سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی (اپنے آپ کو عمدہ اور لوگوں کو حقیر جان کر) یہ کہے کہ لوگ ہلاک ہوئے تو وہ خود سب سے زیادہ ہلاک ہونے والا ہے (اور اگر افسوس یا رنج سے دین کی خرابی پر کہے تو منع نہیں ہے)۔ ابواسحٰق (ابن محمد بن سفیان) نے کہ میں نہیں جانتا کہ حدیث میں لفظ ”اھلک“ ہے یا لفظ ”اھلک“ ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بال کی کھال اتارنے والے تباہ ہوئے (یعنی بےفائدہ موشگافی کرنے والے حد سے زیادہ بڑھنے والے اور تعصب کرنے والے)۔ تین بار یہی فرمایا۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ دو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور میں نہیں جانتی کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا باتیں کیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں پر لعنت کی اور ان کو برا کہا۔ جب وہ باہر نکلے تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ان دونوں کو کچھ فائدہ نہ ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں؟ میں نے عرض کیا کہ اس وجہ سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر لعنت کی اور ان کو برا کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تجھے معلوم نہیں جو میں نے اپنے رب سے شرط کی ہے؟۔ میں نے عرض کیا ہے کہ اے میرے مالک! میں بشر ہوں، تو جس مسلمان پر میں لعنت کروں یا اس کو برا کہوں تو اس کو پاک کر اور ثواب دے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس ایک یتیم لڑکی تھی، جس کو ام انس کہتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی کو دیکھا تو فرمایا کہ! وہ لڑکی تو بڑی ہو گئی، اللہ کرے تیری عمر بڑی نہ ہو۔ وہ لڑکی یہ سن کر ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس روتی ہوئی گئی تو ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ بیٹی تجھے کیا ہوا؟ وہ بولی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر بددعا کی کہ میری عمر بڑی نہ ہو۔ اب میں کبھی بڑی نہ ہوں گی یا یہ فرمایا کہ تیری ہمجولی بڑی نہ ہو۔ یہ سن کر سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا جلدی سے اپنی اوڑھنی اوڑھتی ہوئی نکلیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا ہے ام سلیم؟ وہ بولیں کہ اے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے میری یتیم لڑکی کو بددعا دی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا بددعا؟ وہ بولیں کہ وہ کہتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی یا اس کی ہمجولی کی عمردراز نہ ہو۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا کہ اے ام سلیم! تو نہیں جانتی کہ میں نے اپنے رب سے شرط کی ہے؟ میری شرط یہ ہے کہ میں نے عرض کیا کہ اے رب! میں ایک بشر ہوں اور خوش ہوتا ہوں جیسے آدمی خوش ہوتا ہے اور غصہ ہوتا ہوں جیسے آدمی غصہ ہوتا ہے، پس میں اپنی امت میں سے جس کسی پر بددعا کروں، ایسی بددعا جس کے وہ لائق نہیں تو اس کے لئے قیامت کے دن پاکی کرنا اور طہارت اور اپنا قرب عطا کرنا۔ اور ابومعن نے اس حدیث میں تینوں جگہ ”یتیمۃ“ کی بجائے ”یتیّمۃ“ تصغیر کے ساتھ بیان کیا ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ اور میں ایک دروازے کے پیچھے چھپ گیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دست مبارک سے مجھے (پیار سے) تھپکا اور فرمایا کہ جا معاویہ کو بلا لا۔ میں گیا پھر لوٹ کر آیا اور میں نے کہا کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ جا اور معاویہ کو بلا لا۔ میں پھر لوٹ کر آیا اور کہا کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اس کا پیٹ نہ بھرے۔ ابن مثنیٰ نے کہا کہ میں نے امیہ سے کہا کہ ”حطا“ کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ اس کا معنی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گدی پر ابن عباس رضی اللہ عنہما کو مارا۔ (یہ حدیث بھی اسی معنی میں ہے جیسے پچھلی احادیث میں گزرا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ پر شرط لگائی ہے کہ اگر کسی کے لئے خلاف واقعہ کوئی بات کر دوں تو اس کے لئے رحمت ہو جائے۔ اس لئے یہ حدیث معاویہ رضی اللہ عنہ کے مناقب میں ہے)۔