(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا حاتم بن إسماعيل، عن يزيد بن ابي عبيد، عن سلمة بن الاكوع، قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى خيبر فسرنا ليلا، فقال رجل من القوم لعامر بن الاكوع: الا تسمعنا من هنيهاتك؟ قال: وكان عامر رجلا شاعرا فنزل يحدو بالقوم يقول:" اللهم لولا انت ما اهتدينا ولا تصدقنا ولا صلينا فاغفر فداء لك ما اقتفينا وثبت الاقدام إن لاقينا والقين سكينة علينا إنا إذا صيح بنا اتينا وبالصياح عولوا علينا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من هذا السائق؟" قالوا: عامر بن الاكوع، فقال:" يرحمه الله" فقال رجل من القوم: وجبت يا نبي الله لولا امتعتنا به، قال: فاتينا خيبر فحاصرناهم حتى اصابتنا مخمصة شديدة، ثم إن الله فتحها عليهم، فلما امسى الناس اليوم الذي فتحت عليهم اوقدوا نيرانا كثيرة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما هذه النيران على اي شيء توقدون؟ قالوا: على لحم، قال:" على اي لحم؟" قالوا: على لحم حمر إنسية، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اهرقوها واكسروها" فقال رجل: يا رسول الله او نهريقها ونغسلها، قال:" او ذاك"، فلما تصاف القوم كان سيف عامر فيه قصر فتناول به يهوديا ليضربه ويرجع ذباب سيفه فاصاب ركبة عامر فمات منه، فلما قفلوا قال سلمة: رآني رسول الله صلى الله عليه وسلم شاحبا فقال لي:" ما لك؟" فقلت: فدى لك ابي وامي زعموا ان عامرا حبط عمله، قال:" من قاله؟" قلت: قاله فلان وفلان وفلان، واسيد بن الحضير الانصاري، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كذب من قاله، إن له لاجرين، وجمع بين إصبعيه إنه لجاهد مجاهد قل عربي نشا بها مثله".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ فَسِرْنَا لَيْلًا، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ لِعَامِرِ بْنِ الْأَكْوَعِ: أَلَا تُسْمِعُنَا مِنْ هُنَيْهَاتِكَ؟ قَالَ: وَكَانَ عَامِرٌ رَجُلًا شَاعِرًا فَنَزَلَ يَحْدُو بِالْقَوْمِ يَقُولُ:" اللَّهُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا فَاغْفِرْ فِدَاءٌ لَكَ مَا اقْتَفَيْنَا وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا وَأَلْقِيَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا إِنَّا إِذَا صِيحَ بِنَا أَتَيْنَا وَبِالصِّيَاحِ عَوَّلُوا عَلَيْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ هَذَا السَّائِقُ؟" قَالُوا: عَامِرُ بْنُ الْأَكْوَعِ، فَقَالَ:" يَرْحَمُهُ اللَّهُ" فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: وَجَبَتْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ لَوْلَا أَمْتَعْتَنَا بِهِ، قَالَ: فَأَتَيْنَا خَيْبَرَ فَحَاصَرْنَاهُمْ حَتَّى أَصَابَتْنَا مَخْمَصَةٌ شَدِيدَةٌ، ثُمَّ إِنَّ اللَّهَ فَتَحَهَا عَلَيْهِمْ، فَلَمَّا أَمْسَى النَّاسُ الْيَوْمَ الَّذِي فُتِحَتْ عَلَيْهِمْ أَوْقَدُوا نِيرَانًا كَثِيرَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا هَذِهِ النِّيرَانُ عَلَى أَيِّ شَيْءٍ تُوقِدُونَ؟ قَالُوا: عَلَى لَحْمٍ، قَالَ:" عَلَى أَيِّ لَحْمٍ؟" قَالُوا: عَلَى لَحْمِ حُمُرٍ إِنْسِيَّةٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَهْرِقُوهَا وَاكْسِرُوهَا" فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوْ نُهَرِيقُهَا وَنَغْسِلُهَا، قَالَ:" أَوْ ذَاكَ"، فَلَمَّا تَصَافَّ الْقَوْمُ كَانَ سَيْفُ عَامِرٍ فِيهِ قِصَرٌ فَتَنَاوَلَ بِهِ يَهُودِيًّا لِيَضْرِبَهُ وَيَرْجِعُ ذُباب سَيْفِهِ فَأَصَابَ رُكْبَةَ عَامِرٍ فَمَاتَ مِنْهُ، فَلَمَّا قَفَلُوا قَالَ سَلَمَةُ: رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاحِبًا فَقَالَ لِي:" مَا لَكَ؟" فَقُلْتُ: فِدًى لَكَ أَبِي وَأُمِّي زَعَمُوا أَنَّ عَامِرًا حَبِطَ عَمَلُهُ، قَالَ:" مَنْ قَالَهُ؟" قُلْتُ: قَالَهُ فُلَانٌ وَفُلَانٌ وَفُلَانٌ، وَأُسَيْدُ بْنُ الْحُضَيْرِ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَذَبَ مَنْ قَالَهُ، إِنَّ لَهُ لَأَجْرَيْنِ، وَجَمَعَ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ إِنَّهُ لَجَاهِدٌ مُجَاهِدٌ قَلَّ عَرَبِيٌّ نَشَأَ بِهَا مِثْلَهُ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے، ان سے برید ابن ابی عبید نے اور ان سے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ خیبر میں گئے اور ہم نے رات میں سفر کیا، اتنے میں مسلمانوں کے آدمی نے عامر بن اکوع رضی للہ عنہ سے کہا کہ اپنے کچھ شعر اشعار سناؤ۔ راوی نے بیان کیا کہ عامر شاعر تھے۔ وہ لوگوں کو اپنی حدی سنانے لگے۔ ”اے اللہ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے نہ ہم صدقہ دے سکتے اور نہ نماز پڑھ سکتے۔ ہم تجھ پر فدا ہوں، ہم نے جو کچھ پہلے گناہ کئے ان کو تو معاف کر دے اور جب (دشمن سے) ہمارا سامنا ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ اور ہم پر سکون نازل فرما۔ جب ہمیں جنگ کے لیے بلایا جاتا ہے، تو ہم موجود ہو جاتے ہیں اور دشمن نے بھی پکار کر ہم سے نجات چاہی ہے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کون اونٹوں کو ہانک رہا ہے جو حدی گا رہا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ عامر بن اکوع ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ پاک اس پر رحم کرے۔ ایک صحابی یعنی عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! اب تو عامر شہید ہوئے۔ کاش اور چند روز آپ ہم کو عامر سے فائدہ اٹھانے دیتے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر ہم خیبر آئے اور اس کو گھیر لیا اس گھراؤ میں ہم شدید فاقوں میں مبتلا ہوئے، پھر اللہ تعالیٰ نے خیبر والوں پر ہم کو فتح عطا فرمائی جس دن ان پر فتح ہوئی اس کی شام کو لوگوں نے جگہ جگہ آگ جلائی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ آگ کیسی ہے، کس کام کے لیے تم لوگوں نے یہ آگ جلائی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ گوشت پکانے کے لیے۔ اس پر آپ نے دریافت فرمایا کس چیز کے گوشت کے لیے؟ صحابہ نے کہا کہ بستی کے پالتو گدھوں کا گوشت پکانے کے لیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گوشت کو برتنوں میں سے پھینک دو اور برتنوں کو توڑ دو۔ ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم گوشت تو پھینک دیں، مگر برتن توڑنے کے بجائے اگر دھو لیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا یوں ہی کر لو۔ جب لوگوں نے جنگ کی صف بندی کر لی تو عامر (ابن اکوع شاعر) نے اپنی تلوار سے ایک یہودی پر وار کیا، ان کی تلوار چھوٹی تھی اس کی نوک پلٹ کر خود ان کے گھٹنوں پر لگی اور اس کی وجہ سے ان کی شہادت ہو گئی۔ جب لوگ واپس آنے لگے تو سلمہ (عامر کے بھائی) نے بیان کیا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ میرے چہرے کا رنگ بدلا ہوا ہے۔ دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پر میرے ماں اور باپ فدا ہوں، لوگ کہہ رہے ہیں کہ عامر کے اعمال برباد ہو گئے۔ (کیونکہ ان کی موت خود ان کی تلوار سے ہوئی ہے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کس نے کہا؟ میں نے عرض کیا: فلاں، فلاں، فلاں اور اسید بن حضیر انصاری نے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے یہ بات کہی اس نے جھوٹ کہا ہے انہیں تو دوہرا اجر ملے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو انگلیوں کو ملا کر اشارہ کیا کہ وہ عابد بھی تھا اور مجاہد بھی (تو عبادت اور جہاد دونوں کا ثواب اس نے پایا) عامر کی طرح تو بہت کم بہادر عرب میں پیدا ہوئے ہیں (وہ ایسا بہادر اور نیک آدمی تھا)۔
Narrated Salama bin Al-Aqwa: We went out with Allah's Apostle to Khaibar and we travelled during the night. A man amongst the people said to 'Amir bin Al-Aqwa', "Won't you let us hear your poetry?" 'Amir was a poet, and so he got down and started (chanting Huda) reciting for the people, poetry that keep pace with the camel's foot steps, saying, "O Allah! Without You we would not have been guided on the right path, neither would we have given in charity, nor would we have prayed. So please forgive us what we have committed. Let all of us be sacrificed for Your cause and when we meet our enemy, make our feet firm and bestow peace and calmness on us and if they (our enemy) will call us towards an unjust thing we will refuse. The infidels have made a hue and cry to ask others help against us. Allah's Apostle said, "Who is that driver (of the camels)?" They said, "He is 'Amir bin Al-Aqwa."' He said, "May Allah bestow His mercy on him." A man among the people said, Has Martyrdom been granted to him, O Allah's Prophet! Would that you let us enjoy his company longer." We reached (the people of) Khaibar and besieged them till we were stricken with severe hunger but Allah helped the Muslims conquer Khaibar. In the evening of its conquest the people made many fires. Allah's Apostle asked, "What are those fires? For what are you making fires?" They said, "For cooking meat." He asked, "What kind of meat?" They said, "Donkeys' meat." Allah's Apostle said, "Throw away the meat and break the cooking pots." A man said, O Allah's Apostle! Shall we throw away the meat and wash the cooking pots?" He said, "You can do that too." When the army files aligned in rows (for the battle), 'Amir's sword was a short one, and while attacking a Jew with it in order to hit him, the sharp edge of the sword turned back and hit 'Amir's knee and caused him to die. When the Muslims returned (from the battle), Salama said, Allah's Apostle saw me pale and said, 'What is wrong with you?"' I said, "Let my parents be sacrificed for you! The people claim that all the deeds of Amir have been annulled." The Prophet asked, "Who said so?" I replied, "So-and-so and soand- so and Usaid bin Al-Hudair Al-Ansari said, 'Whoever says so is telling a lie. Verily, 'Amir will have double reward."' (While speaking) the Prophet put two of his fingers together to indicate that, and added, "He was really a hard-working man and a Mujahid (devout fighter in Allah's Cause) and rarely have there lived in it (i.e., Medina or the battle-field) an "Arab like him."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 169
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا إسماعيل، حدثنا ايوب، عن ابي قلابة، عن انس بن مالك رضي الله عنه، قال: اتى النبي صلى الله عليه وسلم على بعض نسائه ومعهن ام سليم، فقال:" ويحك يا انجشة رويدك سوقا بالقوارير"، قال ابو قلابة فتكلم النبي صلى الله عليه وسلم بكلمة لو تكلم بها بعضكم لعبتموها عليه قوله:" سوقك بالقوارير".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَعْضِ نِسَائِهِ وَمَعَهُنَّ أُمُّ سُلَيْمٍ، فَقَالَ:" وَيْحَكَ يَا أَنْجَشَةُ رُوَيْدَكَ سَوْقًا بِالْقَوَارِيرِ"، قَالَ أَبُو قِلَابَةَ فَتَكَلَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَلِمَةٍ لَوْ تَكَلَّمَ بِهَا بَعْضُكُمْ لَعِبْتُمُوهَا عَلَيْهِ قَوْلُهُ:" سَوْقَكَ بِالْقَوَارِيرِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (ایک سفر کے موقع پر) اپنی عورتوں کے پاس آئے جو اونٹوں پر سوار جا رہی تھیں، ان کے ساتھ ام سلیم رضی اللہ عنہا انس کی والدہ بھی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ افسوس، انجشہ! شیشوں کو آہستگی سے لے چل۔ ابوقلابہ نے کہا کہ نبی کریم نے عورتوں سے متعلق ایسے الفاظ کا استعمال فرمایا کہ اگر تم میں کوئی شخص استعمال کرے تو تم اس پر عیب جوئی کرو۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ شیشوں کو نرمی سے لے چل۔
Narrated Anas bin Malik: The Prophet came to some of his wives among whom there was Um Sulaim, and said, "May Allah be merciful to you, O Anjasha! Drive the camels slowly, as they are carrying glass vessels!" Abu Qalaba said, "The Prophet said a sentence (i.e. the above metaphor) which, had anyone of you said it, you would have admonished him for it".
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 170
(موقوف) حدثنا محمد، حدثنا عبدة، اخبرنا هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: استاذن حسان بن ثابت رسول الله صلى الله عليه وسلم في هجاء المشركين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فكيف بنسبي"، فقال حسان: لاسلنك منهم كما تسل الشعرة من العجين، وعن هشام بن عروة، عن ابيه، قال: ذهبت اسب حسان عند عائشة، فقالت:" لا تسبه، فإنه كان ينافح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم".(موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: اسْتَأْذَنَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هِجَاءِ الْمُشْرِكِينَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَكَيْفَ بِنَسَبِي"، فَقَالَ حَسَّانُ: لَأَسُلَّنَّكَ مِنْهُمْ كَمَا تُسَلُّ الشَّعَرَةُ مِنَ الْعَجِينِ، وَعَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: ذَهَبْتُ أَسُبُّ حَسَّانَ عِنْدَ عَائِشَةَ، فَقَالَتْ:" لَا تَسُبُّهُ، فَإِنَّهُ كَانَ يُنَافِحُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدہ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے مشرکین کی ہجو کرنے کی اجازت چاہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کا اور میرا خاندان تو ایک ہی ہے (پھر تو میں بھی اس ہجو میں شریک ہو جاؤں گا)۔ حسان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ہجو سے آپ کو اس طرح صاف نکال دوں گا جس طرح گندھے ہوئے آٹے سے بال نکال لیا جاتا ہے۔ اور ہشام بن عروہ سے روایت ہے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو عائشہ رضی اللہ عنہا کی مجلس میں برا کہنے لگا تو انہوں نے کہا کہ حسان کو برا بھلا نہ کہو، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مشرکوں کو جواب دیتا تھا۔
Narrated `Aisha: Hassan bin Thabit asked the permission of Allah's Apostle to lampoon the pagans (in verse). Allah's Apostle said, "What about my fore-fathers (ancestry)?' Hassan said (to the Prophet) "I will take you out of them as a hair is taken out of dough." Narrated Hisham bin `Urwa that his father said, "I called Hassan with bad names in front of `Aisha." She said, "Don't call him with bad names because he used to defend Allah's Apostle (against the pagans).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 171
ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے یونس نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں ہشیم بن ابی سنان نے خبر دی کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ حالات اور قصص کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کر رہے تھے۔ کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے ایک بھائی نے کوئی بری بات نہیں کہی۔ آپ کا اشارہ ابن رواحہ کی طرف تھا (اپنے اشعار میں) انہوں نے یوں کہا تھا ”اور ہم میں اللہ کے رسول ہیں جو اس کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں، اس وقت جب فجر کی روشنی پھوٹ کر پھیل جاتی ہے۔ ہمیں انہوں نے گمراہی کے بعد ہدایت کا راستہ دکھایا۔ پس ہمارے دل اس امر پر یقین رکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا وہ ضرور واقع ہو گا۔ آپ رات اس طرح گزارتے ہیں کہ ان کا پہلو بستر سے جدا رہتا ہے (یعنی جاگ کر) جب کہ کافروں کے بوجھ سے ان کی خواب گاہیں بوجھل ہوئی رہتی ہیں۔“ یونس کے ساتھ اس حدیث کو عقیل نے بھی زہری سے روایت کیا اور محمد بن ولید زبیدی نے زہری سے، انہوں نے سعید بن مسیب سے اور عبدالرحمٰن اعرج سے انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کو روایت کیا۔
Narrated Al-Haitham bin Abu Sinan: that he heard Abu Huraira in his narration, mentioning that the Prophet said, "A Muslim brother of yours who does not say dirty words." and by that he meant Ibn Rawaha, "said (in verse): 'We have Allah's Apostle with us who recites the Holy Qur'an in the early morning time. He gave us guidance and light while we were blind and astray, so our hearts are sure that whatever he says, will certainly happen. He does not touch his bed at night, being busy in worshipping Allah while the pagans are sound asleep in their beds.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 172
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے، ان سے محمد بن ابی عتیق نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف نے، انہوں نے حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو گواہ بنا کر کہہ رہے تھے کہ اے ابوہریرہ! میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے حسان! اللہ کے رسول کی طرف سے مشرکوں کو جواب دو، اے اللہ! روح القدس کے ذریعہ ان کی مدد کر۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں۔
Narrated Abu Salama bin `Abdur-Rahman bin `Auf: that he heard Hassan bin Thabit Al-Ansari asking the witness of Abu Huraira, saying, "O Abu- Huraira! I beseech you by Allah (to tell me). Did you hear Allah's Apostle saying' 'O Hassan ! Reply on behalf of Allah's Apostle. O Allah ! Support him (Hassan) with the Holy Spirit (Gabriel).'?" Abu Huraira said, "Yes."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 173
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عدی بن ثابت نے اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان رضی اللہ عنہ سے فرمایا ان کی ہجو کرو (یعنی مشرکین قریش کی)۔ یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( «هاجهم» کے الفاظ فرمائے) جبرائیل علیہ السلام تیرے ساتھ ہیں۔
92. باب: شعر و شاعری میں اس طرح اوقات صرف کرنا منع ہے کہ آدمی اللہ کی یاد اور علم حاصل کرنے اور قرآن شریف کی تلاوت کرنے سے باز رہ جائے۔
(92) Chapter. It is disliked for one to indulge in poetry to the extent that it diverts him from Allah’s remembrance, and from (religious) knowledge and from (recitation of) the Quran.
(مرفوع) حدثنا عبيد الله بن موسى، اخبرنا حنظلة، عن سالم، عن ابن عمر رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" لان يمتلئ جوف احدكم قيحا خير له من ان يمتلئ شعرا".(مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا حَنْظَلَةُ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَأَنْ يَمْتَلِئَ جَوْفُ أَحَدِكُمْ قَيْحًا خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمْتَلِئَ شِعْرًا".
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو حنظلہ نے خبر دی، انہیں سالم نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر تم میں سے کوئی شخص اپنا پیٹ پیپ سے بھرے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اسے شعر سے بھرے۔“
(مرفوع) حدثنا عمر بن حفص، حدثنا ابي، حدثنا الاعمش، قال: سمعت ابا صالح، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لان يمتلئ جوف رجل قيحا يريه خير من ان يمتلئ شعرا".(مرفوع) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَأَنْ يَمْتَلِئَ جَوْفُ رَجُلٍ قَيْحًا يَرِيهِ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَمْتَلِئَ شِعْرًا".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، انہوں کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابوصالح سے سنا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ”اگر تم میں سے کوئی شخص اپنا پیٹ پیپ سے بھر لے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ شعروں سے بھر جائے۔“
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle; said, "It is better for anyone of you that the inside of his body be filled with pus which may consume his body, than it be filled with poetry."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 176
93. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ تیرے ہاتھ کو مٹی لگے یا تجھ کو زخم پہنچے، تیرے حلق میں بیماری ہو۔
(93) Chapter. The statement of the Prophet: Taribat yaminuka (may your right hand be in dust)! an Aqra halqa. (it is just an exclamatory expression, the literal meaning of which is not meant here. It expresses disapproval.)
(مرفوع) حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة، قالت: إن افلح اخا ابي القعيس استاذن علي بعد ما نزل الحجاب، فقلت: والله لا آذن له حتى استاذن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإن اخا ابي القعيس ليس هو ارضعني، ولكن ارضعتني امراة ابي القعيس، فدخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إن الرجل ليس هو ارضعني ولكن ارضعتني امراته، قال:" ائذني له فإنه عمك تربت يمينك" قال عروة: فبذلك كانت عائشة تقول: حرموا من الرضاعة ما يحرم من النسب.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: إِنَّ أَفْلَحَ أَخَا أَبِي الْقُعَيْسِ اسْتَأْذَنَ عَلَيَّ بَعْدَ مَا نَزَلَ الْحِجَابُ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَا آذَنُ لَهُ حَتَّى أَسْتَأْذِنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّ أَخَا أَبِي الْقُعَيْسِ لَيْسَ هُوَ أَرْضَعَنِي، وَلَكِنْ أَرْضَعَتْنِي امْرَأَةُ أَبِي الْقُعَيْسِ، فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الرَّجُلَ لَيْسَ هُوَ أَرْضَعَنِي وَلَكِنْ أَرْضَعَتْنِي امْرَأَتُهُ، قَالَ:" ائْذَنِي لَهُ فَإِنَّهُ عَمُّكِ تَرِبَتْ يَمِينُكِ" قَالَ عُرْوَةُ: فَبِذَلِكَ كَانَتْ عَائِشَةُ تَقُولُ: حَرِّمُوا مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ابوقعیس کے بھائی افلح (میرے رضاعی چچا نے) مجھ سے پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد اندر آنے کی اجازت چاہی، میں نے کہا کہ اللہ کی قسم جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اجازت نہ دیں گے میں اندر آنے کی اجازت نہیں دوں گی۔ کیونکہ ابوقعیس کے بھائی نے مجھے دودھ نہیں پلایا بلکہ ابوقعیس کی بیوی نے دودھ پلایا ہے۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مرد نے تو مجھے دودھ نہیں پلایا تھا، دودھ تو ان کی بیوی نے پلایا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اندر آنے کی اجازت دے دو، کیونکہ وہ تمہارے چچا ہیں، تمہارے ہاتھ میں مٹی لگے۔ عروہ نے کہا کہ اسی وجہ سے عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں کہ جتنے رشتے خون کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں وہ رضاعت سے بھی حرام ہی سمجھو۔
Narrated `Aisha: Allah, the brother of Abu Al-Qu'ais asked my permission to enter after the verses of Al-Hijab (veiling the ladies) was revealed, and I said, "By Allah, I will not admit him unless I take permission of Allah's Apostle for it was not the brother of Al-Qu'ais who had suckled me, but it was the wife of Al-Qu'ais, who had suckled me." Then Allah's Apostle entered upon me, and I said, "O Allah's Apostle! The man has not nursed me but his wife has nursed me." He said, "Admit him because he is your uncle (not from blood relation, but because you have been nursed by his wife), Taribat Yaminuki." `Urwa said, "Because of this reason, ' Aisha used to say: Foster suckling relations render all those things (marriages etc.) illegal which are illegal because of the corresponding blood relations." (See Hadith No. 36, Vol. 7)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 177
(مرفوع) حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا الحكم، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة رضي الله عنها، قالت:" اراد النبي صلى الله عليه وسلم ان ينفر، فراى صفية على باب خبائها كئيبة حزينة لانها حاضت، فقال: عقرى حلقى , لغة لقريش إنك لحابستنا، ثم قال: اكنت افضت يوم النحر، يعني الطواف قالت: نعم، قال: فانفري إذا".(مرفوع) حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" أَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَنْفِرَ، فَرَأَى صَفِيَّةَ عَلَى باب خِبَائِهَا كَئِيبَةً حَزِينَةً لِأَنَّهَا حَاضَتْ، فَقَالَ: عَقْرَى حَلْقَى , لُغَةٌ لِقُرَيْشٍ إِنَّكِ لَحَابِسَتُنَا، ثُمَّ قَالَ: أَكُنْتِ أَفَضْتِ يَوْمَ النَّحْرِ، يَعْنِي الطَّوَافَ قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: فَانْفِرِي إِذًا".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حکم بن عتیبہ نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (حج سے) واپسی کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ صفیہ رضی اللہ عنہا اپنے خیمے کے دروازہ پر رنجیدہ کھڑی ہیں کیونکہ وہ حائضہ ہو گئی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا «عقرى حلقى»(یہ قریش کا محاورہ ہے) اب تم ہمیں روکو گی! پھر دریافت فرمایا کیا تم نے قربانی کے دن طواف افاضہ کر لیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں، فرمایا کہ پھر چلو۔
Narrated `Aisha: The Prophet intended to return home after the performance of the Hajj, and he saw Safiya standing at the entrance of her tent, depressed and sad because she got her menses. The Prophet said, "Aqra Halqa! --An expression used in the Quraish dialect--"You will detain us." The Prophet then asked (her), "Did you perform the Tawaf Al-Ifada on the Day of Sacrifice (10th of Dhul-Hijja)?" She said, "Yes." The Prophet said, "Then you can leave (with us).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 178