حدثنا إسحاق بن العلاء، قال: حدثنا عمرو بن الحارث، قال: حدثنا عبد الله بن سالم، عن محمد الزبيدي، قال: حدثنا سليمان بن عامر، ان غطيف بن الحارث اخبره، ان رجلا اتى ابا عبيدة بن الجراح، وهو وجع، فقال: كيف امسى اجر الامير؟ فقال: هل تدرون فيما تؤجرون به؟ فقال: بما يصيبنا فيما نكره، فقال: إنما تؤجرون بما انفقتم في سبيل الله، واستنفق لكم، ثم عد اداة الرحل كلها حتى بلغ عذار البرذون، ولكن هذا الوصب الذي يصيبكم في اجسادكم يكفر الله به من خطاياكم.حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ الْعَلاءِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَالِمٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ الزُّبَيْدِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمان بْنُ عَامِرٍ، أَنَّ غُطَيْفَ بْنَ الْحَارِثِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَجُلا أَتَى أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ، وَهُوَ وَجِعٌ، فَقَالَ: كَيْفَ أَمْسَى أَجْرُ الأَمِيرِ؟ فَقَالَ: هَلْ تَدْرُونَ فِيمَا تُؤْجَرُونَ بِهِ؟ فَقَالَ: بِمَا يُصِيبُنَا فِيمَا نَكْرَهُ، فَقَالَ: إِنَّمَا تُؤْجَرُونَ بِمَا أَنْفَقْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَاسْتُنْفِقَ لَكُمْ، ثُمَّ عَدَّ أَدَاةَ الرَّحْلِ كُلَّهَا حَتَّى بَلَغَ عِذَارَ الْبِرْذَوْنِ، وَلَكِنَّ هَذَا الْوَصَبَ الَّذِي يُصِيبُكُمْ فِي أَجْسَادِكُمْ يُكَفِّرُ اللَّهُ بِهِ مِنْ خَطَايَاكُمْ.
حضرت غطيف بن حارث رحمہ اللہ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ ایک آدمی سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی بیماری میں آیا اور کہا: امیر کا اجر و ثواب کس درجے میں ہے؟ انہوں نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ کن چیزوں میں تمہیں اجر دیا جاتا ہے؟ اس آدمی نے کہا: جو ہمیں ناگوار چیزیں پہنچتی ہیں ان پر اجر ملتا ہے۔ سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے اور جو تم پر خرچ کیا جاتا ہے اس پر اجر ملتا ہے۔ پھر انہوں نے کجاوے کا سارا سامان شمار کیا حتی کہ گھوڑے کی لگام بھی گنی (کہ اس میں بھی اجر ہے) لیکن یہ تکلیف جو تمہیں تمہارے جسموں میں پہنچتی ہے اس سے اللہ تعالیٰ تمہاری خطاؤں کو مٹا دیتا ہے۔
حدثنا عبد الله بن محمد، قال: حدثنا عبد الملك بن عمرو، قال: حدثنا زهير بن محمد، عن محمد بن عمرو بن حلحلة، عن عطاء بن يسار، عن ابي سعيد الخدري، وابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ”ما يصيب المسلم من نصب، ولا وصب، ولاهم، ولا حزن، ولا اذى، ولا غم، حتى الشوكة يشاكها، إلا كفر الله بها من خطاياه.“حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ”مَا يُصِيبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ، وَلا وَصَبٍ، وَلاهَمٍّ، وَلا حَزَنٍ، وَلا أَذًى، وَلا غَمٍّ، حَتَّى الشَّوْكَةُ يُشَاكُهَا، إِلا كَفَّرَ اللَّهُ بِهَا مِنْ خَطَايَاهُ.“
سیدنا ابوسعید خدری اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کو جو بھی دکھ، گھٹن، حزن، ملال اور تکلیف و غم پہنچتا ہے یہاں تک کہ اگر کانٹا ہی لگ جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں ضرور اس کی خطائیں معاف فرماتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب المرضى، باب ماجاء فى كفارة المرض: 5641 و مسلم: 2573 و الترمذي: 966»
حدثنا موسىٰ، قال: حدثنا ابوعوانة، عن عبد الملك بن عمير، عن عبد الرحمن بن سعيد، عن ابيه، قال: كنت مع سلمان، وعاد مريضا في كندة، فلما دخل عليه، قال: ابشر، فإن مرض المؤمن يجعله الله له كفارة ومستعتبا، وإن مرض الفاجر كالبعير عقله اهله، ثم ارسلوه، فلا يدري لم عقل ولم ارسل.حَدَّثَنَا مُوسَىٰ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُوعَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ سَلْمَانَ، وَعَادَ مَرِيضًا فِي كِنْدَةَ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ، قَالَ: أَبْشِرْ، فَإِنَّ مَرَضَ الْمُؤْمِنِ يَجْعَلُهُ اللَّهُ لَهُ كَفَّارَةً وَمُسْتَعْتَبًا، وَإِنَّ مَرَضَ الْفَاجِرِ كَالْبَعِيرِ عَقَلَهُ أَهْلُهُ، ثُمَّ أَرْسَلُوهُ، فَلَا يَدْرِي لِمَ عُقِلَ وَلِمَ أُرْسِلَ.
حضرت عبدالرحمٰن بن سعید اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا۔ انہوں نے کندہ میں ایک مریض کی تیمار داری کی۔ جب وہ مریض کے پاس آئے تو انہوں نے اس سے کہا: خوش ہو جاؤ، بلاشبہ مومن کی بیماری کو الله تعالیٰ اس کے لیے گناہوں کا کفارہ اور رضا الٰہی کے حصول کا ذریعہ بنا دیتا ہے۔ اور فاسق، فاجر آدمی کی بیماری ایسے اونٹ کی طرح ہے جس کو اس کے گھر والوں نے باندھ دیا ہو، پھر اس کو چھوڑ دیا۔ اسے معلوم ہی نہیں کہ اسے کیوں باندھا گیا اور کیوں چھوڑا گیا۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه هناد فى الزهد: 414 و ابن أبى شيبة: 10813 و البيهقي فى الشعب: 311/12، جزء من حديث طويل رواه أبوداؤد فى كتاب الجنائز: 3089»
حدثنا موسى، قال: حدثنا حماد، قال: اخبرنا عدي بن عدي، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:”لا يزال البلاء بالمؤمن والمؤمنة، في جسده واهله وماله، حتى يلقى الله عز و جل وما عليه خطيئة.“ حدثنا محمد بن عبيد، قال: حدثنا عمر بن طلحة، عن محمد بن عمرو مثله، وزاد: ”في ولده.“حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَدِيُّ بْنُ عَدِيٍّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:”لَا يَزَالُ الْبَلاءُ بِالْمُؤْمِنِ وَالْمُؤْمِنَةِ، فِي جَسَدِهِ وَأَهْلِهِ وَمَالِهِ، حَتَّى يَلْقَى اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ وَمَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ.“ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ طَلْحَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو مِثْلَهُ، وَزَادَ: ”فِي وَلَدِهِ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن مرد اور مومن عورت کو تکلیف پہنچتی رہتی ہے، اس کے جسم میں، اس کے اہل و عیال میں اور مال میں یہاں تک کہ وہ الله تعالیٰ سے ملتا ہے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔“ ایک روایت میں اہل و عیال کے ساتھ اولاد کا ذکر بھی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الزهد، باب ماجاء فى الصبر على البلاء: 2399 - انظر الصحيحة: 2280»
حدثنا احمد بن يونس، قال: حدثنا ابوبكر، عن محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: جاء اعرابي، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ”هل اخذتك ام ملدم؟“ قال: وما ام ملدم؟ قال: ”حر بين الجلد واللحم“، قال: لا، قال: ”فهل صدعت؟“ قال: وما الصداع؟ قال: ”ريح تعترض في الراس، تضرب العروق“، قال: لا، قال: فلما قام، قال: ”من سره ان ينظر إلى رجل من اهل النار“، اي: فلينظره.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابوبَكْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”هَلْ أَخَذَتْكَ أُمُّ مِلْدَمٍ؟“ قَالَ: وَمَا أُمُّ مِلْدَمٍ؟ قَالَ: ”حَرٌّ بَيْنَ الْجِلْدِ وَاللَّحْمِ“، قَالَ: لَا، قَالَ: ”فَهَلْ صُدِعْتَ؟“ قَالَ: وَمَا الصُّدَاعُ؟ قَالَ: ”رِيحٌ تَعْتَرِضُ فِي الرَّأْسِ، تَضْرِبُ الْعُرُوقَ“، قَالَ: لَا، قَالَ: فَلَمَّا قَامَ، قَالَ: ”مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ النَّارِ“، أَيْ: فَلْيَنْظُرْهُ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک (صحت مند) دیہاتی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”کیا تمہیں کبھی بخار ہوا ہے؟“ اس نے پوچھا: بخار کیا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جلد اور گوشت کے درمیان حرارت پیدا ہو جانا ہے۔“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہیں کبھی سر درد ہوا ہے؟“ اس نے کہا: سر درد کیا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک ہوا ہے جو سر میں گھس جاتی ہے اور رگوں پر ضرب لگاتی ہے۔“ اس نے کہا: نہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ جب وہ اٹھ کر چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کسی دوزخی کو دیکھنا پسند کرے وہ اسے دیکھ لے۔“
تخریج الحدیث: «حسن صحيح: أخرجه أحمد: 8395 و هناد فى الزهد: 426 و النسائي فى الكبرىٰ: 7449 و ابن حبان: 2916 و البيهقي فى الشعب: 301/12 - انظر التعليقات الحسان: 2905»
حدثنا عمران بن ميسرة، قال: حدثنا ابن فضيل، قال: حدثنا حصين، عن شقيق بن سلمة، عن خالد بن الربيع، قال: لما ثقل حذيفة، سمع بذلك رهطه والانصار، فاتوه في جوف الليل او عند الصبح، قال: اي ساعة هذه؟ قلنا: جوف الليل او عند الصبح، قال: اعوذ بالله من صباح النار، قال: جئتم بما اكفن به؟ قلنا: نعم، قال: لا تغالوا بالاكفان، فإنه إن يكن لي عند الله خير بدلت به خيرا منه، وإن كانت الاخرى سلبت سلبا سريعا، قال ابن إدريس: اتيناه في بعض الليل.حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مَيْسَرَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ الرَّبِيعِ، قَالَ: لَمَّا ثَقُلَ حُذَيْفَةُ، سَمِعَ بِذَلِكَ رَهْطُهُ وَالأَنْصَارُ، فَأَتَوْهُ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ أَوْ عِنْدَ الصُّبْحِ، قَالَ: أَيُّ سَاعَةٍ هَذِهِ؟ قُلْنَا: جَوْفُ اللَّيْلِ أَوْ عِنْدَ الصُّبْحِ، قَالَ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ صَبَاحِ النَّارِ، قَالَ: جِئْتُمْ بِمَا أُكَفَّنُ بِهِ؟ قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: لا تُغَالُوا بِالأَكْفَانِ، فَإِنَّهُ إِنْ يَكُنْ لِي عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ بُدِّلْتُ بِهِ خَيْرًا مِنْهُ، وَإِنْ كَانَتِ الأُخْرَى سُلِبْتُ سَلْبًا سَرِيعًا، قَالَ ابْنُ إِدْرِيسَ: أَتَيْنَاهُ فِي بَعْضِ اللَّيْلِ.
حضرت خالد بن ربیع کہتے ہیں کہ جب سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو اس کی خبر ان کے احباب اور انصار کو پہنچی تو وہ آدھی رات یا سحری کے قریب ان کی تیمارداری کے لیے آئے۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یہ کون سا وقت ہے؟ ہم نے کہا: آدھی رات یا سحری کا وقت ہے۔ انہوں نے کہا: میں ایسی صبح سے اللہ کی پناہ مانگتا جس میں دوزخ میں داخلہ ہو۔ پھر فرمایا: تم میرے لیے کفن لائے ہو؟ ہم نے کہا: ہاں! انہوں نے فرمایا: میرا کفن زیادہ قیمتی کپڑے کا نہ بنانا کیونکہ اگر میرے لیے اللہ کے ہاں خیر ہے تو اس سے بہتر بدل دیا جائے گا اور اگر کوئی دوسرا معاملہ ہوا تو یہ بھی بہت جلد مجھ سے چھین لیا جائے گا۔ ابن ادریس کی روایت میں ہے کہ ہم رات کے کسی حصے میں ان کے پاس آئے۔
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه ابن أبى شيبة: 34803 و عبدالرزاق: 6211 و الطبراني فى الكبير: 163/3 و أبونعيم فى الحلية: 282/1 و الحاكم: 429/3»
حدثنا إبراهيم بن المنذر، قال: حدثنا عيسى بن المغيرة، عن ابن ابي ذئب، عن جبير بن ابي صالح، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ”إذا اشتكى المؤمن، اخلصه الله كما يخلص الكير خبث الحديد.“حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ”إِذَا اشْتَكَى الْمُؤْمِنُ، أَخْلَصَهُ اللَّهُ كَمَا يُخَلِّصُ الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ.“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مومن بیمار ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے گناہ سے اس طرح صاف کر دیتا ہے جیسے بھٹی لوہے کا میل کچیل صاف کر دیتی ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن أبى الدنيا فى المرض و الكفارات: 90 و عبد بن حميد: 1487 و ابن حبان: 2936 و الطبراني فى الأوسط: 4123 - انظر الصحيحة: 1257»
حدثنا بشر، قال: حدثنا عبد الله، قال: اخبرنا يونس، عن الزهري، قال: حدثني عروة، عن عائشة رضي الله عنها، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ”ما من مسلم يصاب بمصيبة وجع او مرض، إلا كان كفارة ذنوبه، حتى الشوكة يشاكها، او النكبة.“حَدَّثَنَا بِشْرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ”مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُصَابُ بِمُصِيبَةٍ وَجَعٍ أَوْ مَرَضٍ، إِلا كَانَ كَفَّارَةَ ذُنُوبِهِ، حَتَّى الشَّوْكَةُ يُشَاكُهَا، أَوِ النَّكْبَةُ.“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کو جو بھی مصیبت درد یا مرض کی صورت میں پہنچتی ہے، وہ ضرور اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے، یہاں تک کہ کوئی کانٹا یا معمولی سی چوٹ لگ جائے تو اس سے بھی گناه معاف ہو جاتے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب المرضي، باب ماجاء فى كفارة المرض: 5640 و مسلم: 2572»
حدثنا المكي، قال: حدثنا الجعيد بن عبد الرحمن، عن عائشة بنت سعد، ان اباها، قال: اشتكيت بمكة شكوى شديدة، فجاء النبي صلى الله عليه وسلم يعودني، فقلت: يا رسول الله، إني اترك مالا، وإني لم اترك إلا ابنة واحدة، افاوصي بثلثي مالي، واترك الثلث؟ قال: ”لا“، قال: اوصي النصف، واترك لها النصف؟ قال: ”لا“، قال: فاوصي بالثلث، واترك لها الثلثين؟ قال: ”الثلث، والثلث كثير“، ثم وضع يده على جبهتي، ثم مسح وجهي وبطني، ثم قال: ”اللٰهم اشف سعدا، واتم له هجرته“، فما زلت اجد برد يده على كبدي فيما يخال إلي حتى الساعة.حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْجُعَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدٍ، أَنَّ أَبَاهَا، قَالَ: اشْتَكَيْتُ بِمَكَّةَ شَكْوَى شَدِيدَةً، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَتْرُكُ مَالا، وَإِنِّي لَمْ أَتْرُكْ إِلا ابْنَةً وَاحِدَةً، أَفَأُوصِي بِثُلُثَيْ مَالِي، وَأَتْرُكُ الثُّلُثَ؟ قَالَ: ”لَا“، قَالَ: أُوصِي النِّصْفَ، وَأَتْرُكُ لَهَا النِّصْفَ؟ قَالَ: ”لَا“، قَالَ: فَأَوْصِي بِالثُّلُثِ، وَأَتْرُكُ لَهَا الثُّلُثَيْنِ؟ قَالَ: ”الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ“، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ عَلَى جَبْهَتِي، ثُمَّ مَسَحَ وَجْهِي وَبَطْنِي، ثُمَّ قَالَ: ”اللّٰهُمَّ اشْفِ سَعْدًا، وَأَتِمَّ لَهُ هِجْرَتَهُ“، فَمَا زِلْتُ أَجِدُ بَرْدَ يَدِهِ عَلَى كَبِدِي فِيمَا يَخَالُ إِلَيَّ حَتَّى السَّاعَةِ.
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں مکہ مکرمہ میں شدید بیمار ہو گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری تیمارداری کے لیے تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں کافی زیادہ مال چھوڑ کر جا رہا ہوں، جبکہ میری وارث صرف ایک بیٹی ہے۔ کیا میں دو تہائی مال کی اللہ کی راہ میں وصیت کر دوں، اور ایک تہائی اس کے لیے چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ اس نے کہا: آدھے مال کی وصیت کر دوں اور آدھا بیٹی کے لیے چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“، میں نے عرض کیا: تیسرے حصے کی وصیت کر دوں اور دو حصے اس کے لیے چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیسرے حصے کی وصیت کر لو، ویسے تیسرا بھی زیادہ ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میری پیشانی پر رکھا۔ چہرے اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا، پھر فرمایا: ”اے الله! سعد کو شفا عطا فرما اور اس کی ہجرت پوری فرما۔“ میں اپنے جگر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کی ٹھنڈک مسلسل محسوس کرتا رہا ہوں، حتی کہ ابھی تک کر رہا ہوں۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب المرضى، باب وضع اليد على المريض: 5659 و مسلم: 1628 و أبوداؤد: 3104 و النسائي: 3626 و الترمذي: 975، مختصرًا»
حدثنا قبيصة بن عقبة، قال: حدثنا سفيان، عن علقمة بن مرثد، عن القاسم بن مخيمرة، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ”ما من احد يمرض، إلا كتب له مثل ما كان يعمل وهو صحيح.“حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ بْنُ عُقْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَيْمِرَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ”مَا مِنْ أَحَدٍ يَمْرَضُ، إِلا كُتِبَ لَهُ مِثْلُ مَا كَانَ يَعْمَلُ وَهُوَ صَحِيحٌ.“
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی شخص بیمار ہو جاتا ہے تو اسے اس کے ہر اس عمل پرثواب دیا جا تا ہے جو وہ حالت صحت میں کرتا تھا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد: 6870 و الدارمي: 2812 و هناد فى الزهد: 438 و الحاكم: 499/1 - انظر الإرواء: 346/2»