ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے، کہا کہ ہم سے شعبہ نے حکم کے واسطے سے، انہوں نے ذر بن عبداللہ سے، انہوں نے ابن عبدالرحمٰن بن ابزی سے، انہوں نے اپنے والد سے کہ عمار نے بیان کیا”پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارا اور اس سے اپنے چہرے اور پہنچوں کا مسح کیا“۔
Narrated `Ammar: The Prophet stroked the earth with his hands and then passed them over his face and the backs of his hands (while demonstrating Tayammum).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 7, Number 339
وقال الحسن: يجزئه التيمم ما لم يحدث، وام ابن عباس وهو متيمم، وقال يحيى بن سعيد: لا باس بالصلاة على السبخة والتيمم بها.وَقَالَ الْحَسَنُ: يُجْزِئُهُ التَّيَمُّمُ مَا لَمْ يُحْدِثْ، وَأَمَّ ابْنُ عَبَّاسٍ وَهُوَ مُتَيَمِّمٌ، وَقَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: لَا بَأْسَ بِالصَّلَاةِ عَلَى السَّبَخَةِ وَالتَّيَمُّمِ بِهَا.
اور حسن بصری نے کہا کہ جب تک اس کو حدث نہ ہو (یعنی وضو توڑنے والی چیزیں نہ پائی جائیں) تیمم کافی ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے تیمم سے امامت کی اور یحییٰ بن سعید انصاری نے فرمایا کہ کھاری زمین پر نماز پڑھنے اور اس سے تیمم کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔
(مرفوع) حدثنا مسدد، قال: حدثني يحيى بن سعيد، قال: حدثنا عوف، قال: حدثنا ابو رجاء، عن عمران، قال:" كنا في سفر مع النبي صلى الله عليه وسلم، وإنا اسرينا حتى كنا في آخر الليل، وقعنا وقعة ولا وقعة احلى عند المسافر منها، فما ايقظنا إلا حر الشمس، وكان اول من استيقظ فلان، ثم فلان، ثم فلان يسميهم ابو رجاء فنسي عوف، ثم عمر بن الخطاب الرابع، وكان النبي صلى الله عليه وسلم، إذا نام لم يوقظ حتى يكون هو يستيقظ، لانا لا ندري ما يحدث له في نومه، فلما استيقظ عمر وراى ما اصاب الناس، وكان رجلا جليدا، فكبر ورفع صوته بالتكبير، فما زال يكبر ويرفع صوته بالتكبير حتى استيقظ لصوته النبي صلى الله عليه وسلم، فلما استيقظ شكوا إليه الذي اصابهم، قال: لا ضير او لا يضير، ارتحلوا، فارتحل، فسار غير بعيد، ثم نزل فدعا بالوضوء فتوضا ونودي بالصلاة، فصلى بالناس، فلما انفتل من صلاته إذا هو برجل معتزل لم يصل مع القوم، قال: ما منعك يا فلان ان تصلي مع القوم؟ قال: اصابتني جنابة ولا ماء، قال: عليك بالصعيد فإنه يكفيك، ثم سار النبي صلى الله عليه وسلم فاشتكى إليه الناس من العطش، فنزل فدعا فلانا كان يسميه ابو رجاء نسيه عوف ودعا عليا، فقال: اذهبا فابتغيا الماء، فانطلقا، فتلقيا امراة بين مزادتين او سطيحتين من ماء على بعير لها، فقالا لها: اين الماء؟ قالت: عهدي بالماء امس هذه الساعة، ونفرنا خلوفا، قالا لها: انطلقي، إذا قالت: إلى اين؟ قالا: إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت: الذي يقال له الصابئ، قالا: هو الذي تعنين، فانطلقي فجاءا بها إلى النبي صلى الله عليه وسلم وحدثاه الحديث، قال: فاستنزلوها عن بعيرها، ودعا النبي صلى الله عليه وسلم بإناء ففرغ فيه من افواه المزادتين او سطيحتين، واوكا افواههما واطلق العزالي ونودي في الناس اسقوا واستقوا، فسقى من شاء واستقى من شاء، وكان آخر ذاك ان اعطى الذي اصابته الجنابة إناء من ماء، قال: اذهب فافرغه عليك، وهي قائمة تنظر إلى ما يفعل بمائها، وايم الله لقد اقلع عنها، وإنه ليخيل إلينا انها اشد ملاة منها حين ابتدا فيها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: اجمعوا لها، فجمعوا لها من بين عجوة ودقيقة وسويقة حتى جمعوا لها طعاما، فجعلوها في ثوب وحملوها على بعيرها ووضعوا الثوب بين يديها، قال لها: تعلمين ما رزئنا من مائك شيئا، ولكن الله هو الذي اسقانا، فاتت اهلها وقد احتبست عنهم، قالوا: ما حبسك يا فلانة؟ قالت: العجب، لقيني رجلان فذهبا بي إلى هذا الذي يقال له الصابئ ففعل كذا وكذا، فوالله إنه لاسحر الناس من بين هذه وهذه، وقالت بإصبعيها الوسطى والسبابة: فرفعتهما إلى السماء تعني السماء والارض او إنه لرسول الله حقا، فكان المسلمون بعد ذلك يغيرون على من حولها من المشركين ولا يصيبون الصرم الذي هي منه، فقالت يوما لقومها: ما ارى ان هؤلاء القوم يدعونكم عمدا، فهل لكم في الإسلام؟ فاطاعوها، فدخلوا في الإسلام".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَوْفٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ، عَنْ عِمْرَانَ، قَالَ:" كُنَّا فِي سَفَرٍ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّا أَسْرَيْنَا حَتَّى كُنَّا فِي آخِرِ اللَّيْلِ، وَقَعْنَا وَقْعَةً وَلَا وَقْعَةَ أَحْلَى عِنْدَ الْمُسَافِرِ مِنْهَا، فَمَا أَيْقَظَنَا إِلَّا حَرُّ الشَّمْسِ، وَكَانَ أَوَّلَ مَنِ اسْتَيْقَظَ فُلَانٌ، ثُمَّ فُلَانٌ، ثُمَّ فُلَانٌ يُسَمِّيهِمْ أَبُو رَجَاءٍ فَنَسِيَ عَوْفٌ، ثُمَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ الرَّابِعُ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا نَامَ لَمْ يُوقَظْ حَتَّى يَكُونَ هُوَ يَسْتَيْقِظُ، لِأَنَّا لَا نَدْرِي مَا يَحْدُثُ لَهُ فِي نَوْمِهِ، فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ عُمَرُ وَرَأَى مَا أَصَابَ النَّاسَ، وَكَانَ رَجُلًا جَلِيدًا، فَكَبَّرَ وَرَفَعَ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ، فَمَا زَالَ يُكَبِّرُ وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ حَتَّى اسْتَيْقَظَ لِصَوْتِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ شَكَوْا إِلَيْهِ الَّذِي أَصَابَهُمْ، قَالَ: لَا ضَيْرَ أَوْ لَا يَضِيرُ، ارْتَحِلُوا، فَارْتَحَلَ، فَسَارَ غَيْرَ بَعِيدٍ، ثُمَّ نَزَلَ فَدَعَا بِالْوَضُوءِ فَتَوَضَّأَ وَنُودِيَ بِالصَّلَاةِ، فَصَلَّى بِالنَّاس، فَلَمَّا انْفَتَلَ مِنْ صَلَاتِهِ إِذَا هُوَ بِرَجُلٍ مُعْتَزِلٍ لَمْ يُصَلِّ مَعَ الْقَوْمِ، قَالَ: مَا مَنَعَكَ يَا فُلَانُ أَنْ تُصَلِّيَ مَعَ الْقَوْمِ؟ قَالَ: أَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ وَلَا مَاءَ، قَالَ: عَلَيْكَ بِالصَّعِيدِ فَإِنَّهُ يَكْفِيكَ، ثُمَّ سَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاشْتَكَى إِلَيْهِ النَّاسُ مِنَ الْعَطَشِ، فَنَزَلَ فَدَعَا فُلَانًا كَانَ يُسَمِّيهِ أَبُو رَجَاءٍ نَسِيَهُ عَوْفٌ وَدَعَا عَلِيًّا، فَقَالَ: اذْهَبَا فَابْتَغِيَا الْمَاءَ، فَانْطَلَقَا، فَتَلَقَّيَا امْرَأَةً بَيْنَ مَزَادَتَيْنِ أَوْ سَطِيحَتَيْنِ مِنْ مَاءٍ عَلَى بَعِيرٍ لَهَا، فَقَالَا لَهَا: أَيْنَ الْمَاءُ؟ قَالَتْ: عَهْدِي بِالْمَاءِ أَمْسِ هَذِهِ السَّاعَةَ، وَنَفَرُنَا خُلُوفًا، قَالَا لَهَا: انْطَلِقِي، إِذًا قَالَتْ: إِلَى أَيْنَ؟ قَالَا: إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: الَّذِي يُقَالُ لَهُ الصَّابِئُ، قَالَا: هُوَ الَّذِي تَعْنِينَ، فَانْطَلِقِي فَجَاءَا بِهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَدَّثَاهُ الْحَدِيثَ، قَالَ: فَاسْتَنْزَلُوهَا عَنْ بَعِيرِهَا، وَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِنَاءٍ فَفَرَّغَ فِيهِ مِنْ أَفْوَاهِ الْمَزَادَتَيْنِ أَوْ سَطِيحَتَيْنِ، وَأَوْكَأَ أَفْوَاهَهُمَا وَأَطْلَقَ الْعَزَالِيَ وَنُودِيَ فِي النَّاسِ اسْقُوا وَاسْتَقُوا، فَسَقَى مَنْ شَاءَ وَاسْتَقَى مَنْ شَاءَ، وَكَانَ آخِرَ ذَاكَ أَنْ أَعْطَى الَّذِي أَصَابَتْهُ الْجَنَابَةُ إِنَاءً مِنْ مَاءٍ، قَالَ: اذْهَبْ فَأَفْرِغْهُ عَلَيْكَ، وَهِيَ قَائِمَةٌ تَنْظُرُ إِلَى مَا يُفْعَلُ بِمَائِهَا، وَايْمُ اللَّهِ لَقَدْ أُقْلِعَ عَنْهَا، وَإِنَّهُ لَيُخَيَّلُ إِلَيْنَا أَنَّهَا أَشَدُّ مِلْأَةً مِنْهَا حِينَ ابْتَدَأَ فِيهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اجْمَعُوا لَهَا، فَجَمَعُوا لَهَا مِنْ بَيْنِ عَجْوَةٍ وَدَقِيقَةٍ وَسَوِيقَةٍ حَتَّى جَمَعُوا لَهَا طَعَامًا، فَجَعَلُوهَا فِي ثَوْبٍ وَحَمَلُوهَا عَلَى بَعِيرِهَا وَوَضَعُوا الثَّوْبَ بَيْنَ يَدَيْهَا، قَالَ لَهَا: تَعْلَمِينَ مَا رَزِئْنَا مِنْ مَائِكِ شَيْئًا، وَلَكِنَّ اللَّهَ هُوَ الَّذِي أَسْقَانَا، فَأَتَتْ أَهْلَهَا وَقَدِ احْتَبَسَتْ عَنْهُمْ، قَالُوا: مَا حَبَسَكِ يَا فُلَانَةُ؟ قَالَتْ: الْعَجَبُ، لَقِيَنِي رَجُلَانِ فَذَهَبَا بِي إِلَى هَذَا الَّذِي يُقَالُ لَهُ الصَّابِئُ فَفَعَلَ كَذَا وَكَذَا، فَوَاللَّهِ إِنَّهُ لَأَسْحَرُ النَّاسِ مِنْ بَيْنِ هَذِهِ وَهَذِهِ، وَقَالَتْ بِإِصْبَعَيْهَا الْوُسْطَى وَالسَّبَّابَةِ: فَرَفَعَتْهُمَا إِلَى السَّمَاءِ تَعْنِي السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ أَوْ إِنَّهُ لَرَسُولُ اللَّهِ حَقًّا، فَكَانَ الْمُسْلِمُونَ بَعْدَ ذَلِكَ يُغِيرُونَ عَلَى مَنْ حَوْلَهَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَلَا يُصِيبُونَ الصِّرْمَ الَّذِي هِيَ مِنْهُ، فَقَالَتْ يَوْمًا لِقَوْمِهَا: مَا أُرَى أَنَّ هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ يَدْعُونَكُمْ عَمْدًا، فَهَلْ لَكُمْ فِي الْإِسْلَامِ؟ فَأَطَاعُوهَا، فَدَخَلُوا فِي الْإِسْلَامِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے، کہا کہ ہم سے عوف نے، کہا کہ ہم سے ابورجاء نے عمران کے حوالہ سے، انہوں نے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ ہم رات بھر چلتے رہے اور جب رات کا آخری حصہ آیا تو ہم نے پڑاؤ ڈالا اور مسافر کے لیے اس وقت کے پڑاؤ سے زیادہ مرغوب اور کوئی چیز نہیں ہوتی (پھر ہم اس طرح غافل ہو کر سو گئے) کہ ہمیں سورج کی گرمی کے سوا کوئی چیز بیدار نہ کر سکی۔ سب سے پہلے بیدار ہونے والا شخص فلاں تھا۔ پھر فلاں پھر فلاں۔ ابورجاء نے سب کے نام لیے لیکن عوف کو یہ نام یاد نہیں رہے۔ پھر چوتھے نمبر پر جاگنے والے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرماتے تو ہم آپ کو جگاتے نہیں تھے۔ یہاں تک کہ آپ خودبخود بیدار ہوں۔ کیونکہ ہمیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ آپ پر خواب میں کیا تازہ وحی آتی ہے۔ جب عمر رضی اللہ عنہ جاگ گئے اور یہ آمدہ آفت دیکھی اور وہ ایک نڈر دل والے آدمی تھے۔ پس زور زور سے تکبیر کہنے لگے۔ اسی طرح باآواز بلند، آپ اس وقت تک تکبیر کہتے رہے جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آواز سے بیدار نہ ہو گئے۔ تو لوگوں نے پیش آمدہ مصیبت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی ہرج نہیں۔ سفر شروع کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دور چلے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے اور وضو کا پانی طلب فرمایا اور وضو کیا اور اذان کہی گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے سے فارغ ہوئے تو ایک شخص پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پڑی جو الگ کنارے پر کھڑا ہوا تھا اور اس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ اے فلاں! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہونے سے کون سی چیز نے روکا۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور پانی موجود نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پاک مٹی سے کام نکال لو۔ یہی تجھ کو کافی ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر شروع کیا تو لوگوں نے پیاس کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے اور فلاں (یعنی عمران بن حصین رضی اللہ عنہما) کو بلایا۔ ابورجاء نے ان کا نام لیا تھا لیکن عوف کو یاد نہیں رہا اور علی رضی اللہ عنہ کو بھی طلب فرمایا۔ ان دونوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ پانی تلاش کرو۔ یہ دونوں نکلے۔ راستہ میں ایک عورت ملی جو پانی کی دو پکھالیں اپنے اونٹ پر لٹکائے ہوئے بیچ میں سوار ہو کر جا رہی تھی۔ انہوں نے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ملتا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ کل اسی وقت میں پانی پر موجود تھی (یعنی پانی اتنی دور ہے کہ کل میں اسی وقت وہاں سے پانی لے کر چلی تھی آج یہاں پہنچی ہوں) اور ہمارے قبیلہ کے مرد لوگ پیچھے رہ گئے ہیں۔ انہوں نے اس سے کہا۔ اچھا ہمارے ساتھ چلو۔ اس نے پوچھا، کہاں چلوں؟ انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں۔ اس نے کہا، اچھا وہی جن کو لوگ صابی کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا، یہ وہی ہیں، جسے تم کہہ رہی ہو۔ اچھا اب چلو۔ آخر یہ دونوں حضرات اس عورت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارک میں لائے۔ اور سارا واقعہ بیان کیا۔ عمران نے کہا کہ لوگوں نے اسے اونٹ سے اتار لیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن طلب فرمایا۔ اور دونوں پکھالوں یا مشکیزوں کے منہ اس برتن میں کھول دئیے۔ پھر ان کا اوپر کا منہ بند کر دیا۔ اس کے بعد نیچے کا منہ کھول دیا اور تمام لشکریوں میں منادی کر دی گئی کہ خود بھی سیر ہو کر پانی پئیں اور اپنے تمام جانوروں وغیرہ کو بھی پلا لیں۔ پس جس نے چاہا پانی پیا اور پلایا (اور سب سیر ہو گئے) آخر میں اس شخص کو بھی ایک برتن میں پانی دیا جسے غسل کی ضرورت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، لے جا اور غسل کر لے۔ وہ عورت کھڑی دیکھ رہی تھی کہ اس کے پانی سے کیا کیا کام لیے جا رہے ہیں اور اللہ کی قسم! جب پانی لیا جانا ان سے بند ہوا، تو ہم دیکھ رہے تھے کہ اب مشکیزوں میں پانی پہلے سے بھی زیادہ موجود تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ اس کے لیے (کھانے کی چیز) جمع کرو۔ لوگوں نے اس کے لیے عمدہ قسم کی کھجور (عجوہ) آٹا اور ستو اکٹھا کیا۔ یہاں تک کہ بہت سارا کھانا اس کے لیے جمع ہو گیا۔ تو اسے لوگوں نے ایک کپڑے میں رکھا اور عورت کو اونٹ پر سوار کر کے اس کے سامنے وہ کپڑا رکھ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے کہ ہم نے تمہارے پانی میں کوئی کمی نہیں کی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں سیراب کر دیا۔ پھر وہ اپنے گھر آئی، دیر کافی ہو چکی تھی اس لیے گھر والوں نے پوچھا کہ اے فلانی! کیوں اتنی دیر ہوئی؟ اس نے کہا، ایک عجیب بات ہوئی وہ یہ کہ مجھے دو آدمی ملے اور وہ مجھے اس شخص کے پاس لے گئے جسے لوگ صابی کہتے ہیں۔ وہاں اس طرح کا واقعہ پیش آیا، اللہ کی قسم! وہ تو اس کے اور اس کے درمیان سب سے بڑا جادوگر ہے اور اس نے بیچ کی انگلی اور شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر اشارہ کیا۔ اس کی مراد آسمان اور زمین سے تھی۔ یا پھر وہ واقعی اللہ کا رسول ہے۔ اس کے بعد مسلمان اس قبیلہ کے دور و نزدیک کے مشرکین پر حملے کیا کرتے تھے۔ لیکن اس گھرانے کو جس سے اس عورت کا تعلق تھا کوئی نقصان نہیں پہنچاتے تھے۔ یہ اچھا برتاؤ دیکھ کر ایک دن اس عورت نے اپنی قوم سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ لوگ تمہیں جان بوجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ تو کیا تمہیں اسلام کی طرف کچھ رغبت ہے؟ قوم نے عورت کی بات مان لی اور اسلام لے آئی۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے فرمایا کہ «صبا» کے معنی ہیں اپنا دین چھوڑ کر دوسرے کے دین میں چلا گیا اور ابوالعالیہ نے کہا ہے کہ صابئین اہل کتاب کا ایک فرقہ ہے جو زبور پڑھتے ہیں اور سورۃ یوسف میں جو «اصب» کا لفظ ہے وہاں بھی اس کے معنی «امل» کے ہیں۔
Narrated `Imran: Once we were traveling with the Prophet and we carried on traveling till the last part of the night and then we (halted at a place) and slept (deeply). There is nothing sweeter than sleep for a traveler in the last part of the night. So it was only the heat of the sun that made us to wake up and the first to wake up was so and so, then so and so and then so and so (the narrator `Auf said that Abu Raja' had told him their names but he had forgotten them) and the fourth person to wake up was `Umar bin Al- Khattab. And whenever the Prophet used to sleep, nobody would wake up him till he himself used to get up as we did not know what was happening (being revealed) to him in his sleep. So, `Umar got up and saw the condition of the people, and he was a strict man, so he said, "Allahu Akbar" and raised his voice with Takbir, and kept on saying loudly till the Prophet got up because of it. When he got up, the people informed him about what had happened to them. He said, "There is no harm (or it will not be harmful). Depart!" So they departed from that place, and after covering some distance the Prophet stopped and asked for some water to perform the ablution. So he performed the ablution and the call for the prayer was pronounced and he led the people in prayer. After he finished from the prayer, he saw a man sitting aloof who had not prayed with the people. He asked, "O so and so! What has prevented you from praying with us?" He replied, "I am Junub and there is no water. " The Prophet said, "Perform Tayammum with (clean) earth and that is sufficient for you." Then the Prophet proceeded on and the people complained to him of thirst. Thereupon he got down and called a person (the narrator `Auf added that Abu Raja' had named him but he had forgotten) and `Ali, and ordered them to go and bring water. So they went in search of water and met a woman who was sitting on her camel between two bags of water. They asked, "Where can we find water?" She replied, "I was there (at the place of water) this hour yesterday and my people are behind me." They requested her to accompany them. She asked, "Where?" They said, "To Allah's Apostle ." She said, "Do you mean the man who is called the Sabi, (with a new religion)?" They replied, "Yes, the same person. So come along." They brought her to the Prophet and narrated the whole story. He said, "Help her to dismount." The Prophet asked for a pot, then he opened the mouths of the bags and poured some water into the pot. Then he closed the big openings of the bags and opened the small ones and the people were called upon to drink and water their animals. So they all watered their animals and they (too) all quenched their thirst and also gave water to others and last of all the Prophet gave a pot full of water to the person who was Junub and told him to pour it over his body. The woman was standing and watching all that which they were doing with her water. By Allah, when her water bags were returned the looked like as if they were more full (of water) than they had been before (Miracle of Allah's Apostle) Then the Prophet ordered us to collect something for her; so dates, flour and Sawiq were collected which amounted to a good meal that was put in a piece of cloth. She was helped to ride on her camel and that cloth full of foodstuff was also placed in front of her and then the Prophet said to her, "We have not taken your water but Allah has given water to us." She returned home late. Her relatives asked her: "O so and so what has delayed you?" She said, "A strange thing! Two men met me and took me to the man who is called the Sabi' and he did such and such a thing. By Allah, he is either the greatest magician between this and this (gesturing with her index and middle fingers raising them towards the sky indicating the heaven and the earth) or he is Allah's true Apostle." Afterwards the Muslims used to attack the pagans around her abode but never touched her village. One day she said to her people, "I think that these people leave you purposely. Have you got any inclination to Islam?" They obeyed her and all of them embraced Islam. Abu `Abdullah said: The word Saba'a means "The one who has deserted his old religion and embraced a new religion." Abul 'Ailya [??] said, "The S`Abis are a sect of people of the Scripture who recite the Book of Psalms."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 7, Number 340
ويذكر ان عمرو بن العاص اجنب في ليلة باردة فتيمم وتلا: ولا تقتلوا انفسكم إن الله كان بكم رحيما سورة النساء آية 29 فذكر للنبي صلى الله عليه وسلم فلم يعنف.وَيُذْكَرُ أَنَّ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ أَجْنَبَ فِي لَيْلَةٍ بَارِدَةٍ فَتَيَمَّمَ وَتَلَا: وَلا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا سورة النساء آية 29 فَذَكَرَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُعَنِّفْ.
کہا جاتا ہے کہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو ایک جاڑے کی رات میں غسل کی حاجت ہوئی۔ تو آپ نے تیمم کر لیا اور یہ آیت تلاوت کی «ولا تقتلوا أنفسكم إن الله كان بكم رحيما»”اپنی جانوں کو ہلاک نہ کرو، بیشک اللہ تعالیٰ تم پر بڑا مہربان ہے۔“ پھر اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کوئی ملامت نہیں فرمائی۔
(موقوف) حدثنا بشر بن خالد، قال: حدثنا محمد هو غندر، اخبرنا شعبة، عن سليمان، عن ابي وائل، قال: قال ابو موسى لعبد الله بن مسعود" إذا لم يجد الماء لا يصلي، قال عبد الله: لو رخصت لهم في هذا كان إذا وجد احدهم البرد، قال: هكذا يعني تيمم وصلى"، قال: قلت: فاين قول عمار لعمر؟ قال: إني لم ار عمر قنع بقول عمار.(موقوف) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ غُنْدَرٌ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو مُوسَى لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُود" إِذَا لَمْ يَجِدِ الْمَاءَ لَا يُصَلِّي، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لَوْ رَخَّصْتُ لَهُمْ فِي هَذَا كَانَ إِذَا وَجَدَ أَحَدُهُمُ الْبَرْدَ، قَالَ: هَكَذَا يَعْنِي تَيَمَّمَ وَصَلَّى"، قَالَ: قُلْتُ: فَأَيْنَ قَوْلُ عَمَّارٍ لِعُمَرَ؟ قَالَ: إِنِّي لَمْ أَرَ عُمَرَ قَنِعَ بِقَوْلِ عَمَّارٍ.
ہم سے بشر بن خالد نے بیان کیا، کہا مجھ کو محمد نے خبر دی جو غندر کے نام سے مشہور ہیں، شعبہ کے واسطہ سے، وہ سلیمان سے نقل کرتے ہیں اور وہ ابووائل سے کہ ابوموسیٰ نے عبداللہ بن مسعود سے کہا کہ اگر (غسل کی حاجت ہو اور) پانی نہ ملے تو کیا نماز نہ پڑھی جائے۔ عبداللہ نے فرمایا، ہاں! اگر مجھے ایک مہینہ تک بھی پانی نہ ملے تو میں نماز نہ پڑھوں گا۔ اگر اس میں لوگوں کو اجازت دے دی جائے تو سردی معلوم کر کے بھی لوگ تیمم سے نماز پڑھ لیں گے۔ ابوموسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ پھر عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے عمار رضی اللہ عنہ کے قول کا کیا جواب ہو گا۔ بولے کہ مجھے تو نہیں معلوم ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ عمار رضی اللہ عنہ کی بات سے مطمئن ہو گئے تھے۔
Narrated Abu Wail: Abu Musa said to `Abdullah bin Mas`ud, "If one does not find water (for ablution) can he give up the prayer?" `Abdullah replied, "If you give the permission to perform Tayammum they will perform Tayammum even if water was available if one of them found it cold." Abu Musa said, "What about the statement of `Ammar to `Umar?" `Abdullah replied, "`Umar was not satisfied by his statement."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 7, Number 341
(مرفوع) حدثنا عمر بن حفص، قال: حدثنا ابي، قال: حدثنا الاعمش، قال: سمعت شقيق بن سلمة، قال:" كنت عند عبد الله، وابي موسى، فقال له ابو موسى: ارايت يا ابا عبد الرحمن، إذا اجنب فلم يجد ماء كيف يصنع؟ فقال عبد الله: لا يصلي حتى يجد الماء، فقال ابو موسى: فكيف تصنع بقول عمار، حين قال له النبي صلى الله عليه وسلم: كان يكفيك، قال: الم تر عمر لم يقنع بذلك، فقال ابو موسى: فدعنا من قول عمار كيف تصنع بهذه الآية، فما درى عبد الله ما يقول، فقال: إنا لو رخصنا لهم في هذا لاوشك إذا برد على احدهم الماء ان يدعه ويتيمم، فقلت لشقيق: فإنما كره عبد الله لهذا، قال: نعم".(مرفوع) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ: سَمِعْتُ شَقِيقَ بْنَ سَلَمَةَ، قَالَ:" كُنْتُ عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَبِي مُوسَى، فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى: أَرَأَيْتَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، إِذَا أَجْنَبَ فَلَمْ يَجِدْ مَاءً كَيْفَ يَصْنَعُ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لَا يُصَلِّي حَتَّى يَجِدَ الْمَاءَ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: فَكَيْفَ تَصْنَعُ بِقَوْلِ عَمَّارٍ، حِينَ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ يَكْفِيكَ، قَالَ: أَلَمْ تَرَ عُمَرَ لَمْ يَقْنَعْ بِذَلِكَ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: فَدَعْنَا مِنْ قَوْلِ عَمَّارٍ كَيْفَ تَصْنَعُ بِهَذِهِ الْآيَةِ، فَمَا دَرَى عَبْدُ اللَّهِ مَا يَقُولُ، فَقَالَ: إِنَّا لَوْ رَخَّصْنَا لَهُمْ فِي هَذَا لَأَوْشَكَ إِذَا بَرَدَ عَلَى أَحَدِهِمُ الْمَاءُ أَنْ يَدَعَهُ وَيَتَيَمَّمَ، فَقُلْتُ لِشَقِيقٍ: فَإِنَّمَا كَرِهَ عَبْدُ اللَّهِ لِهَذَا، قَالَ: نَعَمْ".
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا کہ کہا ہم سے میرے والد حفص بن غیاث نے، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ میں نے شقیق بن سلمہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں عبداللہ (عبداللہ بن مسعود) اور ابوموسیٰ اشعری کی خدمت میں تھا، ابوموسیٰ نے پوچھا کہ ابوعبدالرحمٰن! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کسی کو غسل کی حاجت ہو اور پانی نہ ملے تو وہ کیا کرے۔ عبداللہ نے فرمایا کہ اسے نماز نہ پڑھنی چاہیے۔ جب تک اسے پانی نہ مل جائے۔ ابوموسیٰ نے کہا کہ پھر عمار کی اس روایت کا کیا ہو گا جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا تھا کہ تمہیں صرف (ہاتھ اور منہ کا تیمم) کافی تھا۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ تم عمر رضی اللہ عنہ کو نہیں دیکھتے کہ وہ عمار کی اس بات پر مطمئن نہیں ہوئے تھے۔ پھر ابوموسیٰ نے کہا کہ اچھا عمار کی بات کو چھوڑو لیکن اس آیت کا کیا جواب دو گے (جس میں جنابت میں تیمم کرنے کی واضح اجازت موجود ہے) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما اس کا کوئی جواب نہ دے سکے۔ صرف یہ کہا کہ اگر ہم اس کی بھی لوگوں کو اجازت دے دیں تو ان کا حال یہ ہو جائے گا کہ اگر کسی کو پانی ٹھنڈا معلوم ہوا تو اسے چھوڑ دیا کرے گا۔ اور تیمم کر لیا کرے گا۔ (اعمش کہتے ہیں کہ) میں نے شقیق سے کہا کہ گویا عبداللہ نے اس وجہ سے یہ صورت ناپسند کی تھی۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں۔
Narrated Shaqiq bin Salama: I was with `Abdullah and Abu Musa; the latter asked the former, "O Abu `Abdur-Rahman! What is your opinion if somebody becomes Junub and no water is available?" `Abdullah replied, "Do not pray till water is found." Abu Musa said, "What do you say about the statement of `Ammar (who was ordered by the Prophet to perform Tayammum). The Prophet said to him: "Perform Tayammum and that would be sufficient." `Abdullah replied, "Don't you see that `Umar was not satisfied by `Ammar's statement?" Abu- Musa said, "All right, leave `Ammar's statement, but what will you say about this verse (of Tayammum)?" `Abdullah kept quiet and then said, "If we allowed it, then they would probably perform Tayammum even if water was available, if one of them found it (water) cold." The narrator added, "I said to Shaqiq, "Then did `Abdullah dislike to perform Tayammum because of this?" He replied, "Yes."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 7, Number 342
(مرفوع) حدثنا محمد بن سلام، قال: اخبرنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن شقيق، قال: كنت جالسا مع عبد الله وابي موسى الاشعري، فقال له ابو موسى: لو ان رجلا اجنب فلم يجد الماء شهرا، اما كان يتيمم ويصلي؟ فكيف تصنعون بهذه الآية؟ في سورة المائدة فلم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا سورة النساء آية 43، فقال عبد الله: لو رخص لهم في هذا لاوشكوا إذا برد عليهم الماء ان يتيمموا الصعيد، قلت: وإنما كرهتم هذا لذا، قال: نعم، فقال ابو موسى: الم تسمع قول عمار لعمر، بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم في حاجة، فاجنبت فلم اجد الماء، فتمرغت في الصعيد كما تمرغ الدابة، فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" إنما كان يكفيك ان تصنع هكذا، فضرب بكفه ضربة على الارض، ثم نفضها، ثم مسح بها ظهر كفه بشماله او ظهر شماله بكفه، ثم مسح بهما وجهه"، فقال عبد الله: افلم تر عمر لم يقنع بقول عمار: وزاد يعلى، عن الاعمش، عن شقيق، كنت مع عبد الله، وابي موسى، فقال ابو موسى: الم تسمع قول عمار لعمر، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثني انا وانت فاجنبت فتمعكت بالصعيد، فاتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبرناه، فقال: إنما كان يكفيك هكذا ومسح وجهه وكفيه واحدة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ عَبْدِ اللَّهِ وَأَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى: لَوْ أَنَّ رَجُلًا أَجْنَبَ فَلَمْ يَجِدِ الْمَاءَ شَهْرًا، أَمَا كَانَ يَتَيَمَّمُ وَيُصَلِّي؟ فَكَيْفَ تَصْنَعُونَ بِهَذِهِ الْآيَةِ؟ فِي سُورَةِ الْمَائِدَةِ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا سورة النساء آية 43، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لَوْ رُخِّصَ لَهُمْ فِي هَذَا لَأَوْشَكُوا إِذَا بَرَدَ عَلَيْهِمُ الْمَاءُ أَنْ يَتَيَمَّمُوا الصَّعِيدَ، قُلْتُ: وَإِنَّمَا كَرِهْتُمْ هَذَا لِذَا، قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: أَلَمْ تَسْمَعْ قَوْلَ عَمَّارٍ لِعُمَرَ، بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَاجَةٍ، فَأَجْنَبْتُ فَلَمْ أَجِد الْمَاءَ، فَتَمَرَّغْتُ فِي الصَّعِيدِ كَمَا تَمَرَّغُ الدَّابَّةُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ أَنْ تَصْنَعَ هَكَذَا، فَضَرَبَ بِكَفِّهِ ضَرْبَةً عَلَى الْأَرْضِ، ثُمَّ نَفَضَهَا، ثُمَّ مَسَحَ بِها ظَهْرَ كَفِّهِ بِشِمَالِهِ أَوْ ظَهْرَ شِمَالِهِ بِكَفِّهِ، ثُمَّ مَسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ"، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: أَفَلَمْ تَرَ عُمَرَ لَمْ يَقْنَعْ بِقَوْلِ عَمَّارٍ: وَزَادَ يَعْلَى، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، كُنْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَبِي مُوسَى، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: أَلَمْ تَسْمَعْ قَوْلَ عَمَّارٍ لِعُمَرَ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَنِي أَنَا وَأَنْتَ فَأَجْنَبْتُ فَتَمَعَّكْتُ بِالصَّعِيدِ، فَأَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْنَاهُ، فَقَالَ: إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ هَكَذَا وَمَسَحَ وَجْهَهُ وَكَفَّيْهِ وَاحِدَةً.
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہمیں ابومعاویہ نے خبر دی اعمش سے، انہوں نے شقیق سے، انہوں نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا سے کہا کہ اگر ایک شخص کو غسل کی حاجت ہو اور مہینہ بھر پانی نہ پائے تو کیا وہ تیمم کر کے نماز نہ پڑھے؟ شقیق کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ وہ تیمم نہ کرے اگرچہ وہ ایک مہینہ تک پانی نہ پائے (اور نماز موقوف رکھے) ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ پھر سورۃ المائدہ کی اس آیت کا کیا مطلب ہو گا ”اگر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی پر تیمم کر لو۔“ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بولے کہ اگر لوگوں کو اس کی اجازت دے دی جائے تو جلد ہی یہ حال ہو جائے گا کہ جب ان کو پانی ٹھنڈا معلوم ہو گا تو وہ مٹی سے تیمم ہی کر لیں گے۔ اعمش نے کہا میں نے شقیق سے کہا تو تم نے جنبی کے لیے تیمم اس لیے برا جانا۔ انہوں نے کہا ہاں۔ پھر ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا آپ کو عمار کا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ قول معلوم نہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کام کے لیے بھیجا تھا۔ سفر میں مجھے غسل کی ضرورت ہو گئی، لیکن پانی نہ ملا۔ اس لیے میں مٹی میں جانور کی طرح لوٹ پوٹ لیا۔ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے لیے صرف اتنا اتنا کرنا کافی تھا۔ اور آپ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر ایک مرتبہ مارا پھر ان کو جھاڑ کر بائیں ہاتھ سے داہنے کی پشت کو مل لیا یا بائیں ہاتھ کا داہنے ہاتھ سے مسح کیا۔ پھر دونوں ہاتھوں سے چہرے کا مسح کیا۔ عبداللہ نے اس کا جواب دیا کہ آپ عمر کو نہیں دیکھتے کہ انہوں نے عمار کی بات پر قناعت نہیں کی تھی۔ اور یعلیٰ ابن عبید نے اعمش کے واسطہ سے شقیق سے روایت میں یہ زیادتی کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں عبداللہ اور ابوموسیٰ کی خدمت میں تھا اور ابوموسیٰ نے فرمایا تھا کہ آپ نے عمر سے عمار کا یہ قول نہیں سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور آپ کو بھیجا۔ پس مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ لیا۔ پھر میں رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صورت حال کے متعلق ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں صرف اتنا ہی کافی تھا اور اپنے چہرے اور ہتھیلیوں کا ایک ہی مرتبہ مسح کیا۔
Narrated Al-A`mash: Shaqiq said, "While I was sitting with `Abdullah and Abu Musa Al-Ash`ari, the latter asked the former, 'If a person becomes Junub and does not find water for one month, can he perform Tayammum and offer his prayer?' (He applied in the negative). Abu Musa said, 'What do you say about this verse from Sura "Al-Ma'ida": When you do not find water then perform Tayammum with clean earth? `Abdullah replied, 'If we allowed it then they would probably perform Tayammum with clean earth even if water were available but cold.' I said to Shaqiq, 'You then disliked to perform Tayammum because of this?' Shaqiq said, 'Yes.' (Shaqiq added), "Abu Musa said, 'Haven't you heard the statement of `Ammar to `Umar? He said: I was sent out by Allah's Apostle for some job and I became Junub and could not find water so I rolled myself over the dust (clean earth) like an animal does, and when I told the Prophet of that he said, 'Like this would have been sufficient.' The Prophet (saying so) lightly stroked the earth with his hand once and blew it off, then passed his (left) hand over the back of his right hand or his (right) hand over the back of his left hand and then passed them over his face.' So `Abdullah said to Abu- Musa, 'Don't you know that `Umar was not satisfied with `Ammar's statement?' " Narrated Shaqiq: While I was with `Abdullah and Abu Musa, the latter said to the former, "Haven't you heard the statement of `Ammar to `Umar? He said, "Allah's Apostle sent you and me out and I became Junub and rolled myself in the dust (clean earth) (for Tayammum). When we came to Allah's Apostle I told him about it and he said, 'This would have been sufficient,' passing his hands over his face and the backs of his hands once only.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 7, Number 343
(مرفوع) حدثنا عبدان، قال: اخبرنا عبد الله، قال: اخبرنا عوف، عن ابي رجاء، قال: حدثنا عمران بن حصين الخزاعي، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم راى رجلا معتزلا لم يصل في القوم، فقال:" يا فلان، ما منعك ان تصلي في القوم؟ فقال: يا رسول الله اصابتني جنابة ولا ماء، قال: عليك بالصعيد فإنه يكفيك".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَوْفٌ، عَنْ أَبِي رَجَاءٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ الْخُزَاعِيُّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا مُعْتَزِلًا لَمْ يُصَلِّ فِي الْقَوْمِ، فَقَالَ:" يَا فُلَانُ، مَا مَنَعَكَ أَنْ تُصَلِّيَ فِي الْقَوْمِ؟ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ وَلَا مَاءَ، قَالَ: عَلَيْكَ بِالصَّعِيدِ فَإِنَّهُ يَكْفِيكَ".
ہم سے عبدان نے حدیث بیان کی، کہا ہمیں عبداللہ نے خبر دی، کہا ہمیں عوف نے ابورجاء سے خبر دی، کہا کہ ہم سے کہا عمران بن حصین خزاعی نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ الگ کھڑا ہوا ہے اور لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک نہیں ہو رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے فلاں! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روک دیا۔ اس نے عرض کی یا رسول اللہ! مجھے غسل کی ضرورت ہو گئی اور پانی نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تم کو پاک مٹی سے تیمم کرنا ضروری تھا، بس وہ تمہارے لیے کافی ہوتا۔
Narrated `Imran bin Husain Al-Khuza`i: Allah's Apostle saw a person sitting aloof and not praying with the people. He asked him, "O so and so! What prevented you from offering the prayer with the people?" He replied, "O Allah's Apostle! I am Junub and there is no water." The Prophet said, "Perform Tayammum with clean earth and that will be sufficient for you."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 7, Number 344