سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل سے کہا گیا تھا کہ تم (بیت المقدس کے) دروازہ میں رکوع کرتے ہوئے جاؤ اور کہو ”گناہوں کی بخشش (چاہتے ہیں) تمہارے گناہ بخش دیئے جائیں گے“ لیکن بنی اسرائیل نے حکم کے خلاف کیا اور وہ دروازہ میں سرین کے بل گھسٹتے ہوئے آئے اور کہنے لگے کہ ”بالی میں دانہ“(یعنی ہمیں گندم چاہئے)۔
ابواسحاق کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ انصار جب حج کر کے لوٹ کر آتے تو گھر میں (دروازے سے) نہ آتے بلکہ پیچھے سے (دیوار پر چڑھ کر) آتے۔ ایک انصاری آیا اور دروازے سے داخل ہوا تو لوگوں نے اس کے بارے میں اس سے گفتگو کی، تب یہ آیت اتری کہ ”یہ نیکی نہیں ہے کہ تم گھروں میں پیچھے سے آؤ، بلکہ نیکی یہ ہے کہ پرہیزگاری کرو اور گھروں میں دروازے سے آؤ“۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت: نازل ہوئی ((ﷲ ما فی السّمٰوات وما فی الارض ....)) یعنی ”جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، سب اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔ تم اس بات کو ظاہر کرو جو تمہارے دلوں میں ہے یا چھپائے رکھو، اللہ تعالیٰ تم سے حساب لے لے گا، پھر جس کو چاہے گا معاف کر دے گا اور جس کو چاہے گا عذاب دے گا اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے“ نازل ہوئی تو یہ آیت صحابہ کرام پر بہت ہی سخت گزری۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔ پھر کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! (پہلے تو) ہم نماز، روزہ، جہاد اور صدقہ وغیرہ ایسے اعمال کے مکلف بنائے گئے تھے (جن پر طاقت رکھتے تھے)، اور اب آپ پر یہ آیت نازل ہوئی ہے، اس کی تو ہم طاقت ہی نہیں رکھتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم ویسی ہی بات کہنا چاہتے ہو جیسی تم سے پہلے دو کتابوں والوں (یہود و نصاریٰ) نے کہی تھی (یعنی انہوں نے کہا)”سمعنا و عصینا“ کہ ہم نے (اللہ اور رسول کی بات کو) سن تو لیا ہے لیکن مانتے نہیں ہیں، بلکہ آپ لوگوں کو یوں کہنا چاہئے کہ ہم نے (اللہ کی اور رسول کی بات کو) سن لیا اور مان لیا۔ اے ہمارے رب ہم تیری بخشش چاہتے ہیں اور ہماری واپسی تیری طرف ہے۔ تو صحابہ کرام نے یہی کہا کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا ہم اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں اے ہمارے رب! اور تیری ہی طرف واپسی ہے۔ جب صحابہ کرام نے اس کو پڑھنا شروع کیا تو اس کے پڑھنے سے ان کی زبانوں کو سہولت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل کیں ((اٰمن الرّسول بما انزل الیہ ....)) یعنی ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس (شریعت) کے ساتھ ایمان لائے جو ان کے رب کی طرف سے ان پر نازل کی گئی اور مومن لوگ بھی ایمان لائے اور سب کے سب ایمان لائے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کے ساتھ (سب کے سب کہتے ہیں) کہ ہم اللہ کے رسولوں کے درمیان فرق نہیں کرتے (سب رسولوں کو مانتے ہیں یہ نہیں کہ کسی رسول کو مانیں اور کسی کو نہ مانیں) اور انہوں نے کہا کہ ہم نے سنا اور مان لیا، اے ہمارے رب! ہم تیری بخشش چاہتے ہیں اور تیری ہی طرف واپسی ہے“۔ جب صحابہ کرام نے یہ کیا (یعنی ان آیات کو پڑھا اور سچے دل سے پڑھا) تو اللہ تعالیٰ نے آیت ((وان تبدوا ما فی انفسکم ....)) آیت کو منسوخ کر دیا اور آیت ((لا یکلّف اﷲ نفسًا....)) اتار دی یعنی ”اللہ تعالیٰ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف میں نہیں ڈالتا، اس (نفس) کے لئے وہ ہے جو اس نے کمایا اور اس کے خلاف بھی وہی کچھ ہو گا جو اس نے کمایا، اے ہمارے رب! ہم پر ویسا بوجھ نہ رکھنا جیسا کہ ہم سے پہلے والوں پر رکھا تھا تو اللہ نے فرمایا ”ہاں“۔ اے ہمارے رب! ہم سے وہ بوجھ نہ اٹھوانا جس کی ہم میں اٹھانے کی طاقت نہ ہو تو اللہ نے فرمایا ”ہاں“۔ اور ہمیں معاف کر دے، ہمیں بخش دے، ہم پر رحم کر تو ہمارا دوست یا مالک ہے، پس تو کافر قوم پر ہماری مدد فرما تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”ہاں“۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی کہ ”اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری، اس میں بعض آیتیں مضبوط (محکم) ہیں، وہ تو کتاب کی جڑ ہیں اور بعض متشابہ (یعنی گول مول یا چھپے مطلب کی)۔ پھر جن لوگوں کے دل میں گمراہی ہے، وہ متشابہ آیتوں کا کھوج کرتے ہیں اور فساد چاہتے ہیں اور اس کا مطلب چاہتے ہیں حالانکہ اس کا مطلب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جو پکے علم والے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے سب آیتیں ہمارے رب کے پاس سے آئی ہیں اور نصیحت وہی سنتے ہیں جو عقل رکھتے ہیں“ ام المؤمنین کہتی ہیں کہ (تلاوت کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیات کا کھوج کرتے ہیں تو ان سے بچو کہ وہی لوگ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے (قرآن میں) نام لیا ہے۔ (یعنی ان کے دلوں میں کجی ہے اس لئے ایمان والوں کو ایسے لوگوں سے بچنا چاہیئے)
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ منافق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایسے تھے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم لڑائی پر جاتے تو وہ پیچھے رہ جاتے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے گھر میں بیٹھنے سے خوش ہوتے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹ کر آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عذر کرتے اور قسم کھاتے اور چاہتے کہ لوگ ان کی ان کاموں پر تعریف کریں جو انہوں نے نہیں کئے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”مت گمان کرو ان لوگوں کو جو اپنے کئے سے خوش ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی ایسے کاموں پر تعریف کی جائے جو انہوں نے نہیں کئے، پس ان کے بارہ میں یہ گمان ہرگز نہ کرو کہ یہ عذاب سے چھٹکارا پائیں گے ان کو دکھ کی مار ہے“۔
حمید بن عبدالرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ مروان نے اپنے دربان رافع سے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس جا اور کہہ کہ اگر ہم میں سے ہر اس آدمی کو عذاب ہو جو اپنے کئے پر خوش ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ لوگ اس کی اس بات پر تعریف کریں جو اس نے نہیں کی، پھر تو ہم سب کو عذاب ہو گا (کیونکہ ہم سب میں یہ عیب موجود ہے) تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ تمہیں اس آیت سے کیا تعلق ہے؟ یہ آیت تو اہل کتاب کے حق میں اتری ہے۔ پھر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ آیت ((واذ اخذ اﷲ ....)) آخر تک پڑھی اور پھر ((لا تحسبنّ الّذین ....)) آیت پڑھی۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتاب سے کوئی بات پوچھی تو انہوں نے اس کو چھپایا اور اس کے بدلے دوسری بات بتائی۔ پھر اس حال میں نکلے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سمجھایا کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ بات بتا دی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی تعریف کے طلبگار ہوئے اور دل میں اپنے کئے پر خوش ہوئے (یعنی اپنی اصل بات کے چھپانے پر جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھی تھی تو اللہ تعالیٰ انہیں کو فرماتا ہے کہ ان کو عذاب ہو گا اور مراد وہی اہل کتاب ہیں)۔
سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس فرمان ”اگر تم ڈرو کہ یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کر سکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہیں پسند آئیں دو دو سے اور تین تین سے اور چار چار سے“ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اے میرے بھانجے! اس آیت سے مراد وہ یتیم لڑکی ہے جو اپنے ولی کی گود میں ہو (یعنی پرورش میں جیسے چچا کی لڑکی بھتیجے کے پاس ہو) اور اس کے مال میں شریک ہو (مثلاً چچا کے مال میں)، پھر اس ولی کو اس کا مال اور حسن و جمال پسند آئے اور وہ اس سے نکاح کرنا چاہے لیکن اس کے مہر میں انصاف نہ کرے اور اتنا مہر نہ دے جو اور لوگ دینے کو مستعد ہوں، تو اللہ تعالیٰ نے ایسی لڑکیوں کے ساتھ نکاح کرنے سے منع کیا ہے مگر اس صورت میں (نکاح کرنا جائز ہے) جب وہ انصاف کریں اور مہر پورا دینے پر راضی ہوں اور ان کو حکم کیا کہ (ان کے علاوہ) دوسری عورتوں سے نکاح کریں جو ان کو پسند آئیں۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ لوگوں نے یہ آیت اترنے کے بعد پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان لڑکیوں کے بارے میں پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”تجھ سے عورتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں، تو تم کہو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ان کے بارے میں حکم دیتا ہے، اور جو کتاب میں ان یتیم عورتوں کے حق کے بارے میں پڑھا جاتا ہے جن کا مہر مقرر تم نہیں دیتے اور ان سے نکاح کرنا چاہتے ہو“ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ جو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا تھا کہ ”اگر تمہیں اس بات کا خدشہ ہو کہ یتیموں کے بارے میں انصاف نہیں کر سکو گے، تو (ان کے علاوہ) جو عورتیں تمہیں پسند ہوں، ان سے نکاح کر لو۔ اور ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان دوسری آیت میں ”اور تم رغبت رکھتے ہو ان سے نکاح کی“ سے مراد تم میں سے کسی ایک کا اس یتیم لڑکی سے جو کہ تمہاری زیر پرورش ہو اور مال اور حسن و جمال میں کم ہو، نکاح نہ کرنے کا ارادہ مراد ہے۔ پس انہیں اس یتیم عورت سے جو کہ مال والی اور حسن و جمال والی ہو، نکاح کرنے سے منع کر دیا گیا مگر اس صورت میں کہ جب انصاف کریں (یعنی ان کا حق مہر ان اور ان کا مال وغیرہ ان کو پورا دیں)۔ (اس کا مفہوم یہ ہے کہ شروع میں چونکہ لوگ ایسا کرتے تھے کہ وہ اس یتیم لڑکی سے جو ان کے زیر پرورش ہوتی تھی اور مالدار اور حسین و جمیل ہوتی تھی تو خود ہی ان سے نکاح کر لیتے لیکن ان کے مال میں خیانت کرتے اور مہر بھی پورا نہ دیتے۔ اس صورت میں سورت کے شروع والی آیت میں انہیں ان سے نکاح کرنے سے منع کر دیا لیکن جب صحابہ کرام نے ان کے ساتھ خود نکاح کرنے میں ان کے لئے بہتری کی صورت میں ان سے نکاح کرنے کے بارہ میں پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء کی دوسری آیت نمبر 127 نازل فرمائی کہ انصاف کے ساتھ نکاح کرنا چاہو تو جائز اور احسن اقدام ہے)۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اس آیت ”جو شخص مالدار ہو وہ بچا رہے (اور جو محتاج ہو وہ اپنی ضرورت کے موافق کھائے)“ کے بارہ میں مروی ہے کہ یہ آیت اس شخص کے بارے میں اتری ہے جو یتیم کے مال کا متولی ہو اور اس کو درست کرے اور سنوارے۔ تو اگر وہ محتاج ہو تو دستور کے موافق کھائے (اور جو مالدار ہو تو کچھ نہ کھائے)۔
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ احد کے لئے نکلے اور جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ان میں سے کچھ آدمی لوٹ آئے (وہ منافق تھے اور وہ تین سو کے قریب تھے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ان کے مقدمہ میں دو فرقے ہو گئے۔ بعض کہنے لگے کہ ہم ان کو قتل کریں گے اور بعض نے کہا کہ نہیں! قتل نہیں کریں گے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”تمہارا کیا حال ہے کہ تم منافقوں کے بارے میں دو فرقے ہو گئے ہو“۔