حدثنا احمد بن يونس، قال: حدثنا ابوبكر، عن محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: جاء اعرابي، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ”هل اخذتك ام ملدم؟“ قال: وما ام ملدم؟ قال: ”حر بين الجلد واللحم“، قال: لا، قال: ”فهل صدعت؟“ قال: وما الصداع؟ قال: ”ريح تعترض في الراس، تضرب العروق“، قال: لا، قال: فلما قام، قال: ”من سره ان ينظر إلى رجل من اهل النار“، اي: فلينظره.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابوبَكْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”هَلْ أَخَذَتْكَ أُمُّ مِلْدَمٍ؟“ قَالَ: وَمَا أُمُّ مِلْدَمٍ؟ قَالَ: ”حَرٌّ بَيْنَ الْجِلْدِ وَاللَّحْمِ“، قَالَ: لَا، قَالَ: ”فَهَلْ صُدِعْتَ؟“ قَالَ: وَمَا الصُّدَاعُ؟ قَالَ: ”رِيحٌ تَعْتَرِضُ فِي الرَّأْسِ، تَضْرِبُ الْعُرُوقَ“، قَالَ: لَا، قَالَ: فَلَمَّا قَامَ، قَالَ: ”مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ النَّارِ“، أَيْ: فَلْيَنْظُرْهُ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک (صحت مند) دیہاتی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”کیا تمہیں کبھی بخار ہوا ہے؟“ اس نے پوچھا: بخار کیا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جلد اور گوشت کے درمیان حرارت پیدا ہو جانا ہے۔“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہیں کبھی سر درد ہوا ہے؟“ اس نے کہا: سر درد کیا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک ہوا ہے جو سر میں گھس جاتی ہے اور رگوں پر ضرب لگاتی ہے۔“ اس نے کہا: نہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ جب وہ اٹھ کر چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کسی دوزخی کو دیکھنا پسند کرے وہ اسے دیکھ لے۔“
تخریج الحدیث: «حسن صحيح: أخرجه أحمد: 8395 و هناد فى الزهد: 426 و النسائي فى الكبرىٰ: 7449 و ابن حبان: 2916 و البيهقي فى الشعب: 301/12 - انظر التعليقات الحسان: 2905»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 495
فوائد ومسائل: اس سے معلوم ہوا بیمار ہونا اور تکلیفیں آنا مسلمان اور مومن ہونے کی نشانی ہے۔ جو کلمہ پڑھتا ہے اور کبھی بیمار نہیں ہوا تو اس شخص کو اپنے بارے میں نفاق سے ڈرنا چاہیے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو بھی بیمار ہو وہ مومن ہوتا ہے اس کے لیے دیگر احکام شریعت کو سامنے رکھنا ہوگا۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 495