حدثنا يحيى بن بكير، قال: حدثنا يعقوب بن عبد الرحمن، عن ابي حازم، قال: سمعت سهل بن سعد، ان ابا اسيد الساعدي، دعا النبي صلى الله عليه وسلم في عرسه، وكانت امراته خادمهم يومئذ، وهي العروس، فقالت: او قال: اتدرون ما انقعت لرسول الله صلى الله عليه وسلم؟ انقعت له تمرات من الليل في تور.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ، أَنَّ أَبَا أُسَيْدٍ السَّاعِدِيَّ، دَعَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عُرْسِهِ، وَكَانَتِ امْرَأَتُهُ خَادِمَهُمْ يَوْمَئِذٍ، وَهِيَ الْعَرُوسُ، فَقَالَتْ: أَوْ قَالَ: أَتَدْرُونَ مَا أَنْقَعْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ أَنْقَعْتُ لَهُ تَمَرَاتٍ مِنَ اللَّيْلِ فِي تَوْرٍ.
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابواسید ساعدی رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ولیمے پر بلایا۔ اس دن ان کی خدمت ان کی بیوی ہی نے کی جبکہ وہ دلہن تھی۔ اس نے کہا: تمہیں معلوم ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کیا بھگو رکھا تھا؟ میں نے رات کو ایک برتن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھجوریں بھگو رکھی تھیں۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب النكاح: 5183 و مسلم: 2006 و ابن ماجه: 1912»
حدثنا ابو معمر، قال: حدثنا عبد الوارث، قال: حدثني الجريري، قال: حدثنا ابو العلاء بن عبد الله، عن نعيم بن قعنب، قال: اتيت ابا ذر، فلم اوافقه، فقلت لامراته: اين ابو ذر؟ قالت: يمتهن، سياتيك الآن، فجلست له، فجاء ومعه بعيران، قد قطر احدهما بعجز الآخر، في عنق كل واحد منهما قربة، فوضعهما ثم جاء، فقلت: يا ابا ذر، ما من رجل كنت القاه كان احب إلي لقيا منك، ولا ابغض إلي لقيا منك، قال: لله ابوك، وما جمع هذا؟ قال: إني كنت وادت موءدة في الجاهلية ارهب إن لقيتك، ان تقول: لا توبة لك، لا مخرج لك، وكنت ارجو ان تقول: لك توبة ومخرج، قال: افي الجاهلية اصبت؟ قلت: نعم، قال: عفا الله عما سلف، وقال لامراته: آتينا بطعام، فابت، ثم امرها فابت، حتى ارتفعت اصواتهما، قال: إيه، فإنكن لا تعدون ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت: وما قال رسول الله فيهن؟ قال: ”إن المراة خلقت من ضلع، وإنك إن ترد ان تقيمها تكسرها، وإن تداريها فإن فيها اودا وبلغة“، فولت، فجاءت بثريدة كانها قطاة، فقال: كل ولا اهولنك فإني صائم، ثم قام يصلي، فجعل يهذب الركوع، ثم انفتل فاكل، فقلت: إنا لله، ما كنت اخاف ان تكذبني، قال: لله ابوك، ما كذبت منذ لقيتني، قلت: الم تخبرني انك صائم؟ قال: بلى، إني صمت من هذا الشهر ثلاثة ايام فكتب لي اجره، وحل لي الطعام.حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْجُرَيْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْعَلاءِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ قَعْنَبٍ، قَالَ: أَتَيْتُ أَبَا ذَرٍّ، فَلَمْ أُوَافِقْهُ، فَقُلْتُ لامْرَأَتِهِ: أَيْنَ أَبُو ذَرٍّ؟ قَالَتْ: يَمْتَهِنُ، سَيَأْتِيكَ الآنَ، فَجَلَسْتُ لَهُ، فَجَاءَ وَمَعَهُ بَعِيرَانِ، قَدْ قَطَرَ أَحَدَهُمَا بِعَجُزِ الآخَرِ، فِي عُنُقِ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا قِرْبَةٌ، فَوَضَعَهُمَا ثُمَّ جَاءَ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا ذَرٍّ، مَا مِنْ رَجُلٍ كُنْتُ أَلْقَاهُ كَانَ أَحَبَّ إِلَيَّ لُقْيًا مِنْكَ، وَلا أَبْغَضَ إِلَيَّ لُقْيًا مِنْكَ، قَالَ: لِلَّهِ أَبُوكَ، وَمَا جَمَعَ هَذَا؟ قَالَ: إِنِّي كُنْت وَأَدْتُ مَوْءُدَةً فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَرْهَبُ إِنْ لَقِيتُكَ، أَنْ تَقُولَ: لا تَوْبَةَ لَكَ، لا مَخْرَجَ لَكَ، وَكُنْتُ أَرْجُو أَنْ تَقُولَ: لَكَ تَوْبَةٌ وَمَخْرَجٌ، قَالَ: أَفِي الْجَاهِلِيَّةِ أَصَبْتَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: عَفَا اللَّهُ عَمَّا سَلَفَ، وَقَالَ لامْرَأَتِهِ: آتِينَا بِطَعَامٍ، فَأَبَتَ، ثُمَّ أَمَرَهَا فَأَبَتَ، حَتَّى ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا، قَالَ: إِيهِ، فَإِنَّكُنّ لا تَعْدُونَ مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: وَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ فِيهِنَّ؟ قَالَ: ”إِنَّ الْمَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ، وَإِنَّكَ إِنْ تُرِدْ أَنْ تُقِيمَهَا تَكْسِرُهَا، وَإِنْ تُدَارِيْهَا فَإِنَّ فِيهَا أَوَدًا وَبُلْغَةً“، فَوَلَّتْ، فَجَاءَتْ بِثَرِيدَةٍ كَأَنَّهَا قَطَاةٌ، فَقَالَ: كُلْ وَلا أَهُولَنَّكَ فَإِنِّي صَائِمٌ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي، فَجَعَلَ يُهَذِّبُ الرُّكُوعَ، ثُمَّ انْفَتَلَ فَأَكَلَ، فَقُلْتُ: إِنَّا لِلَّهِ، مَا كُنْتُ أَخَافُ أَنْ تَكْذِبَنِي، قَالَ: لِلَّهِ أَبُوكَ، مَا كَذَبْتُ مُنْذُ لَقِيتَنِي، قُلْتُ: أَلَمْ تُخْبِرْنِي أَنَّكَ صَائِمٌ؟ قَالَ: بَلَى، إِنِّي صُمْتُ مِنْ هَذَا الشَّهْرِ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ فَكُتِبَ لِي أَجْرُهُ، وَحَلَّ لِيَ الطَّعَامُ.
نعیم بن قعنب رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے ملنے گیا لیکن وہ گھر پر نہ ملے۔ میں نے ان کی بیوی سے پوچھا: ابوذر کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا: وہ گھر کے کام کاج میں مشغول ہیں، ابھی آپ کے پاس آتے ہیں۔ میں ان کے انتظار میں بیٹھ گیا، چنانچہ وہ آئے تو ان کے پاس دو اونٹ تھے۔ ان میں سے ایک کو دوسرے کے پیچھے باندھا ہوا تھا اور ان میں سے ہر ایک کی گردن میں مشکیزہ تھا۔ انہوں نے وہ مشکیزے اتارے، پھر تشریف لائے تو میں نے کہا: اے ابوذر! کوئی آدمی مجھے آپ سے زیادہ محبوب نہیں جس سے میں ملاقات کروں، اور کوئی آدمی مجھے آپ سے زیادہ مبغوض نہیں جس سے میں ملاقات کروں۔ انہوں نے فرمایا: اللہ تیرا بھلا کرے، یہ دونوں باتیں ایک ساتھ کیسے جمع ہوسکتی ہیں؟ وہ کہتے ہیں (میں نے کہا): میں نے زمانۂ جاہلیت میں ایک بچی کو زندہ درگور کیا تھا۔ میں ڈر رہا تھا کہ آپ سے ملوں گا تو آپ فرما دیں گے کہ تیری توبہ قبول نہیں۔ اور گناہ سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ اور مجھے یہ بھی امید تھی کہ آپ کہیں گے کہ تمہاری توبہ قبول ہے اور گناہ سے نکلنے کا راستہ بھی ہے۔ انہوں نے فرمایا: کیا تم نے زمانۂ جاہلیت میں یہ گناہ کیا تھا؟ میں نے کہا: ہاں! انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے پہلے گناہوں کو معاف کر دیا ہے۔ پھر اپنی بیوی سے فرمایا: ہمارے لیے کھانا لاؤ تو اس نے انکار کر دیا۔ پھر حکم دیا تو اس نے پھر انکار کر دیا یہاں تک کہ تکرار میں دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بس تم اس سے آگے نہیں بڑھ سکتی ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ میں نے عرض کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں کیا فرمایا ہے؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا ہوئی ہے۔ اگر تم اس کو سیدھا کرنے کا ارادہ کرو گے تو توڑ بیٹھو گے۔ اور اگر تو اس کے ٹیڑھے پن کے ساتھ اس سے روا داری کرے گا تو اس طرح گزارہ ہوسکتا ہے۔“ پھر وہ خاتون چلی گئی اور (جلدی سے) ثرید لے آئی، گویا وہ (تیزی میں) کبوتری ہو۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کھاؤ اور میرا شامل نہ ہونا تجھے پریشان نہ کرے کیونکہ میں روزے سے ہوں۔ پھر اٹھ کر نماز پڑھنے لگے اور جلدی جلدی رکوع کیے۔ پھر نماز ختم کر کے میرے ساتھ کھانے میں شامل ہو گئے۔ میں نے کہا: انا لله وانا الیہ راجعون۔ مجھے آپ سے توقع نہیں تھی کہ آپ مجھ سے جھوٹ بولیں گے۔ انہوں نے فرمایا: الله تیرا بھلا کرے، میری جب سے تم سے ملاقات ہوئی ہے، میں نے تم سے جھوٹ نہیں بولا۔ میں نے کہا: آپ نے مجھے بتایا نہیں تھا کہ آپ روزے سے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! میں نے اس مہینے میں تین دن کے روزے رکھے ہیں اور میرے لیے اس کا اجر لکھ دیا گیا اور میرے لیے کھانا حلال ہوگیا۔
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه أحمد: 21339 و عبدالرزاق: 7878 و الطبري فى تهذيب الآثار: 340/1 - انظر تخريج الترغيب: 73/3»
حدثنا حجاج، قال: حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن ابي اسماء، عن ثوبان، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ”إن من افضل دينار انفقه الرجل على عياله، ودينار انفقه على اصحابه في سبيل الله، ودينار انفقه على دابته في سبيل الله“، قال ابو قلابة: وبدا بالعيال، ”واي رجل اعظم اجرا من رجل ينفق على عيال صغار حتى يغنيهم الله عز وجل؟“حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ، عَنْ ثَوْبَانَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ دِينَارٍ أَنْفَقَهُ الرَّجُلُ عَلَى عِيَالِهِ، وَدِينَارٌ أَنْفَقَهُ عَلَى أَصْحَابِهِ فِي سَبِيلِ اللهِ، وَدِينَارٌ أَنْفَقَهُ عَلَى دَابَّتِهِ فِي سَبِيلِ اللهِ“، قَالَ أَبُو قِلابَةَ: وَبَدَأَ بِالْعِيَالِ، ”وَأَيُّ رَجُلٍ أَعْظَمُ أَجْرًا مِنْ رَجُلٍ يُنْفِقُ عَلَى عِيَالٍ صِغَارٍ حَتَّى يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ؟“
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”يقيناً سب سے افضل دینار وہ ہے جو آدمی اپنے اہل و عیال پرخرچ کرے، اور وہ دینار جو اللہ کے راستے میں اپنے ساتھیوں پر خرچ کرے، اور وہ دینار جو اپنی سواری پر اللہ کی راہ میں خرچ کرے ......۔“ ابوقلابہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عیال سے ابتدا کی ...... ”اور اس شخص سے بڑے اجر والا کون ہے جو اپنے چھوٹے بچوں پر خرچ کرتا ہے حتی کہ الله تعالیٰ انہیں بے نیاز کردے؟“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب الزكاة، باب فضل النفقة على المملوك: 994 و الترمذي: 1966 و ابن ماجه: 2760»
حدثنا حجاج، قال: حدثنا شعبة قال: اخبرني عدي بن ثابت قال: سمعت عبد الله بن يزيد يحدث، عن ابي مسعود البدري، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ”من انفق نفقة على اهله، وهو يحتسبها، كانت له صدقة.“حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ يَزِيدَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْبَدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ”مَنْ أَنْفَقَ نَفَقَةً عَلَى أَهْلِهِ، وَهُوَ يَحْتَسِبُهَا، كَانَتْ لَهُ صَدَقَةً.“
سیدنا ابومسعود بدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اپنے گھر والوں پر خرچ کیا جبکہ وہ نیکی اور ثواب کی امید رکھتا ہو تو وہ اس کے لیے صدقہ ہوگا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الإيمان: 55، 4006، 5351 و مسلم: 1002 و الترمذي: 1965 و النسائي: 2545»
حدثنا هشام بن عمار، قال: حدثنا الوليد، قال: حدثنا ابو رافع إسماعيل بن رافع، قال: حدثنا محمد بن المنكدر، عن جابر قال: قال رجل: يا رسول الله، عندي دينار؟ قال: ”انفقه على نفسك“، قال: عندي آخر، فقال: ”انفقه على خادمك“، او قال: ”على ولدك“، قال: عندي آخر، قال: ”ضعه في سبيل الله، وهو اخسها.“حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو رَافِعٍ إِسْمَاعِيلُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ، عِنْدِي دِينَارٌ؟ قَالَ: ”أَنْفِقْهُ عَلَى نَفْسِكَ“، قَالَ: عِنْدِي آخَرُ، فَقَالَ: ”أَنْفِقْهُ عَلَى خَادِمِكَ“، أَوْ قَالَ: ”عَلَى وَلَدِكَ“، قَالَ: عِنْدِي آخَرُ، قَالَ: ”ضَعْهُ فِي سَبِيلِ اللهِ، وَهُوَ أَخَسُّهَا.“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے پاس ایک دینار ہو تو کہاں خرچ کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی ذات پر خرچ کرو۔“ اس نے کہا: اگر میرے پاس ایک اور ہو تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے خادم پر خرچ کرو“ یا فرمایا: ”اپنی اولاد پرخرچ کرو۔“ اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہو تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرو، اس میں پہلی دو باتوں کی نسبت ثواب کم ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح لغيره دون قوله (ضعه......)»
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره دون قوله (ضعه ......)
حدثنا محمد بن يوسف، قال: حدثنا سفيان، عن مزاحم بن زفر، عن مجاهد، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ”اربعة دنانير: دينارا اعطيته مسكينا، ودينارا اعطيته في رقبة، ودينارا انفقته في سبيل الله، ودينارا انفقته على اهلك، افضلها الذي انفقته على اهلك.“حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُزَاحِمِ بْنِ زُفَرَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ”أَرْبَعَةُ دَنَانِيرَ: دِينَارًا أَعْطَيْتَهُ مِسْكِينًا، وَدِينَارًا أَعْطَيْتَهُ فِي رَقَبَةٍ، وَدِينَارًا أَنْفَقْتَهُ فِي سَبِيلِ اللهِ، وَدِينَارًا أَنْفَقْتَهُ عَلَى أَهْلِكَ، أَفْضَلُهَا الَّذِي أَنْفَقْتَهُ عَلَى أَهْلِكَ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چار دینار ہیں، ایک دینار وہ ہے جو تم کسی مسکین کو دو، دوسرا وہ جو تم غلام آزاد کرانے میں خرچ کرو، تیسرا وہ دینار جو تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو، اور چوتھا وہ جو تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو، ان میں سے افضل وہ ہے جو تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب الزكاة: 995 و النسائي فى الكبرىٰ: 9139»
حدثنا ابو اليمان، قال: حدثنا شعيب، عن الزهري قال: حدثني عامر بن سعد، عن سعد بن ابي وقاص انه اخبره، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال لسعد: ”إنك لن تنفق نفقة تبتغي بها وجه الله عز وجل إلا اجرت بها، حتى ما تجعل في فم امراتك.“حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِسَعْدٍ: ”إِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ إِلاَّ أُجِرْتَ بِهَا، حَتَّى مَا تَجْعَلُ فِي فَمِ امْرَأَتِكَ.“
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”تم اللہ عز و جل کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے جو بھی خرچ کرو گے اس کا تمہیں ضرور اجر ملے گا، یہاں تک کہ جو لقمہ تو اپنی بیوی کے منہ میں دے گا اس پر بھی اجر ملے گا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الإيمان: 56، 1295 و مسلم: 1628 و أبوداؤد: 2864 و الترمذي: 2116 و النسائي: 3626 و ابن ماجه: 2708»
حدثنا إسماعيل قال: حدثني مالك، عن ابن شهاب، عن ابي عبد الله الاغر، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”ينزل ربنا تبارك وتعالى في كل ليلة إلى السماء الدنيا، حين يبقى ثلث الليل الآخر، فيقول: من يدعوني فاستجيب له؟ من يسالني فاعطيه؟ من يستغفرني فاغفر له؟“حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللهِ الأَغَرِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي كُلِّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخَرُ، فَيَقُولُ: مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ؟ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ؟ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ؟“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارا رب تبارک وتعالیٰ ہر رات کے دو تہائی وقت گزر جانے کے بعد آسمانِ دنیا پر تشریف لاتا ہے اور اعلان فرماتا ہے: ”کون ہے جو مجھ سے دعا کرے تو میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون ہے مجھ سے مانگنے والا کہ میں اسے عطا کروں؟ اور کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے کہ میں اسے بخش دوں؟“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب التوحيد: 7494، 1145 و مسلم: 758 و أبوداؤد: 1315 و النسائي فى الكبرىٰ: 7720 و الترمذي: 3498 و ابن ماجه: 1366»