حدثنا محمد، قال: حدثنا إبراهيم، قال: حدثنا محمد بن فليح، قال: حدثنا ابي، عن عبد الله بن عبد الرحمن، عن ابي يونس مولى عائشة، ان عائشة قالت: استاذن رجل على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”بئس ابن العشيرة“، فلما دخل هش له وانبسط إليه، فلما خرج الرجل استاذن آخر، قال: ”نعم ابن العشيرة“، فلما دخل لم ينبسط إليه كما انبسط إلى الآخر، ولم يهش إليه كما هش للآخر، فلما خرج قلت: يا رسول الله، قلت لفلان ما قلت ثم هششت إليه، وقلت لفلان ما قلت ولم ارك صنعت مثله؟ قال: ”يا عائشة، إن من شر الناس من اتقي لفحشه.“حَدَّثَنَا مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُلَيْحٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي يُونُسَ مَوْلَى عَائِشَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتِ: اسْتَأْذَنَ رَجُلٌ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”بِئْسَ ابْنُ الْعَشِيرَةِ“، فَلَمَّا دَخَلَ هَشَّ لَهُ وَانْبَسَطَ إِلَيْهِ، فَلَمَّا خَرَجَ الرَّجُلُ اسْتَأْذَنَ آخَرُ، قَالَ: ”نِعْمَ ابْنُ الْعَشِيرَةِ“، فَلَمَّا دَخَلَ لَمْ يَنْبَسِطْ إِلَيْهِ كَمَا انْبَسَطَ إِلَى الْآخَرِ، وَلَمْ يَهِشَّ إِلَيْهِ كَمَا هَشَّ لِلْآخَرِ، فَلَمَّا خَرَجَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، قُلْتُ لِفُلاَنٍ مَا قُلْتَ ثُمَّ هَشَشْتَ إِلَيْهِ، وَقُلْتَ لِفُلاَنٍ مَا قُلْتَ وَلَمْ أَرَكَ صَنَعْتَ مِثْلَهُ؟ قَالَ: ”يَا عَائِشَةُ، إِنَّ مِنْ شَرِّ النَّاسِ مَنِ اتُّقِيَ لِفُحْشِهِ.“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آنے والا قبیلے کا برا فرد ہے۔“ لیکن جب وہ داخل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے بڑے تپاک اور خندہ پیشانی سے ملے۔ جب وہ چلا گیا تو ایک دوسرے شخص نے اجازت طلب کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قبیلے کا اچھا آدمی آیا ہے۔“ جب وہ داخل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پہلے شخص کی طرح خوشی سے نہ ملے، اور نہ اس طرح تپاک سے اس کا استقبال کیا۔ جب وہ چلا گیا تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ نے فلاں کو یہ یہ کہا اور پھر اسے تپاک سے ملے بھی اور فلاں کی آپ نے اچھی تعریف کی لیکن اس کے ساتھ اس طرح تپاک سے پیش نہیں آئے جس طرح پہلے سے ملے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عائشہ! لوگوں میں سے بدترین وہ ہے کہ جس کے فحش سے بچنے کے لیے اس کی تکریم کی جائے۔“
تخریج الحدیث: «ضعيف دون قصة الرجل الأول فإنها صحيحة مع قوله (يا عائشة): أخرجه أحمد: 25254 و ابن وهب فى الجامع: 437 و القضاعي فى مسنده: 1124، و سيأتي: 1311 و انظر الصحيحة: 1049»
قال الشيخ الألباني: ضعيف دون قصة الرجل الأول فإنها صحيحة مع قوله (يا عائشة)
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 338
فوائد ومسائل: اس حدیث میں دوسرے آدمی کا ذکر صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ سند ضعیف ہے۔ بخاری و مسلم میں صرف پہلے آدمی کا ذکر ہے۔ مزید فوائد حدیث:۱۳۱۱ کے تحت آئیں گے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 338