اخبرنا جرير، عن ابي حيان التيمي، عن ابي زرعة بن عمرو بن جرير، عن ابي هريرة، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما بارزا للناس إذ اتاه رجل يمشي، فقال: يا محمد ما الإيمان؟ قال: ((ان تؤمن بالله وملائكته ورسله ولقائه، وتؤمن بالبعث الآخر))، قال: يا رسول الله فما الإسلام قال: ((لا تشرك به شيئا وتقيم الصلاة المكتوبة وتؤدي الزكاة المفروضة وتصوم رمضان))، قال: يا محمد فما الإحسان؟ قال: ((ان تعبد الله كانك تراه فإن لم تكن تراه فإنه يراك))، قال: يا محمد فمتى الساعة؟ فقال:" ما المسئول عنها باعلم من السائل وساحدثك عن اشراطها إذا ولدت المراة ربتها، ورايت الحفاة رؤوس الناس، في خمس لا يعلمهن إلا الله ﴿إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث﴾ [لقمان: 34] الآية"، ثم انصرف الرجل، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((ردوه، التمسوه)) فلم يجدوه، فقال: ((ذاك جبريل جاء ليعلم الناس دينهم)).أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بَارِزًا لِلنَّاسِ إِذْ أَتَاهُ رَجُلٌ يَمْشِي، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ مَا الْإِيمَانُ؟ قَالَ: ((أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَلِقَائِهِ، وَتُؤُمِنَ بِالْبَعْثِ الْآخِرِ))، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا الْإِسْلَامُ قَالَ: ((لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ وَتُؤَدِّي الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ وَتَصُومُ رَمَضَانَ))، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ فَمَا الْإِحْسَانُ؟ قَالَ: ((أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ))، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ فَمَتَى السَّاعَةُ؟ فَقَالَ:" مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ وَسَأُحَدِّثُكَ عَنْ أَشْرَاطِهَا إِذَا وَلَدَتِ الْمَرْأَةُ رَبَّتَهَا، وَرَأَيْتَ الْحُفَاةَ رُؤُوسَ النَّاسِ، فِي خَمْسٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ ﴿إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ﴾ [لقمان: 34] الْآيَةَ"، ثُمَّ انْصَرَفَ الرَّجُلُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((رُدُّوهُ، الْتَمِسُوهُ)) فَلَمْ يَجِدُوهُ، فَقَالَ: ((ذَاكَ جِبْرِيلُ جَاءَ لِيُعَلِّمَ النَّاسَ دِينَهُمْ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں نمایاں موجود تھے، کہ ایک آدمی چلتا ہوا آیا، اس نے کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کے رسولوں پر، اس سے ملاقات کرنے اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان لاؤ۔“ اس نے کہا: اللہ کے رسول! اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ، فرض نماز پڑھو، فرض زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔“ اس نے کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! احسان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کہ تم اللہ کی عبادت کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، پس اگر تم اسے نہیں دیکھ پاتے تو وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے۔“ اس نے کہا: محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)! قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے متعلق جس سے پوچھا: جا رہا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا، اور میں اس کی علامتوں کے بارے میں تمہیں بتاتا ہوں، جب عورت اپنے مالک کو جنم دے گی، اور تم ننگے بدن والے لوگوں کو عوام کا سربراہ دیکھو گے، اور پانچ چیزوں کے متعلق صرف اللہ ہی جانتا ہے: بے شک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے اور وہی بارش برساتا ہے۔“ پھر وہ آدمی چلا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے واپس لاؤ۔“ انہوں نے اسے تلاش کیا لیکن وہ انہیں نہ ملا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ جبریل تھے لوگوں کو ان کے دین کی تعلیم دینے آئے تھے۔“
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الايمان، باب سوال جبريل النبى صلى الله عليه وسلم عن الايمان، رقم: 50. مسلم، كتاب الايمان، باب بيان الايمان، والاسلام الخ، رقم: 9»