حدثنا محمد بن سلام، قال: اخبرنا جرير، عن عبد الملك بن عمير، عن وراد، كاتب المغيرة بن شعبة، قال: كتب معاوية إلى المغيرة: اكتب إلي بما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال وراد: فاملى علي وكتبت بيدي: إني سمعته ينهى عن كثرة السؤال، وإضاعة المال، وعن قيل وقال.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ وَرَّادٍ، كَاتِبِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: كَتَبَ مُعَاوِيَةُ إِلَى الْمُغِيرَةِ: اكْتُبْ إِلَيَّ بِمَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ وَرَّادٌ: فَأَمْلَى عَلَيَّ وَكَتَبْتُ بِيَدَيَّ: إِنِّي سَمِعْتُهُ يَنْهَى عَنْ كَثْرَةِ السُّؤَالِ، وَإِضَاعَةِ الْمَالِ، وَعَنْ قِيلَ وَقَالَ.
وراد کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ مجھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فرمان لکھ بھیجو، تو انہوں نے مجھے املا کروایا، اور میں نے اپنے ہاتھوں سے لکھا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سوال، مال ضائع کرنے اور قیل و قال سے منع فرماتے تھے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الاعتصام بالكتاب والسنة: 2792 و مسلم: 593، انظر الضعيفة تحت حديث: 5598»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 16
فوائد ومسائل: (۱)مصنف رحمہ اللہ نے یہ روایت تفصیل کے ساتھ باب: ۲۱۶ حدیث: ۴۶۰ میں ذکر کی ہے جس میں عقوق الامہات کا لفظ ہے جو ہمارے مذکور بالا باب سے تعلق رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ حدیث صحیحین میں موجود ہے۔ (۲) اس حدیث میں اس بات کی طرف راہنمائی ہے کہ وقتاً فوقتاً ایک دوسرے کو نصیحت کرتے رہنا چاہیے۔ اور دوستوں کی خیر خواہی یہ ہے کہ انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے آگاہ کیا جائے۔ اسی طرح انسان کو چاہیے کہ سب کچھ خود ہی کو نہ سمجھ لے کہ سارا علم اس کے پاس ہے بلکہ مختلف اہل علم سے استفادہ کرتا رہے، اس لیے کہ تکبر علم کا دشمن ہے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابہ میں سے ہیں لیکن انہوں نے دین سے متعلق سوال کرنے میں ذرا عار محسوس نہیں کی۔ مزید اس بات کی بھی وضاحت ہوتی ہے کہ قرون اولیٰ میں بھی حدیث لکھنے کا رواج موجود تھا جس طرح کہ اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے۔ یہ ان لوگوں کے خلاف بہت بڑی دلیل ہے جو احادیث پر تنقید کرتے ہیں اور اسے غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ (۳) حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تین نصیحتوں کا ذکر ہے جو نہایت ہی مختصر اور ذو معنی الفاظ میں بیان کی گئی ہیں۔ دو کا تعلق زبان سے ہے اور ایک کا تعلق ہاتھوں سے ہے۔ ذیل میں ان کی وضاحت ملاحظہ فرمائیں: کثرت سوال: ....سوال دو طرح کے ہیں: (۱)دینی اور دنیاوی مسائل کے متعلق سوال۔ (۲)حاجات و ضروریات برلانے کا سوال۔ دینی مسائل میں عدم علم کی بنا پر سوال اور پوچھ گچھ کرنا قابل تعریف عمل ہے بلکہ اسلام نے اس کا حکم دیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَسْئَلُوْا أَهْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾(الآیة) ”اگر تمہیں کسی مسئلے کا علم نہیں ہے تو اہل علم سے سوال کرلو۔“ اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((إِنَّمَا شِفَاءُ العَيِّ السُّؤَالُ))(ابو داود، رقم الحدیث: ۳۳۶) ”جہالت کی بیماری کا علاج صرف سوال کرنا ہی ہے۔“ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اگر صاحب علم نہیں ہے تو وہ علماء سے جاکر دینی مسائل سے متعلق پوچھے کہ اس میں اللہ اور اس کے رسول کا کیا حکم ہے۔ اور پھر اس کے مطابق عمل کرے۔ اندھا دھن تقلید کرنا اور اللہ اور اس کے رسول کے احکام تک پہنچنے کی کوشش نہ کرنا دین اسلام میں نہایت مذموم ہے۔ یہود و نصاریٰ کے علماء نے حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دے دیا تو ان کے پیروکار بغیر پوچھے اور سوال کیے ان کے پیچھے چلتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو غیر اللہ کو رب قرار دینے کے مترادف ٹھہرایا۔ دور حاضر میں علم کے ذرائع نہایت وسیع ہوچکے ہیں اس لیے انسان کو اپنے ذرائع بروکار لاتے ہوئے صحیح مسئلے تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے اور وہ یقیناً اللہ کے قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح فرامین کی صورت میں موجود ہے۔ یہ تمام باتیں اس شخص کے لیے ہیں جو صراط مستقیم تک پہنچنے کا خواہش مند ہے اور صحیح بات معلوم کرکے اس پر عمل کرنے کے لیے سوال کرتا ہے۔ جس شخص کا مقصد محض جدال کرنا، علماء کا امتحان لینا اور اپنا علمی دبدبہ ظاہر کرنا ہو وہ عنداللہ مذموم ہے۔ اسی طرح بے مقصد سوالات کرنا، جس طرح ایک شخص نے سوال کیا تھا کہ اللہ کے رسول میرا باپ کون ہے، بھی ممنوع اور ناپسندیدہ عمل ہے۔ اسی طرح ایک مسئلہ ابھی تک پیش ہی نہیں آیا تو اس کے متعلق سوال کرنا بھی مذموم ہے بلکہ بسا اوقات انسان اپنے سوال کرنے کی وجہ سے بطور سزا اسی چیز میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ کئی لوگ بے مقصد سوالات کرتے ہیں جن میں دینی و دنیاوی کوئی فائدہ نہیں ہوتا، مثلاً: موسیٰ علیہ السلام کی دادی کا نام کیا تھا؟ آپ کی اونٹنی کی مہارکس کی بنی ہوئی تھی وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے بے جا سوالات بھی ممنوع ہیں۔ تقدیر سے متعلق بے جا بحث و مباحثہ کرنا بھی شریعت میں ناپسندیدہ ہے۔ عالم برزخ کے وہ معاملات جن کی شریعت نے وضاحت نہیں فرمائی ان کی کرید کرنا، اگر ایسے ہے تو پھر ایسے کیوں نہیں وغیرہ یہ بھی مذموم ہے۔ گویا وہ تمام سوالات جو امکانی ہیں فی الواقع نہیں ان کے متعلق بحث و مباحثہ اور سوال مذموم ہے۔ لوگوں کی خبروں کی ٹوہ لگانا اور اس کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات اکٹھی کرنا کہ فلاں کیسا ہے فلاں کیا کرتا ہے، یہ بھی مذموم ہے۔ اسی طرح کسی شخص کی نجی زندگی کی تفصیلات میں پڑنا بھی منع ہے شادی بیاہ کے موقع پر لڑکیاں لڑکی سے لڑکے اپنے دوست سے تفصیل معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ بعض جاہل بتاتے بھی ہیں اس طرح کے سوالات بھی ممنوع ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرد و عورت پر لعنت کی ہے جو رات کی تنہائی کی باتیں لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں۔ سوال کی دوسری صورت ہے حاجت براری کے لیے سوال کرنا: یہ سوال اگر ذات باری تعالیٰ سے کیا جائے تو جتنا زیادہ ہو کم ہے کیونکہ باری تعالیٰ پکارنے والوں سے خوش اور سوال نہ کرنے والوں سے ناراض ہوتا ہے۔ جن چیزوں کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے ان سے متعلق مخلوق میں سے کسی سے سوال کرنا ممنوع ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے، مثلاً: مشکل وقت میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو پکارنا جس طرح کہ اکثر جہلاء کرتے ہیں کہ یا فلاں میری یہ بیماری دور کر دے۔ بندوں کو جن چیزوں کا اختیار ہے اس کا ان سے سوال کرنا جائز ہے، مثلاً: کوئی شخص بوجھ اٹھانا چاہتا ہے تو وہ کسی سے کہہ سکتا ہے کہ یہ اٹھانے میں میری مدد کرو۔ بدعتی اور مشرک علماء لوگوں کو دھوکے دینے کے لیے اسی طرح کی مثالیں بیان کرکے غیر اللہ سے مدد مانگنے اور انہیں پکارنے کا جواز ثابت کرتے ہیں حالانکہ تحت الاسباب مدد اور مطلق مشکل کشائی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ کوئی شخص اگر ضرورت مند اور محتاج ہے تو وہ دوسروں سے سوال کرسکتا ہے لیکن جب اس کی ضرورت پوری ہو جائے تو سوال سے رک جائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ لوگ آئے ان کی حالت خراب تھی انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی تو آپ نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ تمہارے بھائی تمہارے احسان کے مستحق ہیں ان سے تعاون کرو۔ لیکن گداگری کا پیشہ اختیار کرنا اسلام میں نہایت مذموم ہے۔ اسلام نے اس کی حوصلہ شکنی کی ہے اور اس کے تدارک کے لیے زکاۃ اور انفاق فی سبیل اللہ کا ایک عمدہ نظام دیا ہے تاکہ ضرورت مند کی ضرورت بھی پوری ہو جائے اور اس کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو۔ (۴) إضاعة المال: ....مال ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جس کی طرف طبعی میلان ہو۔ اس سے مراد سونا، چاندی، روپیہ پیسہ، مویشی وغیرہ ملکیت کی چیزیں ہیں جنہیں انسان ضرورت کے وقت کے لیے محفوظ رکھتا ہے یا ان سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ مال اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اگر وہ حلال اور جائز طریقے سے حاصل ہو اور اسے اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق استعمال کیا جائے۔ قرآن نے متاع دنیا کو خیر سے تعبیر کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿واِنَّهُ لِحُبِّ الْخَیر لَشَدِید﴾(عادیات: ۸)”اور وہ بے شک مال کی محبت میں بہت سخت ہے۔“ مال کمانے کے لیے جہاں جائز ذرائع اختیار کرنے ضروری ہیں وہاں ملکیت میں کسی چیز کے آجانے کے بعد انسان اسے استعمال کرنے میں بھی آزاد اور بے لگام نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ اکثریت مال کماتے وقت ہی اس بات کا خیال نہیں کرتی کہ وہ کس ذریعے سے یہ مال حاصل کر رہے ہیں۔ چند فیصد لوگ اگر کمانے کے جائز ذرائع استعمال کرتے ہیں تو خرچ کرتے وقت حلال و حرام کی تمیز نہیں کرتے۔ قیامت کے روز دونوں چیزوں کا سوال ہوگا۔ حدیث میں ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لاَ تَزُوْلُ قَدَمُ ابْنِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ ....وَعَنْ مَالِه))(جامع الترمذي، صفة القیامة، ح: ۲۴۱۶) ”روز قیامت کوئی شخص پانچ سوالوں کے جواب دینے سے پہلے اپنی جگہ سے حرکت بھی نہیں کرسکے گا....مال کمایا کہاں سے تھا اور خرچ کہاں کیا۔“ اس لیے فضول خرچی کے ذریعے سے مال ضائع کرنے والوں کو قرآن مجید میں شیطان کا بھائی کہا گیا ہے۔ جائز طریقے سے کمائے ہوئے مال کی حفاظت کرنے اور اسے ضائع ہونے سے بچانے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارے جانے والے شخص کو شہید کہا ہے۔ ارشاد نبوی ہے: ((من قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُو شَهِیدٌ))(صحیح البخاري، المظالم، حدیث: ۲۴۸۰) ”جو شخص مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے۔“ اس لیے مال کے بارے بخل سے کام لینا چاہیے نہ ہی فضول خرچ کرنا چاہیے بلکہ میانہ روی اختیار کرنی چاہیے۔ (۵) قیل و قال: ....دونوں مصدر یا اسم مصدر ہیں۔ ان کا تکرار نہی میں مبالغے کے لیے ہے کہ لوگوں کی باتوں کو بغیر تحقیق کے آگے نقل کرنا کہ فلاں نے یہ کہا، فلاں یہ کہتا تھا، نہایت بری خصلت ہے۔ اکثر معاشرتی لڑائیاں سنی سنائی باتوں کو آگے پھیلانے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ درست اور صحیح بات بھی آگے نقل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تحقیق کی جائے چہ جائیکہ انسان بے فائدہ باتیں یا باہمی لڑائی جھگڑا پیدا کرنے والی باتیں آگے نقل کرے۔ بعض علمائے کرام نے فقہاء کے بغیر دلیل قیل و قال کو بھی اسی زمرے میں شمار کیا ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 16