الادب المفرد
كِتَابُ الْوَالِدَيْنِ
كتاب الوالدين
8. بَابُ لَعَنَ اللَّهُ مَنْ لَعَنَ وَالِدَيْهِ
والدین پر لعنت کرنے والے پر اللہ کی لعنت ہے
حدیث نمبر: 17
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ أَبِي بَزَّةَ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ: سُئِلَ عَلِيٌّ: هَلْ خَصَّكُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ لَمْ يَخُصَّ بِهِ النَّاسَ كَافَّةً؟ قَالَ: مَا خَصَّنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ لَمْ يَخُصَّ بِهِ النَّاسَ، إِلاَّ مَا فِي قِرَابِ سَيْفِي، ثُمَّ أَخْرَجَ صَحِيفَةً، فَإِذَا فِيهَا مَكْتُوبٌ: ”لَعَنَ اللَّهُ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللهِ، لَعَنَ اللَّهُ مَنْ سَرَقَ مَنَارَ الأَرْضِ، لَعَنَ اللَّهُ مَنْ لَعَنَ وَالِدَيْهِ، لَعَنَ اللَّهُ مَنْ آوَى مُحْدِثًا.“
حضرت ابوالطفیل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کوئی خاص بات بتائی ہے جو دوسرے تمام لوگوں کو نہ بتائی ہو؟ انہوں نے فرمایا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی کوئی چیز نہیں بتائی جو لوگوں کو نہ بتائی ہو سوائے اس کے جو میری تلوار کے نیام میں ہے۔ پھر آپ نے ایک کاغذ کا ٹکڑا نکالا جس پر لکھا ہوا تھا: ”اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اس پر جو غیر اللہ کے لیے ذبح کرے، اللہ کی لعنت ہو اس پر جو زمین کے نشانات چرائے، اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اس پر جو اپنے والدین پر لعنت کرے اور بدعتی کو پناہ دینے والے پر اللہ کی لعنت ہو۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: صحيح مسلم، الأضاحي، حديث: 1978»
قال الشيخ الألباني: صحیح
الادب المفرد کی حدیث نمبر 17 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 17
فوائد ومسائل:
(۱)سیدنا علی رضی اللہ عنہ بلاشبہ خلیفہ راشد ہیں اور باقی صحابہ کی طرح ان کی محبت ایمان کا حصہ ہے۔ ان کے بارے میں روافض کے اقوال، کہ وہ خلیفہ بلا فصل تھے، آپ نے ان کو خاص طور پر کچھ باتیں بتائی تھیں وغیرہ، بے بنیاد ہیں اسی اشکال کا ذکر خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی زندگی میں ان سے کیا گیا تو انہوں نے نہ صرف اس کی تردید فرمائی بلکہ صحیح مسلم کی روایت کے مطابق شدید برہمی کا اظہار بھی فرمایا کہ ایسی کوئی بات نہیں جو آپ نے مجھ سے خفیہ کہی ہو۔ (صحیح مسلم، ح: ۱۹۷۸)
(۲) ”آپ کا یہ فرمانا کہ صرف ایک نوشتہ ہے۔“ تو اس کا بھی یہ مطلب نہیں کہ وہ ہمارے ساتھ خاص ہے بلکہ وہ بھی عام ہے اور پھر آپ نے وہ نوشتہ نکال کر سنایا جس سے ان لوگوں کا شدید رد ہوتا ہے جو یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خاص باتیں بتائیں تھیں جن میں خلافت اور امامت کے مسائل تھے۔ وہ باتیں درج ذیل ہیں جو تمام مسلمانوں کی زندگی سے تعلق رکھتی ہیں۔
(۳) پہلی بات اس نوشتے میں یہ تھی کہ جو شخص غیر اللہ کے لیے ذبح کرے اس پر لعنت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے قربانی یا حج کے موقع پر جانور ذبح کیے جاتے ہیں اسی طرح کسی غیر اللہ کو خوش کرنے کے لیے اس کے نام یا قبر وغیرہ پر جانور ذبح کرنا باعث لعنت ہے اور شرک اکبر ہے۔ بعض لوگ جانور غیر اللہ کے نام پر مشہور کر دیتے ہیں کہ یہ فلاں پیر صاحب کے نام کا ہے اور فلاں ولی کی نیاز ہے اگرچہ ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا جاتا ہے لیکن اس میں بھی کیونکہ خوشنودی اللہ تعالیٰ کی نہیں بلکہ پیر وغیرہ کی ہوتی ہے، لہٰذا یہ بھی لعنت ہی کے زمرے میں آئے گا۔ غیر اللہ کے نام پر ذبح شدہ جانور حرام ہوگا خواہ ذبح کرنے والا مسلمان ہی ہو۔
(۴) صحیح مسلم کی روایت میں سرق کی جگہ غیّر کے لفظ ہیں جس کے معنی بدلنے کے ہیں۔ منار سے مراد وہ نشانات ہیں جو زمین کی مربع بندی وغیرہ پر لگائے گئے ہوں۔ زمین کے نشانات چرانے یا بدلنے کا مطلب یہ ہے کہ جن پتھروں وغیرہ کے ساتھ زمین کی حدود بندی ہوئی ہو انہیں غائب کر دینا یا بدل دینا تاکہ کسی دوسرے کی زمین کو ہتھایا جاسکتے۔ یہ کام بھی باعث لعنت ہے کیونکہ ایسا کرنے والا شخص نہ صرف کسی کا حق غصب کرتا ہے بلکہ معاشرے میں فساد بھی پیدا کرتا ہے کیونکہ اس کے نشان غائب کرنے سے اور بھی بہت سے لوگ متاثر ہوں گے۔ اس لعنت کے زمرے میں وہ لوگ بھی آتے ہیں جو پٹواری وغیرہ سے لے دے کرکے کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ کرلیتے ہیں اور نقشہ میں بھی تبدیلی کروالیتے ہیں بلکہ ناحق کسی کی زمین پر قبضہ کرنے والا اس سے بھی بڑی سزا کا مستحق ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”جو کسی کی ایک بالشت زمین پر بھی ناحق قبضہ کرتا ہے اسے روز قیامت سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔ اعاذنا الله منه (صحیح البخاري، حدیث: ۲۴۵۲)
(۵) والدین پر لعنت کرنا اللہ تعالیٰ کی لعنت اور غضب کا باعث ہے کیونکہ جہاں اف کرنے کی بھی گنجائش نہ ہو وہاں گالی گلوچ تو بہت بڑا سنگین معاملہ ہے۔ والدین پر لعنت کرنے کا مطلب یا تو ان پر صریح لعنت کرنا ہے یا لعنت کا سبب بننا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے والدین کو تو گالیاں نہیں دیتا لیکن گالیاں دلوانے کا سبب بنتا ہے تو وہ بھی اسی زمرے میں آئے گا۔ صحابہ کرام نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا کہ کیا کوئی شخص والدین کو بھی گالیاں دیتا ہے تو آپ نے فرمایا: وہ دوسروں کے والدین کو گالیاں دیتا ہے اور وہ اس کے والدین کو گالیاں دیتے ہیں۔ (صحیح مسلم، الایمان، ح: ۹۰)دور حاضر میں بہت سے لوگ والدین کے ادب کو ملحوظ نہیں رکھتے اور عظیم گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ تفصیل پچھلے ابواب میں گزر چکی ہے۔
(۶) محدث: یہ احداث سے اسم فاعل کا صیغہ ہے جس کا مطلب دین اسلام میں نئی چیز ایجاد کرنے والا ہے، اسے بدعتی بھی کہا جاتا ہے۔ بدعت ہر لحاظ سے گمراہی ہے خواہ اعتقادی ہو یا عملی، اور اسے مردود کہا گیا ہے۔ بدعتی کی مدد کرنا اور اسے تحفظ دینا گویا کہ اسلام کے خلاف اس سازش کی حمایت کرنا ہے جو درحقیقت سنت کو ختم کرنے کے لیے ہے۔ نہایہ میں محدث کے معنی مجرم اور زمین میں فساد کرنے والا کیے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بدعتی میں یہ دونوں برائیاں پائی جاتی ہیں۔ بدعت اور بدعتی پر تنقید نہ کرنا اور رضا مندی کا اظہار کرنا بھی اسے پناہ دینے کے مترادف ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 17