(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ ، نا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَقِيَ مُوسَى آدَمَ عَلَيْهَمَا السَّلامُ، فَقَالَ: أَنْتَ آدَمُ الَّذِي خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ، وَأَسْجَدَ لَكَ مَلائِكَتَهُ، وَأَسْكَنَكَ جَنَّتَهُ، فَأَخْرَجْتَ وَلَدَكَ مِنَ الْجَنَّةِ، قَالَ لَهُ: يَا مُوسَى، أَنْتَ الَّذِي اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِرِسَالاتِهِ وَكَلَّمَكَ، فَأَنَا أَقْدَمُ أَمِ الذِّكْرُ؟ فَقَالَ: لا، بَلِ الذِّكْرُ، فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى" .
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 30
فوائد:
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ بیٹا اپنے باپ سے اور چھوٹا کسی بڑے عالم سے اظہار، حق یا علمی اضافہ کی غرض سے مناظرہ اور مباحثہ کر سکتا ہے، بشرطیکہ وہ مناظرہ اور مباحثہ حقائق ہر موقوف ہو نہ کہ آج کے مناظرے اور مباحثے جو سراسر تعصب و تشدد اور ایک دوسرے کو ہلکا اور نیچا کرنے کی غرض سے کیے جاتے ہیں۔
سیدنا موسٰی علیہ السلام کا مقصد سیدنا آدم علیہ السلام کو طعنہ دینا نہیں تھا کہ انہوں نے غلطی کیوں کی۔ حالانکہ ان کی غلطی اللہ تعالیٰ نے معاف کر دی تھی۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
« ﴿ثُمَّ اجتَبٰهُ رَبُّه فَتَابَ عَلَيهِ وَهَدٰي﴾ » [طٰه: 122 ]
”پھر انہیں ان کے رب نے نوازا، ان کی توبہ قبول فرمائی اور ان کی راہنمائی کی۔“
بلکہ کہنے کا مقصد تھا کہ تمام انسانوں کو آپ کی وجہ سے مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ تو سیدنا آدم علیہ السلام نے فرمایا کہ چالیس سال پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا۔ [بخاري، كتاب القدر، رقم: 6614]
تو یہ جواب دے کر سیدنا آدم علیہ السلام نے وضاحت فرما دی کہ یہ مصائب تقدیر میں پہلے سے ہی لکھے جا چکے تھے۔ معلوم ہوا تقدیر برحق اور ثابت ہے لیکن اکثر جاہل لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ جو تقدیر میں ہے وہ ہو کر رہے گا اور اس چیز کو مدنظر رکھ کر گناہ کرتے ہیں، حالآنکہ انسان مجبُورِ محض نہیں ہے اس کو دونوں (اچھی بُری) راہیں دکھا کر مطالبہ اچھی راہ پرچلنے کا کیا گیا ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔:
« ﴿ اِنَّا هَدينَهُ السَّبِيلَ اِمَّا شَاِكراً وَّ اِمَّا كَفُورًاه ﴾ » [ الدهر: 3 ]
”ہم نے اسے راہ دکھائی اب خواہ وہ شکر گزار بنے خواہ نا شکرا۔“
تقدیر اللہ کا کلی و پیشگی علم ہے اور اللہ کی رضا و خوشنودی اور چیز ہے۔ اگر چور کہے کہ میری قسمت میں چوری کرنا تھا تو اس کا ہاتھ پھر بھی کاٹ دیا جائے گا کہ اس کی تقدیر میں اس کا ہاتھ کاٹنا بھی لکھا ہے۔ جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ایک شخص پر چوری کی حد لگانے لگے تو وہ کہنے لگا: تقدیر میں یوں ہی لکھا تھا۔ میرا کیا قصور ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تقدیر کے مطابق ہی ہم تمہارا ہاتھ کاٹ رہے ہیں، اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔“
مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 30
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3409
´آدم علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام پر غالب آنا`
«. . . أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" احْتَجَّ آدَمُ وَمُوسَى، فَقَالَ لَهُ مُوسَى: أَنْتَ آدَمُ الَّذِي أَخْرَجَتْكَ خَطِيئَتُكَ مِنَ الْجَنَّةِ، فَقَالَ لَهُ آدَمُ: أَنْتَ مُوسَى الَّذِي اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِرِسَالَاتِهِ وَبِكَلَامِهِ، ثُمَّ تَلُومُنِي عَلَى أَمْرٍ قُدِّرَ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ أُخْلَقَ، فَقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى مَرَّتَيْنِ . . .»
”. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”موسیٰ اور آدم علیہم السلام نے آپس میں بحث کی۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کہ آپ آدم ہیں جنہیں ان کی لغزش نے جنت سے نکالا۔ آدم علیہ السلام بولے اور آپ موسیٰ علیہ السلام ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور اپنے کلام سے نوازا ‘ پھر بھی آپ مجھے ایک ایسے معاملے پر ملامت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے بھی پہلے مقدر کر دیا۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”چنانچہ آدم علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام پر غالب آ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ دو مرتبہ فرمایا . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ: 3409]
باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کا باب: «بَابُ وَفَاةِ مُوسَى، وَذِكْرُهُ بَعْدُ}:»
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں موسیٰ علیہ السلام کی وفات اور بعد کے حالات پر استدلال فرمایا ہے، مگر مندرجہ بالا حدیث جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس میں نہ ہی موسی علیہ السلام کی وفات کا ذکر ہے اور نہ ہی ان کے بعد کے حالات پر کوئی واقعہ ہے، لہٰذا ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت مشکل دکھلائی دیتی ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق بہت باریک بینی سے حدیث کا ترجمۃ الباب سے مناسبت قائم فرمایا ہے، اگرچہ اس کے متن پر غور کیا جائے تو آدم علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا تھا کہ:
”آپ مجھے ایسے معاملے پر ملامت کرتے ہیں جو اللہ نے میری پیدائش سے پہلے مقدر کر دیا۔“
یہاں پر آدم علیہ السلام نے تقدیر کے لکھنے کو واضح فرمایا ہے اور ترجمۃ الباب میں موسیٰ علیہ السلام کی وفات کا ذکر ہے، لہٰذا مناسبت یہ ہو گی کہ جس طرح آدم علیہ السلام کی پیدائش سے قبل ان کا جنت سے نکالا جانا، تقدیر میں درج تھا، بعینہ اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کی وفات کا بھی، ان کی پیدائش سے قبل تقدیر میں درج تھا اور ان کے بعد کے سارے حالات بھی تقدیر میں درج ہیں،
اس کی تائید قرآن مجید کی اس آیت سے ہوتی ہے۔
«وَمَا يُعَمَّرُ مِن مُّعَمَّرٍ وَلَا يُنقَصُ مِنْ عُمُرِهِ إِلَّا فِي كِتَابٍ» [فاطر: 11/35]
”اور جو بڑی عمر والا عمر دیا جائے اور جس کسی کی عمر کم ہو وہ سب کتاب میں لکھا ہوا ہے۔“
لہٰذا ترجمۃ الباب کا حدیث سے تعلق تقدیر کے لکھنے کی نوعیت کے ساتھ ہے۔
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 30
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 4
´تقدیر کا بیان`
«. . . 361- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”تحاج آدم وموسى فحج آدم موسى، فقال له موسى: أنت آدم الذى أغويت الناس وأخرجتهم من الجنة؟ فقال له آدم: أنت موسى الذى أعطاك الله علم كل شيء واصطفاك على الناس برسالاته؟ قال: نعم، قال: أفتلومني على أمر قد قدر على قبل أن أخلق“ . . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سیدنا آدم علیہ السلام اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے درمیان مباحثہ ہوا تو موسیٰ علیہ السلام نے انہیں کہا: آپ وہ آدم ہیں جنہوں نے لوگوں کو جنت سے نکال دیا اور پھسلا دیا؟ تو آدم علیہ السلام نے انہیں جواب دیا: آپ وہ موسیٰ ہیں جنہیں اللہ نے ہر چیز کا علم دیا اور اپنی رسالت کے ساتھ لوگوں میں سے چنا؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، آدم علیہ السلام نے کہا: آپ مجھے اس بات پر ملامت کرتے ہیں جو اللہ نے میری پیدائش سے پہلے میری تقدیر میں لکھ دی تھی۔“ . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 4]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 2652، من حديث مالك، والبخاري 6614، من حديث ابي الزناد به ● وفي رواية يحيي بن يحيي: ”بِرِسَالَتِهِ“]
[ تفقه: :]
➊ آدم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان یہ بحث و مباحثہ اور مناظرہ عالم برزخ میں آسمانوں پر ہوا تھا۔ ایک دفعہ محدث ابومعاویہ محمد بن خازم الضریر (متوفی 198ھ) نے اس مناظرے والی حدیث بیان کی تو ایک آدمی نے پوچھا: آدم اور موسیٰ علیہما السلام کی ملاقات کہاں ہوئی تھی؟ یہ سن کر عباسی خلیفہ ہارون الرشید رحمہ الله سخت ناراض ہوئے اور اس شخص کو قید کر دیا۔ وہ اس شخص کے کلام کو ملحدین اور زنادقہ کا کلام سمجھتے تھے۔ [ديكهئے كتاب المعرفته والتاريخ للامام يعقوب بن سفيان الفارسي 181/2، 182 و سنده صحيح، تاريخ بغداد 243/5 وسنده صحيح] معلوم ہوا کہ حدیث کا مذاق اڑانا ملحدین اور زنادقہ کا کام ہے۔
➋ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا فرمایا [ديكهئے سوره ص: 75] جیسا کہ اس کی شان و جلالت کے لائق ہے۔ اللہ کا ہاتھ اس کی صفت ہے جس پر ایمان لانا ضروری ہے۔ یہاں ہاتھ سے مراد قدرت لینا سلف صالحین کے فہم کے خلاف ہونے کی وجہ سے باطل و مردود ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ الله کی طرف منسوب، غیر ثابت کتاب الفقہ الاکبر“ میں لکھا ہوا ہے کہ «فما ذكره الله تعالىٰ فى القرآن من ذكر الوجه واليد والنفس فهو له صفات بلا كيف ولا يقال إن يده قدرته أو نعمته لأن فيه إبطال الصفة وهو قول أهل القدر والإعتزال ولكن يده صفته بلا كيف» ”اور اس کے لئے ہاتھ منہ اور نفس ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے لیکن ان کی کیفیت معلوم نہیں ہے اور یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ید سے قدرت اور نعمت مراد ہے کیوں کہ ایسا کہنے سے اس کی صفت کا ابطال لازم آتا ہے اور یہ منکرین تقدیر اور معتزلہ کا مذہب ہے، بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ ہاتھ اس کی مجہول الکیفیت صفت ہے۔“ [الفقه الاكبر مع شرح ملا على قاري ص36، 37، البيان الازهر، اردو ترجمه صوفي عبدالحميد سواتي ديوبندي ص32]
مجہول الکیفیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں ہے۔
تنبیہ:
یہ حوالہ اس لئے پیش کیا گیا ہے کہ حنفی وغیرہ حنفی علماء کا ایک گروہ اس کتاب کو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تصنیف مانتا ہے۔ دیکھئے مقدمۃ البیان الازہر از قلم محمد سرفراز خان صفدر دیوبندی (ص 16 تا 23)
◄ سرفراز خان صفدر صاحب لکھتے ہیں: ”غرضیکہ فقہ اکبر سیدنا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ ہی کی تصنیف ہے لَا رَيْبَ فِيْهِ“ [مقدمة البيان الازهر ص23] اس دیوبندی ”لَا رَيْبَ فِيْهِ“ کتاب کا راوی ابومطیع الحکم بن عبداللہ البلخی جمہور محدثین کے نزدیک مجروح ہے۔ اس کے بارے میں امامِ اہلِ سنت امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: «لا ينبغي أن يروي عنه۔۔ شيء» اس سے کوئی چیز روایت نہیں کرنی چاہئے۔ [كتاب العلل 2/258 ت1864]
◄ اسماء الرجال کے جلیل القدر امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے فرمایا: «وأبو مطيع الخراساني ليس بشيءٍ» اور ابومطیع الخراسانی کچھ چیز (بھی) نہیں ہے۔ [تاريخ ابن معين رواية الدوري: 4760]
◄ ان کے علاوہ دوسرے محدثین مثلا امام نسائی رحمہ اللہ، ابوحاتم الرازی اور حافظ ابن حبان وغیرہم نے اس پر جرح کی ہے۔ متاخرین میں سے حافظ ذہبی رحمہ اللہ ایک حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں: «فهٰذا وضعه أبومطيع عليٰ حماد» پس اس کو ابومطیع نے حماد (بن سلمہ) پر گھڑا ہے۔ [ميزان الاعتدال 3/42]
معلوم ہوا کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے نزدیک ابومطیع مذکور وضاع (جھوٹا، حدیثیں گھڑنے والا) تھا۔ اس جرح کے باوجود بعض الناس کا ”الفقه الأکبر“ نامی رسالے کو ”لَا رَيْبَ فِيْهِ“ کہنا انتہائی عجیب وغریب ہے۔!!
➌ تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے۔
➍ جو لوگ کہتے ہیں کہ ”ابھی تک جنت پیدا نہیں ہوئی“ ان کا قول باطل ومردود ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو جنت میں رکھا تھا۔ اہلِ سنت کے نزدیک جنت اور جہنم دونوں پیدا شدہ ہیں اور دونوں ہمیشہ رہیں گی اور یہی عقیدہ حق ہے۔
➎ غلطی اور گناہ کرنے والوں کی دو قسمیں ہیں:
اول: جو غلطی اور گناہ کرنے کے بعد سچے دل سے توبہ کرتے ہیں اور سخت پشیمان ونادم ہوتے ہیں اور آئندہ اصلاح کی پوری کوشش کرتے ہیں۔
دوم: جو غلطی اور گناہ کرنے کے بعد بھی اسی پر اڑے رہتے ہیں، توبہ نہیں کرتے اور نادم وپشیمان بھی نہیں ہوتے اور نہ اصلاح ہی کی کوشش کرتے ہیں۔
اول الذکر کے لئے تقدیر سے استدلال کرنا جائز ہے اور ثانی الذکر کے لئے تقدیر سے استدلال کرنا جائز نہیں ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے [شفاء العليل لابن القيم ص35، 36، وشرح حديث جبريل عربي ص65 67، اردو ص104 تا 107،]
● جو شخص گناہ اور کفر کرنے کے بعد توبہ نہیں کرتا اور پھر تقدیر سے استدلال کرتا ہے تو یہ طریقہ مشرکین وکفار کا ہے۔ دیکھئے سورۃ الانعام (آیت: 148) اور سورۃ النحل (آیت: 35)
➏ صحیح مسلم والی یہ حدیث صحیح بخاری میں بھی مختصراً موجود ہے۔ [ح 34٠9، 4736، 7515]
➐ بحث و مباحثہ میں فریق مخالف کے خلاف وہ دلیل پیش کرنا جسے وہ صحیح و برحق تسلیم کرتا ہے، بالکل صحیح ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 361
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث80
´قضا و قدر (تقدیر) کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدم و موسیٰ علیہا السلام میں مناظرہ ہوا، موسیٰ علیہ السلام نے آدم علیہ السلام سے کہا: اے آدم! آپ ہمارے باپ ہیں، آپ نے ہمیں ناکام و نامراد بنا دیا، اور اپنے گناہ کے سبب ہمیں جنت سے نکال دیا، تو آدم علیہ السلام نے ان سے کہا: اے موسیٰ! اللہ تعالیٰ نے تم کو اپنی ہم کلامی کے لیے منتخب کیا، اور تمہارے لیے اپنے ہاتھ سے تورات لکھی، کیا تم مجھ کو ایک ایسے عمل پر ملامت کرتے ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے چالیس سال پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا تھا!“، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 80]
اردو حاشہ:
(1)
حضرت آدم اور حضرت موسی علیھم السلام کی یہ ملاقات، ممکن ہے جنت میں ہوئی ہو، ممکن ہے عالم ارواح میں۔
واللہ اعلم.
(2)
حضرت موسی علیہ السلام کا مقصد حضرت آدم علیہ السلام کو یہ طعنہ دینا نہیں کہ انہوں نے غلطی کیوں کی کیونکہ وہ غلطی تو اللہ تعالیٰ نے معاف فرمادی تھی۔
ارشاد ربانی ہے:
﴿ثُمَّ اجتَبٰـهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيهِ وَهَدٰى﴾ (طه: 122)
”پھر انہیں ان کے رب نے نوازا، ان کی توبہ قبول فرمائی اور ان کی رہنمائی کی۔“
ان کا مقصد یہ تھا کہ آپ کی وجہ سے تمام انسانوں کو دنیا کی مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔
حضرت آدم علیہ السلام نے اس کے جواب میں وضاحت فرما دی کہ یہ مصائب تو پہلے ہی تقدیر میں لکھے جا چکے تھے اور ان کا فیصلہ بہت پہلے ہو چکا تھا۔
(3)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا:
آدم علیہ السلام غالب آگئے۔
یہ تکرار تاکید کے لیے تھی تاکہ بخوبی علم ہو جائے کہ آدم علیہ السلام سے جو کچھ ہوا وہ تقدیر الہی اور مشیت الہی کا اجرا تھا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 80
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2134
´تقدیر کے مسئلہ میں آدم اور موسیٰ علیہما السلام کے درمیان مناظرہ کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدم اور موسیٰ نے باہم مناظرہ کیا، موسیٰ نے کہا: آدم! آپ وہی تو ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور آپ کے اندر اپنی روح پھونکی ۱؎ پھر آپ نے لوگوں کو گمراہ کیا اور ان کو جنت سے نکالا؟ آدم نے اس کے جواب میں کہا: آپ وہی موسیٰ ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے گفتگو کرنے کے لیے منتخب کیا، کیا آپ میرے ایسے کام پر مجھے ملامت کرتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کرنے سے پہلے میرے اوپر لازم کر دیا تھا؟، آدم موسیٰ سے دلیل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب القدر/حدیث: 2134]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی وہ روح جو اللہ کی پیدا کردہ ہے،
اور جس کا ہر ذی روح حاجت مند ہے۔
2؎:
صحیح مسلم میں اس کی تصریح ہے کہ آدم اور موسیٰ کا یہ مباحثہ اللہ رب العالمین کے سامنے ہوا۔
(واللہ اعلم)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2134
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1148
1148- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: سیدنا آدم علیہ السلام اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے درمیان بحث ہوئی، تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے سیدنا آدم علیہ السلام سے کہا: اے سیدنا آدم علیہ السلام سے کہا: اے سیدنا آدم علیہ السلام آپ ہمارے جدامجد ہیں۔ آپ نے ہمیں رسوا کردیا اور ہمیں جنت سے نکلوادیا۔ تو سیدنا آدم علیہ السلام نے کہا: آپ سیدنا موسیٰ علیہ السلام ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کے لیے منتخب کیا اور آپ کے لیے اپنے دست قدرت کے ذریعے لوح میں (تورات) تحریر کی۔ کیا آپ مجھے ایک ایسے معاملے کے بارے میں ملامت کررہے ہیں؟ جس کا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1148]
فائدہ:
اس حدیث میں سیدنا و ابونا آدم علیہ السلام اور سیدنا موسٰی علیہ السلام کے مباحثے کا ذکر ہے، یہ مباحثہ کہاں ہوا، اس کا صحیح علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، چونکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات وحی ہے، اس پر ہمارا ایمان ہے، ہمیں کوئی اعتراض کرنے کی جرٱت نہیں ہے، ضروری نہیں ہے کہ ہر بات ہر وقت ہر کسی کو سمجھ آئے۔
افسوس کہ بعض عقل کے اندھوں نے بے شمار صحیح احادیث پر اپنی ناقص عقل کی وجہ سے ترکش چلائے، بس ہماری عقل قرآن وحدیث کے ماتحت ہو نی چا ہیے، اور قرآن و حدیث کے مطابق ہونی چاہیے، دین اسلام کسی کی عقل کا محتاج نہیں ہے، ہاں ہماری عقل دین کی محتاج ہے، وہ مقتل شیطانی ہے جو احادیث کا انکار کرے اور فتنہ انکار حدیث کو فروغ دے، وہ ظالم عقل ہے جو احادیث صحیحہ سے مذاق کرے۔
نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ تقدیر برحق ہے، اور تقدیر کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ جو کچھ انسانوں نے کرنا تھا، وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے غیب سے بہت زیادہ باخبر ہے، اور وہی لکھا گیا ہے، اس کا نام تقدیر ہے۔ یہاں پر ہمارے بعض لوگوں نے تقدیر کی یہ تعریف کر رکھی ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے لکھا، وہی ہم نے کرنا ہے، یہ تعریف درست نہیں ہے، جو پہلی تعریف ہم نے کی، وہی درست ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1147
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6742
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"آدم اور موسیٰ ؑ کا مباحثہ ہو تو موسیٰ ؑ نے کہا، اے آدم ؑ! آپ ہمارے باپ ہیں آپ نے ہمیں ناکام کیا اور آپ نے ہمیں جنت سے نکلوادیا تو آدم ؑ نے انہیں جواب دیا،آپ موسیٰ ؑ ہیں اللہ تعالیٰ نے تمھیں اپنے ساتھ ہم کلام ہونے کا شرف بخشا اور اپنے ہاتھ سے تجھے لکھ کر دیا۔کیا آپ مجھے ایسی بات پر ملامت کرتے ہیں، جس کا اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے چالیس سال پہلے میرے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6742]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق دنیا میں بھیجنے کے لیے ہوئی تھی،
اس میں حضرت آدم علیہ السلام کے فعل یا عمل کو کوئی دخل نہیں ہے،
ایک تکوینی چیز ہے اور حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے عمل سے توبہ کر لی تھی اور معافی مانگ لی تھی،
اس لیے انہوں نے تقدیر کو اپنے عمل کے لیے حجت نہیں بنایا،
بلکہ جنت سے نکالنے جانے کی مصیبت پر دلیل بنایا اور تقدیر کو اپنے عمل کے لیے حجت بنانا جائز نہیں ہے اور اپنے ساتھ ہونے والی مصیبت پر دلیل و حجت بنانا درست ہے،
اس لیے کہا جاتا ہے،
تقدیر کو معایب کے لیے حجت و دلیل نہیں بنانا چاہیے،
تاکہ انسان اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار کر سکے اور ان سے باز آنے کی کوشش کرے،
لیکن مصائب پر دلیل و حجت بنانا چاہیے تاکہ صبر و تسلی ہو سکے،
کیونکہ تکلیف و مصیبت سے دوچار ہو جانے کے بعد اس پر جزع و فزع کا کوئی فائدہ نہیں ہے،
بلکہ نقصان ہے کہ صبر و شکیب سے محروم ہو کر انسان اجروثواب سے بھی محروم ہو جاتا ہے اور اس جزع و فزع کے نتیجہ میں کچھ حاصل بھی نہیں ہوتا۔
(2)
اللہ تعالیٰ نے تمہیں توراۃ اپنے ہاتھ سے لکھ کر دی۔
" اللہ اس کائنات کا خالق ہے اور کائنات اور اس کی ہر چیز مخلوق ہے تو جس طرح ہم خالق کی ذات کی حقیقت و ماہیت سے آگاہ نہیں ہیں،
اسی طرح اس کے ہاتھ کی کیفیت و صورت سے بھی آگاہ نہیں،
جس طرح اس کی ذات،
اس کی خالقیت کے لائق اور مناسب ہے،
اسی طرح اس کا ہاتھ بھی اس کی خالقیت کی شان کے مطابق ہے،
ہمیں اس پر ایمان لانا چاہیے اور اس کی کیفیت و صورت پر بحث نہیں کرنا چاہیے کہ وہ کیسی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6742
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6743
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"آدم ؑ اور موسیٰ ؑ میں مباحثہ ہوا تو آدم ؑ غالب آگئےچنانچہ موسی ؑ نے انہیں کہا، آپ وہ آدم ہیں جس نے لوگوں کو (جنت کی راہ سے) ہٹا دیا اور انہیں جنت سے نکلوادیا؟" تو آدم ؑ نے جواب دیا، آپ وہ شخصیت ہیں، جس کو اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا علم دیا اور لوگوں پر اپنی پیغامبری کے سبب برگزیدہ کیا موسیٰ ؑ نے کہا ہاں آدم ؑ نے کہا تو مجھے ایسے معاملہ پر ملامت... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6743]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا غوایت سے یہ مقصد ہے،
اگر آپ جنت کے درخت کا پھل نہ کھاتے،
جنت سے نہ نکلتے اور لوگ دنیوی مفادات اور خواہشات کے اسیر نہ ہوتے اور شیطان ان کو گمراہ نہ کر سکتا اور نہ لوگ اللہ کی نافرمانی کر کے جنت سے محروم ہوتے،
حالانکہ آدم علیہ السلام کا جنت سے نکلنے میں کوئی دخل نہیں ہے اور دنیا میں لوگوں کو امتحان و آزمائش کے لیے ہی بھیجا گیا ہے اور شیطان سے بچاؤ کی تدابیر بھی عقل و شعور اور رسولوں کے ذریعہ بتا دی گئی ہیں اور اس میں آدم علیہ السلام کا کوئی دخل نہیں ہے،
یہ تو ایسے ہی ہے،
جیسے شہد کی مکھی کو پروانے کا قاتل قرار دیا جائے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6743
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3409
3409. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت آدم ؑ نے آپس میں بحث کی۔ حضرت موسیٰ ؑ نے ان سے کہا: آپ ہی آدم ؑ ہیں کہ آپ کی لغزش نے آپ کو جنت سے نکالا۔ حضرت آدم ؑ نے انھیں جواب دیا کہ تم وہی موسیٰ ؑ ہو کہ تمھیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور کلام سے نوازا، پھر تم مجھے ایک ایسی بات پر ملامت کرتے ہو جو میرے پیدا ہونےسے پہلے میرا مقدر بن چکی تھی؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”حضرت آدم ؑ حضرت موسیٰ ؑ پر غالب آگئے۔“ آپ نے یہ جملہ دو مرتبہ فرمایا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3409]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں بھی حضرت موسیٰ ؑ کا ذکر خیرہے کہ اللہ تعالی نےان کوچن لیا اور پیغمبر ی عطا فرمائی۔
باب اور حدیث میں یہی وجہ مناسبت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3409
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4738
4738. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: حضرت موسٰی ؑ نے سیدنا آدم ؑ سے بحث کی اور ان سے کہا: آپ ہی نے اپنے غلطی کی وجہ سے لوگوں کو جنت سے نکالا اور مشقت میں ڈالا؟ حضرت آدم ؑ نے فرمایا: اے موسٰی! آپ کو اللہ تعالٰی نے اپنی رسالت کے لیے پسند فرمایا اور ہم کلامی کا شرف بخشا ہے، کیا آپ مجھے ایک ایسی بات پر ملامت کرتے ہیں جسے اللہ تعالٰی نے میری پیدائش سے بھی پہلے میرے لیے مقدر کر دیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”حضرت آدم ؑ حضرت موسٰی ؑ پر بحث میں غالب آ گئے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4738]
حدیث حاشیہ:
حضرت آدم علیہ السلام تمام آدمیوں کے پدر بزرگوار ہیں۔
ان سے سوائے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جو اللہ پاک کے خاص برگزیدہ نبی تھے اور کون ایسی گفتگو کر سکتا تھا۔
حضرت آدم گو مرتبہ میں حضرت موسیٰ سے کم تھے مگر آخر بزرگ تھے انہوں نے ایسا جواب دیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام خاموش ہو گئے۔
اس سے ثابت ہوا کہ تقدیر بر حق ہے جوقسمت میں لکھ دیا گیا وہ ہو کر رہتا ہے۔
تقدیر الٰہی کا انکار کرنے والے ایمان سے محروم ہیں۔
ھداھم اللہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4738
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6614
6614. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: حضرت آدم اور موسیٰ ؑ نے مباحثہ کیا۔ موسیٰ ؑ نے آدم ؑ سے کہا: اے آدم! آپ ہمارے باپ ہیں۔ آپ ہی ہمیں محرومی سے دوچار کیا اور جنت سے باہر نکال پھینکا۔ آدم ؑ نے موسیٰ ؑ سے کہا: اے موسٰی اللہ تعالٰی نے تجھے ہم کلامی کے ساتھ برگزیدہ کیا اور اپنے ہاتھ سے تیرے لیے (تورات کو) لکھا، کیا تم مجھے ایک ایسے کام پر ملامت کرتے ہو جو اللہ تعالٰی نے مجھے پیدا کرنے سے چالیس سال پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا تھا؟ آخر آدم ؑ اس مباحثے میں موسیٰ ؑ پر غالب آگئے۔ آپ نے یہ جملہ تین مرتبہ ارشاد فرمایا:۔ سفیان نے کہا: ہم سے ابو زناد نے بیان کیا اعرج سے، انہوں نے ابو ہریرہ ؓ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے اس جیسی حدیث بیان کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6614]
حدیث حاشیہ:
ظاہر یہی ہے کہ یہ بحث اسی وقت ہوئی ہوگی جب حضرت موسیٰ دنیا میں تھے۔
بعض نے کہا کہ قیامت کے دن یہ بحث ہوگی۔
امام بخاری نے عنداللہ کہہ کر یہی اشارہ کیا ہے۔
ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے درخواست کی اے رب! ہم کو آدم دکھلا جس نے ہم کو جنت سے نکالا اس پر یہ ملاقات ہوئی۔
آدم تقدیر کا حوالہ دے کر غالب ہوئے۔
یہی کتاب القدر سے مناسبت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6614
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7515
7515. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”سیدنا آدم اور سیدنا موسیٰ ؑ نے آپس میں بحث کی۔ سیدنا موسیٰ ؑ نے کہا: آپ وہی آدم ہیں ناں جنہوں نے اپنی اولاد کو جنت سے نکالا تھا؟ سیدنا آدم ؑ نے جواب دیا: آپ وہی موسیٰ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور اپنی گفتگو سے شرف یاب کیا تھا پھر بھی آپ مجھے ایک ایسے امر کے سبب ملامت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے پہلے ہی میرے لیے مقدر کر دیا تھا۔ چنانچہ سیدنا آدم ؑ سیدنا موسیٰ ؑ پر غالب آگئے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7515]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں حضرت موسیٰ کے لیے کلام کا صاف اثبات ہے پس اس کی تاویل کرنے والے سراسر غلطی پرہیں۔
جب اللہ ہرچیز پر قادر ہے تو کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ وہ بلا توسط غیرے جس سے چاہے کلام کر سکے جیسا کہ حضرت موسیٰ سے کیا۔
یہ جہمیہ اورمعتزلہ کے خیال فاسد کی صریح تردید ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7515
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3409
3409. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت آدم ؑ نے آپس میں بحث کی۔ حضرت موسیٰ ؑ نے ان سے کہا: آپ ہی آدم ؑ ہیں کہ آپ کی لغزش نے آپ کو جنت سے نکالا۔ حضرت آدم ؑ نے انھیں جواب دیا کہ تم وہی موسیٰ ؑ ہو کہ تمھیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور کلام سے نوازا، پھر تم مجھے ایک ایسی بات پر ملامت کرتے ہو جو میرے پیدا ہونےسے پہلے میرا مقدر بن چکی تھی؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”حضرت آدم ؑ حضرت موسیٰ ؑ پر غالب آگئے۔“ آپ نے یہ جملہ دو مرتبہ فرمایا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3409]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں حضرت موسیٰ ؑ کا ذکر خیر ہے۔
امام بخاری ؒکے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ مباحثہ ان حضرات کی وفات کے بعد ہوا۔
ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں شہداء کی طرح زندہ کردیا ہو اور انھوں نے یہ گفتگو کی ہو۔
2۔
حضرت آدم ؑ کے کہنے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ ان پر درخت کا پھل کھانا لازم کردیا تھا کہ انھوں نے بے اختیار اور مجبور ہو کر اسے کھایا بلکہ مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امر کو میری زندگی سے پہلے ہی مقدر کردیا تھا اور اپنے علم کی بنیاد پر یہ فیصلہ کردیا تھا کہ یہ ہو کر رہے گا اس لیے میں اللہ کے علم اور فیصلے کی خلاف ورزی کیونکر کر سکتا تھا اور آپ اللہ کے علم سابق سے بے خبر ہو کر صرف میرے اختیار اور کسب کا ذکر کرتے ہو جو ایک سبب کی حیثیت رکھتا ہے۔
اور اصل معاملے کو بھول گئے ہو جو تقدیر سے عبارت ہے۔
(عمدة القاري: 143/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3409
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4736
4736. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”حضرت آدم اور حضرت موسیٰ ؑ کی ملاقات ہوئی تو حضرت موسیٰ ؑ نے حضرت آدم ؑ سے کہا: آپ ہی نے لوگوں کو پریشانی میں ڈالا اور انہیں جنت سے نکالا؟ حضرت آدم ؑ نے انہیں جواب دیا: تو وہی ہے جسے اللہ تعالٰی نے اپنی رسالت کے لیے منتخب کیا اور تجھے خود اپنے لیے پسند کیا، نیز آپ پر تورات نازل فرمائی؟ حضرت موسٰی ؑ نے جواب دیا: ہاں۔ (میں وہی ہوں۔) حضرت آدم ؑ نے فرمایا: آپ نے تو (تورات میں لکھا) دیکھا ہی ہو گا کہ میری پیدائش سے پہلے ہی یہ سب کچھ میرے لیے لکھ دیا گیا تھا؟ حضرت موسٰی ؑ نے جواب دیا: جی ہاں (معلوم ہے)، چنانچہ حضرت آدم ؑ اس طرح موسٰی ؑ پر غالب آ گئے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4736]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ساری زندگی اپنوں اور بیگانوں کی طرف سے تکلیفوں اور پریشانیوں میں گزری، آخر ایک دن سوچا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر ہم اس عالم رنگ وبو میں نہ آتے تو شاید ان ذہنی کوفتوں سے دوچار نہ ہوتے پھر اللہ تعالیٰ سے حضرت آدم سے ملاقات کا سوال کردیا تاکہ انھیں اپنی عرض داشت پیش کرکے اپنا غم ہلکا کرلوں جس کی تفصیل درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتی ہے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی:
اے میرے رب! ہمیں آدم علیہ السلام دکھلا، جنھوں نے ہمیں اور ا پنے آپ کو بھی جنت سے نکال دیا تھا۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات کرا دی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی:
آپ ہمارے باپ آدم ہیں؟ حضرت آدم علیہ السلام نے انھیں جواب دیا کہ ہاں، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی:
آپ ہی وہ ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے ا پنی روح پھونکی تھی اور تمام چیزوں کے نام تعلیم کیے تھے اور تمام فرشتوں کو حکم دیا توانھوں نے آپ کو سجدہ کیا تھا؟ حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا:
ہاں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی:
آپ کو کس چیز نے آمادہ کیا کہ آپ نے ہمیں اور اپنے آپ کو جنت سے نکال باہر کیا؟ حضرت آدم علیہ السلام نے ان سے فرمایا:
تم کون؟ انھوں نے کہا:
میں موسیٰ علیہ السلام ہوں۔
فرمایا:
تم ہی بنی اسرائیل کے وہ نبی ہو جس سے اللہ تعالیٰ نے پر پردہ کلام فرمایا تھا اور اپنے اور تمہارے درمیان اپنی مخلوق میں سے کسی کو واسطہ نہیں بنایا تھا؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا:
ہاں۔
حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا:
کیاتم نے نہیں پایا کہ یہ سب کچھ میرے پیدا کیے جانے سے پہلے ہی کتاب اللہ میں تھا؟حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی:
کیوں نہیں۔
حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا:
پھر تم مجھے کس چیز پر ملامت کرتے ہو، حالانکہ وہ مجھ سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے فیصلے میں تھی؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”حضرت آدم علیہ السلام سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر دلیل میں غالب آگئے۔
“ (سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4702)
2۔
"تقدیر" یعنی اللہ تعالیٰ کا ازلی اور ابدی علم عین برحق ہے، کہیں بھی اس سے زرہ برابر کچھ مختلف نہیں ہوسکتا، مگر یہ علم بندوں کو مجبور نہیں کرتا، لہذا انسانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے آئندہ کے امور میں تقدیر کو بطور عذر اور بہانہ پیش کریں کیونکہ ہر ایک کوصحیح راہ اختیار کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کا مکلف بنایا گیا ہے۔
لیکن ماضی کے حقائق میں تقدیر کا بیان بطور عذر مباح ہے جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اس تقدیر کو بطور عذر پیش کیا تھا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4736
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4738
4738. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: حضرت موسٰی ؑ نے سیدنا آدم ؑ سے بحث کی اور ان سے کہا: آپ ہی نے اپنے غلطی کی وجہ سے لوگوں کو جنت سے نکالا اور مشقت میں ڈالا؟ حضرت آدم ؑ نے فرمایا: اے موسٰی! آپ کو اللہ تعالٰی نے اپنی رسالت کے لیے پسند فرمایا اور ہم کلامی کا شرف بخشا ہے، کیا آپ مجھے ایک ایسی بات پر ملامت کرتے ہیں جسے اللہ تعالٰی نے میری پیدائش سے بھی پہلے میرے لیے مقدر کر دیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”حضرت آدم ؑ حضرت موسٰی ؑ پر بحث میں غالب آ گئے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4738]
حدیث حاشیہ:
تقدیر کو بطور بہانہ یا عذر پیش کرنا درست نہیں لیکن حضرت آدم علیہ السلام نے تقدیر کو بطور عذر پیش کیا۔
دراصل تقدیر کا بہانہ بنانے کی دوقسمیں ہیں:
ایک یہ کہ نافرمانی اور گناہوں پر جراءت کرنے کے لیے آدمی تقدیر کا حوالہ دے کر اس مصیبت اور گناہ میں میرا کوئی قصور نہیں تو یہ تقدیرمیں لکھا تھا۔
بلاشبہ اس طرح کا عذر جائز نہیں۔
دوسری قسم یہ کہ انسان نے گناہ سے توبہ کرلی، لیکن اس کے باوجود دل مطمئن نہیں تو اپنے دل کی تسلی کے لیے ایسے موقع پر تقدیر کو بطور بہانہ پیش کرناجائز ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی پر توبہ کرلی تھی لیکن اپنے دل کی تسلی کے لیے اعتذار بالقدر کیا ہے، پھر اس بحث میں حضرت آدم علیہ السلام کے غالب ہونے کا سبب یہ تھا کہ ان کی نظر ازلی تقدیر پر تھی کہ جبکہ موسیٰ علیہ السلام کی نظر ظاہری کسب پر تھی جو تقدیر ازلی کے تابع ہے، اس لیے حضرت آدم علیہ السلام کو غلبہ حاصل ہوا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4738
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6614
6614. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: حضرت آدم اور موسیٰ ؑ نے مباحثہ کیا۔ موسیٰ ؑ نے آدم ؑ سے کہا: اے آدم! آپ ہمارے باپ ہیں۔ آپ ہی ہمیں محرومی سے دوچار کیا اور جنت سے باہر نکال پھینکا۔ آدم ؑ نے موسیٰ ؑ سے کہا: اے موسٰی اللہ تعالٰی نے تجھے ہم کلامی کے ساتھ برگزیدہ کیا اور اپنے ہاتھ سے تیرے لیے (تورات کو) لکھا، کیا تم مجھے ایک ایسے کام پر ملامت کرتے ہو جو اللہ تعالٰی نے مجھے پیدا کرنے سے چالیس سال پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا تھا؟ آخر آدم ؑ اس مباحثے میں موسیٰ ؑ پر غالب آگئے۔ آپ نے یہ جملہ تین مرتبہ ارشاد فرمایا:۔ سفیان نے کہا: ہم سے ابو زناد نے بیان کیا اعرج سے، انہوں نے ابو ہریرہ ؓ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے اس جیسی حدیث بیان کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6614]
حدیث حاشیہ:
(1)
صحیح مسلم میں یہ مباحثہ تفصیل سے بیان ہوا ہے جس میں حضرت آدم اور حضرت موسیٰ علیہم السلام کے فضائل کا ذکر ہے، اس روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ آدم علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے کتنا عرصہ پہلے تورات لکھی تھی؟ موسیٰ علیہ السلام نے کہا:
چالیس سال پہلے۔
حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا:
کیا تمہیں اس میں یہ لکھا ہوا ملا تھا:
آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی تو وہ بہک گیا؟ انہوں نے کہا:
جی ہاں۔
حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا:
”پھر تم مجھے اسی بات پر ملامت کیوں کرتے ہو جس کا کرنا اللہ تعالیٰ نے میری قسمت میں میری پیدائش سے بھی چالیس سال پہلے لکھ دیا تھا۔
“ (صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6744 (2652) (2)
اللہ تعالیٰ نے کائنات کو پیدا کرنے سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے، فرشتوں سے سجدہ کرانے، جنت میں ٹھہرانے اور ایک درخت کے پاس جانے سے منع کرنے، پھر اس کے کھانے اور اس کی پاداش میں جنت سے نکل جانے کا واقعہ تقدیر میں لکھا تھا۔
اس کے جواب میں حضرت آدم علیہ السلام صرف گریۂ و زاری کرتے رہے، اس کے علاوہ ایک حرف تک منہ سے نہیں نکالا۔
کلمات استغفار بھی اس وقت کہنے کی جراءت کی جب پروردگار ہی کی طرف سے ان کا القاء کیا گیا۔
یہ صرف خالق کا حق ہے کہ وہ مخلوق سے کسی معاملے کے متعلق باز پرس کرے۔
(3)
ممکن تھا کہ کسی کے دل میں یہ خیال آئے کہ شاید حضرت آدم علیہ السلام کے دل میں اس وقت جواب نہ آ سکا ہو گا، اس عقدہ کے حل کے لیے اللہ تعالیٰ نے عالم غیب میں ایک محفل مکالمہ مرتب فرمائی، حضرت آدم علیہ السلام سے گفتگو کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے ایک ایسے فرزند کا انتخاب کیا جو فطرتاً تیز مزاج اور نازوں میں پلے ہوئے تھے تاکہ ان سے گفتگو کی ابتدا کر سکیں اور ان کے سامنے سوال و جواب کا یہی موضوع رکھ دیا۔
بہرحال حضرت آدم علیہ السلام نے ایسا جواب دیا جس سے موسیٰ علیہ السلام کو خاموش ہونا پڑا مگر یہاں معاملہ مخلوق کا مخلوق کے سامنے تھا لیکن جب یہی معاملہ خالق کے سامنے پیش آیا تو آدم علیہ السلام کے پاس گریۂ و زاری کرنے (رونے پیٹنے)
کے علاوہ اور کوئی جواب نہ تھا۔
(4)
مصیبت میں تقدیر کا ذکر کرنا رضا بالقضاء کی علامت ہے لیکن گناہ اور معصیت پر تقدیر کا بہانہ پیش کرنا انتہائی جسارت ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تقدیر، یعنی اللہ تعالیٰ کا ازلی اور ابدی علم عین برحق ہے کہیں بھی اس سے ذرہ برابر کچھ مختلف نہیں ہو سکتا، مگر یہ علم بندوں کو مجبور نہیں کرتا۔
انسانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے آئندہ کے امور میں تقدیر کو بطور بہانہ یا عذر پیش کریں کیونکہ ہر شخص کو صحیح راہ اختیار کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے لیکن اگر گناہ ہو جائے تو تقدیر کا بیان بطور عذر مباح ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6614
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7515
7515. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”سیدنا آدم اور سیدنا موسیٰ ؑ نے آپس میں بحث کی۔ سیدنا موسیٰ ؑ نے کہا: آپ وہی آدم ہیں ناں جنہوں نے اپنی اولاد کو جنت سے نکالا تھا؟ سیدنا آدم ؑ نے جواب دیا: آپ وہی موسیٰ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور اپنی گفتگو سے شرف یاب کیا تھا پھر بھی آپ مجھے ایک ایسے امر کے سبب ملامت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے پہلے ہی میرے لیے مقدر کر دیا تھا۔ چنانچہ سیدنا آدم ؑ سیدنا موسیٰ ؑ پر غالب آگئے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7515]
حدیث حاشیہ:
1۔
معتزلہ کا خیال ہے کہ کلام اللہ تعالیٰ کی صفت نہیں بلکہ وہ اسے ہوا یا درخت میں پیدا کرتا ہے۔
موسیٰ علیہ السلام نے جو کلام سنا تھا وہ اللہ تعالیٰ نے درخت میں پیدا کیا تھا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی تردید کے لیے یہ حدیث پیش کی ہے۔
اس میں رسالت اور کلام کو الگ الگ ذکر کیا ہے۔
رسالت کے لیے کوئی فرشتہ وحی لاتا ہے اور کلام کرنا براہ راست ہوتا ہے۔
2۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت ان الفاظ میں نقل کی ہے۔
”حضرت آدم علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا:
تو ایسا رسول ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے پس پردہ براراست گفتگو کی۔
درمیان میں مخلوق وغیرہ کا کوئی واسطہ نہ تھا۔
“ (سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4702 و فتح الباري: 618/11)
3۔
بہر حال اس حدیث میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ہم کلام ہونے کا صاف صاف اثبات ہے۔
اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے تو کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ بغیر واسطے کے جس سے چاہے جب چاہے کلام کر سکے جیسا کہ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہم کلام ہوا۔
جو لوگ اس کی تاویلیں کرتے ہیں وہ درحقیقت صفت کلام کے انکار کے لیے راستہ ہموار کرتے ہیں۔
(قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7515