حدثنا عبد الله بن يوسف، قال: اخبرنا مالك، عن إسحاق بن ابي طلحة، انه سمع انس بن مالك يقول: كان النبي صلى الله عليه وسلم يدخل على ام حرام ابنة ملحان، فتطعمه، وكانت تحت عبادة بن الصامت، فاطعمته وجعلت تفلي راسه، فنام ثم استيقظ يضحك.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُ عَلَى أُمِّ حَرَامِ ابْنَةِ مِلْحَانَ، فَتُطْعِمُهُ، وَكَانَتْ تَحْتَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، فَأَطْعَمَتْهُ وَجَعَلَتْ تَفْلِي رَأْسَهُ، فَنَامَ ثُمَّ اسْتَيْقَظَ يَضْحَكُ.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا جو سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں، کے ہاں تشریف لے جاتے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا کھلاتیں۔ ایک دفعہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا کھلایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر سے جوئیں نکالنے لگیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے، پھر اٹھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: صحيح البخاري، الجهاد و السير، ح: 2789 و مسلم كتاب الإمارة: 1912، 160»
حدثنا علي بن عبد الله، قال: حدثنا المغيرة بن سلمة ابو هشام المخزومي - وكان ثقة - قال: حدثنا الصعق بن حزن قال: حدثني القاسم بن مطيب، عن الحسن البصري، عن قيس بن عاصم السعدي قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ”هذا سيد اهل الوبر“، فقلت: يا رسول الله، ما المال الذي ليس علي فيه تبعة من طالب، ولا من ضيف؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”نعم المال اربعون، والاكثر ستون، وويل لاصحاب المئين إلا من اعطى الكريمة، ومنحالغزيرة، ونحر السمينة، فاكل واطعم القانع والمعتر“، قلت: يا رسول الله، ما اكرم هذه الاخلاق، لا يحل بواد انا فيه من كثرة نعمي؟ فقال: ”كيف تصنع بالعطية؟“ قلت: اعطي البكر، واعطي الناب، قال: ”كيف تصنع في المنيحة؟“ قال: إني لامنح الناقة، قال: ”كيف تصنع في الطروقة؟“ قال: يغدو الناس بحبالهم، ولا يوزع رجل من جمل يختطمه، فيمسكه ما بدا له، حتى يكون هو يرده، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ”فمالك احب إليك ام مال مواليك؟“ قال: مالي، قال: ”فإنما لك من مالك ما اكلت فافنيت، او اعطيت فامضيت، وسائره لمواليك“، فقلت: لا جرم، لئن رجعت لاقلن عددها فلما حضره الموت جمع بنيه فقال: يا بني، خذوا عني، فإنكم لن تاخذوا عن احد هو انصح لكم مني: لا تنوحوا علي، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم ينح عليه، وقد سمعت النبي صلى الله عليه وسلم ينهى عن النياحة، وكفنوني في ثيابي التي كنت اصلي فيها، وسودوا اكابركم، فإنكم إذا سودتم اكابركم لم يزل لابيكم فيكم خليفة، وإذا سودتم اصاغركم هان اكابركم على الناس، وزهدوا فيكم واصلحوا عيشكم، فإن فيه غنى عن طلب الناس، وإياكم والمسالة، فإنها آخر كسب المرء، وإذا دفنتموني فسووا علي قبري، فإنه كان يكون شيء بيني وبين هذا الحي من بكر بن وائل: خماشات، فلا آمن سفيها ان ياتي امرا يدخل عليكم عيبا في دينكم. قال علي: فذاكرت ابا النعمان محمد بن الفضل، فقال: اتيت الصعق بن حزن في هذا الحديث، فحدثنا عن الحسن، فقيل له: عن الحسن؟ قال: لا، يونس بن عبيد، عن الحسن، قيل له: سمعته من يونس؟ قال: لا، حدثني القاسم بن مطيب، عن يونس بن عبيد، عن الحسن، عن قيس، فقلت لابي النعمان: فلم تحمله؟ قال: لا، ضيعناه.حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ سَلَمَةَ أَبُو هِشَامٍ الْمَخْزُومِيُّ - وَكَانَ ثِقَةً - قَالَ: حَدَّثَنَا الصَّعْقُ بْنُ حَزْنٍ قَالَ: حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ مُطَيَّبٍ، عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عَاصِمٍ السَّعْدِيِّ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ”هَذَا سَيِّدُ أَهْلِ الْوَبَرِ“، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا الْمَالُ الَّذِي لَيْسَ عَلَيَّ فِيهِ تَبِعَةٌ مِنْ طَالِبٍ، وَلاَ مِنْ ضَيْفٍ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”نِعْمَ الْمَالُ أَرْبَعُونَ، وَالأَكْثَرُ سِتُّونَ، وَوَيْلٌ لأَصْحَابِ الْمِئِينَ إِلاَّ مَنْ أَعْطَى الْكَرِيمَةَ، وَمَنَحَالْغَزِيرَةَ، وَنَحَرَ السَّمِينَةَ، فَأَكَلَ وَأَطْعَمَ الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ“، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا أَكْرَمُ هَذِهِ الأَخْلاَقِ، لاَ يُحَلُّ بِوَادٍ أَنَا فِيهِ مِنْ كَثْرَةِ نَعَمِي؟ فَقَالَ: ”كَيْفَ تَصْنَعُ بِالْعَطِيَّةِ؟“ قُلْتُ: أُعْطِي الْبِكْرَ، وَأُعْطِي النَّابَ، قَالَ: ”كَيْفَ تَصْنَعُ فِي الْمَنِيحَةِ؟“ قَالَ: إِنِّي لَأَمْنَحُ النَّاقَةَ، قَالَ: ”كَيْفَ تَصْنَعُ فِي الطَّرُوقَةِ؟“ قَالَ: يَغْدُو النَّاسُ بِحِبَالِهِمْ، وَلاَ يُوزَعُ رَجُلٌ مِنْ جَمَلٍ يَخْتَطِمُهُ، فَيُمْسِكُهُ مَا بَدَا لَهُ، حَتَّى يَكُونَ هُوَ يَرُدَّهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”فَمَالُكَ أَحَبُّ إِلَيْكَ أَمْ مَالُ مَوَالِيكَ؟“ قَالَ: مَالِي، قَالَ: ”فَإِنَّمَا لَكَ مِنْ مَالِكَ مَا أَكَلْتَ فَأَفْنَيْتَ، أَوْ أَعْطَيْتَ فَأَمْضَيْتَ، وَسَائِرُهُ لِمَوَالِيكَ“، فَقُلْتُ: لاَ جَرَمَ، لَئِنْ رَجَعْتُ لَأُقِلَّنَّ عَدَدَهَا فَلَمَّا حَضَرَهُ الْمَوْتُ جَمَعَ بَنِيهِ فَقَالَ: يَا بَنِيَّ، خُذُوا عَنِّي، فَإِنَّكُمْ لَنْ تَأْخُذُوا عَنْ أَحَدٍ هُوَ أَنْصَحُ لَكُمْ مِنِّي: لاَ تَنُوحُوا عَلَيَّ، فَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يُنَحْ عَلَيْهِ، وَقَدْ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنِ النِّيَاحَةِ، وَكَفِّنُونِي فِي ثِيَابِي الَّتِي كُنْتُ أُصَلِّي فِيهَا، وَسَوِّدُوا أَكَابِرَكُمْ، فَإِنَّكُمْ إِذَا سَوَّدْتُمْ أَكَابِرَكُمْ لَمْ يَزَلْ لأَبِيكُمْ فِيكُمْ خَلِيفَةٌ، وَإِذَا سَوَّدْتُمْ أَصَاغِرَكُمْ هَانَ أَكَابِرُكُمْ عَلَى النَّاسِ، وزهدوا فيكم وَأَصْلِحُوا عَيْشَكُمْ، فَإِنَّ فِيهِ غِنًى عَنْ طَلَبِ النَّاسِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْمَسْأَلَةَ، فَإِنَّهَا آخِرُ كَسْبِ الْمَرْءِ، وَإِذَا دَفَنْتُمُونِي فَسَوُّوا عَلَيَّ قَبْرِي، فَإِنَّهُ كَانَ يَكُونُ شَيْءٌ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا الْحَيِّ مِنْ بَكْرِ بْنِ وَائِلٍ: خُمَاشَاتٌ، فَلاَ آمَنُ سَفِيهًا أَنْ يَأْتِيَ أَمْرًا يُدْخِلُ عَلَيْكُمْ عَيْبًا فِي دِينِكُمْ. قَالَ عَلِيٌّ: فَذَاكَرْتُ أَبَا النُّعْمَانِ مُحَمَّدَ بْنَ الْفَضْلِ، فَقَالَ: أَتَيْتُ الصَّعْقَ بْنَ حَزْنٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، فَحَدَّثَنَا عَنِ الْحَسَنِ، فَقِيلَ لَهُ: عَنِ الْحَسَنِ؟ قَالَ: لا، يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، قِيلَ لَهُ: سَمِعْتَهُ مِنْ يُونُسَ؟ قَالَ: لا، حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ مُطَيَّبٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ قَيْسٍ، فَقُلْتُ لأَبِي النُّعْمَانِ: فَلِمَ تَحْمِلُهُ؟ قَالَ: لا، ضَيَّعْنَاهُ.
سیدنا قیس بن عاصم سعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ دیہاتیوں کا سردار ہے۔“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کس مقدار میں مال ہو تو مجھ پر کسی سائل یا مہمان کا حق نہیں ہوگا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چالیس (اونٹوں وغیرہ) تک مال ہونا اچھی بات ہے۔ ساٹھ ہو جائے تو یہ بہت کثیر میں شمار ہوگا، اور جن کے پاس سیکڑوں ہوں ان کے لیے ہلاکت ہے، سوائے اس کے جو پیارا مال بطورِ عطیہ دے اور خوب دودھ والا جانور ضرورت مند کو دے اور موٹا تازہ جانور ذبح کرے جو خود بھی کھائے اور ان لوگوں کو بھی کھلائے جو قناعت کیے ہوئے ہیں، اور جو مانگنے والے ہیں انہیں بھی کھلائے۔“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! یہ عادتیں تو بڑی کریمانہ ہیں۔ جس وادی میں میں رہتا ہوں، میرے مویشیوں کی کثرت کی وجہ سے کوئی وہاں مویشی لاتا ہی نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم عطیے میں کیا دیتے ہو؟“ میں نے عرض کیا: جواں سال گائے یا بیل اور دو دانتا اونٹنی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دودھ والے جانور کے بارے میں کیا کرتے ہو؟“ میں نے عرض کیا: میں اونٹنی دودھ کے لیے دے دیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم قابلِ حمل اونٹنیوں کے بارے میں کیا کرتے ہو؟“ میں نے عرض کیا: لوگ اپنی رسیاں لاتے ہیں اور اونٹ کو مہار ڈال کر لے جاتے ہیں، کسی کو بھی اس سے منع نہیں کیا جاتا۔ اونٹ لے کر جانے والا اپنی مرضی سے جب تک چاہتا ہے اپنے پاس رکھتا ہے، اور خود مرضی ہی سے واپس کر جاتا ہے (میں نے کبھی کسی سے نہیں پوچھا)۔ نبى صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھے اپنا مال زیادہ پسند ہے یا اپنے رشتہ داروں کا؟“ اس نے کہا: اپنا مال۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا مال صرف وہ ہے جسے تو نے کھا کر ختم کر دیا، یا کسی کو دے کر صدقے میں لگا دیا، اس کے علاوہ تیرے رشتہ داروں اور وارثوں کا ہے۔“ میں نے عرض کیا: بلاشبہ اب واپس جا کر اپنا مال ضرور کم کروں گا، یعنی صدقہ کروں گا۔ جب ان کی موت کا وقت قریب آیا تو انہوں نے اپنے بیٹوں کو جمع کیا اور کہا: اے میرے بیٹو! میری باتیں توجہ سے سنو، مجھ سے بڑھ کر تمہارا کوئی خیر خواہ نہیں ہو سکتا۔ مجھ پر نوحہ مت کرنا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نوحہ نہیں کیا گیا، اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نوحہ سے منع کرتے سنا ہے۔ اور مجھے ان کپڑوں میں کفن دینا جن میں، میں نماز پڑھتا تھا۔ اور اپنے بڑوں کو سردار بنانا، جب تم اپنے بڑوں کو سردار بناؤ گے تو تمہارے اندر تمہارے باپ کا کوئی نہ کوئی خلیفہ رہے گا، اور جب تم چھوٹوں کو سردار بناؤ گے تو تمہارے بڑے لوگوں کی نظروں میں حقیر ہو جائیں گے، اور لوگ تم سے بے تعلق ہو جائیں گے۔ اور اپنی روزی کو سوچ سمجھ کر درست رکھو کیونکہ اس طرح لوگوں سے مانگنا نہیں پڑتا۔ لوگوں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا کیونکہ یہ بندے کا سب سے آخری ذریعہ معاش ہے۔ اور جب تم مجھے دفن کر لو تو میری قبر برابر کر دینا کیونکہ میرے اور قبیلہ بکر بن وائل کے درمیان جھگڑے رہے ہیں تو مجھے اطمینان نہیں کہ ان کا کوئی بے وقوف کوئی ایسی حرکت کردے جو تمہارے دین میں کوئی عیب کی بات داخل کر دے۔ علی بن مدینی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ابونعمان محمد بن فضل سے مذاکرہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ میں صعق بن حزن (جو کہ ملس تھے) کے پاس اس حدیث کے سلسلے میں گیا تو انہوں نے حسن سے روایت بیان کی۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے حسن سے خود سنی ہے؟ اس نے کہا: نہیں، یونس بن عبید حسن سے بیان کرتے ہیں۔ ان سے پوچھا گیا: کیا آپ نے یونس سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، مجھے قاسم بن مطیب نے یونس سے اور انہوں نے حسن سے بیان کی، انہوں نے قیس سے۔ میں نے ابونعمان سے کہا کہ تم نے یہ طریق کیوں اختیار نہیں کیا؟ انہوں نے کہا: ہم سے ضائع ہو گیا (اور اسے بھول گیا)۔
حدثنا موسى، قال: حدثنا وهيب، قال: حدثنا ايوب، عن ابي العالية قال: سالت عبد الله بن الصامت قال: سالت خليلي ابا ذر، فقال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم بوضوء، فحرك راسه، وعض على شفتيه، قلت بابي انت وامي آذيتك؟ قال: ”لا، ولكنك تدرك امراء او ائمة يؤخرون الصلاة لوقتها“، قلت: فما تامرني؟ قال: ”صل الصلاة لوقتها، فإن ادركت معهم فصله، ولا تقولن: صليت، فلا اصلي.“حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ الصَّامِتِ قَالَ: سَأَلْتُ خَلِيلِي أَبَا ذَرٍّ، فَقَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَضُوءٍ، فَحَرَّكَ رَأْسَهُ، وَعَضَّ عَلَى شَفَتَيْهِ، قُلْتُ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي آذَيْتُكَ؟ قَالَ: ”لَا، وَلَكِنَّكَ تُدْرِكُ أُمَرَاءَ أَوْ أَئِمَّةً يُؤَخِّرُونَ الصَّلاَةَ لِوَقْتِهَا“، قُلْتُ: فَمَا تَأْمُرُنِي؟ قَالَ: ”صَلِّ الصَّلاَةَ لِوَقْتِهَا، فَإِنْ أَدْرَكْتَ مَعَهُمْ فَصَلِّهِ، وَلاَ تَقُولَنَّ: صَلَّيْتُ، فَلاَ أُصَلِّي.“
سیدنا عبداللہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنے خلیل سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وضو کا پانی لے کر حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر مبارک کو جنبش دی اور ہونٹوں کو دانتوں میں دبایا۔ میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان، میں نے آپ کو تکلیف دی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، لیکن تم ایسے امراء یا ائمہ دیکھو گے جو نماز کو وقت سے مؤخر کر کے پڑھیں گے۔“ میں نے عرض کیا: تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم بر وقت نماز پڑھو، اور پھر اگر ان کے ساتھ نماز پاؤ تو بھی پڑھ لو، اور یہ نہ کہو کہ میں نے نماز پڑھ لی ہے، لہٰذا میں نماز نہیں پڑھوں گا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: صحيح مسلم، المساجد و مواضع الصلاة، ح: 648»
حدثنا يحيى بن بكير، قال: حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن علي بن حسين، ان حسين بن علي حدثه، عن علي رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم طرقه وفاطمة بنت النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ”الا تصلون؟“ فقلت: يا رسول الله، إنما انفسنا عند الله، فإذا شاء ان يبعثنا بعثنا، فانصرف النبي صلى الله عليه وسلم، ولم يرجع إلي شيئا، ثم سمعت وهو مدبر يضرب فخذه يقول: ”﴿وكان الإنسان اكثر شيء جدلا﴾“ [الکھف: 54].حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ حَدَّثَهُ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَقَهُ وَفَاطِمَةَ بِنْتَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ”أَلاَ تُصَلُّونَ؟“ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّمَا أَنْفُسُنَا عِنْدَ اللهِ، فَإِذَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَنَا بَعَثَنَا، فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيَّ شَيْئًا، ثُمَّ سَمِعْتُ وَهُوَ مُدْبِرٌ يَضْرِبُ فَخِذَهُ يَقُولُ: ”﴿وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلاً﴾“ [الکھف: 54].
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت میرے اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم (تہجد کی) نماز نہیں پڑھتے۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہماری جانیں تو صرف اللہ کے قبضے میں ہیں، جب وہ چاہتا ہے ہمیں اٹھا دیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے اور مجھے کچھ نہ کہا۔ پھر میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس جاتے ہوئے ہاتھ ران پر مارتے ہوئے (یہ آیت تلاوت) فرما رہے تھے: ”اور آدمی سب سے بڑھ کر جھگڑالو ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: صحيح البخاري، الجمعة، ح: 1127»
حدثنا محمد بن سلام، قال: اخبرنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن ابي رزين، عن ابي هريرة قال: رايته يضرب جبهته بيده ويقول: يا اهل العراق، اتزعمون اني اكذب على رسول الله صلى الله عليه وسلم، ايكون لكم المهنا وعلي الماثم؟ اشهد لسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ”إذا انقطع شسع نعل احدكم، فلا يمشي في نعله الاخرى حتى يصلحه.“حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي رَزِينٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: رَأَيْتُهُ يَضْرِبُ جَبْهَتَهُ بِيَدِهِ وَيَقُولُ: يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ، أَتَزْعُمُونَ أَنِّي أَكْذِبُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيَكُونُ لَكُمُ الْمَهْنَأُ وَعَلَيَّ الْمَأْثَمُ؟ أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ”إِذَا انْقَطَعَ شِسْعُ نَعْلِ أَحَدِكُمْ، فَلاَ يَمْشِي فِي نَعْلِهِ الأُخْرَى حَتَّى يُصْلِحَهُ.“
ابورزین رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا ابوہریره رضی اللہ عنہ کو اپنی پیشانی پر ہاتھ مارتے ہوئے دیکھا، اور وہ فرما رہے تھے۔ اے اہلِ عراق! کیا تم سمجھتے ہو کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتا ہوں؟ کیا تمہارے لیے لذت اور راحت ہو اور مجھ پر گناہ ہو؟ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جب تم میں سے کسی (کے جوتے) کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ دوسرے (ایک) جوتے میں نہ چلے یہاں تک کہ اس کو درست کر لے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: صحيح مسلم، اللباس و الزينة، ح: 2098»
حدثنا ابو معمر، قال: حدثنا عبد الوارث، قال: حدثنا ايوب بن ابي تميمة، عن ابي العالية البراء قال: مر بي عبد الله بن الصامت، فالقيت له كرسيا، فجلس، فقلت له: إن ابن زياد قد اخر الصلاة، فما تامر؟ فضرب فخذي ضربة - احسبه قال: حتى اثر فيها - ثم قال: سالت ابا ذر كما سالتني، فضرب فخذي كما ضربت فخذك، فقال: صل الصلاة لوقتها، فإن ادركت معهم فصل، ولا تقل: قد صليت، فلا اصلي.حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ أَبِي تَمِيمَةَ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ الْبَرَاءِ قَالَ: مَرَّ بِي عَبْدُ اللهِ بْنُ الصَّامِتِ، فَأَلْقَيْتُ لَهُ كُرْسِيًّا، فَجَلَسَ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ ابْنَ زِيَادٍ قَدْ أَخَّرَ الصَّلاَةَ، فَمَا تَأْمُرُ؟ فَضَرَبَ فَخِذِي ضَرْبَةً - أَحْسَبُهُ قَالَ: حَتَّى أَثَّرَ فِيهَا - ثُمَّ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا ذَرٍّ كَمَا سَأَلْتَنِي، فَضَرَبَ فَخِذِي كَمَا ضَرَبْتُ فَخِذَكَ، فَقَالَ: صَلِّ الصَّلاَةَ لِوَقْتِهَا، فَإِنْ أَدْرَكْتَ مَعَهُمْ فَصَلِّ، وَلاَ تَقُلْ: قَدْ صَلَّيْتُ، فَلَا أُصَلِّي.
ابوالعالیہ براء رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میرے پاس سے سیدنا عبداللہ بن صامت رضی اللہ عنہ گزرے تو میں نے ان کے لیے کرسی بچھا دی اور وہ اس پر بیٹھ گئے۔ میں نے ان سے پوچھا: ابن زیاد نماز کو بہت لیٹ کر دیتا ہے، اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے زور سے میری ران پر ہاتھ مارا حتی کہ اس میں نشان پڑ گیا۔ پھر فرمایا: میں نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے یہی پوچھا تھا جو تم نے مجھ سے پوچھا ہے، تو انہوں نے اسی طرح میری ران پر ہاتھ مارا جس طرح میں نے تیری ران پر مارا ہے۔ اور انہوں نے فرمایا: نماز کو بروقت ادا کر لو، پھر اگر ان کے ساتھ نماز پا لو تو بھی پڑھ لو اور یوں نہ کہو: میں تو نماز پڑھ چکا ہوں، لہٰذا نماز نہیں پڑھوں گا۔
تخریج الحدیث: «صحيح: صحيح مسلم، المساجد مواضع الصلاة، ح: 648»
حدثنا ابو اليمان، قال: اخبرنا شعيب، عن الزهري، عن سالم بن عبد الله، ان عبد الله بن عمر اخبره ان عمر بن الخطاب انطلق مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في رهط من اصحابه قبل ابن صياد، حتى وجدوه يلعب مع الغلمان في اطم بني مغالة، وقد قارب ابن صياد يومئذ الحلم، فلم يشعر حتى ضرب النبي صلى الله عليه وسلم ظهره بيده، ثم قال: ”اتشهد اني رسول الله؟“ فنظر إليه فقال: اشهد انك رسول الاميين، قال ابن صياد: فتشهد اني رسول الله؟ فرصه النبي صلى الله عليه وسلم ثم قال: ”آمنت بالله وبرسوله“، ثم قال لابن صياد: ”ماذا ترى؟“ فقال ابن صياد: ياتيني صادق وكاذب، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ”خلط عليك الامر“، قال النبي صلى الله عليه وسلم: ”إني خبات لك خبيئا“، قال: هو الدخ، قال: ”اخسا فلم تعد قدرك“، قال عمر: يا رسول الله، اتاذن لي فيه ان اضرب عنقه؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ”إن يك هو لا تسلط عليه، وإن لم يك هو فلا خير لك في قتله.“ قال سالم: فسمعت عبد الله بن عمر، يقول: انطلق بعد ذلك النبي صلى الله عليه وسلم هو وابي بن كعب الانصاري يوما إلى النخل التي فيها ابن صياد، حتى إذا دخل النبي صلى الله عليه وسلم طفق النبي صلى الله عليه وسلم يتقي بجذوع النخل، وهو يسمع من ابن صياد شيئا قبل ان يراه، وابن صياد مضطجع على فراشه في قطيفة له فيها زمزمة، فرات ام ابن صياد النبي صلى الله عليه وسلم، وهو يتقي بجذوع النخل، فقالت لابن صياد: اي صاف - وهو اسمه - هذا محمد، فتناهى ابن صياد، قال النبي صلى الله عليه وسلم: ”لو تركته لبين“. قال سالم: قال عبد الله: قام النبي صلى الله عليه وسلم في الناس، فاثنى على الله بما هو اهله، ثم ذكر الدجال، فقال: ”إني انذركموه، وما من نبي إلا وقد انذر قومه، لقد انذر نوح قومه، ولكن ساقول لكم فيه قولا لم يقله نبي لقومه: تعلمون انه اعور، وان الله ليس باعور.“حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ انْطَلَقَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ مِنْ أَصْحَابِهِ قِبَلَ ابْنِ صَيَّادٍ، حَتَّى وَجَدُوهُ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ فِي أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ، وَقَدْ قَارَبَ ابْنُ صَيَّادٍ يَوْمَئِذٍ الْحُلُمَ، فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّى ضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظَهْرَهُ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ: ”أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللهِ؟“ فَنَظَرَ إِلَيْهِ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الأُمِّيِّينَ، قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: فَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللهِ؟ فَرَصَّهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ: ”آمَنْتُ بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ“، ثُمَّ قَالَ لِابْنِ صَيَّادٍ: ”مَاذَا تَرَى؟“ فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: يَأْتِينِي صَادِقٌ وَكَاذِبٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”خُلِّطَ عَلَيْكَ الأَمْرُ“، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”إِنِّي خَبَّأْتُ لَكَ خَبِيئًا“، قَالَ: هُوَ الدُّخُّ، قَالَ: ”اخْسَأْ فَلَمْ تَعْدُ قَدْرَكَ“، قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَتَأْذَنُ لِي فِيهِ أَنْ أَضْرِبَ عُنُقَهُ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”إِنْ يَكُ هُوَ لاَ تُسَلَّطُ عَلَيْهِ، وَإِنْ لَمْ يَكُ هُوَ فَلاَ خَيْرَ لَكَ فِي قَتْلِهِ.“ قَالَ سَالِمٌ: فَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: انْطَلَقَ بَعْدَ ذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ الأَنْصَارِيُّ يَوْمًا إِلَى النَّخْلِ الَّتِي فِيهَا ابْنُ صَيَّادٍ، حَتَّى إِذَا دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَفِقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ، وَهُوَ يَسْمَعُ مِنِ ابْنِ صَيَّادٍ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ يَرَاهُ، وَابْنُ صَيَّادٍ مُضْطَجِعٌ عَلَى فِرَاشِهِ فِي قَطِيفَةٍ لَهُ فِيهَا زَمْزَمَةٌ، فَرَأَتْ أُمُّ ابْنِ صَيَّادٍ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ، فَقَالَتْ لابْنِ صَيَّادٍ: أَيْ صَافُ - وَهُوَ اسْمُهُ - هَذَا مُحَمَّدٌ، فَتَنَاهَى ابْنُ صَيَّادٍ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”لَوْ تَرَكَتْهُ لَبَيَّنَ“. قَالَ سَالِمٌ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ ذَكَرَ الدَّجَّالَ، فَقَالَ: ”إِنِّي أُنْذِرُكُمُوهُ، وَمَا مِنْ نَبِيٍّ إِلا وَقَدْ أَنْذَرَ قَوْمَهُ، لَقَدْ أَنْذَرَ نُوحٌ قَوْمَهُ، وَلَكِنْ سَأَقُولُ لَكُمْ فِيهِ قَوْلا لَمْ يَقُلْهُ نَبِيٌّ لِقَوْمِهِ: تَعْلَمُونَ أَنَّهُ أَعْوَرُ، وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِأَعْوَرَ.“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ صحابہ کے ایک گروہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابن صیاد کی طرف گئے، یہاں تک کہ اسے اس حالت میں پایا کہ وہ بنومغالہ کے قلعے کے پاس لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ ابن صیاد ان دنوں بلوغت کے قریب تھا۔ اسے اس وقت پتا چلا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کمر پر تھپکی دی، پھر فرمایا: ”کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟“ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا اور کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ان پڑھوں کے رسول ہیں۔ پھر بولا اور کہا: آپ بھی گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مضبوطی سے دبایا، پھر فرمایا: ”میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا۔“ پھر ابن صیاد سے فرمایا: ”تو کیا دیکھتا ہے؟“ ابن صیاد نے کہا: میرے پاس سچا اور جھوٹا دونوں آتے ہیں۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھ پر معاملہ خلط ملط کر دیا گیا ہے۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: ”میں نے تیرے لیے دل میں ایک چیز چھپا رکھی ہے (بتا وہ کیا ہے؟)“ اس نے کہا: دخ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دور ہو جا، تو اپنی حیثیت سے آگے نہیں بڑھا۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے اس کی گردن اڑانے کی اجازت دیتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر یہ وہ یعنی دجال ہے تو تم اس پر قابو نہیں پا سکتے، اور اگر وہ نہیں ہے تو پھر اس کے قتل میں تمہارے لیے خیر کا کوئی پہلو نہیں۔“ سالم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا: اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود اور سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ایک دن اس باغ کی طرف گئے جس میں ابن صیاد تھا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نخلستان میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے تنوں کی اوٹ لے کر ابن صیاد سے اس کے دیکھنے سے پہلے کچھ سننا چاہتے تھے (کہ وہ کیا گنگنا رہا ہے)، ابن صیاد اپنے بستر پر چادر لپیٹے لیٹا ہوا تھا اور بڑ بڑ کر رہا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے درختوں کی اوٹ میں چھپ کر قریب آ رہے تھے کہ ابن صیاد کی ماں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا، اور ابن صیاد سے کہا: اوئے صاف! (یہ اس کا نام تھا) یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آرہے ہیں۔ تو ابن صیاد خاموش ہو گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ اس کو اس کے حال پر رہنے دیتی تو معاملہ بالکل واضح ہو جاتا۔“ سالم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰٰ کے شایانِ شان اس کی تعریف فرمائی، پھر دجال کا ذکر کر کے فرمایا: ”میں تمہیں اس سے خبردار کرتا ہوں، اور ہر نبی نے اپنی امت کو اس سے ڈرایا ہے۔ حتی کہ نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو اس سے ڈرایا۔ لیکن میں تمہیں اس کے بارے میں ایک ایسی بات بتاتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتائی: تمہیں جان لینا چاہیے کہ وہ کانا ہے، اور الله تعالیٰٰ یک چشم نہیں ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: صحيح البخاري، الجنائز: 1355 و الجهاد، ح: 3056، 3057»
حدثنا موسى، قال: حدثنا وهيب، قال: حدثنا جعفر، عن ابيه، عن جابر قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا كان جنبا، يصب على راسه ثلاث حفنات من ماء قال الحسن بن محمد: ابا عبد الله، إن شعري اكثر من ذاك، قال: وضرب بيده على فخذ الحسن فقال: يا ابن اخي، كان شعر النبي صلى الله عليه وسلم اكثر من شعرك واطيب.حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ جُنُبًا، يَصُبُّ عَلَى رَأْسِهِ ثَلاَثَ حَفَنَاتٍ مِنْ مَاءٍ قَالَ الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ: أَبَا عَبْدِ اللهِ، إِنَّ شَعْرِي أَكْثَرُ مِنْ ذَاكَ، قَالَ: وَضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى فَخِذِ الْحَسَنِ فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، كَانَ شَعْرُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَ مِنْ شَعْرِكَ وَأَطْيَبَ.
سيدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب جنبی ہوتے تو پانی کی تین لپیں اپنے سر پر ڈال لیتے۔ حسن بن محمد ابن حنفیہ نے کہا: ابوعبداللہ! میرے بال اس سے بہت زیادہ ہیں (کہ تین لپ کفایت کریں)۔ راوی کہتے ہیں کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ حسن رحمہ اللہ کی ران پر مار کر فرمایا: میرے بھتیجے! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بال تیرے بالوں سے زیادہ اور پاکیزہ تھے۔
حدثنا موسى، قال: حدثنا ابو عوانة، عن الاعمش، عن ابي سفيان، عن جابر قال: صرع رسول الله صلى الله عليه وسلم من فرس بالمدينة على جذع نخلة، فانفكت قدمه، فكنا نعوده في مشربة لعائشة رضي الله عنها، فاتيناه وهو يصلي قاعدا، فصلينا قياما، ثم اتيناه مرة اخرى وهو يصلي المكتوبة قاعدا، فصلينا خلفه قياما، فاوما إلينا ان اقعدوا، فلما قضى الصلاة قال: ”إذا صلى الإمام قاعدا فصلوا قعودا، وإذا صلى قائما فصلوا قياما، ولا تقوموا والإمام قاعد كما تفعل فارس بعظمائهم.“حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: صُرِعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ فَرَسٍ بِالْمَدِينَةِ عَلَى جِذْعِ نَخْلَةٍ، فَانْفَكَّتْ قَدَمُهُ، فَكُنَّا نَعُودُهُ فِي مَشْرُبَةٍ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَأَتَيْنَاهُ وَهُوَ يُصَلِّي قَاعِدًا، فَصَلَّيْنَا قِيَامًا، ثُمَّ أَتَيْنَاهُ مَرَّةً أُخْرَى وَهُوَ يُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ قَاعِدًا، فَصَلَّيْنَا خَلْفَهُ قِيَامًا، فَأَوْمَأَ إِلَيْنَا أَنِ اقْعُدُوا، فَلَمَّا قَضَى الصَّلاَةَ قَالَ: ”إِذَا صَلَّى الإِمَامُ قَاعِدًا فَصَلُّوا قُعُودًا، وَإِذَا صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا، وَلاَ تَقُومُوا وَالإِمَامُ قَاعِدٌ كَمَا تَفْعَلُ فَارِسُ بِعُظَمَائِهِمْ.“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ طیبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے کھجور کے ایک تنے پر گر گئے، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک کو موچ آگئی۔ ہم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے چوبارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عیادت کرتے تھے، چنانچہ ایک دفعہ ہم آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے۔ ہم نے کھڑے ہو کر نماز پڑھی، پھر ہم دوبارہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز بیٹھ کر پڑھ رہے تھے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوکر نماز پڑھی، تو (دورانِ نماز) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ختم کی تو فرمایا: ”جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو، اور جب وہ کھڑے ہو کر پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو۔ امام بیٹھا ہو تو تم کھڑے مت رہو جس طرح اہلِ فارس اپنے بڑوں کے لیے کرتے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: سنن أبى داؤد، الصلاة، ح: 602 و ابن ماجة، الطب، ح: 3485»
قال: وولد لفلان من الانصار غلام، فسماه محمدا، فقالت الانصار: لا نكنيك برسول الله. حتى قعدنا في الطريق نساله عن الساعة، فقال: ”جئتموني تسالوني عن الساعة؟“ قلنا: نعم، قال: ”ما من نفس منفوسة، ياتي عليها مئة سنة“، قلنا: ولد لفلان من الانصار غلام فسماه محمدا، فقالت الانصار: لا نكنيك برسول الله، قال: ”احسنت الانصار، سموا باسمي، ولا تكتنوا بكنيتي.“قَالَ: وَوُلِدَ لِفُلاَنٍ مِنَ الأَنْصَارِ غُلامٌ، فَسَمَّاهُ مُحَمَّدًا، فَقَالَتِ الأنْصَارُ: لا نُكَنِّيكَ بِرَسُولِ اللهِ. حَتَّى قَعَدْنَا فِي الطَّرِيقِ نَسْأَلُهُ عَنِ السَّاعَةِ، فَقَالَ: ”جِئْتُمُونِي تَسْأَلُونِي عَنِ السَّاعَةِ؟“ قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: ”مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ، يَأْتِي عَلَيْهَا مِئَةُ سَنَةٍ“، قُلْنَا: وُلِدَ لِفُلاَنٍ مِنَ الأَنْصَارِ غُلاَمٌ فَسَمَّاهُ مُحَمَّدًا، فَقَالَتِ الأنْصَارُ: لا نُكَنِّيكَ بِرَسُولِ اللهِ، قَالَ: ”أَحْسَنَتِ الأَنْصَارُ، سَمُّوا بِاسْمِي، ولا تَكْتَنُوا بِكُنْيَتِي.“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ انصار کے کسی آدمی کے ہاں بچہ ہوا تو اس نے اس کا نام محمد رکھا۔ انصار نے کہا: ہم تمہیں اللہ کے رسول کی کنیت سے نہیں پکاریں گے یہاں تک کہ ہم راستہ میں بیٹھ گئے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے متعلق سوال کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم مجھ سے قیامت کے متعلق سوال کرنے کے لیے آئے ہو؟“ ہم نے کہا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی زنده جان ایسی نہیں جو سو سال پورے کرے۔“(مگر اس پر قیامت آجائے گی۔) ہم نے عرض کیا: ایک انصاری کے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے جس کا نام اس نے محمد رکھا ہے، تو انصار نے اسے کہا ہے کہ ہم تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت سے ہرگز نہیں پکاریں گے، (یعنی ابوالقاسم نہیں کہیں گے۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انصار نے اچھا کیا ہے، میرے نام پر نام رکھ لو، مگر میری کنیت پر کنیت نہ رکھو۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: صحيح البخاري، فرض الخمس، ح: 3115»