(مرفوع) حدثنا عبدان، قال: اخبرنا عبد الله، قال: اخبرنا عوف، عن ابي رجاء، قال: حدثنا عمران بن حصين الخزاعي، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم راى رجلا معتزلا لم يصل في القوم، فقال:" يا فلان، ما منعك ان تصلي في القوم؟ فقال: يا رسول الله اصابتني جنابة ولا ماء، قال: عليك بالصعيد فإنه يكفيك".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَوْفٌ، عَنْ أَبِي رَجَاءٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ الْخُزَاعِيُّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا مُعْتَزِلًا لَمْ يُصَلِّ فِي الْقَوْمِ، فَقَالَ:" يَا فُلَانُ، مَا مَنَعَكَ أَنْ تُصَلِّيَ فِي الْقَوْمِ؟ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ وَلَا مَاءَ، قَالَ: عَلَيْكَ بِالصَّعِيدِ فَإِنَّهُ يَكْفِيكَ".
ہم سے عبدان نے حدیث بیان کی، کہا ہمیں عبداللہ نے خبر دی، کہا ہمیں عوف نے ابورجاء سے خبر دی، کہا کہ ہم سے کہا عمران بن حصین خزاعی نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ الگ کھڑا ہوا ہے اور لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک نہیں ہو رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے فلاں! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روک دیا۔ اس نے عرض کی یا رسول اللہ! مجھے غسل کی ضرورت ہو گئی اور پانی نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تم کو پاک مٹی سے تیمم کرنا ضروری تھا، بس وہ تمہارے لیے کافی ہوتا۔
Narrated `Imran bin Husain Al-Khuza`i: Allah's Apostle saw a person sitting aloof and not praying with the people. He asked him, "O so and so! What prevented you from offering the prayer with the people?" He replied, "O Allah's Apostle! I am Junub and there is no water." The Prophet said, "Perform Tayammum with clean earth and that will be sufficient for you."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 7, Number 344
أمره أن يتيمم بالصعيد ثم صلى أمر بمزادتيها فمسح في العزلاوين فشربنا عطاشا أربعين رجلا حتى روينا فملأنا كل قربة معنا وإداوة غير أنه لم نسق بعيرا وهي تكاد تنض من الملء هاتوا ما عندكم فجمع لها من الكسر والتمر حتى أتت أهلها قالت لقيت أسحر الناس أو هو نبي كما
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:348
حدیث حاشیہ: 1۔ صحیح بخاری ؒ کے متعدد نسخوں میں یہاں لفظ باب نہیں ہے۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ لکھتے ہیں کہ اکثر صحیح نسخوں میں لفظ باب نہیں ہے اور ایسا ہی صحیح معلوم ہو تا ہے، اس بنا پر حدیث کی مناسبت باب سابق سے بایں طور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کے حق میں فرمایا کہ تو مٹی کو استعمال کر لیتا وہ تیرے لیے کافی تھی۔ جس طرح یہ جملہ مٹی کی تمام انواع کے لیے عام ہے، اسی طرح اس کا عموم تیمم کی کیفیت کے لحاظ سے بھی ہے کہ وہ ایک ضرب کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور دو کے ساتھ بھی (شرح تراجم بخاري) لیکن یہ توجیہ امام بخاری ؒ کے عنوان کے خلاف ہے، حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں کہ اگر اسے باب سابق کا تتمہ خیال کیا جائے تو وہ بایں طورہے کہ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے اسے مطلق طور پر مٹی استعمال کرنے کے متعلق فرمایا ہے اور مطلق کا کم ازکم فرد کامل ایک ہوتا ہے، اس سے امام بخاری نے اپنا مدعا ثابت کیا ہے۔ (فتح الباری: 593/1) 2۔ امام بخاری ؒ کا باب بلا عنوان کئی ایک اغراض کے پیش نظر ہوتا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے پہلے عنوان ہی کی فصل شمار کہا جائے۔ چنانچہ حدیث مذکور میں کسی عدد کا ذکر نہیں ہے، اس لیے ایک بار ہاتھ مار کر مسح کر لینا بھی کافی ہے۔ وھوالمقصود باب بلا عنوان کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ اس سے طلباء کا امتحان اور تشخید اذہان (ذہنی آزمائش) مراد ہو، یعنی قارئین خود اس حدیث پر کوئی عنوان قائم کریں، چنانچہ اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا جا سکتا ہے: (باب الجنب إذا لم يجد الماء تيمم وصلى) یعنی جنبی آدمی کو اگر پانی نہ ملے تو وہ تیمم کرے اور نماز پڑھے۔ 3۔ بعض شارحین نے اس مقام پر ایک عجیب نکتہ بیان کیا ہے، وہ اس طرح کہ امام بخاری ؒ اس حدیث سے ایک اشکال کا جواب دینا چاہتے ہیں، اشکال یہ ہے کہ اگر حضرت عمار ؓ کو آیت تیمم معلوم تھی تو وہ زمین پر لوٹ پوٹ کیوں ہوئے اور اگر معلوم نہ تھی تو انھیں کیسے معلوم ہوا کہ مٹی پانی کے قائم مقام ہے؟ امام بخاریؒ نے اس کا جواب اس طرح دیا کہ حضرت عمار نے رسول اللہ ﷺ سے صرف (عَلَيْكَ بِالصَّعِيدِ) سن رکھا تھا کہ: ” تجھے مٹی استعمال کرنی چاہیے۔ “ اس بنا پر انھوں نے اس کے عموم کو دیکھتے ہوئے تیمم کو غسل پر قیاس کیا اور زمین پر لوٹ پوٹ ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ان کی اصلاح فرما دی۔ 4۔ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں امام بخاری ؒ ہر کتاب کے آخر میں کوئی ایسی روایت لاتے ہیں جس کے کسی لفظ سے انتہائے کتاب کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ چنانچہ یہاں لفظ (يَكْفِيكَ) ہے، یعنی تیمم کے متعلق تجھے اتنا ہی کافی ہے۔ (فتح الباری: 593/1) 5۔ واعظین حضرات کا کہنا ہے کہ امام بخاریؒ کتاب کے آخر میں کوئی ایسا لفظ لاتے ہیں جس سے انسان کے خاتمے اور فکر آخرت کی طرف واضح اشارہ ہوتا ہے۔ اس مقام پر بھی امام بخاری نے(عَلَيْكَ بِالصَّعِيدِ) کے لفظ سے موت یاد دلائی ہے، یعنی خود پر مٹی کو لازم کر لو۔ اس سے قبر کی طرف بھی اشارہ ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ﴾”اسی سے ہم نے تمھیں پیدا کیا اور اسی میں تمھیں لوٹائیں گے اور اسی سے تمھیں دوبارہ نکالیں گے۔ “(طٰہ: 20۔ 55) واللہ أعلم وعلمه أتم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 348
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 110
´تیمّم کے لیے ایک ہی ضرب کافی ہے ` «. . . فقال: «إنما يكفيك ان تقول بيديك هكذا» ، ثم ضرب بيديه الارض ضربة واحدة ثم مسح الشمال على اليمين وظاهر كفيه ووجهه . . .» ”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تجھے اپنے ہاتھ سے اس طرح کر لینا ہی کافی تھا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ایک مرتبہ زمین پر مارا پھر بائیں کو دائیں پر ملا اپنے ہاتھوں کی پشت اور چہرے پر . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 110]
لغوی تشریح: «فَأَجْنَبْتُ» میں جنبی ہو گیا۔ «فَتَمَرَّغْتُ» لوٹ پوٹ ہوا۔
فوائد و مسائل: ➊ یہ حدیث قول و فعل دونوں اعتبار سے یہ فائدہ دے رہی ہے کہ تیمّم کے لیے ایک ہی ضرب کافی ہے اور صرف ہتھیلیوں کی اندرونی و بیرونی سطح پر مسح کرنا ہے، کہنیوں تک نہیں، اس مسئلے میں یہ حدیث صحیح ترین ہے۔ اس کے مقابلے میں جو دوسری روایات ہیں وہ یا تو ضعیف ہیں یا پھر موقوف، جو اس حدیث کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ [سبل السلام] ➋ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تیمّم میں چہرے اور ہاتھوں کے لیے ایک ہی ضرب کافی ہے۔ جمہور محدثین و فقہاء کا یہی مذہب ہے، البتہ احناف اور شوافع دو ضربوں کے قائل ہیں۔ ایک ضرب چہرے کے لیے اور دوسری ہاتھوں کے لیے۔ ➌ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما سے مروی مذکورہ حدیث جمہور کی دلیل ہے۔ اس مسئلے میں صحیح ترین روایت ہونے کے اعتبار سے اسی پر عمل ہے۔ ➍ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما نے پانی نہ ملنے پر اپنی عقل و دانش سے زمین پر لوٹ پوٹ ہونے کا عمل اختیار کیا کہ جب پانی سے غسل کیا جاتا ہے تو سارا بدن دھویا جاتا ہے اور مٹی بھی چونکہ پانی کے قائم مقام ہے، اس لیے سارے جسم پر مٹی لگنی چاہیے۔ ➎ نص کا علم نہ ہونے کی بنا پر انہوں نے ایسا عمل کیا ورنہ نص کی موجودگی میں مجتہد کے قیاس کی کوئی حیثیت نہیں، لہٰذا جب قیاس، نص کے مخالف ہو تو اس صورت میں کسی کے لیے بھی یہ روا نہیں کہ وہ نص کو چھوڑ کر قیاس پر عمل کرے۔ ➏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے زمین پر اپنی ہتھیلیاں ماریں اور ان پر پھونک ماری، لہٰذا ضرب لگانے کے بعد پھونک مارنا بھی مسنون ہے۔ ➐ ایک جنبی کے لیے پانی کی عدم موجودگی میں اتنا تیمّم کر لینا کفایت کر جاتا ہے۔
راویٔ حدیث: (سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما)”عین“ پر فتحہ اور ”میم“ پر فتحہ اور تشدید ہے۔ ان کی کنیت ابویقظان تھی۔ سابقین اولین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شمار ہوتے ہیں۔ مکہ میں انہیں طرح طرح کی اذیتیں دی گئیں مگر ان کے پایہ ثبات میں ذرہ بھر لرزش نہ آئی۔ دونوں ہجرتیں، یعنی ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ کیں۔ غزوہ بدر سمیت سارے معرکوں میں شمولیت کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا تھا: ”افسوس، اے عمار! تجھے باغی گروہ قتل کرے گا۔“ 36 ہجری میں معرکہ صفین میں یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے طرف داروں میں سے تھے تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکریوں میں سے ایک باغی اور سرکش گروہ نے ان کو قتل کر دیا۔ اس وقت ان کی عمر 73 برس تھی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 110
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 322
´مٹی سے تیمم کرنے کا بیان۔` عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو الگ تھلگ بیٹھا دیکھا، اس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں ادا کی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے فلاں! کس چیز نے تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے روکا؟“ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے جنابت لاحق ہو گئی ہے اور پانی نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (پانی نہ ملنے پر)”مٹی کو لازم پکڑو کیونکہ یہ تمہارے لیے کافی ہے۔“[سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 322]
322۔ اردو حاشیہ: تیمم کن چیزوں سے کیا جا سکتا ہے؟ اس مسئلے کی تفصیل کے لیے کتاب الغسل و التیمم کا ابتدائیہ دیکھیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 322
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1563
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں، میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا کہ ہم رات بھر چلتے رہے حتیٰ کہ صبح کا وقت ہو گیا تو ہم نے پڑاؤ کیا اور ہم پر نیند نے غلبہ پا لیا، حتیٰ کہ سورج نکل آیا۔ ہم میں سب سے پہلے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیدار ہوئے۔ ہماری عادت تھی کہ جب نبی اکرم ﷺ سو جاتے تو ہم آپﷺ کو نیند سے جگاتے نہیں تھے، حتیٰ کہ آپﷺ خود ہی بیدار ہو جاتے، پھر (ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:1563]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) أَدْلَجْنَا: ہم تقریباً رات بھر چلتے رہے۔ (2) بَزَغَتِ الشَّمْسُ: سورج نکل آیا۔ (3) سَادِلَةٍ: لٹکائے ہوئے۔ (4) مَزَادَتَيْنِ: مَزَادَۃ بڑی مشک، مَزَادَتَيْنِ وہ مشکیں جو اونٹ کے اوپر لادی جاتی ہیں۔ أَيْهَاهْ أَيْهَاهْ بہت دور جہاں پہنچنے کی جلد امید نہ ہو۔ (5) فَلَمْ نُمَلِّكْهَا مِنْ أَمْرِهَا شَيْئًا: ہم نے اس کو اپنی مرضی نہ کرنے دی۔ (6) مُوتِمَةٌ: یتیم بچوں والی جن کا باپ فوت ہوچکا ہے۔ (7) رَاوِيَة: پانی ڈھونے والے اونٹ۔ (8) عَزْلَاوَيْنِ: عَزْلَاء کی تثنیہ ہے، پانی نکالنے والا منہ کبھی مشکیزے کے نچلے کی بجائے اوپر والے منہ کو بھی کہہ دیتے ہیں، جس سے پانی ڈالا جاتا ہے۔ اس لیے یہاں اس کی صفت علیا لائی گئی ہے۔ (9) تَنْضَرِجُ مِنَ الْمَاءِ: پانی کی زیادتی سے پھٹنا۔ (10) كِسَرٍ: كسرةکی جمع ہے، ٹکڑے۔ (11) صَرَّ لَهَا صُرَّةً: اس کےلیےتھیلی باندھی۔ (12) صُرَّةً: تھیلی۔ (13) لَمْ نَرْزَأْ: ہم نے کچھ کم نہیں کیا۔ (14) ذَيْتَ ذَيْتَ: كيت وكيت ياكذا وكذا کے ہم معنی ہے۔ یعنی یہ کام کیے یا اس اس طرح کیا۔ (15) صَرْمَ: گھروں کا اجتماع، جماعت اور گروہ۔ فوائد ومسائل: 1۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم بشر تھے بشری تقاضا کی بنا پر ہی آپﷺ پر غلبہ پایا اور آپﷺ نے نیند سے مجبور ہو کر رات کےآخری حصے میں آرام کے لیے پڑاؤ کیا اور نماز کے لیے آپﷺ نے یہ انتظام کیا کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ جاگ کر صبح کا انتظار کریں اور جب فجر طلوع ہو تو ساتھیوں کو جگا دیں لیکن سفر کی تھکاوٹ کیوجہ سے وہ بھی سو گئے حتیٰ کہ سورج نکل آیا۔ 2۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ادب واحترام کی بنا پر جگاتے نہیں تھے اور یہ بات بھی ملحوظ ہوتی تھی کہ ممکن ہے آپﷺ پر نیند کی حالت میں وحی کا نزول ہو رہا ہو اور آپﷺ کو بیدار کرنا اس میں خلل اندازی کا سبب بنے اور سورج کے بلند ہونے کی صورت میں جب آپﷺ کو بیدار کرنے کی ضرورت لاحق ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مقصد کے لیے بلند آواز سے اللہ اکبر کہنا شروع کیا۔ آپﷺ کو براہ راست بیدار نہیں کیا۔ اس سے معلوم ہوا کسی بزرگ اور واجب الاحترام شخصیت کو نماز کے لیے بیدار کرنا بے ادبی یا گستاخی نہیں ہے۔ 3۔ نیند کی وجہ سے اگر نماز قضا ہو جائے تو باعث افسوس تو ہے لیکن گناہ اور جرم نہیں ہے۔ 4۔ جو شخص مسلمانوں کے ساتھ جماعت میں شریک نہ ہو۔ اس سے اس کا سبب معلوم کرنا چاہیے۔ اگر اس کا عذر شرعی ہو تو اسے قبول کر لینا چاہیے جیسا کہ جنبی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عدم واقفیت کی بنا پر تیمم نہ کیا۔ اس لیے نماز میں شریک نہ ہوا تو آپﷺ نے اس سے اس کا سبب پوچھا بتانے پر مسئلہ اس کو سمجھا دیا جس سے ثابت ہوا پانی اگر نہ ملے تو جنبی تیمم کر کے نماز پڑھ لے گا اور بعد میں پانی جب مل جائےگا تو غسل کر لے گا۔ 5۔ ضرورت کے تحت اجنبی عورت سے بات چیت کرنا جائز ہے اور کافر کی چیز سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور کافر کے ساتھ احسان بھی کیا جا سکتا ہے۔ 6۔ پیاس کی ضرورت غسل جنابت پرمقدم ہے۔ پانی پینے کی ضرورت سے زائد ہو تو اس سے غسل کیا جائے گا۔ 7۔ اس واقعہ میں بھی آپﷺ کے اس معجزہ کا ظہور ہوا کہ آپﷺ نے مشکیزہ کا منہ کھول کر اس میں کلی فرمائی۔ اس مشکیزہ سے چالیس صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے وضو کیا۔ پانی پیا اور اپنے پانی کے تمام برتن بھر لیے۔ جنبی صحابی کو غسل کروایا۔ بعض مشکیزہ کے پانی میں کسی قسم کی کمی نہ ہوئی بلکہ وہ پہلے سے زیادہ بھرا معلوم ہوتا تھا۔ 8۔ نیند کی حالت میں دل اگرچہ بیدار ہوتا تھا لیکن آنکھیں سو جاتی تھیں۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فجر کے طلوع ہونے اور سورج کے نکلنے کا پتہ نہ چل سکا کیونکہ سورج کا تعلق دیکھنے سے ہے جو آنکھوں کا فعل ہے، دل کا نہیں۔ 9۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صبح کی نماز فوت ہو گئی تو آپﷺ نے صبح کی نماز سے پہلے صبح کی سنتیں پڑھیں، جس سے معلوم ہوا کہ قضاء شدہ نماز کے ساتھ اس کی سنتیں پڑھنا بہتر ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔ اورامام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے احناف کے نزدیک سنتوں کی قضائی نہیں ہے۔ بعض احناف کا خیال ہے اگر نماز کے ساتھ سنتیں قضا ہو جائیں تو پھر ان کی قضائی ہے۔ اگرصرف سنتیں رہ جائیں تو قضائی نہیں ہے۔ 10۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قضا ہونے والی نماز کے لیے اذان کہی جائے گی اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے قول جدید کے مطابق تکبیر کہہ لینا ہی کافی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1563
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3571
3571. حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھے۔ لوگ رات بھر چلتے رہے جب صبح کا وقت قریب آیا ہوا تو آرام کے لیے ٹھہرے۔ نیند کی وجہ سے ان کی آنکھوں نے ان پر غلبہ کرلیا حتیٰ کہ سورج پوری طرح نکل آیا۔ سب سے پہلے نیند سے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیدار ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ کو نیند سے بیدار نہیں کیاجاتا تھا یہاں تک کہ آپ خود ہی جاگ پڑتے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیدار ہوئے۔ بالآخر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کے سر کے پاس بیٹھ کر بہ آواز بلند"اللہ أکبر" کہنا شروع کردیا یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ بیدار ہوئے۔ پھر(وہاں سے چلے اور) ایک مقام پر پڑاؤ کیا اور ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ ایک شخص ہم سے دور ایک کونے میں بیٹھا رہا اور اس نے ہمارے ساتھ نماز نہ پڑھی۔ آپ ﷺ نے نماز سے فراغت کے بعد فرمایا؛ ”اے فلاں! ہمارے ساتھ نماز پڑھنے سے تجھے کس چیز نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3571]
حدیث حاشیہ: اس قصہ کے بیان میں اختلاف ہے۔ مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہ واقعہ خیبر سے نکلنے کے بعد پیش آیا اور ابوداود میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہ واقعہ اس وقت ہوا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ سے لوٹے تھے اور مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ یہ تبوک کے سفر کا واقعہ ہے اور ابوداود میں ایک اور روایت کی روسے اس واقعہ کا تعلق غزوہ جیش الامراءسے معلوم ہوتا ہے۔ ایک جماعت مؤرخین نے کہا ہے کہ ا س نوعیت کا واقعہ مختلف اوقات میں پیش آیا ہے یہی ان روایات میں تطبیق ہے (توشیح) .... یہاں آپ کی دعا سے پانی میں برکت ہوگئی۔ یہی معجزہ وجہ مطابقت باب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3571
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3571
3571. حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھے۔ لوگ رات بھر چلتے رہے جب صبح کا وقت قریب آیا ہوا تو آرام کے لیے ٹھہرے۔ نیند کی وجہ سے ان کی آنکھوں نے ان پر غلبہ کرلیا حتیٰ کہ سورج پوری طرح نکل آیا۔ سب سے پہلے نیند سے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیدار ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ کو نیند سے بیدار نہیں کیاجاتا تھا یہاں تک کہ آپ خود ہی جاگ پڑتے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیدار ہوئے۔ بالآخر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کے سر کے پاس بیٹھ کر بہ آواز بلند"اللہ أکبر" کہنا شروع کردیا یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ بیدار ہوئے۔ پھر(وہاں سے چلے اور) ایک مقام پر پڑاؤ کیا اور ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ ایک شخص ہم سے دور ایک کونے میں بیٹھا رہا اور اس نے ہمارے ساتھ نماز نہ پڑھی۔ آپ ﷺ نے نماز سے فراغت کے بعد فرمایا؛ ”اے فلاں! ہمارے ساتھ نماز پڑھنے سے تجھے کس چیز نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3571]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری ؒ نے معجزات کے بجائے علامات کا لفظ استعمال کیا ہے تاکہ معجزات اور کرامات دونوں کی شامل ہو۔ معجزے میں نبی کو جھٹلانے والوں کے لیے چیلنج ہوتا ہے کہ میں نے ایسا کام کردکھایا ہے جو خرق عادت ہے اور انسانی طاقت سے باہر ہے۔ 2۔ اس عنوان کے تحت معجزات،کرامات،آئندہ پیش آنے والے واقعات اور قیامت کی علامات بیان ہوں گی۔ 3۔ دور نبوت میں خرق عادت پیش آنے والے واقعات کو معجزہ اور قبل از نبوت عادت کے خلاف واقعات کو ارہاص کہا جاتا ہے۔ 4۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاسے پانی میں برکت ہوگئی۔ یہ آپ کا ایک عظیم معجزہ ہے کہ قلیل پانی سے چالیس آدمی سیراب ہوگئے اور انھوں نے اپنے مشکیزے اور برتن بھی بھرلیے لیکن مشکوں کا پانی ذرا بھربھی کم نہ ہوا۔ 5۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں پانی کو زیادہ کرنے کے متعدد واقعات پیش آئے،چنانچہ خیبر سے نکلنے کےبعد،حدیبیہ سے لوٹنے کے بعد،تبوک کو جاتے ہوئے اور غزوہ جیش الامراء(غزوہ موتہ) میں اس قسم کے واقعات پیش آئے،یعنی ایک ہی نوعیت کا واقعہ مختلف اوقات میں پیش آیا۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں سے پانی کا نکلنا،پتھر سے پانی نکلنے کی نسبت زیادہ وزنی ہے کیونکہ پتھر سے پانی نکل آنا خلاف عادت نہیں،البتہ گوشت اور خون کے درمیان سے پانی کا نکلنا عام عادت کے خلاف ہے۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري: 715/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3571