ہے۔ نیز دیکھئے: [جامع بيان العلم 96، 106] و [الفقيه والمتفقه 14/1، 19]