مسند اسحاق بن راهويه کل احادیث 981 :حدیث نمبر
مسند اسحاق بن راهويه
ایمان کا بیان
6. بیٹا باپ سے چھوٹا بڑے عالم سے اظہار حق یا علمی اضافہ کی غرض سے مناظرہ کر سکتا ہے
حدیث نمبر: 30
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا النضر بن شميل ، نا حماد بن سلمة ، عن عمار بن ابي عمار مولى بني هاشم، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لقي موسى آدم عليهما السلام، فقال: انت آدم الذي خلقك الله بيده، واسجد لك ملائكته، واسكنك جنته، فاخرجت ولدك من الجنة، قال له: يا موسى، انت الذي اصطفاك الله برسالاته وكلمك، فانا اقدم ام الذكر؟ فقال: لا، بل الذكر، فحج آدم موسى" .(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ ، نا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَقِيَ مُوسَى آدَمَ عَلَيْهَمَا السَّلامُ، فَقَالَ: أَنْتَ آدَمُ الَّذِي خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ، وَأَسْجَدَ لَكَ مَلائِكَتَهُ، وَأَسْكَنَكَ جَنَّتَهُ، فَأَخْرَجْتَ وَلَدَكَ مِنَ الْجَنَّةِ، قَالَ لَهُ: يَا مُوسَى، أَنْتَ الَّذِي اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِرِسَالاتِهِ وَكَلَّمَكَ، فَأَنَا أَقْدَمُ أَمِ الذِّكْرُ؟ فَقَالَ: لا، بَلِ الذِّكْرُ، فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى" .
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: موسیٰ علیہ السلام نے آدم علیہ السلام سے ملاقات کی تو کہا: آپ آدم ہیں، جنہیں اللہ نے اپنے ہاتھ سے تخلیق فرمایا، اپنے فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا اور آپ کو اپنی جنت میں بسایا، اور آپ نے اپنی اولاد کو جنت سے نکلوا دیا، انہوں نے ان سے فرمایا: اے موسیٰ! آپ وہی ہیں کہ اللہ نے اپنی رسالت اور اپنی ہم کلامی سے آپ کو مختص فرمایا، پس میں پہلے ہوں یا ذکر؟ انہوں نے فرمایا: نہیں، بلکہ ذکر، پس آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر غالب آ گئے۔

تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب القدر، باب تحاج آدم موسيٰ عندالله، رقم: 6614. مسلم، كتاب القدر، باب كيفية الخلق الآدم الخ، رقم: 2652. سنن ابوداود، رقم: 4701. سنن ترمذي، رقم: 2134. مسند احمد: 248/2»
7. علماء سے مسئلہ پوچھنے کے آداب
حدیث نمبر: 31
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا جرير ، نا ابو فروة الهمداني ، عن ابي زرعة بن عمرو بن جرير ، عن ابي هريرة ، وابي ذر ، قالا: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجلس بين ظهراني اصحابه، فيجيء الغريب فلا يعرفه ولا يدري اين هو حتى يسال، فقلنا: يا رسول الله، لو جعلنا لك مجلسا فتجلس فيه حتى يعرفك الغريب، فبنينا له دكانا من طين فكنا نجلس بجانبيه، فكنا جلوسا ورسول الله صلى الله عليه وسلم يجيء في مجلسه، إذ اقبل رجل احسن الناس وجها، واطيب الناس ريحا، وانقى الناس ثوبا، كان ثيابه لم يصبها دنس حتى سلم من عند طرف السماط، فقال: السلام عليكم يا محمد، قال: فرد عليه السلام، ثم قال: ادنو، فما زال يقول: ادنو، ويقول محمد صلى الله عليه وسلم: ادنه، حتى وضع يده على ركبتي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا محمد، " ما الإسلام؟ قال: تعبد الله، ولا تشرك به شيئا، وتقيم الصلاة، وتؤتي الزكاة، وتصوم رمضان، وتحج البيت، قال: إذا فعلت ذلك فقد اسلمت؟ قال: نعم، فقال: صدقت، قال: فانكرنا منه قوله صدقت، فقال: يا محمد، اخبرني عن الإيمان بالله، والملائكة، والكتاب، وبالنبيين والقدر كله؟، فقال: يا محمد، اخبرني عن الإحسان، فقال: ان تعبد الله كانك تراه، فإن لم تكن تراه فإنه يراك، قال: صدقت، قال: يا محمد، فاخبرني عن الساعة، قال: فنكس ولم يجبه، ثم عاد فلم يجبه، ثم عاد فلم يجبه، ثم رفع راسه فحلف به بالله او قال: والذي بعث محمدا بالهدى ودين الحق، ما المسئول عنها باعلم من السائل، ولكن لها علامات تعرف بها، إذا رايت رعاء البهم يتطاولون في البنيان، وإذا رايت الحفاة والعراة ملوك الارض، وإذا ولدت المراة ربها في خمس من الغيب لا يعلمهن إلا الله، ثم قرا: إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الارحام ثم تلا إلى: عليم خبير سورة لقمان آية 34 ، ثم سطع غبار من السماء، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: والذي بعث محمدا بالهدى ودين الحق، ما انا باعلم به من رجل منكم وإنه لجبريل جاءكم ليعلمكم في صورة دحية الكلبي" .(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، نا أَبُو فَرْوَةَ الْهَمْدَانِيُّ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، وَأَبِي ذَرٍّ ، قَالا: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْلِسُ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ أَصْحَابِهِ، فَيَجِيءُ الْغَرِيبُ فَلا يَعْرِفُهُ وَلا يَدْرِي أَيْنَ هُوَ حَتَّى يَسْأَلَ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ جَعَلْنَا لَكَ مَجْلِسَا فَتَجْلِسَ فِيهِ حَتَّى يَعْرِفَكَ الْغَرِيبُ، فَبَنَيْنَا لَهُ دُكَّانًا مِنْ طِينٍ فَكُنَّا نَجْلِسُ بِجَانِبَيْهِ، فَكُنَّا جُلُوسًا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجِيءُ فِي مَجْلِسِهِ، إِذْ أَقْبَلَ رَجُلٌ أَحْسَنُ النَّاسِ وَجْهَا، وَأَطْيَبُ النَّاسِ رِيحًا، وَأَنْقَى النَّاسِ ثَوْبًا، كَأَنَّ ثِيَابَهُ لَمْ يُصِبْهَا دَنَسٌ حَتَّى سَلَّمَ مِنْ عِنْدِ طَرَفِ السِّمَاطِ، فَقَالَ: السَّلامُ عَلَيْكُمْ يَا مُحَمَّدُ، قَالَ: فَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلامَ، ثُمَّ قَالَ: أَدْنُو، فَمَا زَالَ يَقُولُ: أَدْنُو، وَيَقُولُ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ادْنُه، حَتَّى وَضَعَ يَدَهُ عَلَى رُكْبَتَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، " مَا الإِسْلامُ؟ قَالَ: تَعْبُدُ اللَّهَ، وَلا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلاةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصُومُ رَمَضَانَ، وَتَحُجُّ الْبَيْتَ، قَالَ: إِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ فَقَدْ أَسْلَمْتُ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَأَنْكَرْنَا مِنْهُ قَوْلَهُ صَدَقْتَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، أَخْبِرْنِي عَنِ الإِيمَانِ بِاللَّهِ، وَالْمَلائِكَةِ، وَالْكِتَابِ، وَبِالنَّبِيِّينَ وَالْقَدَرِ كُلِّهِ؟، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، أَخْبِرْنِي عَنِ الإِحْسَانِ، فَقَالَ: أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ: فَنَكَسَ وَلَمْ يُجِبْهُ، ثُمَّ عَادَ فَلَمْ يُجِبْهُ، ثُمَّ عَادَ فَلَمْ يُجِبْهُ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَحَلَفَ بِهِ بِاللَّهِ أَوْ قَالَ: وَالَّذِي بَعَثَ مُحَمَّدًا بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ، مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، وَلَكِنْ لَهَا عَلامَاتٌ تُعْرَفُ بِهَا، إِذَا رَأَيْتَ رِعَاءَ الْبَهْمِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ، وَإِذَا رَأَيْتَ الْحُفَاةَ وَالْعُرَاةَ مُلُوكَ الأَرْضِ، وَإِذَا وَلَدَتِ الْمَرْأَةُ رَبَّهَا فِي خَمْسٍ مِنَ الْغَيْبِ لا يَعْلَمُهُنَّ إِلا اللَّهُ، ثُمَّ قَرَأَ: إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الأَرْحَامِ ثُمَّ تَلا إِلَى: عَلِيمٌ خَبِيرٌ سورة لقمان آية 34 ، ثُمَّ سَطَعَ غُبَارٌ مِنَ السَّمَاءِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي بَعَثَ مُحَمَّدًا بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ، مَا أَنَا بِأَعْلَمَ بِهِ مِنْ رَجُلٍ مِنْكُمْ وَإِنَّهُ لَجِبْرِيلُ جَاءَكُمْ لِيُعَلِّمَكُمْ فِي صُورَةِ دَحْيَةَ الْكَلْبِيِّ" .
سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان تشریف فرما تھے، پس اجنبی شخص آتا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتا نہ اسے پتہ چلتا کہ آپ کہاں ہیں حتیٰ کہ وہ دریافت کرتا، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر ہم آپ کے لیے نشست بنا دیں تاکہ آپ اس پر تشریف رکھا کریں حتیٰ کہ اجنبی شخص آپ کو پہچان سکے، ہم نے آپ کے لیے مٹی کا ایک چبوترہ بنا دیا، ہم آپ کے دونوں جانب بیٹھا کرتے تھے، ہم بیٹھے ہوئے تھے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مجلس میں تشریف لائے کہ اچانک ایک خوبصورت شخص بہترین خوشبو لگائے انتہائی صاف ستھرا لباس زیب تن کیے ہوئے آیا اس کا لباس اس طرح تھا جیسا کہ میل کچیل نے اسے چھوا تک نہ ہو، حتی کہ اس نے لوگوں کی صف کے کنارے سے سلام کیا، تو اس نے کہا: السلام علیک یا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سلام کا جواب دیا، پھر اس نے کہا: کیا میں قریب آ جاؤں؟ وہ قریب آنے کے لیے کہتا ہی رہا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: اسے قریب کرو۔ حتیٰ کہ اس نے اپنا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں پر رکھ دیا تو کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکٰوۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو۔ اس نے کہا: جب میں یہ سب بجا لاؤں گا تو میں نے اسلام قبول کر لیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔‏‏‏‏ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔ راوی نے بیان کیا: ہمیں اس کی یہ بات پسند نہ آئی کہ آپ نے سچ فرمایا (کیونکہ وہ سائل تھا) اس نے کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! مجھے ایمان کے متعلق بتائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ پر، فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، انبیاء (علیہم السلام اجمعین) پر اور ہر قسم کی تقدیر پر ایمان (لاؤ)۔ اس نے کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! احسان کے متعلق بتائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کہ تم اللہ کی عبادت کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں دیکھتا ہے۔ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔ اس نے کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! مجھے قیامت کے متعلق بتائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر جھکا لیا اور اسے جواب نہ دیا، اس نے دوبارہ پھر پوچھا: لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جواب نہ دیا، اس نے پھر سوال دہرایا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جواب نہ دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک اٹھایا، اللہ کی قسم اٹھائی یا فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اس (قیامت) کے متعلق مسئول (جس سے پوچھا: جارہا ہے) سائل سے زیادہ نہیں جانتا۔ لیکن اس کی کچھ علامتیں ہیں جن سے اس کی معرفت ہو سکتی ہے۔ جب تم جانوروں کے چراہوں کو دیکھو کہ وہ بڑی بڑی عمارتوں کے بارے میں غرور کریں گے اور جب تم ننگے پاؤں اور ننگے بدن والوں کو ملک کے بادشاہ دیکھو گے اور جب عورت اپنے مالک (آقا) کو جنم دے گی، غیب کے متعلق پانچ چیزیں ہیں جنہیں صرف اللہ ہی جانتا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: بے شک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے اور رحم مادر میں جو کچھ ہے اسے وہی جانتا ہے۔۔۔ علم والا باخبر ہے۔ پھر آسمان سے غبار بلند ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! میں تم میں سے کسی شخص سے زیادہ اس کے متعلق نہیں جانتا، وہ جبریل تھے، دحیہ کلبی کی صورت میں تمہیں تعلیم دینے تمہارے پاس آئے تھے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابوداود، كتاب السنه، باب فى القدر، رقم: 4698. قال الشيخ الالباني صحيح. سنن نسائي، كتاب الايمان وشرائعه، باب صفة الايمان والاسلام، رقم: 4991. نسائي كبري، رقم: 5974»
حدیث نمبر: 32
Save to word اعراب
اخبرنا جرير، عن ابي حيان التيمي، عن ابي زرعة بن عمرو بن جرير، عن ابي هريرة، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما بارزا للناس إذ اتاه رجل يمشي، فقال: يا محمد ما الإيمان؟ قال: ((ان تؤمن بالله وملائكته ورسله ولقائه، وتؤمن بالبعث الآخر))، قال: يا رسول الله فما الإسلام قال: ((لا تشرك به شيئا وتقيم الصلاة المكتوبة وتؤدي الزكاة المفروضة وتصوم رمضان))، قال: يا محمد فما الإحسان؟ قال: ((ان تعبد الله كانك تراه فإن لم تكن تراه فإنه يراك))، قال: يا محمد فمتى الساعة؟ فقال:" ما المسئول عنها باعلم من السائل وساحدثك عن اشراطها إذا ولدت المراة ربتها، ورايت الحفاة رؤوس الناس، في خمس لا يعلمهن إلا الله ﴿إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث﴾ [لقمان: 34] الآية"، ثم انصرف الرجل، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((ردوه، التمسوه)) فلم يجدوه، فقال: ((ذاك جبريل جاء ليعلم الناس دينهم)).أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بَارِزًا لِلنَّاسِ إِذْ أَتَاهُ رَجُلٌ يَمْشِي، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ مَا الْإِيمَانُ؟ قَالَ: ((أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَلِقَائِهِ، وَتُؤُمِنَ بِالْبَعْثِ الْآخِرِ))، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا الْإِسْلَامُ قَالَ: ((لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ وَتُؤَدِّي الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ وَتَصُومُ رَمَضَانَ))، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ فَمَا الْإِحْسَانُ؟ قَالَ: ((أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ))، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ فَمَتَى السَّاعَةُ؟ فَقَالَ:" مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ وَسَأُحَدِّثُكَ عَنْ أَشْرَاطِهَا إِذَا وَلَدَتِ الْمَرْأَةُ رَبَّتَهَا، وَرَأَيْتَ الْحُفَاةَ رُؤُوسَ النَّاسِ، فِي خَمْسٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ ﴿إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ﴾ [لقمان: 34] الْآيَةَ"، ثُمَّ انْصَرَفَ الرَّجُلُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((رُدُّوهُ، الْتَمِسُوهُ)) فَلَمْ يَجِدُوهُ، فَقَالَ: ((ذَاكَ جِبْرِيلُ جَاءَ لِيُعَلِّمَ النَّاسَ دِينَهُمْ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں نمایاں موجود تھے، کہ ایک آدمی چلتا ہوا آیا، اس نے کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کے رسولوں پر، اس سے ملاقات کرنے اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان لاؤ۔ اس نے کہا: اللہ کے رسول! اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ، فرض نماز پڑھو، فرض زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ اس نے کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! احسان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کہ تم اللہ کی عبادت کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، پس اگر تم اسے نہیں دیکھ پاتے تو وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے۔ اس نے کہا: محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)! قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے متعلق جس سے پوچھا: جا رہا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا، اور میں اس کی علامتوں کے بارے میں تمہیں بتاتا ہوں، جب عورت اپنے مالک کو جنم دے گی، اور تم ننگے بدن والے لوگوں کو عوام کا سربراہ دیکھو گے، اور پانچ چیزوں کے متعلق صرف اللہ ہی جانتا ہے: بے شک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے اور وہی بارش برساتا ہے۔ پھر وہ آدمی چلا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے واپس لاؤ۔ انہوں نے اسے تلاش کیا لیکن وہ انہیں نہ ملا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جبریل تھے لوگوں کو ان کے دین کی تعلیم دینے آئے تھے۔

تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الايمان، باب سوال جبريل النبى صلى الله عليه وسلم عن الايمان، رقم: 50. مسلم، كتاب الايمان، باب بيان الايمان، والاسلام الخ، رقم: 9»
حدیث نمبر: 33
Save to word اعراب
اخبرنا جرير، عن عمارة بن القعقاع، عن ابي زرعة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما لاصحابه: ((سلوني)) فهابوه ان يسالوه، فجاء رجل حتى وضع يديه على ركبتيه، فقال يا محمد: اخبرني عن الإيمان، فذكر مثله وزاد ((ويؤمن بالبعث وبالقدر كله))، ويقول في كل مسالة: صدقت، وقال: ((إذا رايت الحفاة العراة الصم البكم ملوك الارض، ورايت رعاء البهم يتطاولون في البنيان،)) وقال فيه: ((ان تخشى الله كانك تراه))، وقال في الحديث: ((هذا جبريل))، قال: ابو زرعة اراد ان تعلموا ان تسالوه.أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا لِأَصْحَابِهِ: ((سَلُونِي)) فَهَابُوهُ أَنْ يَسْأَلُوهُ، فَجَاءَ رَجُلٌ حَتَّى وَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ: أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِيمَانِ، فَذَكَرَ مِثْلَهُ وَزَادَ ((وَيُؤْمِنُ بِالْبَعْثِ وَبِالْقَدَرِ كُلِّهِ))، وَيَقُولُ فِي كُلِّ مَسْأَلَةٍ: صَدَقْتَ، وَقَالَ: ((إِذَا رَأَيْتَ الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الصُّمَّ الْبُكُمَ مُلُوكَ الْأَرْضِ، وَرَأَيْتَ رِعَاءَ الْبَهْمِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ،)) وَقَالَ فِيهِ: ((أَنْ تَخْشَى اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ))، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ: ((هَذَا جِبْرِيلُ))، قَالَ: أَبُو زُرْعَةَ أَرَادَ أَنْ تَعْلَمُوا أَنْ تَسْأَلُوهُ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے صحابہ کرام سے فرمایا: مجھ سے پوچھو۔ پس وہ اس بات سے ڈرے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھیں، ایک آدمی آیا تو اس نے اپنے ہاتھ آپ کے گھٹنوں پر رکھ دیے تو کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! مجھے ایمان کے متعلق بتائیں، پس راوی نے حدیث سابق کے مثل ذکر کیا، اور یہ اضافہ نقل کیا: اور تم مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان لاؤ اور ہر قسم کی تقدیر پر ایمان لاؤ۔ اور وہ آپ سے جو بھی سوال کرتا تو کہتا: تم نے سچ کہا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم ننگے بدن، ننگے قدم، بہرے، گونگے (مانند جانور) افراد کو زمین (مُلک) کا مالک دیکھو، اور تم جانوروں کے چرواہوں کو تعمیرات میں باہم فخر کرتے ہوئے دیکھو۔ اس حدیث میں یہ بیان کیا: یہ کہ تم اللہ سے ڈرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔ اور حدیث میں بیان کیا: یہ جبریل ہیں۔ ابوزرعہ نے بیان کیا: آپ نے چاہا کہ انہیں تعلیم دی جائے کہ وہ آپ سے سوال کریں۔

تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب الايمان، باب بيان الايمان، والاسلام الخ، رقم: 10»
8. وہ گھڑی جب کسی نفس کا ایمان لانا اس کے لیے نفع مند نہیں ہو گا
حدیث نمبر: 34
Save to word اعراب
اخبرنا جرير، عن عمارة، عن ابي زرعة، عن ابي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا تقوم الساعة حتى تطلع الشمس من مغربها، فإذا كان ذلك آمن من عليها فذلك حين ﴿لا ينفع نفسا إيمانها لم تكن آمنت من قبل او كسبت في إيمانها خيرا﴾ [الانعام: 158]".أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا، فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ آمَنَ مَنْ عَلَيْهَا فَذَلِكَ حِينَ ﴿لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا﴾ [الأنعام: 158]".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت قائم نہیں ہو گی حتی کہ سورج اپنے غروب ہونے کی جگہ سے طلوع ہو جائے، پس جب یہ صورت ہو گی تو اس وقت اس (روئے زمین) پر موجود ہر شخص ایمان لے آئے گا، پس یہ وہ وقت ہو گا، جب کسی نفس کا ایمان لانا اس کے لیے نفع مند نہیں ہو گا جو اس سے پہلے ایمان نہیں لایا ہو گا یا اس نے حالت ایمان میں کوئی نیکی نہیں کی ہو گی۔

تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب التفسير، باب لا ينفع نفسا ايمانها، رقم: 3635. مسلم، كتاب الايمان، باب بيان الزمر الذى لا يقبل فيه الايمان، رقم: 157. سنن ابوداود، رقم: 4313. سنن ترمذي، رقم: 3072. مسند احمد: 427/2»
9. کلمہ توحید کی فضیلت
حدیث نمبر: 35
Save to word اعراب
اخبرنا الملائي، نا يحيى بن ايوب، قال: سمعت ابا زرعة، يقول: سمعت ابا هريرة، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ﴿من جاء بالحسنة فله خير منها وهم من فزع يومئذ آمنون﴾ [النمل: 89]، قال: ((هي لا إله إلا الله))، ﴿ومن جاء بالسيئة فكبت وجوههم في النار﴾ [النمل: 90] ((وهي الشرك)).أَخْبَرَنَا الْمُلَائِيُّ، نا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ﴿مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ مِنْهَا وَهُمْ مِنْ فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ﴾ [النمل: 89]، قَالَ: ((هِيَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ))، ﴿وَمَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَكُبَّتْ وَجُوهُهُمْ فِي النَّارِ﴾ [النمل: 90] ((وَهِيَ الشِّرْكُ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اس آیت «مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ مِّنْهَا وَهُم مِّن فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ» کہ جس نے نیکی کی تو اس کے لیے اس سے بہتر ہے اور وہ اس دن کی گھبراہٹ سے محفوظ رہیں گے۔کی تفسیر میں کی تفسیر میں فرمایا): اس سے «لا اله الا الله» مراد ہے۔ اور «وَمَن جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَكُبَّتْ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ» جس نے گناہ کیا تو ان کو چہروں کے بل جہنم میں گرایا جائے گا۔ (وہ گناہ) شرک ہے۔

تخریج الحدیث: «مستدرك حاكم: 441/2. اسناده صحيح»
10. مجرم کی حیثیت سے گناہ کی نوعیب کا بڑھ جانا
حدیث نمبر: 36
Save to word اعراب
اخبرنا جرير، عن الاعمش، عن ابي حازم، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ثلاثة لا يكلمهم الله، ولا ينظر إليهم يوم القيامة ولا يزكيهم ولهم عذاب اليم: شيخ زان وملك كذاب، وعائل مستكبر".أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ: شَيْخٌ زَانٍ وَمَلِكٌ كَذَّابٌ، وَعَائِلٌ مُسْتَكْبِرٌ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین قسم کے لوگ ہیں جن سے اللہ کلام کرے گا، نہ قیامت کے دن ان کی طرف (نظر رحمت سے) دیکھے گا اور نہ ہی ان کا تزکیہ کرے گا جبکہ ان کے لیے دردناک عذاب ہو گا: بوڑھا زانی، جھوٹا بادشاہ اور غرور کرنے والا مفلس۔

تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب الايمان، باب بيان غلظ تحريم اسبال الازار الخ، رقم: 107. سنن نسائي، رقم: 2575. مسند احمد: 480/2»
11. موت سے پہلے مشرک توبہ کرے تو اس کا ایمان درست ہو گا
حدیث نمبر: 37
Save to word اعراب
اخبرنا محمد بن عبيد، عن يزيد بن كيسان، عن ابي حازم، عن ابي هريرة رضي الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لعمه: ((قل لا إله إلا الله اشهد لك بها يوم القيامة))، فقال: لولا ان يعير قريش بي لاقررت عينك بها، فانزل الله عز وجل ﴿إنك لا تهدي من احببت ولكن الله يهدي من يشاء وهو اعلم بالمهتدين﴾(القصص: 56).أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَمِّهِ: ((قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ لَكَ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ))، فَقَالَ: لَوْلَا أَنْ يُعَيَّرَ قُرَيْشٌ بِي لَأَقْرَرْتُ عَيْنَكَ بِهَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ﴿إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴾(القصص: 56).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا (ابوطالب) سے فرمایا: «لا الهٰ الا الله» کا اقرار کر لو میں قیامت کے دن اس وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دوں گا۔ تو انہوں نے کہا: اگر یہ نہ ہوتا کہ قریش مجھے عار دلائیں گے تو میں آپ کے سامنے اس کا اقرار کر لیتا، پس اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی: «إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ» [28-القصص:56] آپ جسے چاہیں کہ ہدایت دے دیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے، لیکن اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کے متعلق خوب جانتا ہے۔

تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب الايمان، باب الدليل على صحة الاسلام الخ، رقم: 25. سنن ترمذي، رقم: 3188. سنن نسائي، رقم: 2035»
12. تین چیزوں کے نکلنے کے بعد ایمان لانا قابل قبول نہ ہو گا
حدیث نمبر: 38
Save to word اعراب
اخبرنا يعلى بن عبيد، نا فضيل وهو ابن غزوان، عن ابي حازم، عن ابي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" ثلاث إذا خرجوا لم ينفع نفسا إيمانها لم تكن آمنت من قبل او كسبت في إيمانها خيرا: الدجال والدابة، وطلوع الشمس من مغربها". أَخْبَرَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، نا فُضَيْلٌ وَهُوَ ابْنُ غَزْوَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" ثَلَاثٌ إِذَا خَرَجُوا لَمْ يَنْفَعْ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا: الدَّجَّالُ وَالدَّابَّةُ، وَطُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تین چیزوں کا ظہور ہو جائے گا، تو کسی نفس کو اس کا ایمان لانا نفع مند نہیں ہو گا، جو اس سے پہلے ایمان نہیں لایا ہو گا یا اس نے اپنے ایمان کی حالت میں کوئی بھلائی نہیں کی ہو گی: دجال، دابہ (جانور) اور سورج کا مغرب سے طلوع ہونا۔

تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب الايمان، باب بيان الزمن لا يقبل فيه الايمان، رقم: 158. مسند ابي يعلي، رقم: 6170»
13. قیامت کے دن حسب و نسب کام نہیں آئے گا
حدیث نمبر: 39
Save to word اعراب
اخبرنا جرير، عن عبد الملك بن عمير، عن موسى بن طلحة، عن ابي هريرة رضي الله عنه قال: لما نزلت ﴿وانذر عشيرتك الاقربين﴾ [الشعراء: 214] دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم قريشا فجمعهم فعم، وخص: ((يا بني كعب بن لؤي، انقذوا انفسكم من النار، يا بني مرة بن كعب، انقذوا انفسكم من النار، يا بني عبد شمس، انقذوا انفسكم من النار، يا بني عبد مناف، انقذوا انفسكم من النار، يا فاطمة انقذي نفسك من النار، وإني لا املك لكم من الله شيئا غير ان لكم رحما سابلها ببلالها)).أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ ﴿وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ﴾ [الشعراء: 214] دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُرَيْشًا فَجَمَعَهُمْ فَعَمَّ، وَخَصَّ: ((يَا بَنِي كَعْبِ بْنِ لُؤَيٍّ، أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ، يَا بَنِي مُرَّةَ بْنِ كَعْبٍ، أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ، يَا بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ، يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ، أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ، يَا فَاطِمَةُ أَنْقِذِي نَفْسَكِ مِنَ النَّارِ، وَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا غَيْرَ أَنَّ لَكُمْ رَحِمًا سَأَبُلُّهَا بِبَلَالِهَا)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، جب یہ آیت: «وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ» اپنے قریبی رشتے داروں کو آگاہ فرمائیں۔ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے عام و خاص کو جمع کیا اور فرمایا: بنو کعب بن لؤی! اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ، بنو مرہ بن کعب! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ، بنو عبدالشمس! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ، بنو عبد مناف! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ فاطمہ! اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ، میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا، البتہ جو رشتے داری ہے میں اس تعلق کو نبھاؤں گا۔

تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب الايمان، باب فى قوله تعالىٰ (وانذر عشيرتك الافربين)، رقم: 204. سنن ترمذي، رقم: 3185، 3184. سنن نسائي، رقم: 3644. مسند احمد: 333/2»

Previous    1    2    3    4    5    6    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.