حدثنا علي بن الجعد، قال: اخبرنا شعبة، عن حبيب بن ابي ثابت قال: سمعت ابا العباس الاعمى، عن عبد الله بن عمرو قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم يريد الجهاد، فقال: ”احي والداك؟“ فقال: نعم، فقال: ”ففيهما فجاهد.“حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْعَبَّاسِ الأَعْمَى، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ الْجِهَادَ، فَقَالَ: ”أَحَيٌّ وَالِدَاكَ؟“ فَقَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ: ”فَفِيهِمَا فَجَاهِدْ.“
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ وہ جہاد (میں شریک ہونے) کا ارادہ رکھتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”تیرے والدین زندہ ہیں؟“ اس نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر انہیں میں جا کر جہاد کر۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الجهاد، باب الجهاد بإذن الوالدين: 3004، 5972 و مسلم: 2549، الإرواء: 199»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 20
فوائد ومسائل: (۱)جہاد کو اسلام کی چوٹی کہا گیا ہے اور ہجرت انسان کے سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے ان دونوں اعمال کی اہمیت اپنی اپنی جگہ مسلم ہے لیکن اگر ضعیف والدین خدمت کے محتاج ہوں تو ان کی خدمت کرکے انہیں خوش کرنا زیادہ فضیلت کا باعث ہے۔ (۲) اس حدیث میں اس بات کا اشارہ بھی ملتا ہے کہ انسان کے سامنے اگر دو کام ہوں اور دونوں بیک وقت ممکن نہ ہوں تو ان میں سے کسی ایک کی ترجیح کے لیے کسی صاحب علم و بصیرت سے مشورہ لے لینا چاہیے۔ (۳) حاکم وقت یا تنظیم کے سربراہ کو اپنے کارکنان کے گھریلو حالات سے آگاہ رہنا چاہیے اور انہیں کسی محاذ پر بھیجنے سے پہلے ان کی گھریلو مصلحت اور مصلحت عامہ کا موازنہ کرنا چاہیے تاکہ ان کے گھر کا نظام درہم برہم نہ ہو۔ (۴) والدین اگر مسلمان ہوں اور کسی مصلحت کی خاطر بیٹے کو جہاد سے روکیں تو اسے رک جانا چاہیے تا وقت کہ وہ اس پر رضا مند ہو جائیں، نیز اس معاملے میں والد اور والدہ برابر ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس پر جمہور علماء کا اتفاق ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی خدمت جہاد سے بھی زیادہ اہم ہے۔ (۵)((ففیهما فجاهد))لغوی طور پر ہر اس فعل کو جہاد سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جس میں انسان اپنے آپ کو تھکا دے۔ یہاں اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنے نفس سے جہاد کرو اور اپنے آپ کو تھکا دو۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تیرے والدین زندہ ہیں تو ان کے ساتھ حسن سلوک اور نیکی کی ہر ممکن کوشش کر تو دشمن سے قتال کرنے کے درجے تک پہنچ جائے گا۔ عمومی حالات میں جہاد کیونکہ فرض کفایہ ہے اور امیر کے حکم سے فرض عین ہوتا ہے اس کے برعکس والدین کی خدمت اور ان سے حسن سلوک ہر وقت فرض عین ہے۔ (۶) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم میں اس بات کا اشارہ بھی موجود ہے کہ والدین کی خدمت اور ان سے حسن سلوک میں بعض اوقات مشقت بھی برداشت کرنا پڑتی ہے، اسی لیے ان کی خدمت کو جہاد سے تعبیر کیا ہے، اس میں صبر و تحمل سے کام لینا ضروری ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 20