الادب المفرد کل احادیث 1322 :حدیث نمبر
الادب المفرد
كتاب
153. بَابُ مَا جَاءَ فِي التَّمَادُحِ
153. ایک دوسرے کی بے جا تعریف کی ممانعت
حدیث نمبر: 333
Save to word اعراب
حدثنا محمد، قال‏:‏ حدثنا آدم، قال‏:‏ حدثنا شعبة، عن خالد، عن عبد الرحمن بن ابي بكرة، عن ابيه، ان رجلا ذكر عند النبي صلى الله عليه وسلم فاثنى عليه رجل خيرا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:‏ ”ويحك قطعت عنق صاحبك“، يقوله مرارا، ”إن كان احدكم مادحا لا محالة فليقل‏:‏ احسب كذا وكذا، إن كان يرى انه كذلك، وحسيبه الله، ولا يزكي على الله احدا‏.‏“حَدَّثَنَا مُحَمَّدٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَجُلاً ذُكِرَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَثْنَى عَلَيْهِ رَجُلٌ خَيْرًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”وَيْحَكَ قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ“، يَقُولُهُ مِرَارًا، ”إِنْ كَانَ أَحَدُكُمْ مَادِحًا لاَ مَحَالَةَ فَلْيَقُلْ‏:‏ أَحْسَبُ كَذَا وَكَذَا، إِنْ كَانَ يَرَى أَنَّهُ كَذَلِكَ، وَحَسِيبُهُ اللَّهُ، وَلاَ يُزَكِّي عَلَى اللهِ أَحَدًا‏.‏“
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی کا ذکر ہوا تو ایک دوسرے آدمی نے اس کی (مبالغہ آمیز) تعریف کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: افسوس ہے تجھے! تو نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار یہ بات دہراتے رہے، (پھر فرمایا:) اگر کوئی ضرور کسی کی تعریف کرنا چاہتا ہے تو وہ یوں کہے: میرے خیال میں وہ ایسا ایسا ہے، اگر واقعی وہ اسے ایسا سمجھتا ہے تو (ان الفاظ میں تعریف کر دے) ساتھ یوں بھی کہے: صحیح علم اللہ تعالیٰ کو ہے۔ وہی حساب لینے والا ہے اور وہ اللہ کے مقابلے میں کسی کا تزکیہ نہ کرے۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الشهادات، باب إذا ذكي رجل رجلا كفاه: 2662 و مسلم: 3000 و أبوداؤد: 4805 و ابن ماجه: 3744»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 334
Save to word اعراب
حدثنا محمد، قال‏:‏ حدثنا محمد بن الصباح، قال‏:‏ حدثنا إسماعيل بن زكريا قال‏:‏ حدثني بريد بن عبد الله، عن ابي بردة، عن ابي موسى قال‏:‏ سمع النبي صلى الله عليه وسلم رجلا يثني على رجل ويطريه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:‏ ”اهلكتم“، او ”قطعتم، ظهر الرجل‏.‏“حَدَّثَنَا مُحَمَّدٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّا قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي بُرَيْدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ‏:‏ سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلاً يُثْنِي عَلَى رَجُلٍ وَيُطْرِيهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”أَهْلَكْتُمْ“، أَوْ ”قَطَعْتُمْ، ظَهْرَ الرَّجُلِ‏.‏“
سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے سنا کہ وہ کسی کی تعریف کر رہا ہے اور خوب مبالغہ آرائی سے کام لے رہا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے اس کو ہلاک کر دیا۔ یا یوں فرمایا: تم نے اس آدمی کی کمر توڑ دی۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب، باب ما يكره من التماد ح: 6060 و مسلم: 3001»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 335
Save to word اعراب
حدثنا محمد، قال‏:‏ حدثنا قبيصة، قال‏:‏ حدثنا سفيان، عن عمران بن مسلم، عن إبراهيم التيمي، عن ابيه قال‏:‏ كنا جلوسا عند عمر، فاثنى رجل على رجل في وجهه، فقال‏:‏ عقرت الرجل، عقرك الله‏.‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ‏:‏ كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ عُمَرَ، فَأَثْنَى رَجُلٌ عَلَى رَجُلٍ فِي وَجْهِهِ، فَقَالَ‏:‏ عَقَرْتَ الرَّجُلَ، عَقَرَكَ اللَّهُ‏.‏
یزید بن شر یک تیمی سے روایت ہے کہ ہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس میں تھے کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی کی موجودگی میں تعریف کی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تو نے اس آدمی کو ہلاک کر دیا، اللہ تجھے ہلاک کرے۔

تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه ابن أبى شيبة: 26262 و الحربي فى غريب الحديث: 994/3»

قال الشيخ الألباني: حسن
حدیث نمبر: 336
Save to word اعراب
حدثنا محمد، قال‏:‏ حدثنا عبد السلام، قال‏:‏ حدثنا حفص، عن عبيد الله، عن زيد بن اسلم، عن ابيه قال‏:‏ سمعت عمر يقول‏:‏ المدح ذبح، قال محمد‏:‏ يعني إذا قبلها‏.‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلامِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ عُمَرَ يَقُولُ‏:‏ الْمَدْحُ ذَبْحٌ، قَالَ مُحَمَّدٌ‏:‏ يَعْنِي إِذَا قَبِلَهَا‏.‏
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تعریف کرنا ذبح کر دینا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا: ذبح اس وقت ہو گا جب وہ تعریف قبول کرے۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد فى الزهد: 614 و ابن أبى شيبة: 26263 و ابن أبى الدنيا فى الصمت: 602»

قال الشيخ الألباني: صحيح
154. بَابُ مَنْ أَثْنَى عَلَى صَاحِبِهِ إِنْ كَانَ آمِنًا بِهِ
154. جس کے فتنے میں پڑنے کا ڈر نہ ہو اس کی تعریف کرنی جائز ہے
حدیث نمبر: 337
Save to word اعراب
حدثنا محمد، قال‏:‏ حدثنا عبد العزيز بن عبد الله قال‏:‏ حدثني عبد العزيز بن ابي حازم، عن سهيل، عن ابيه، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال‏:‏ ”نعم الرجل ابو بكر، نعم الرجل عمر، نعم الرجل ابو عبيدة، نعم الرجل اسيد بن حضير، نعم الرجل ثابت بن قيس بن شماس، نعم الرجل معاذ بن عمرو بن الجموح، نعم الرجل معاذ بن جبل“، قال‏:‏ ”وبئس الرجل فلان، وبئس الرجل فلان“ حتى عد سبعة‏.‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللهِ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ‏:‏ ”نِعْمَ الرَّجُلُ أَبُو بَكْرٍ، نِعْمَ الرَّجُلُ عُمَرُ، نِعْمَ الرَّجُلُ أَبُو عُبَيْدَةَ، نِعْمَ الرَّجُلُ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ، نِعْمَ الرَّجُلُ ثَابِتُ بْنُ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، نِعْمَ الرَّجُلُ مُعَاذُ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ، نِعْمَ الرَّجُلُ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ“، قَالَ‏:‏ ”وَبِئْسَ الرَّجُلُ فُلاَنٌ، وَبِئْسَ الرَّجُلُ فُلاَنٌ“ حَتَّى عَدَّ سَبْعَةً‏.‏
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھے آدمی ہیں ابوبکر، اچھے آدمی ہیں عمر، ابوعبیدہ اچھے آدمی ہیں، اسید بن حضیر اچھے آدمی ہیں، ثابت بن قیس بن شماس اچھے آدمی ہیں، معاذ بن عمرو بن جموح اچھے آدمی ہیں، اور معاذ بن جبل اچھے آدمی ہیں۔ اور فرمایا: برا آدمی ہے فلاں شخص اور برا آدمی ہے فلاں شخص۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات آدمی شمار فرمائے۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه الترمذي: 3795، مختصرًا منه على المدح، و أخرجه بتمامه الحاكم: 259/3 و ابن حبان: 6997 - انظر الصحيحة: 875»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 338
Save to word اعراب
حدثنا محمد، قال‏:‏ حدثنا إبراهيم، قال‏:‏ حدثنا محمد بن فليح، قال‏:‏ حدثنا ابي، عن عبد الله بن عبد الرحمن، عن ابي يونس مولى عائشة، ان عائشة قالت‏:‏ استاذن رجل على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏ ”بئس ابن العشيرة“، فلما دخل هش له وانبسط إليه، فلما خرج الرجل استاذن آخر، قال‏:‏ ”نعم ابن العشيرة“، فلما دخل لم ينبسط إليه كما انبسط إلى الآخر، ولم يهش إليه كما هش للآخر، فلما خرج قلت‏:‏ يا رسول الله، قلت لفلان ما قلت ثم هششت إليه، وقلت لفلان ما قلت ولم ارك صنعت مثله‏؟‏ قال‏:‏ ”يا عائشة، إن من شر الناس من اتقي لفحشه‏.‏“حَدَّثَنَا مُحَمَّدٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُلَيْحٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي يُونُسَ مَوْلَى عَائِشَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتِ‏:‏ اسْتَأْذَنَ رَجُلٌ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”بِئْسَ ابْنُ الْعَشِيرَةِ“، فَلَمَّا دَخَلَ هَشَّ لَهُ وَانْبَسَطَ إِلَيْهِ، فَلَمَّا خَرَجَ الرَّجُلُ اسْتَأْذَنَ آخَرُ، قَالَ‏:‏ ”نِعْمَ ابْنُ الْعَشِيرَةِ“، فَلَمَّا دَخَلَ لَمْ يَنْبَسِطْ إِلَيْهِ كَمَا انْبَسَطَ إِلَى الْآخَرِ، وَلَمْ يَهِشَّ إِلَيْهِ كَمَا هَشَّ لِلْآخَرِ، فَلَمَّا خَرَجَ قُلْتُ‏:‏ يَا رَسُولَ اللهِ، قُلْتُ لِفُلاَنٍ مَا قُلْتَ ثُمَّ هَشَشْتَ إِلَيْهِ، وَقُلْتَ لِفُلاَنٍ مَا قُلْتَ وَلَمْ أَرَكَ صَنَعْتَ مِثْلَهُ‏؟‏ قَالَ‏:‏ ”يَا عَائِشَةُ، إِنَّ مِنْ شَرِّ النَّاسِ مَنِ اتُّقِيَ لِفُحْشِهِ‏.‏“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آنے والا قبیلے کا برا فرد ہے۔ لیکن جب وہ داخل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے بڑے تپاک اور خندہ پیشانی سے ملے۔ جب وہ چلا گیا تو ایک دوسرے شخص نے اجازت طلب کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قبیلے کا اچھا آدمی آیا ہے۔ جب وہ داخل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پہلے شخص کی طرح خوشی سے نہ ملے، اور نہ اس طرح تپاک سے اس کا استقبال کیا۔ جب وہ چلا گیا تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ نے فلاں کو یہ یہ کہا اور پھر اسے تپاک سے ملے بھی اور فلاں کی آپ نے اچھی تعریف کی لیکن اس کے ساتھ اس طرح تپاک سے پیش نہیں آئے جس طرح پہلے سے ملے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! لوگوں میں سے بدترین وہ ہے کہ جس کے فحش سے بچنے کے لیے اس کی تکریم کی جائے۔

تخریج الحدیث: «ضعيف دون قصة الرجل الأول فإنها صحيحة مع قوله (يا عائشة): أخرجه أحمد: 25254 و ابن وهب فى الجامع: 437 و القضاعي فى مسنده: 1124، و سيأتي: 1311 و انظر الصحيحة: 1049»

قال الشيخ الألباني: ضعيف دون قصة الرجل الأول فإنها صحيحة مع قوله (يا عائشة)
155. بَابُ يُحْثَى فِي وُجُوهِ الْمَدَّاحِينَ
155. مدح سرائی کرنے والوں کے منہ میں مٹی ڈالنے کا بیان
حدیث نمبر: 339
Save to word اعراب
حدثنا محمد، قال‏:‏ حدثنا علي بن عبد الله، قال‏:‏ حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، قال‏:‏ حدثنا سفيان بن سعيد، عن حبيب بن ابي ثابت، عن مجاهد، عن ابي معمر قال‏:‏ قام رجل يثني على امير من الامراء، فجعل المقداد يحثي في وجهه التراب، وقال‏:‏ امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان نحثي في وجوه المداحين التراب‏.‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللهِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ قَالَ‏:‏ قَامَ رَجُلٌ يُثْنِي عَلَى أَمِيرٍ مِنَ الأُمَرَاءِ، فَجَعَلَ الْمِقْدَادُ يَحْثِي فِي وَجْهِهِ التُّرَابَ، وَقَالَ‏:‏ أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَحْثِيَ فِي وُجُوهِ الْمَدَّاحِينَ التُّرَابَ‏.‏
حضرت ابومعمر رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی کسی امیر کی خوشامد کرنے لگا تو سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ اس کے چہرے پر مٹی ڈالنے لگے اور فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم خوشامد کرنے والوں کے مونہوں میں مٹی ڈالیں۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب الزهد: 3002 و أبوداؤد: 4804 و الترمذي: 2393 و ابن ماجه: 3742 - انظر الصحيحة: 912»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 340
Save to word اعراب
حدثنا محمد، قال‏:‏ حدثنا موسى بن إسماعيل، قال‏:‏ حدثنا حماد، عن علي بن الحكم، عن عطاء بن ابي رباح، ان رجلا كان يمدح رجلا عند ابن عمر فجعل ابن عمر يحثو التراب نحو فيه، وقال‏:‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏ ”إذا رايتم المداحين فاحثوا في وجوههم التراب‏.‏“حَدَّثَنَا مُحَمَّدٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، أَنَّ رَجُلاً كَانَ يَمْدَحُ رَجُلاً عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ فَجَعَلَ ابْنُ عُمَرَ يَحْثُو التُّرَابَ نَحْوَ فِيهِ، وَقَالَ‏:‏ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”إِذَا رَأَيْتُمُ الْمَدَّاحِينَ فَاحْثُوا فِي وُجُوهِهِمُ التُّرَابَ‏.‏“
حضرت عطا بن ابی رباح رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس ایک آدمی کی (اس کے منہ پر) تعریف کر رہا تھا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما مٹی کا چلو بھر کر اس کے منہ پر پھینکنے لگے اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم مدح کرنے والوں کو دیکھو تو ان کے مونہوں میں مٹی بھر دو۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد: 5684 و ابن الجعد فى مسنده: 3343 و ابن أبى شيبة فى الأدب: 38 و عبدبن حميد: 812 و ابن حبان: 5770 و الطبراني فى الكبير: 332/12 - انظر الصحيحة: 912»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 341
Save to word اعراب
حدثنا محمد، قال‏:‏ حدثنا موسى، قال‏:‏ حدثنا ابو عوانة، عن ابي بشر، عن عبد الله بن شقيق، عن رجاء بن ابي رجاء، عن محجن الاسلمي قال رجاء‏:‏ اقبلت مع محجن ذات يوم حتى انتهينا إلى مسجد اهل البصرة، فإذا بريدة الاسلمي على باب من ابواب المسجد جالس، قال‏:‏ وكان في المسجد رجل يقال له‏:‏ سكبة، يطيل الصلاة، فلما انتهينا إلى باب المسجد، وعليه بردة، وكان بريدة صاحب مزاحات، فقال‏:‏ يا محجن اتصلي كما يصلي سكبة‏؟‏ فلم يرد عليه محجن، ورجع، قال‏:‏ قال محجن‏:‏ إن رسول الله صلى الله عليه وسلم اخذ بيدي، فانطلقنا نمشي حتى صعدنا احدا، فاشرف على المدينة فقال‏:‏ ”ويل امها من قرية، يتركها اهلها كاعمر ما تكون، ياتيها الدجال، فيجد على كل باب من ابوابها ملكا، فلا يدخلها“، ثم انحدر حتى إذا كنا في المسجد، راى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا يصلي، ويسجد، ويركع، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏ ”من هذا‏؟“‏ فاخذت اطريه، فقلت‏:‏ يا رسول الله، هذا فلان، وهذا‏.‏ فقال ”امسك، لا تسمعه فتهلكه“، قال‏:‏ فانطلق يمشي، حتى إذا كان عند حجره، لكنه نفض يديه ثم قال‏:‏ ”إن خير دينكم ايسره، إن خير دينكم ايسره“ ثلاثا‏.‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ رَجَاءِ بْنِ أَبِي رَجَاءٍ، عَنْ مِحْجَنٍ الأَسْلَمِيِّ قَالَ رَجَاءٌ‏:‏ أَقْبَلْتُ مَعَ مِحْجَنٍ ذَاتَ يَوْمٍ حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى مَسْجِدِ أَهْلِ الْبَصْرَةِ، فَإِذَا بُرَيْدَةُ الأَسْلَمِيُّ عَلَى بَابٍ مِنْ أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ جَالِسٌ، قَالَ‏:‏ وَكَانَ فِي الْمَسْجِدِ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ‏:‏ سُكْبَةُ، يُطِيلُ الصَّلاَةَ، فَلَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، وَعَلَيْهِ بُرْدَةٌ، وَكَانَ بُرَيْدَةُ صَاحِبَ مُزَاحَاتٍ، فَقَالَ‏:‏ يَا مِحْجَنُ أَتُصَلِّي كَمَا يُصَلِّي سُكْبَةُ‏؟‏ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ مِحْجَنٌ، وَرَجَعَ، قَالَ‏:‏ قَالَ مِحْجَنٌ‏:‏ إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِي، فَانْطَلَقْنَا نَمْشِي حَتَّى صَعِدْنَا أُحُدًا، فَأَشْرَفَ عَلَى الْمَدِينَةِ فَقَالَ‏:‏ ”وَيْلُ أُمِّهَا مِنْ قَرْيَةٍ، يَتْرُكُهَا أَهْلُهَا كَأَعْمَرَ مَا تَكُونُ، يَأْتِيهَا الدَّجَّالُ، فَيَجِدُ عَلَى كُلِّ بَابٍ مِنْ أَبْوَابِهَا مَلَكًا، فَلاَ يَدْخُلُهَا“، ثُمَّ انْحَدَرَ حَتَّى إِذَا كُنَّا فِي الْمَسْجِدِ، رَأَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلاً يُصَلِّي، وَيَسْجُدُ، وَيَرْكَعُ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”مَنْ هَذَا‏؟“‏ فَأَخَذْتُ أُطْرِيهِ، فَقُلْتُ‏:‏ يَا رَسُولَ اللهِ، هَذَا فُلاَنٌ، وَهَذَا‏.‏ فَقَالَ ”أَمْسِكْ، لاَ تُسْمِعْهُ فَتُهْلِكَهُ“، قَالَ‏:‏ فَانْطَلَقَ يَمْشِي، حَتَّى إِذَا كَانَ عِنْدَ حُجَرِهِ، لَكِنَّهُ نَفَضَ يَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ‏:‏ ”إِنَّ خَيْرَ دِينِكُمْ أَيْسَرُهُ، إِنَّ خَيْرَ دِينِكُمْ أَيْسَرُهُ“ ثَلاثًا‏.‏
حضرت رجاء رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں ایک دن سیدنا محجن اسلمی رضی اللہ عنہ کے ساتھ اہل بصرہ کی مسجد میں آیا تو وہاں ایک دروازے پر سیدنا بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ تشریف فرما تھے۔ رجاء کہتے ہیں کہ مسجد میں ایک آدمی تھا جسے سکبہ کہا جاتا تھا، جو بہت لمبی نماز پڑھتا تھا۔ جب ہم مسجد کے دروازے پر پہنچے تو سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ چادر اوڑھے تشریف فرما تھے اور ان کے مزاج میں مزاح اور دل لگی تھی، چنانچہ انہوں نے کہا: اے محجن! کیا تم سکبہ کی طرح نماز پڑھو گے؟ یہ سن کر سیدنا محجن رضی اللہ عنہ نے کوئی جواب نہ دیا اور واپس آ گئے، پھر سیدنا محجن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور ہم چلتے رہے یہاں تک کہ احد پہاڑ پر چڑھ گئے۔ وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ طیبہ نظر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف رخ کر کے فرمایا: اس بستی کا برا حال ہو گا جب اس کے رہنے والے اسے اس وقت چھوڑ دیں گے جب یہ خوب آباد ہو گی، اس کے پاس دجال آئے گا، وہ اس کے ہر دروازے پر ایک فرشتہ پائے گا، لہٰذا دجال اس میں داخل نہ ہو گا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہاڑ سے اتر آئے یہاں تک کہ جب ہم مسجد میں آ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا، وہ نماز پڑھ رہا ہے اور رکوع سجدہ بھی کر رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: یہ کون ہے؟ میں خوب بڑھا چڑھا کر اس کی تعریف کرنے لگا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ فلاں ہے، فلاں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھہر جاؤ، اس کو نہ سناؤ ورنہ اسے ہلاک کر دو گے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے یہاں تک کہ حجروں کے پاس پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ جھاڑے، پھر فرمایا: تمہارے دین کا سب سے بہتر عمل وہ ہے جو آسان تر ہو۔ تمہارے دین کا سب سے بہتر عمل وہ ہے جو آسان تر ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا۔

تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه أحمد: 18976 و الطيالسي: 1391 و ابن أبى شيبة: 596 و الطبراني فى الكبير: 297/20 - انظر الصحيحة: 1635»

قال الشيخ الألباني: حسن
156. بَابُ مَنْ مَدَحَ فِي الشِّعْرِ
156. شعروں میں مدح سرائی کرنے کا حکم
حدیث نمبر: 342
Save to word اعراب
حدثنا محمد، قال‏:‏ حدثنا حجاج، قال‏:‏ حدثنا حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن عبد الرحمن بن ابي بكرة، عن الاسود بن سريع قال‏:‏ اتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقلت‏:‏ يا رسول الله، قد مدحت الله بمحامد ومدح، وإياك‏.‏ فقال‏:‏ ”اما إن ربك يحب الحمد“، فجعلت انشده، فاستاذن رجل طوال اصلع، فقال لي النبي صلى الله عليه وسلم:‏ ”اسكت“، فدخل، فتكلم ساعة ثم خرج، فانشدته، ثم جاء فسكتني، ثم خرج، فعل ذلك مرتين او ثلاثا، فقلت‏:‏ من هذا الذي سكتني له‏؟‏ قال‏:‏ ”هذا رجل لا يحب الباطل‏.‏“حَدَّثَنَا مُحَمَّدٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ سَرِيعٍ قَالَ‏:‏ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ‏:‏ يَا رَسُولَ اللهِ، قَدْ مَدَحْتُ اللَّهَ بِمَحَامِدَ وَمِدَحٍ، وَإِيَّاكَ‏.‏ فَقَالَ‏:‏ ”أَمَا إِنَّ رَبَّكَ يُحِبُّ الْحَمْدَ“، فَجَعَلْتُ أُنْشِدُهُ، فَاسْتَأْذَنَ رَجُلٌ طُوَالٌ أَصْلَعُ، فَقَالَ لِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”اسْكُتْ“، فَدَخَلَ، فَتَكَلَّمَ سَاعَةً ثُمَّ خَرَجَ، فَأَنْشَدْتُهُ، ثُمَّ جَاءَ فَسَكَّتَنِي، ثُمَّ خَرَجَ، فَعَلَ ذَلِكَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا، فَقُلْتُ‏:‏ مَنْ هَذَا الَّذِي سَكَّتَّنِي لَهُ‏؟‏ قَالَ‏:‏ ”هَذَا رَجُلٌ لاَ يُحِبُّ الْبَاطِلَ‏.‏“
سیدنا اسود بن سریع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے اللہ تعالیٰ کی مختلف انداز میں حمد بیان کی ہے اور آپ کی تعریف بھی کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلاشبہ تیرا رب تو حمد کو پسند فرماتا ہے۔ میں نے اشعار پڑھنے شروع کیے تو ایک دراز قد گنجے شخص نے اجازت طلب کی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: خاموش ہو جاؤ۔ چنانچہ وہ اندر آیا اور تھوڑی دیر گفتگو کرنے کے بعد چلا گیا، تو میں نے دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اشعار سنائے۔ پھر وہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چپ کرا دیا۔ پھر وہ چلا گیا۔ دو یا تین مرتبہ وہ اندر آیا اور باہر گیا۔ میں نے عرض کیا: یہ کون شخص تھا جس کی خاطر آپ نے مجھے خاموشی اختیار کرنے کا حکم دیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ آدمی ہے جو باطل کو پسند نہیں کرتا۔

تخریج الحدیث: «ضعيف بهذا التمام و صح مختصرًا: أخرجه أحمد: 15585 و الطبراني فى الكبير: 287/1 و أبونعيم فى الحلية: 46/1 و الحاكم: 615/3 و الطحاوي فى شرح المعاني: 372/2 - انظر الصحيحة: 3179»

قال الشيخ الألباني: ضعيف بهذا التمام و صح مختصرًا

1    2    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.