سنن دارمي
مقدمه
مقدمہ
27. باب الْعَمَلِ بِالْعِلْمِ وَحُسْنِ النِّيَّةِ فِيهِ:
علم کے ساتھ عمل اور اس میں حسن نیت کا بیان
حدیث نمبر: 266
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ خَالِدِ بْنِ حَازِمٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مَزْيَدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ يُحَدِّثُ، عَنْ سَعْدٍ، أَنَّهُ أَتَى ابْنَ مُنَبِّهٍ فَسَأَلَهُ عَنْ الْحَسَنِ، وَقَالَ لَهُ: كَيْفَ عَقْلُهُ؟ فَأَخْبَرَهُ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّا لَنَتَحَدَّثُ، أَوْ نَجِدُ فِي الْكُتُبِ أَنَّهُ: "مَا آتَى اللَّهُ سًبْحَانَه عَبْدًا عِلْمًا فَعَمِلَ بِهِ عَلَى سَبِيلِ الْهُدَى، فَيَسْلُبَهُ عَقْلَهُ حَتَّى يَقْبِضَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ".
سعد سے مروی ہے کہ وہ وہب بن منبہ کے پاس آئے تو انہوں نے حسن بصری رحمہ اللہ کے بارے میں پوچھا کہ ان کی عقل و سمجھ کا کیا حال ہے؟ سعد نے ان کا حال بتایا، پھر بتایا کہ ہم نے کتب (سماویہ) میں پڑھا ہے کہ الله تعالیٰ نے جس بندے کو بھی علم عطا فرمایا ہے اور اس نے ہدایت کے راستے پر چلتے ہوئے عمل کیا تو اللہ تعالیٰ اس کی عقل سلب نہیں کرے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کی روح قبض کر کے اس کو اپنے پاس بلا لے۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «في إسناده سعد وما عرفته وباقي رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 267]»
اس روایت کی سند میں راوی ”سعد“ کے بارے میں معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کون ہیں، باقی رواة ثقات ہیں۔ حوالہ دیکھئے: [شعب الإيمان 1883]
وضاحت: (تشریح احادیث 263 سے 266)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ عالم باعمل کی عقل مرتے دم تک باقی رہتی ہے، گرچہ یہ روایت اسرائیلیات میں سے ہے لیکن آیتِ شریفہ «﴿ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ [5] إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ...﴾ [التين: 5، 6] » سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
اس آیت میں انسان کے ارذل العمر تک پہنچ جانے کا اشارہ ہے جس وقت عقل و شعور میں سفلہ پن آجاتا ہے، لیکن مومنین اس سے محفوظ رہتے ہیں۔
ہم نے اپنے اساتذہ کرام میں سے کتنے ایسے دیکھے جو لگ بھگ سو سال کی عمر تک پہنچے لیکن عقل و سمجھ برقرار رہی۔
محدّثِ عصر اور فقیہ دوران سماحۃ الشيخ ابن باز رحمہ اللہ کا جس رات انتقال ہوا، نماز وغیرہ سے فارغ ہو کر معاملات سنتے اور ڈکٹیٹ کراتے رہے، 17 معاملات آپ نے انجام کو پہنچائے اور فجر سے پہلے مالکِ حقیقی سے جا ملے، اور آخر وقت تک عقل و شعور کی حالت قابلِ رشک تھی۔
«(تغمده اللّٰه بواسع رحمته)» اسی طرح شیخ الحدیث مولانا عبدالجبار صاحب شکراوی کو دیکھا۔
«غفر اللّٰه له.»
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده سعد وما عرفته وباقي رجاله ثقات