حدثنا محمد، قال: حدثنا موسى، قال: حدثنا ابو عوانة، عن ابي بشر، عن عبد الله بن شقيق، عن رجاء بن ابي رجاء، عن محجن الاسلمي قال رجاء: اقبلت مع محجن ذات يوم حتى انتهينا إلى مسجد اهل البصرة، فإذا بريدة الاسلمي على باب من ابواب المسجد جالس، قال: وكان في المسجد رجل يقال له: سكبة، يطيل الصلاة، فلما انتهينا إلى باب المسجد، وعليه بردة، وكان بريدة صاحب مزاحات، فقال: يا محجن اتصلي كما يصلي سكبة؟ فلم يرد عليه محجن، ورجع، قال: قال محجن: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم اخذ بيدي، فانطلقنا نمشي حتى صعدنا احدا، فاشرف على المدينة فقال: ”ويل امها من قرية، يتركها اهلها كاعمر ما تكون، ياتيها الدجال، فيجد على كل باب من ابوابها ملكا، فلا يدخلها“، ثم انحدر حتى إذا كنا في المسجد، راى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا يصلي، ويسجد، ويركع، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”من هذا؟“ فاخذت اطريه، فقلت: يا رسول الله، هذا فلان، وهذا. فقال ”امسك، لا تسمعه فتهلكه“، قال: فانطلق يمشي، حتى إذا كان عند حجره، لكنه نفض يديه ثم قال: ”إن خير دينكم ايسره، إن خير دينكم ايسره“ ثلاثا.حَدَّثَنَا مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ رَجَاءِ بْنِ أَبِي رَجَاءٍ، عَنْ مِحْجَنٍ الأَسْلَمِيِّ قَالَ رَجَاءٌ: أَقْبَلْتُ مَعَ مِحْجَنٍ ذَاتَ يَوْمٍ حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى مَسْجِدِ أَهْلِ الْبَصْرَةِ، فَإِذَا بُرَيْدَةُ الأَسْلَمِيُّ عَلَى بَابٍ مِنْ أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ جَالِسٌ، قَالَ: وَكَانَ فِي الْمَسْجِدِ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ: سُكْبَةُ، يُطِيلُ الصَّلاَةَ، فَلَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، وَعَلَيْهِ بُرْدَةٌ، وَكَانَ بُرَيْدَةُ صَاحِبَ مُزَاحَاتٍ، فَقَالَ: يَا مِحْجَنُ أَتُصَلِّي كَمَا يُصَلِّي سُكْبَةُ؟ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ مِحْجَنٌ، وَرَجَعَ، قَالَ: قَالَ مِحْجَنٌ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِي، فَانْطَلَقْنَا نَمْشِي حَتَّى صَعِدْنَا أُحُدًا، فَأَشْرَفَ عَلَى الْمَدِينَةِ فَقَالَ: ”وَيْلُ أُمِّهَا مِنْ قَرْيَةٍ، يَتْرُكُهَا أَهْلُهَا كَأَعْمَرَ مَا تَكُونُ، يَأْتِيهَا الدَّجَّالُ، فَيَجِدُ عَلَى كُلِّ بَابٍ مِنْ أَبْوَابِهَا مَلَكًا، فَلاَ يَدْخُلُهَا“، ثُمَّ انْحَدَرَ حَتَّى إِذَا كُنَّا فِي الْمَسْجِدِ، رَأَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلاً يُصَلِّي، وَيَسْجُدُ، وَيَرْكَعُ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”مَنْ هَذَا؟“ فَأَخَذْتُ أُطْرِيهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، هَذَا فُلاَنٌ، وَهَذَا. فَقَالَ ”أَمْسِكْ، لاَ تُسْمِعْهُ فَتُهْلِكَهُ“، قَالَ: فَانْطَلَقَ يَمْشِي، حَتَّى إِذَا كَانَ عِنْدَ حُجَرِهِ، لَكِنَّهُ نَفَضَ يَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ: ”إِنَّ خَيْرَ دِينِكُمْ أَيْسَرُهُ، إِنَّ خَيْرَ دِينِكُمْ أَيْسَرُهُ“ ثَلاثًا.
حضرت رجاء رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں ایک دن سیدنا محجن اسلمی رضی اللہ عنہ کے ساتھ اہل بصرہ کی مسجد میں آیا تو وہاں ایک دروازے پر سیدنا بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ تشریف فرما تھے۔ رجاء کہتے ہیں کہ مسجد میں ایک آدمی تھا جسے سکبہ کہا جاتا تھا، جو بہت لمبی نماز پڑھتا تھا۔ جب ہم مسجد کے دروازے پر پہنچے تو سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ چادر اوڑھے تشریف فرما تھے اور ان کے مزاج میں مزاح اور دل لگی تھی، چنانچہ انہوں نے کہا: اے محجن! کیا تم سکبہ کی طرح نماز پڑھو گے؟ یہ سن کر سیدنا محجن رضی اللہ عنہ نے کوئی جواب نہ دیا اور واپس آ گئے، پھر سیدنا محجن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور ہم چلتے رہے یہاں تک کہ احد پہاڑ پر چڑھ گئے۔ وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ طیبہ نظر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف رخ کر کے فرمایا: ”اس بستی کا برا حال ہو گا جب اس کے رہنے والے اسے اس وقت چھوڑ دیں گے جب یہ خوب آباد ہو گی، اس کے پاس دجال آئے گا، وہ اس کے ہر دروازے پر ایک فرشتہ پائے گا، لہٰذا دجال اس میں داخل نہ ہو گا۔“ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہاڑ سے اتر آئے یہاں تک کہ جب ہم مسجد میں آ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا، وہ نماز پڑھ رہا ہے اور رکوع سجدہ بھی کر رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”یہ کون ہے؟“ میں خوب بڑھا چڑھا کر اس کی تعریف کرنے لگا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ فلاں ہے، فلاں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھہر جاؤ، اس کو نہ سناؤ ورنہ اسے ہلاک کر دو گے۔“ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے یہاں تک کہ حجروں کے پاس پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ جھاڑے، پھر فرمایا: ”تمہارے دین کا سب سے بہتر عمل وہ ہے جو آسان تر ہو۔ تمہارے دین کا سب سے بہتر عمل وہ ہے جو آسان تر ہو۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا۔
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه أحمد: 18976 و الطيالسي: 1391 و ابن أبى شيبة: 596 و الطبراني فى الكبير: 297/20 - انظر الصحيحة: 1635»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 341
فوائد ومسائل: (۱)اس حدیث میں کسی کی بڑھا چڑھا کر تعریف کرنے سے منع کیا گیا ہے، خصوصاً جب وہ شخص سن رہا ہو جس کی تعریف کی جائے کیونکہ اس طرح کرنے سے اس کے فتنے میں پڑنے کا ڈر ہے جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلاکت سے تعبیر فرمایا ہے۔ (۲) محجن رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے سکبہ یا سکینہ کا اس طرح نماز پڑھنا ناپسند فرمایا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بطور دلیل پیش کیا کہ آپ نے میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دیا اور اس طرح کے تشدد سے منع فرمایا کیونکہ انسان اس طرح زیادہ عرصہ عمل کو جاری نہیں رکھ سکتا اور بالآخر ضروری فرض کو بھی ترک کر دیتا ہے۔ اس لیے ایسی شدت پسندی کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 341