الادب المفرد کل احادیث 1322 :حدیث نمبر
الادب المفرد
كتاب الوالدين
حدیث نمبر: 11
Save to word اعراب
حدثنا آدم، قال‏:‏ حدثنا شعبة، قال‏:‏ حدثنا سعيد بن ابي بردة قال‏:‏ سمعت ابي يحدث، انه شهد ابن عمر ورجل يماني يطوف بالبيت، حمل امه وراء ظهره، يقول‏:‏
إني لها بعيرها المذلل
إن اذعرت ركابها لم اذعر
ثم قال‏:‏ يا ابن عمر اتراني جزيتها‏؟‏ قال‏:‏ لا، ولا بزفرة واحدة، ثم طاف ابن عمر، فاتى المقام فصلى ركعتين، ثم قال‏:‏ يا ابن ابي موسى، إن كل ركعتين تكفران ما امامهما‏.‏
حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي بُرْدَةَ قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، أَنَّهُ شَهِدَ ابْنَ عُمَرَ وَرَجُلٌ يَمَانِيٌّ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ، حَمَلَ أُمَّهُ وَرَاءَ ظَهْرِهِ، يَقُولُ‏:‏
إِنِّي لَهَا بَعِيرُهَا الْمُذَلَّلُ
إِنْ أُذْعِرَتْ رِكَابُهَا لَمْ أُذْعَرِ
ثُمَّ قَالَ‏:‏ يَا ابْنَ عُمَرَ أَتُرَانِي جَزَيْتُهَا‏؟‏ قَالَ‏:‏ لاَ، وَلاَ بِزَفْرَةٍ وَاحِدَةٍ، ثُمَّ طَافَ ابْنُ عُمَرَ، فَأَتَى الْمَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ‏:‏ يَا ابْنَ أَبِي مُوسَى، إِنَّ كُلَّ رَكْعَتَيْنِ تُكَفِّرَانِ مَا أَمَامَهُمَا‏.‏
سعید بن ابوبردہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یمن کے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ بیت اللہ کا طواف کر رہا ہے، اور اس نے اپنی والدہ کو کمر پر اٹھا رکھا ہے، اور یہ اشعار پڑھ رہا ہے: میں اپنی ماں کے لیے سدھایا ہوا اونٹ ہوں، اگر اس کی سواریوں کو خوف زدہ کیا جائے تو میں خوف زدہ نہیں ہوں گا۔ پھر اس نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: آپ کا کیا خیال ہے کہ میں نے اپنی والدہ کا بدلہ چکا دیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، اس (کی زچگی) کے ایک سانس کا بھی نہیں۔ پھر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے طواف کیا اور مقام ابراہیم پر آ کر دو رکعتیں ادا کیں اور فرمایا: اے ابوموسیٰ کے بیٹے! ہر دو رکعتیں ماقبل کئے ہوئے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه المروزي فى البر والصلة: 37 و الفاكهي فى أخبار مكة: 642 و ابن أبى الدنيا فى مكارم الاخلاق: 235 و البيهقي فى شعب الإيمان: 7926»

قال الشيخ الألباني: صحیح
حدیث نمبر: 12
Save to word اعراب
حدثنا عبد الله بن صالح قال‏:‏ حدثني الليث قال‏:‏ حدثني خالد بن يزيد، عن سعيد بن ابي هلال، عن ابي حازم، عن ابي مرة مولى عقيل، ان ابا هريرة كان يستخلفه مروان، وكان يكون بذي الحليفة، فكانت امه في بيت وهو في آخر‏.‏ قال‏:‏ فإذا اراد ان يخرج وقف على بابها فقال‏:‏ السلام عليك يا امتاه ورحمة الله وبركاته، فتقول‏:‏ وعليك السلام يا بني ورحمة الله وبركاته، فيقول‏:‏ رحمك الله كما ربيتني صغيرا، فتقول‏:‏ رحمك الله كما بررتني كبيرا، ثم إذا اراد ان يدخل صنع مثله‏.‏حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلاَلٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي مُرَّةَ مَوْلَى عَقِيلٍ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يَسْتَخْلِفُهُ مَرْوَانُ، وَكَانَ يَكُونُ بِذِي الْحُلَيْفَةِ، فَكَانَتْ أُمُّهُ فِي بَيْتٍ وَهُوَ فِي آخَرَ‏.‏ قَالَ‏:‏ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ وَقَفَ عَلَى بَابِهَا فَقَالَ‏:‏ السَّلاَمُ عَلَيْكِ يَا أُمَّتَاهُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، فَتَقُولُ‏:‏ وَعَلَيْكَ السَّلاَمُ يَا بُنَيَّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، فَيَقُولُ‏:‏ رَحِمَكِ اللَّهُ كَمَا رَبَّيْتِنِي صَغِيرًا، فَتَقُولُ‏:‏ رَحِمَكَ اللَّهُ كَمَا بَرَرْتَنِي كَبِيرًا، ثُمَّ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَدْخُلَ صَنَعَ مِثْلَهُ‏.‏
سیدنا عقیل رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ابومرہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو مروان اپنا نائب بنایا کرتا تھا، اور وہ ذوالحلیفہ میں رہتے تھے، اور ان کی والدہ ایک گھر میں رہتی تھی، اور وہ خود دوسرے گھر میں رہتے تھے۔ ابومرہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جب کہیں جانے کا ارادہ فرماتے تو اپنی والدہ کے (گھر کے) دروازے پر کھڑے ہو کر فرماتے: اے اماں جان! تجھ پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت اور برکتیں ہوں، تو ان کی والدہ جواب میں فرماتیں: اور تجھ پر سلامتی اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔ وہ (سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ) فرماتے: اللہ آپ پر رحم فرمائے جیسے آپ نے بچپن میں میری پرورش کی، تو جواباً فرماتیں: اللہ تجھ پر بھی رحم فرمائے جس طرح تو نے بڑے ہو کر میرے ساتھ حسن سلوک کیا۔ اور جب واپس تشریف لاتے تو پھر اسی طرح کرتے۔

تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه ابن وهب فى الجامع: 151 و المروزي فى البر والصلة: 37 و ابن أبى الدنيا فى مكارم الاخلاق: 228»

قال الشيخ الألباني: ضعیف
حدیث نمبر: 13
Save to word اعراب
حدثنا ابو نعيم، قال‏:‏ حدثنا سفيان، عن عطاء بن السائب، عن ابيه، عن عبد الله بن عمرو قال‏:‏ جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم ”يبايعه على الهجرة، وترك ابويه يبكيان، فقال‏:‏ ارجع إليهما، واضحكهما كما ابكيتهما‏.“‏حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ‏:‏ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ”يُبَايِعُهُ عَلَى الْهِجْرَةِ، وَتَرَكَ أَبَوَيْهِ يَبْكِيَانِ، فَقَالَ‏:‏ ارْجِعْ إِلَيْهِمَا، وَأَضْحِكْهُمَا كَمَا أَبْكَيْتَهُمَا‏.“‏
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہجرت کی بیعت کرنے کے لیے حاضر ہوا اور اس کے والدین (اس کی جدائی سے) رو رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے پاس واپس جا اور انہیں ہنسا جس طرح تو نے انہیں رلایا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أبوداؤد، الجهاد، باب فى الرجل يغزو و أبواه كارهان: 2528 و النسائي فى الكبريٰ، حديث: 8696، من حديث سفيان الثوري و النسائي: 4163 و ابن ماجه: 2782، صحيح الترغيب: 2481»

قال الشيخ الألباني: صحیح
حدیث نمبر: 14
Save to word اعراب
حدثنا عبد الرحمن بن شيبة قال‏:‏ اخبرني ابن ابي الفديك قال‏:‏ حدثني موسى، عن ابي حازم، ان ابا مرة، مولى ام هانئ ابنة ابي طالب اخبره، انه ركب مع ابي هريرة إلى ارضه بالعقيق فإذا دخل ارضه صاح باعلى صوته‏:‏ عليك السلام ورحمة الله وبركاته يا امتاه، تقول‏:‏ وعليك السلام ورحمة الله وبركاته، يقول‏:‏ رحمك الله ربيتني صغيرا، فتقول‏:‏ يا بني، وانت فجزاك الله خيرا ورضي عنك كما بررتني كبيرا قال موسى‏:‏ كان اسم ابي هريرة‏:‏ عبد الله بن عمرو‏.‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شَيْبَةَ قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي الْفُدَيْكِ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي مُوسَى، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، أَنَّ أَبَا مُرَّةَ، مَوْلَى أُمِّ هَانِئِ ابْنَةِ أَبِي طَالِبٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ رَكِبَ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ إِلَى أَرْضِهِ بِالْعَقِيقِ فَإِذَا دَخَلَ أَرْضَهُ صَاحَ بِأَعْلَى صَوْتِهِ‏:‏ عَلَيْكِ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ يَا أُمَّتَاهُ، تَقُولُ‏:‏ وَعَلَيْكَ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، يَقُولُ‏:‏ رَحِمَكِ اللَّهُ رَبَّيْتِنِي صَغِيرًا، فَتَقُولُ‏:‏ يَا بُنَيَّ، وَأَنْتَ فَجَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا وَرَضِيَ عَنْكَ كَمَا بَرَرْتَنِي كَبِيرًا قَالَ مُوسَى‏:‏ كَانَ اسْمُ أَبِي هُرَيْرَةَ‏:‏ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرٍو‏.‏
ام ہانی بنت ابو طالب رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام ابومرہ نے بتایا کہ میں سیدنا ابوہرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ سوار ہو کر عقیق علاقے میں ان کی زمین کی طرف گیا۔ جب وہ اپنی زمین میں داخل ہوئے تو انہوں نے بآواز بلند کہا: اے میری ماں تجھ پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔ ان کی والدہ نے جواب میں ایسے ہی کلمات کہے۔ پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تجھ پر رحم فرمائے جس طرح بچپن میں تو نے میری پرورش کی ہے۔ ان کی والدہ نے فرمایا: میرے بیٹے! اللہ آپ کو بہترین بدلہ دے اور آپ سے راضی اور خوش ہو، جیسے تو نے بڑے ہو کر میرے ساتھ حسن سلوک کیا۔ راوی حدیث موسیٰ بن یعقوب کہتے ہیں: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا نام عبداللہ بن عمرو ہے۔

تخریج الحدیث: «حسن: انظر الحديث: 12»

قال الشيخ الألباني: حسن
7. بَابُ عُقُوقِ الْوَالِدَيْنِ
7. والدین کی نافرمانی کرنا
حدیث نمبر: 15
Save to word اعراب
حدثنا مسدد، قال‏:‏ حدثنا بشر بن الفضل، قال‏:‏ حدثنا الجريري، عن عبد الرحمن بن ابي بكرة، عن ابيه قال‏:‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏ ”الا انبئكم باكبر الكبائر‏؟“‏ ثلاثا، قالوا‏:‏ بلى يا رسول الله، قال‏:‏ ”الإشراك بالله، وعقوق الوالدين وجلس وكان متكئا الا وقول الزور“، ما زال يكررها حتى قلت‏:‏ ليته سكت‏.‏حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْفَضْلِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ‏:‏ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”أَلاَ أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ‏؟“‏ ثَلاَثًا، قَالُوا‏:‏ بَلَى يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ‏:‏ ”الإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ وَجَلَسَ وَكَانَ مُتَّكِئًا أَلاَ وَقَوْلُ الزُّورِ“، مَا زَالَ يُكَرِّرُهَا حَتَّى قُلْتُ‏:‏ لَيْتَهُ سَكَتَ‏.‏
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں بہت بڑے گناہوں کے متعلق نہ بتاؤں؟ تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ضرور بتلایئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگائے ہوئے تھے اور سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور (فرمایا): خبردار! جھوٹ بولنا! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو بار بار فرماتے رہے یہاں تک کہ میں نے (دل میں) کہا: کاش کہ آپ خاموش ہو جاتے۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الأدب، باب عقوق الوالدين من الكبائر: 5976 و مسلم: 143، غاية المرام: 277»

قال الشيخ الألباني: صحیح
حدیث نمبر: 16
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن سلام، قال‏:‏ اخبرنا جرير، عن عبد الملك بن عمير، عن وراد، كاتب المغيرة بن شعبة، قال‏:‏ كتب معاوية إلى المغيرة‏:‏ اكتب إلي بما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم.‏ قال وراد‏:‏ فاملى علي وكتبت بيدي‏:‏ إني سمعته ينهى عن كثرة السؤال، وإضاعة المال، وعن قيل وقال‏.‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ وَرَّادٍ، كَاتِبِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ‏:‏ كَتَبَ مُعَاوِيَةُ إِلَى الْمُغِيرَةِ‏:‏ اكْتُبْ إِلَيَّ بِمَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.‏ قَالَ وَرَّادٌ‏:‏ فَأَمْلَى عَلَيَّ وَكَتَبْتُ بِيَدَيَّ‏:‏ إِنِّي سَمِعْتُهُ يَنْهَى عَنْ كَثْرَةِ السُّؤَالِ، وَإِضَاعَةِ الْمَالِ، وَعَنْ قِيلَ وَقَالَ‏.‏
وراد کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ مجھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فرمان لکھ بھیجو، تو انہوں نے مجھے املا کروایا، اور میں نے اپنے ہاتھوں سے لکھا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سوال، مال ضائع کرنے اور قیل و قال سے منع فرماتے تھے۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الاعتصام بالكتاب والسنة: 2792 و مسلم: 593، انظر الضعيفة تحت حديث: 5598»

قال الشيخ الألباني: صحیح
8. بَابُ لَعَنَ اللَّهُ مَنْ لَعَنَ وَالِدَيْهِ
8. والدین پر لعنت کرنے والے پر اللہ کی لعنت ہے
حدیث نمبر: 17
Save to word اعراب
حدثنا عمرو بن مرزوق، قال‏:‏ اخبرنا شعبة، عن القاسم بن ابي بزة، عن ابي الطفيل قال‏:‏ سئل علي‏:‏ هل خصكم النبي صلى الله عليه وسلم بشيء لم يخص به الناس كافة‏؟‏ قال‏:‏ ما خصنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بشيء لم يخص به الناس، إلا ما في قراب سيفي، ثم اخرج صحيفة، فإذا فيها مكتوب‏:‏ ”لعن الله من ذبح لغير الله، لعن الله من سرق منار الارض، لعن الله من لعن والديه، لعن الله من آوى محدثا‏.“‏حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ أَبِي بَزَّةَ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ‏:‏ سُئِلَ عَلِيٌّ‏:‏ هَلْ خَصَّكُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ لَمْ يَخُصَّ بِهِ النَّاسَ كَافَّةً‏؟‏ قَالَ‏:‏ مَا خَصَّنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ لَمْ يَخُصَّ بِهِ النَّاسَ، إِلاَّ مَا فِي قِرَابِ سَيْفِي، ثُمَّ أَخْرَجَ صَحِيفَةً، فَإِذَا فِيهَا مَكْتُوبٌ‏:‏ ”لَعَنَ اللَّهُ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللهِ، لَعَنَ اللَّهُ مَنْ سَرَقَ مَنَارَ الأَرْضِ، لَعَنَ اللَّهُ مَنْ لَعَنَ وَالِدَيْهِ، لَعَنَ اللَّهُ مَنْ آوَى مُحْدِثًا‏.“‏
حضرت ابوالطفیل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کوئی خاص بات بتائی ہے جو دوسرے تمام لوگوں کو نہ بتائی ہو؟ انہوں نے فرمایا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی کوئی چیز نہیں بتائی جو لوگوں کو نہ بتائی ہو سوائے اس کے جو میری تلوار کے نیام میں ہے۔ پھر آپ نے ایک کاغذ کا ٹکڑا نکالا جس پر لکھا ہوا تھا: اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اس پر جو غیر اللہ کے لیے ذبح کرے، اللہ کی لعنت ہو اس پر جو زمین کے نشانات چرائے، اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اس پر جو اپنے والدین پر لعنت کرے اور بدعتی کو پناہ دینے والے پر اللہ کی لعنت ہو۔

تخریج الحدیث: «صحيح: صحيح مسلم، الأضاحي، حديث: 1978»

قال الشيخ الألباني: صحیح
9. بَابُ يَبَرُّ وَالِدَيْهِ مَا لَمْ يَكُنْ مَعْصِيَةً
9. جائز حد تک والدین کے ساتھ ہر ممکن حسن سلوک کا بیان
حدیث نمبر: 18
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن عبد العزيز، قال‏:‏ حدثنا عبد الملك بن الخطاب بن عبيد الله بن ابي بكرة البصري لقيته بالرملة قال‏:‏ حدثني راشد ابو محمد، عن شهر بن حوشب، عن ام الدرداء، عن ابي الدرداء قال‏:‏ اوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم بتسع‏:‏ لا تشرك بالله شيئا ؛ وإن قطعت او حرقت، ولا تتركن الصلاة المكتوبة متعمدا، ومن تركها متعمدا برئت منه الذمة، ولا تشربن الخمر، فإنها مفتاح كل شر، واطع والديك، وإن امراك ان تخرج من دنياك فاخرج لهما، ولا تنازعن ولاة الامر وإن رايت انك انت، ولا تفرر من الزحف، وإن هلكت وفر اصحابك، وانفق من طولك على اهلك، ولا ترفع عصاك عن اهلك، واخفهم في الله عز وجل‏.‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ الْخَطَّابِ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ الْبَصْرِيُّ لَقِيتُهُ بِالرَّمْلَةِ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي رَاشِدٌ أَبُو مُحَمَّدٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ‏:‏ أَوْصَانِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتِسْعٍ‏:‏ لاَ تُشْرِكْ بِاللَّهِ شَيْئًا ؛ وَإِنْ قُطِّعْتَ أَوْ حُرِّقْتَ، وَلاَ تَتْرُكَنَّ الصَّلاَةَ الْمَكْتُوبَةَ مُتَعَمِّدًا، وَمَنْ تَرَكَهَا مُتَعَمِّدًا بَرِئَتْ مِنْهُ الذِّمَّةُ، وَلاَ تَشْرَبَنَّ الْخَمْرَ، فَإِنَّهَا مِفْتَاحُ كُلِّ شَرٍّ، وَأَطِعْ وَالِدَيْكَ، وَإِنْ أَمَرَاكَ أَنْ تَخْرُجَ مِنْ دُنْيَاكَ فَاخْرُجْ لَهُمَا، وَلاَ تُنَازِعَنَّ وُلاَةَ الأَمْرِ وَإِنْ رَأَيْتَ أَنَّكَ أَنْتَ، وَلاَ تَفْرُرْ مِنَ الزَّحْفِ، وَإِنْ هَلَكْتَ وَفَرَّ أَصْحَابُكَ، وَأَنْفِقْ مِنْ طَوْلِكَ عَلَى أَهْلِكَ، وَلاَ تَرْفَعْ عَصَاكَ عَنْ أَهْلِكَ، وَأَخِفْهُمْ فِي اللهِ عَزَّ وَجَلَّ‏.‏
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نو چیزوں کی وصیت فرمائی: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا اگرچہ تیرے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جائیں، یا تجھے جلا دیا جائے۔ فرض نماز جان بوجھ کر ہرگز نہ چھوڑنا، جس نے فرض نماز قصداً چھوڑ دی (اللہ کا) ذمہ اس سے بری ہے۔ شراب ہرگز نہ پینا کیونکہ وہ ہر برائی کی چابی ہے۔ والدین کی اطاعت کرنا اگر وہ تجھے حکم دیں کہ تو اپنی دنیا (یعنی دنیا کے مال) سے نکل تو ان کی خاطر نکل جانا۔ اصحاب اقتدار سے ہرگز نہ جھگڑنا، اگرچہ تو اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہو۔ میدان جنگ سے نہ بھاگنا خواہ تو ہلاک ہو جائے اور تیرے ساتھی بھاگ جائیں۔ خوش حالی میں اپنے اہل وعیال پر خرچ کرو۔ اور اپنے گھر والوں سے (ہر وقت) لاٹھی اٹھا کر نہ رکھو۔ اور انہیں اللہ عزوجل سے ڈراتے رہو۔

تخریج الحدیث: «حسن: مسند أحمد: 238/5، ابن ماجه، الفتن، باب البر على البلاء: 4034، صحيح الترغيب: 567 و الإرواء: 2026»

قال الشيخ الألباني: حسن
حدیث نمبر: 19
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن كثير، قال‏:‏ حدثنا سفيان، عن عطاء بن السائب، عن ابيه، عن عبد الله بن عمرو قال‏:‏ جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال‏:‏ جئت ابايعك على الهجرة، وتركت ابوي يبكيان‏؟‏ قال‏:‏ ”ارجع إليهما فاضحكهما كما ابكيتهما.“حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ‏:‏ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ‏:‏ جِئْتُ أُبَايِعُكَ عَلَى الْهِجْرَةِ، وَتَرَكْتُ أَبَوَيَّ يَبْكِيَانِ‏؟‏ قَالَ‏:‏ ”ارْجِعْ إِلَيْهِمَا فَأَضْحِكْهُمَا كَمَا أَبْكَيْتَهُمَا.“
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: میں آپ سے ہجرت پر بیعت کے لیے حاضر ہوا ہوں، اور میں نے اپنے والدین کو اس حال میں چھوڑا ہے کہ وہ (میری جدائی کی وجہ سے) رو رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے پاس واپس جا اور انہیں جس طرح رلایا ہے اسی طرح ہنسا۔

تخریج الحدیث: «صحيح: تقدم أنظر الحديث: 13»

قال الشيخ الألباني: صحیح
حدیث نمبر: 20
Save to word اعراب
حدثنا علي بن الجعد، قال‏:‏ اخبرنا شعبة، عن حبيب بن ابي ثابت قال‏:‏ سمعت ابا العباس الاعمى، عن عبد الله بن عمرو قال‏:‏ جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم يريد الجهاد، فقال‏:‏ ”احي والداك‏؟“‏ فقال‏:‏ نعم، فقال‏:‏ ”ففيهما فجاهد.“حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ أَبَا الْعَبَّاسِ الأَعْمَى، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ‏:‏ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ الْجِهَادَ، فَقَالَ‏:‏ ”أَحَيٌّ وَالِدَاكَ‏؟“‏ فَقَالَ‏:‏ نَعَمْ، فَقَالَ‏:‏ ”فَفِيهِمَا فَجَاهِدْ.“
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ وہ جہاد (میں شریک ہونے) کا ارادہ رکھتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: تیرے والدین زندہ ہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر انہیں میں جا کر جہاد کر۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الجهاد، باب الجهاد بإذن الوالدين: 3004، 5972 و مسلم: 2549، الإرواء: 199»

قال الشيخ الألباني: صحیح

Previous    1    2    3    4    5    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.