سیدنا سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ جو کوئی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے، اس کی توبہ ہو سکتی ہے؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نہیں۔ میں نے ان کو یہ آیت سنائی جو سورۃ الفرقان میں ہے کہ ((و للّذین لا یدعون ....)) آخر تک جس کے بعد یہ ہے کہ ((لاّ من تاب ....))(کیونکہ اس سے یہ نکلتا ہے کہ ناحق خون کے بعد توبہ کر سکتا ہے)“ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ یہ آیت مکی ہے اور اس کو اس آیت نے منسوخ کر دیا ہے جو مدینہ میں اتری کہ ”جو کوئی مومن کو عمداً قتل کرے اس کا بدلہ جہنم ہے اور وہ ہمیشہ اس میں رہے گا“۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے کچھ لوگوں نے ایک شخص کو تھوڑی بکریوں میں دیکھا۔ وہ بولا کہ السلام علیکم۔ مسلمانوں نے اس کو پکڑا اور قتل کر کے وہ بکریاں لے لیں۔ تب یہ آیت اتری کہ ”مت کہو اس کو جو تمہیں سلام کرے کہ تو مسلمان نہیں ہے (بلکہ اپنی جان بچانے کے لئے سلام کرتا ہے)“ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت میں ((سلام)) پڑھا ہے اور بعض نے ((سلم)) پڑھا ہے (تو معنی یہ ہوں گے جو تم سے صلح سے پیش آئے)۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس آیت کے بارے میں ”اور اگر کسی عورت کو اپنے خاوند کی طرف سے بدسلوکی یا بےرخی کا خطرہ ہو (تو ان دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ وہ آپس میں { کوئی بات طے کر کے } صلح کر لیں ....) کہا کہ یہ آیت اس عورت کے بارے میں اتری جو ایک شخص کے پاس ہو اب وہ زیادہ اس کو اپنے پاس نہ رکھنا چاہے، لیکن اس عورت کی اولاد ہو اور صحبت ہو اپنے خاوند سے اور وہ اپنے خاوند کو چھوڑنا برا جانے، تو اس کو اپنے بارے میں اجازت دے۔ (یعنی اپنا حق زوجیت چھوڑ دے)
طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ ایک یہودی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے امیرالمؤمنین! تمہاری کتاب میں ایک آیت ہے جس کو تم پڑھتے ہو، اگر وہ ہم یہودیوں پر اترتی تو ہم اس دن کو عید کر لیتے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کون سی آیت؟ وہ یہودی بولا کہ ”آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو (بطور) دین پسند کر لیا ہے“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس دن کو جانتا ہوں جس دن یہ آیت اتری اور اس مقام کو بھی جانتا ہوں جس مقام پر یہ آیت اتری، یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مقام عرفات میں جمعہ کے دن اتری (اور وہ دن مسلمانوں کے لئے دو عیدوں کا مجموعہ تھا ایک تو جمعہ کا دن اور دوسرا عرفہ کا دن)۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب یہ آیت ”جو لوگ ایمان لائے، پھر انہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم نہیں کیا (یعنی گناہ میں نہ پھنسے)، ان کو امن ہے اور وہی راہ پانے والے ہیں“ اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام پر بہت مشکل گزری۔ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہم میں سے کون سا ایسا ہے جو اپنے نفس پر ظلم (یعنی گناہ) نہیں کرتا؟ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس آیت کا یہ مطلب نہیں جیسا تم خیال کرتے ہو۔ بلکہ ظلم سے مراد وہ ہے جو لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے کہا تھا کہ ”اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ شرک مت کر، بیشک شرک بڑا ظلم ہے“(لقمان: 13)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین باتیں جب ظاہر ہو جائیں تو ”اس وقت کسی کو ایمان لانے سے فائدہ نہ ہو گا، جو پہلے سے ایمان نہ لایا ہو یا نیک کام نہ کیا ہو“ ایک تو سورج کا اس طرف سے نکلنا جس طرف غروب ہوتا ہے، دوسرے دجال کا نکلنا اور تیسرے زمین کے جانور کا نکلنا۔
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے صحابہ سے فرمایا: تم جانتے ہو کہ یہ سورج کہاں جاتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ اپنے ٹھہرنے کی جگہ پر عرش کے نیچے آتا ہے، وہاں سجدہ میں گر جاتا ہے (اس سجدہ کا مفہوم اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے) پھر اسی حال میں رہتا ہے یہاں تک کہ اس کو حکم ہوتا ہے کہ اونچا ہو جا اور جا جہاں سے آیا ہے، تو وہ لوٹ آتا ہے اور اپنے نکلنے کی جگہ سے نکلتا ہے۔ پھر چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ اپنے ٹھہرنے کی جگہ پر عرش کے نیچے آتا ہے اور سجدہ کرتا ہے۔ پھر اسی حال میں رہتا ہے یہاں تک کہ اس سے کہا جاتا ہے کہ اونچا ہو جا اور لوٹ جا جہاں سے آیا ہے۔ وہ پھر اپنے نکلنے کی جگہ سے نکلتا ہے۔ اور پھر اسی طرح چلتا ہے۔ ایک بار اسی طرح چلے گا اور لوگوں کو اس کی چال میں کوئی فرق محسوس نہ ہو گا یہاں تک کہ اپنے ٹھہرنے کی جگہ پر عرش کے نیچے آئے گا۔ اس وقت اس سے کہا جائے گا کہ اونچا ہو جا اور مغرب کی طرف سے نکل جدھر تو غروب ہوتا ہے، تو وہ مغرب کی طرف سے نکلے گا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ یہ کب ہو گا؟ (یعنی سورج کا مغرب کی طرف سے نکلنا) یہ اس وقت ہو گا ”جب کسی کو ایمان لانا فائدہ نہ دے گا جو پہلے سے ایمان نہ لایا ہو یا اس نے اپنے ایمان میں نیک کام نہ کئے ہوں“۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عورت (جاہلیت کے زمانہ میں) خانہ کعبہ کا طواف ننگی ہو کر کرتی اور کہتی کہ کون مجھے ایک کپڑا دیتا ہے کہ وہ اسے اپنی شرمگاہ پر ڈال لے؟ اور کہتی کہ آج کھل جائے گا سب یا بعض پھر جو کھل جائے گا اس کو کبھی حلال نہ کروں گی (یعنی وہ ہمیشہ کے لئے حرام ہو گیا۔ یہ بیہودہ رسم اسلام نے ختم کر دی) تب یہ آیت اتری کہ ”ہر مسجد کے پاس اپنے کپڑے پہن کر جاؤ“
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک پکارنے والا (جنت کے لوگوں کو) پکارے گا کہ تمہارے واسطے یہ ٹھہر چکا کہ تم تندرست رہو گے، کبھی بیمار نہ ہو گے اور یقیناً تم زندہ رہو گے، کبھی نہ مرو گے اور یقیناً تم جوان رہو گے، کبھی بوڑھے نہ ہو گے اور یقیناً تم عیش اور چین میں رہو گے، کبھی رنج نہ ہو گا۔ اور یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول کا کہ ”جنت والے آواز دئیے جائیں گے کہ یہ تمہاری جنت ہے جس کے تم وارث ہوئے اس وجہ سے کہ تم نیک اعمال کرتے تھے“۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوجہل لعین نے کہا کہ ”اے اللہ! اگر یہ قرآن سچ ہے اور تیری طرف سے ہے، تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، یا دکھ کا عذاب بھیج“ اس وقت یہ آیت اتری کہ ”اللہ تعالیٰ ان کو عذاب کرنے والا نہیں ہے جب تک (اے نبی) تو ان میں موجود ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو عذاب کرنے والا نہیں ہے جب تک وہ استغفار کرتے ہیں۔ اور کیا ہوا جو اللہ عذاب نہ کرے ان کو حالانکہ وہ مسجدالحرام میں آنے سے روکتے ہیں ........“ آخر تک۔