حدثنا ابو اليمان، قال: اخبرنا شعيب، عن الزهري، عن سالم بن عبد الله، ان عبد الله بن عمر اخبره ان عمر بن الخطاب انطلق مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في رهط من اصحابه قبل ابن صياد، حتى وجدوه يلعب مع الغلمان في اطم بني مغالة، وقد قارب ابن صياد يومئذ الحلم، فلم يشعر حتى ضرب النبي صلى الله عليه وسلم ظهره بيده، ثم قال: ”اتشهد اني رسول الله؟“ فنظر إليه فقال: اشهد انك رسول الاميين، قال ابن صياد: فتشهد اني رسول الله؟ فرصه النبي صلى الله عليه وسلم ثم قال: ”آمنت بالله وبرسوله“، ثم قال لابن صياد: ”ماذا ترى؟“ فقال ابن صياد: ياتيني صادق وكاذب، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ”خلط عليك الامر“، قال النبي صلى الله عليه وسلم: ”إني خبات لك خبيئا“، قال: هو الدخ، قال: ”اخسا فلم تعد قدرك“، قال عمر: يا رسول الله، اتاذن لي فيه ان اضرب عنقه؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ”إن يك هو لا تسلط عليه، وإن لم يك هو فلا خير لك في قتله.“ قال سالم: فسمعت عبد الله بن عمر، يقول: انطلق بعد ذلك النبي صلى الله عليه وسلم هو وابي بن كعب الانصاري يوما إلى النخل التي فيها ابن صياد، حتى إذا دخل النبي صلى الله عليه وسلم طفق النبي صلى الله عليه وسلم يتقي بجذوع النخل، وهو يسمع من ابن صياد شيئا قبل ان يراه، وابن صياد مضطجع على فراشه في قطيفة له فيها زمزمة، فرات ام ابن صياد النبي صلى الله عليه وسلم، وهو يتقي بجذوع النخل، فقالت لابن صياد: اي صاف - وهو اسمه - هذا محمد، فتناهى ابن صياد، قال النبي صلى الله عليه وسلم: ”لو تركته لبين“. قال سالم: قال عبد الله: قام النبي صلى الله عليه وسلم في الناس، فاثنى على الله بما هو اهله، ثم ذكر الدجال، فقال: ”إني انذركموه، وما من نبي إلا وقد انذر قومه، لقد انذر نوح قومه، ولكن ساقول لكم فيه قولا لم يقله نبي لقومه: تعلمون انه اعور، وان الله ليس باعور.“حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ انْطَلَقَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ مِنْ أَصْحَابِهِ قِبَلَ ابْنِ صَيَّادٍ، حَتَّى وَجَدُوهُ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ فِي أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ، وَقَدْ قَارَبَ ابْنُ صَيَّادٍ يَوْمَئِذٍ الْحُلُمَ، فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّى ضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظَهْرَهُ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ: ”أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللهِ؟“ فَنَظَرَ إِلَيْهِ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الأُمِّيِّينَ، قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: فَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللهِ؟ فَرَصَّهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ: ”آمَنْتُ بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ“، ثُمَّ قَالَ لِابْنِ صَيَّادٍ: ”مَاذَا تَرَى؟“ فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: يَأْتِينِي صَادِقٌ وَكَاذِبٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”خُلِّطَ عَلَيْكَ الأَمْرُ“، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”إِنِّي خَبَّأْتُ لَكَ خَبِيئًا“، قَالَ: هُوَ الدُّخُّ، قَالَ: ”اخْسَأْ فَلَمْ تَعْدُ قَدْرَكَ“، قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَتَأْذَنُ لِي فِيهِ أَنْ أَضْرِبَ عُنُقَهُ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”إِنْ يَكُ هُوَ لاَ تُسَلَّطُ عَلَيْهِ، وَإِنْ لَمْ يَكُ هُوَ فَلاَ خَيْرَ لَكَ فِي قَتْلِهِ.“ قَالَ سَالِمٌ: فَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: انْطَلَقَ بَعْدَ ذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ الأَنْصَارِيُّ يَوْمًا إِلَى النَّخْلِ الَّتِي فِيهَا ابْنُ صَيَّادٍ، حَتَّى إِذَا دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَفِقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ، وَهُوَ يَسْمَعُ مِنِ ابْنِ صَيَّادٍ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ يَرَاهُ، وَابْنُ صَيَّادٍ مُضْطَجِعٌ عَلَى فِرَاشِهِ فِي قَطِيفَةٍ لَهُ فِيهَا زَمْزَمَةٌ، فَرَأَتْ أُمُّ ابْنِ صَيَّادٍ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ، فَقَالَتْ لابْنِ صَيَّادٍ: أَيْ صَافُ - وَهُوَ اسْمُهُ - هَذَا مُحَمَّدٌ، فَتَنَاهَى ابْنُ صَيَّادٍ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”لَوْ تَرَكَتْهُ لَبَيَّنَ“. قَالَ سَالِمٌ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ ذَكَرَ الدَّجَّالَ، فَقَالَ: ”إِنِّي أُنْذِرُكُمُوهُ، وَمَا مِنْ نَبِيٍّ إِلا وَقَدْ أَنْذَرَ قَوْمَهُ، لَقَدْ أَنْذَرَ نُوحٌ قَوْمَهُ، وَلَكِنْ سَأَقُولُ لَكُمْ فِيهِ قَوْلا لَمْ يَقُلْهُ نَبِيٌّ لِقَوْمِهِ: تَعْلَمُونَ أَنَّهُ أَعْوَرُ، وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِأَعْوَرَ.“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ صحابہ کے ایک گروہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابن صیاد کی طرف گئے، یہاں تک کہ اسے اس حالت میں پایا کہ وہ بنومغالہ کے قلعے کے پاس لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ ابن صیاد ان دنوں بلوغت کے قریب تھا۔ اسے اس وقت پتا چلا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کمر پر تھپکی دی، پھر فرمایا: ”کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟“ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا اور کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ان پڑھوں کے رسول ہیں۔ پھر بولا اور کہا: آپ بھی گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مضبوطی سے دبایا، پھر فرمایا: ”میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا۔“ پھر ابن صیاد سے فرمایا: ”تو کیا دیکھتا ہے؟“ ابن صیاد نے کہا: میرے پاس سچا اور جھوٹا دونوں آتے ہیں۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھ پر معاملہ خلط ملط کر دیا گیا ہے۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: ”میں نے تیرے لیے دل میں ایک چیز چھپا رکھی ہے (بتا وہ کیا ہے؟)“ اس نے کہا: دخ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دور ہو جا، تو اپنی حیثیت سے آگے نہیں بڑھا۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے اس کی گردن اڑانے کی اجازت دیتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر یہ وہ یعنی دجال ہے تو تم اس پر قابو نہیں پا سکتے، اور اگر وہ نہیں ہے تو پھر اس کے قتل میں تمہارے لیے خیر کا کوئی پہلو نہیں۔“ سالم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا: اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود اور سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ایک دن اس باغ کی طرف گئے جس میں ابن صیاد تھا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نخلستان میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے تنوں کی اوٹ لے کر ابن صیاد سے اس کے دیکھنے سے پہلے کچھ سننا چاہتے تھے (کہ وہ کیا گنگنا رہا ہے)، ابن صیاد اپنے بستر پر چادر لپیٹے لیٹا ہوا تھا اور بڑ بڑ کر رہا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے درختوں کی اوٹ میں چھپ کر قریب آ رہے تھے کہ ابن صیاد کی ماں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا، اور ابن صیاد سے کہا: اوئے صاف! (یہ اس کا نام تھا) یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آرہے ہیں۔ تو ابن صیاد خاموش ہو گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ اس کو اس کے حال پر رہنے دیتی تو معاملہ بالکل واضح ہو جاتا۔“ سالم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰٰ کے شایانِ شان اس کی تعریف فرمائی، پھر دجال کا ذکر کر کے فرمایا: ”میں تمہیں اس سے خبردار کرتا ہوں، اور ہر نبی نے اپنی امت کو اس سے ڈرایا ہے۔ حتی کہ نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو اس سے ڈرایا۔ لیکن میں تمہیں اس کے بارے میں ایک ایسی بات بتاتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتائی: تمہیں جان لینا چاہیے کہ وہ کانا ہے، اور الله تعالیٰٰ یک چشم نہیں ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: صحيح البخاري، الجنائز: 1355 و الجهاد، ح: 3056، 3057»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 958
فوائد ومسائل: (۱)اس روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد کی کمر پر ہاتھ مارا جس سے آپ کا مقصد تکلیف دینا نہیں تھا۔ جب کمر پر مارنا ثابت ہوا تو اس کو ران پر قیاس کرلیا۔ اس سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا۔ (۲) ابن صیاد ایک یہودی لڑکا تھا جو کئی شعبدہ بازیاں کرتا تھا۔ اور شیاطین الٹی سیدھی باتیں اس کی طرف القاء کرتے۔ اس میں کئی چیزیں مسیح دجال کی صفات کے مشابہ تھیں جس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو شک گزرا کہ کہیں یہ وہی دجال ہی نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی معاملے کی تحقیق فرمائی۔ (۳) مسیح دجال کو عیسیٰ علیہ السلام قتل کریں گے اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اگر یہ مسیح دجال ہے تو تم اسے قتل نہیں کرسکو گے اور اگر یہ وہ دجال نہیں تو اس کے قتل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ بعدازاں آپ پر واضح ہوگیا کہ یہ وہ دجال نہیں تو آپ نے صحابہ کو خطاب کرکے اس مسیح دجال کی نشانی بتا دی۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 958