Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب التَّيَمُّمِ
کتاب: تیمم کے احکام و مسائل
6. بَابُ الصَّعِيدُ الطَّيِّبُ وَضُوءُ الْمُسْلِمِ، يَكْفِيهِ مِنَ الْمَاءِ:
باب: پاک مٹی مسلمانوں کا وضو ہے پانی کے بدل وہ اس کو کافی ہے۔
حدیث نمبر: 344
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَوْفٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ، عَنْ عِمْرَانَ، قَالَ:" كُنَّا فِي سَفَرٍ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّا أَسْرَيْنَا حَتَّى كُنَّا فِي آخِرِ اللَّيْلِ، وَقَعْنَا وَقْعَةً وَلَا وَقْعَةَ أَحْلَى عِنْدَ الْمُسَافِرِ مِنْهَا، فَمَا أَيْقَظَنَا إِلَّا حَرُّ الشَّمْسِ، وَكَانَ أَوَّلَ مَنِ اسْتَيْقَظَ فُلَانٌ، ثُمَّ فُلَانٌ، ثُمَّ فُلَانٌ يُسَمِّيهِمْ أَبُو رَجَاءٍ فَنَسِيَ عَوْفٌ، ثُمَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ الرَّابِعُ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا نَامَ لَمْ يُوقَظْ حَتَّى يَكُونَ هُوَ يَسْتَيْقِظُ، لِأَنَّا لَا نَدْرِي مَا يَحْدُثُ لَهُ فِي نَوْمِهِ، فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ عُمَرُ وَرَأَى مَا أَصَابَ النَّاسَ، وَكَانَ رَجُلًا جَلِيدًا، فَكَبَّرَ وَرَفَعَ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ، فَمَا زَالَ يُكَبِّرُ وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ حَتَّى اسْتَيْقَظَ لِصَوْتِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ شَكَوْا إِلَيْهِ الَّذِي أَصَابَهُمْ، قَالَ: لَا ضَيْرَ أَوْ لَا يَضِيرُ، ارْتَحِلُوا، فَارْتَحَلَ، فَسَارَ غَيْرَ بَعِيدٍ، ثُمَّ نَزَلَ فَدَعَا بِالْوَضُوءِ فَتَوَضَّأَ وَنُودِيَ بِالصَّلَاةِ، فَصَلَّى بِالنَّاس، فَلَمَّا انْفَتَلَ مِنْ صَلَاتِهِ إِذَا هُوَ بِرَجُلٍ مُعْتَزِلٍ لَمْ يُصَلِّ مَعَ الْقَوْمِ، قَالَ: مَا مَنَعَكَ يَا فُلَانُ أَنْ تُصَلِّيَ مَعَ الْقَوْمِ؟ قَالَ: أَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ وَلَا مَاءَ، قَالَ: عَلَيْكَ بِالصَّعِيدِ فَإِنَّهُ يَكْفِيكَ، ثُمَّ سَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاشْتَكَى إِلَيْهِ النَّاسُ مِنَ الْعَطَشِ، فَنَزَلَ فَدَعَا فُلَانًا كَانَ يُسَمِّيهِ أَبُو رَجَاءٍ نَسِيَهُ عَوْفٌ وَدَعَا عَلِيًّا، فَقَالَ: اذْهَبَا فَابْتَغِيَا الْمَاءَ، فَانْطَلَقَا، فَتَلَقَّيَا امْرَأَةً بَيْنَ مَزَادَتَيْنِ أَوْ سَطِيحَتَيْنِ مِنْ مَاءٍ عَلَى بَعِيرٍ لَهَا، فَقَالَا لَهَا: أَيْنَ الْمَاءُ؟ قَالَتْ: عَهْدِي بِالْمَاءِ أَمْسِ هَذِهِ السَّاعَةَ، وَنَفَرُنَا خُلُوفًا، قَالَا لَهَا: انْطَلِقِي، إِذًا قَالَتْ: إِلَى أَيْنَ؟ قَالَا: إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: الَّذِي يُقَالُ لَهُ الصَّابِئُ، قَالَا: هُوَ الَّذِي تَعْنِينَ، فَانْطَلِقِي فَجَاءَا بِهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَدَّثَاهُ الْحَدِيثَ، قَالَ: فَاسْتَنْزَلُوهَا عَنْ بَعِيرِهَا، وَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِنَاءٍ فَفَرَّغَ فِيهِ مِنْ أَفْوَاهِ الْمَزَادَتَيْنِ أَوْ سَطِيحَتَيْنِ، وَأَوْكَأَ أَفْوَاهَهُمَا وَأَطْلَقَ الْعَزَالِيَ وَنُودِيَ فِي النَّاسِ اسْقُوا وَاسْتَقُوا، فَسَقَى مَنْ شَاءَ وَاسْتَقَى مَنْ شَاءَ، وَكَانَ آخِرَ ذَاكَ أَنْ أَعْطَى الَّذِي أَصَابَتْهُ الْجَنَابَةُ إِنَاءً مِنْ مَاءٍ، قَالَ: اذْهَبْ فَأَفْرِغْهُ عَلَيْكَ، وَهِيَ قَائِمَةٌ تَنْظُرُ إِلَى مَا يُفْعَلُ بِمَائِهَا، وَايْمُ اللَّهِ لَقَدْ أُقْلِعَ عَنْهَا، وَإِنَّهُ لَيُخَيَّلُ إِلَيْنَا أَنَّهَا أَشَدُّ مِلْأَةً مِنْهَا حِينَ ابْتَدَأَ فِيهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اجْمَعُوا لَهَا، فَجَمَعُوا لَهَا مِنْ بَيْنِ عَجْوَةٍ وَدَقِيقَةٍ وَسَوِيقَةٍ حَتَّى جَمَعُوا لَهَا طَعَامًا، فَجَعَلُوهَا فِي ثَوْبٍ وَحَمَلُوهَا عَلَى بَعِيرِهَا وَوَضَعُوا الثَّوْبَ بَيْنَ يَدَيْهَا، قَالَ لَهَا: تَعْلَمِينَ مَا رَزِئْنَا مِنْ مَائِكِ شَيْئًا، وَلَكِنَّ اللَّهَ هُوَ الَّذِي أَسْقَانَا، فَأَتَتْ أَهْلَهَا وَقَدِ احْتَبَسَتْ عَنْهُمْ، قَالُوا: مَا حَبَسَكِ يَا فُلَانَةُ؟ قَالَتْ: الْعَجَبُ، لَقِيَنِي رَجُلَانِ فَذَهَبَا بِي إِلَى هَذَا الَّذِي يُقَالُ لَهُ الصَّابِئُ فَفَعَلَ كَذَا وَكَذَا، فَوَاللَّهِ إِنَّهُ لَأَسْحَرُ النَّاسِ مِنْ بَيْنِ هَذِهِ وَهَذِهِ، وَقَالَتْ بِإِصْبَعَيْهَا الْوُسْطَى وَالسَّبَّابَةِ: فَرَفَعَتْهُمَا إِلَى السَّمَاءِ تَعْنِي السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ أَوْ إِنَّهُ لَرَسُولُ اللَّهِ حَقًّا، فَكَانَ الْمُسْلِمُونَ بَعْدَ ذَلِكَ يُغِيرُونَ عَلَى مَنْ حَوْلَهَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَلَا يُصِيبُونَ الصِّرْمَ الَّذِي هِيَ مِنْهُ، فَقَالَتْ يَوْمًا لِقَوْمِهَا: مَا أُرَى أَنَّ هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ يَدْعُونَكُمْ عَمْدًا، فَهَلْ لَكُمْ فِي الْإِسْلَامِ؟ فَأَطَاعُوهَا، فَدَخَلُوا فِي الْإِسْلَامِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے، کہا کہ ہم سے عوف نے، کہا کہ ہم سے ابورجاء نے عمران کے حوالہ سے، انہوں نے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ ہم رات بھر چلتے رہے اور جب رات کا آخری حصہ آیا تو ہم نے پڑاؤ ڈالا اور مسافر کے لیے اس وقت کے پڑاؤ سے زیادہ مرغوب اور کوئی چیز نہیں ہوتی (پھر ہم اس طرح غافل ہو کر سو گئے) کہ ہمیں سورج کی گرمی کے سوا کوئی چیز بیدار نہ کر سکی۔ سب سے پہلے بیدار ہونے والا شخص فلاں تھا۔ پھر فلاں پھر فلاں۔ ابورجاء نے سب کے نام لیے لیکن عوف کو یہ نام یاد نہیں رہے۔ پھر چوتھے نمبر پر جاگنے والے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرماتے تو ہم آپ کو جگاتے نہیں تھے۔ یہاں تک کہ آپ خودبخود بیدار ہوں۔ کیونکہ ہمیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ آپ پر خواب میں کیا تازہ وحی آتی ہے۔ جب عمر رضی اللہ عنہ جاگ گئے اور یہ آمدہ آفت دیکھی اور وہ ایک نڈر دل والے آدمی تھے۔ پس زور زور سے تکبیر کہنے لگے۔ اسی طرح باآواز بلند، آپ اس وقت تک تکبیر کہتے رہے جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آواز سے بیدار نہ ہو گئے۔ تو لوگوں نے پیش آمدہ مصیبت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی ہرج نہیں۔ سفر شروع کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دور چلے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے اور وضو کا پانی طلب فرمایا اور وضو کیا اور اذان کہی گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے سے فارغ ہوئے تو ایک شخص پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پڑی جو الگ کنارے پر کھڑا ہوا تھا اور اس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ اے فلاں! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہونے سے کون سی چیز نے روکا۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور پانی موجود نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پاک مٹی سے کام نکال لو۔ یہی تجھ کو کافی ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر شروع کیا تو لوگوں نے پیاس کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے اور فلاں (یعنی عمران بن حصین رضی اللہ عنہما) کو بلایا۔ ابورجاء نے ان کا نام لیا تھا لیکن عوف کو یاد نہیں رہا اور علی رضی اللہ عنہ کو بھی طلب فرمایا۔ ان دونوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ پانی تلاش کرو۔ یہ دونوں نکلے۔ راستہ میں ایک عورت ملی جو پانی کی دو پکھالیں اپنے اونٹ پر لٹکائے ہوئے بیچ میں سوار ہو کر جا رہی تھی۔ انہوں نے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ملتا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ کل اسی وقت میں پانی پر موجود تھی (یعنی پانی اتنی دور ہے کہ کل میں اسی وقت وہاں سے پانی لے کر چلی تھی آج یہاں پہنچی ہوں) اور ہمارے قبیلہ کے مرد لوگ پیچھے رہ گئے ہیں۔ انہوں نے اس سے کہا۔ اچھا ہمارے ساتھ چلو۔ اس نے پوچھا، کہاں چلوں؟ انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں۔ اس نے کہا، اچھا وہی جن کو لوگ صابی کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا، یہ وہی ہیں، جسے تم کہہ رہی ہو۔ اچھا اب چلو۔ آخر یہ دونوں حضرات اس عورت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارک میں لائے۔ اور سارا واقعہ بیان کیا۔ عمران نے کہا کہ لوگوں نے اسے اونٹ سے اتار لیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن طلب فرمایا۔ اور دونوں پکھالوں یا مشکیزوں کے منہ اس برتن میں کھول دئیے۔ پھر ان کا اوپر کا منہ بند کر دیا۔ اس کے بعد نیچے کا منہ کھول دیا اور تمام لشکریوں میں منادی کر دی گئی کہ خود بھی سیر ہو کر پانی پئیں اور اپنے تمام جانوروں وغیرہ کو بھی پلا لیں۔ پس جس نے چاہا پانی پیا اور پلایا (اور سب سیر ہو گئے) آخر میں اس شخص کو بھی ایک برتن میں پانی دیا جسے غسل کی ضرورت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، لے جا اور غسل کر لے۔ وہ عورت کھڑی دیکھ رہی تھی کہ اس کے پانی سے کیا کیا کام لیے جا رہے ہیں اور اللہ کی قسم! جب پانی لیا جانا ان سے بند ہوا، تو ہم دیکھ رہے تھے کہ اب مشکیزوں میں پانی پہلے سے بھی زیادہ موجود تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ اس کے لیے (کھانے کی چیز) جمع کرو۔ لوگوں نے اس کے لیے عمدہ قسم کی کھجور (عجوہ) آٹا اور ستو اکٹھا کیا۔ یہاں تک کہ بہت سارا کھانا اس کے لیے جمع ہو گیا۔ تو اسے لوگوں نے ایک کپڑے میں رکھا اور عورت کو اونٹ پر سوار کر کے اس کے سامنے وہ کپڑا رکھ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے کہ ہم نے تمہارے پانی میں کوئی کمی نہیں کی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں سیراب کر دیا۔ پھر وہ اپنے گھر آئی، دیر کافی ہو چکی تھی اس لیے گھر والوں نے پوچھا کہ اے فلانی! کیوں اتنی دیر ہوئی؟ اس نے کہا، ایک عجیب بات ہوئی وہ یہ کہ مجھے دو آدمی ملے اور وہ مجھے اس شخص کے پاس لے گئے جسے لوگ صابی کہتے ہیں۔ وہاں اس طرح کا واقعہ پیش آیا، اللہ کی قسم! وہ تو اس کے اور اس کے درمیان سب سے بڑا جادوگر ہے اور اس نے بیچ کی انگلی اور شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر اشارہ کیا۔ اس کی مراد آسمان اور زمین سے تھی۔ یا پھر وہ واقعی اللہ کا رسول ہے۔ اس کے بعد مسلمان اس قبیلہ کے دور و نزدیک کے مشرکین پر حملے کیا کرتے تھے۔ لیکن اس گھرانے کو جس سے اس عورت کا تعلق تھا کوئی نقصان نہیں پہنچاتے تھے۔ یہ اچھا برتاؤ دیکھ کر ایک دن اس عورت نے اپنی قوم سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ لوگ تمہیں جان بوجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ تو کیا تمہیں اسلام کی طرف کچھ رغبت ہے؟ قوم نے عورت کی بات مان لی اور اسلام لے آئی۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے فرمایا کہ «صبا» کے معنی ہیں اپنا دین چھوڑ کر دوسرے کے دین میں چلا گیا اور ابوالعالیہ نے کہا ہے کہ صابئین اہل کتاب کا ایک فرقہ ہے جو زبور پڑھتے ہیں اور سورۃ یوسف میں جو «اصب» کا لفظ ہے وہاں بھی اس کے معنی «امل» کے ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 344 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 344  
حدیث حاشیہ:
یعنی حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا تھا کہ خدایا اگرتومجھے نہ بچائے گا تومیں ان عورتوں کی طرف جھک جاؤں گا اور میں نادانوں میں سے ہوجاؤں گا۔
پس لفظ صابی اسی سے بنا ہے جس کے معنی دوسری طرف جھک جانے کے ہیں۔
سفر مذکور کون سا سفر تھا؟ بعض نے اسے سفرخبیر، بعض نے سفرحدیبیہ، بعض نے سفرتبوک اور بعض نے طریق مکہ کا سفر قراردیا ہے۔
بہرحال ایک سفر تھا جس میں یہ واقعہ پیش آیا۔
چونکہ تکان غالب تھی اور پچھلی رات، پھر اس وقت ریگستان عرب کی میٹھی ٹھنڈی ہوائیں، نتیجہ یہ ہوا کہ سب کو نیند آگئی، آنحضرت ﷺ بھی سوگئے۔
حتیٰ کہ سورج نکل آیا، اور مجاہدین جاگے۔
حضرت عمر ؓ نے یہ حال دیکھا توزور زور سے نعرہ تکبیر بلند کرنا شروع کیاتاکہ حضور ﷺ کی آنکھ بھی کھل جائے۔
چنانچہ آپ ﷺ بھی جاگ اٹھے اور آپ ﷺ نے لوگوں کو تسلی دلائی کہ جو ہوا اللہ کے حکم سے ہوا فکر کی کوئی بات نہیں۔
پھر آپ ﷺ نے وہاں سے کوچ کا حکم دیا اور تھوڑی دورآگے بڑھ کر پھر پڑاؤ کیاگیا اور آپ ﷺ نے وہاں اذان کہلواکر جماعت سے نماز پڑھائی اور نماز کے بعد ایک شخص کو علیحدہ بیٹھے ہوئے دیکھا تومعلوم ہواکہ اس کو غسل کی حاجت ہوگئی ہے اور وہ پانی نہ ہونے کی وجہ سے نماز نہ پڑھ سکا ہے۔
اس پر آپ نے فرمایا کہ اس حالت میں تجھ کو مٹی پر تیمم کرلینا کافی تھا۔
ترجمۃ الباب اسی جگہ سے ثابت ہوتا ہے۔
بعد میں آپ ﷺ نے پانی کی تلاش میں حضرت علی ؓ اور حضرت عمران بن حصین ؓ کومقرر فرمایا اور انھوں نے اس مسافرعورت کو دیکھا کہ پانی کی پکھالیں اونٹ پر لٹکائے ہوئے جارہی ہے، وہ اس کو بلا کر حضور ﷺ کے پاس لائے، ان کی نیت ظلم وبرائی کی نہ تھی بلکہ عورت سے قیمت سے پانی حاصل کرنا یا اس سے پانی کے متعلق معلومات حاصل کرنا تھا۔
آپ نے اس کی پکھالوں کے منہ کھلوادیے اور ان میں اپنا ریق مبارک ڈالا جس کی برکت سے وہ پانی اس قدر زیادہ ہو گیا کہ مجاہدین اور ان کے جانورسب سیراب ہوگئے اور اس جنبی شخص کو غسل کے لیے بھی پانی دیا گیا۔
اس کے بعد آپ نے پکھالوں کے منہ بندکرادیے اور وہ پانی سے بالکل لبریز تھیں۔
ان میں ذرا بھی پانی کم نہیں ہوا تھا۔
آپ نے احسان کے بدلے احسان کے طور پر اس عورت کے لیے کھانا غلہ صحابہ کرام سے جمع کرایا اور اس کو عزت واحترام کے ساتھ رخصت کردیا۔
جس کے نتیجہ میں آگے چل کر اس عورت اور اس کے قبیلہ والوں نے اسلام قبول کرلیا۔
حضرت امام المحدثین ؒ کا مقصد اس روایت کی نقل سے یہ ہے کہ پانی نہ ملنے کی صورت میں مٹی پر تیمم کرلینا وضو اور غسل ہر دو کی جگہ کافی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 344   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:344  
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت دو مسئلے بیان کیے ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۔
تیمم طہارت اصلیہ ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت نے نماز کے لیے طہارت کو ضروری قراردیا ہے اور طہارت دو الگ الگ صورتوں میں دو طرح سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
اگر پانی میسر ہو اور اس کے استعمال پر قدرت نہ ہوتو پانی کے ذریعے سے طہارت حاصل کی جائے۔
اگر پانی نہ ہو یا اس کے استعمال پر قدرت نہ ہو تو مٹی اس کا بدل ہے گویا حصول طہارت میں پانی اصل ہے اور مٹی اس کا بدل ہے اصل کے نہ ملنے سے بدل سے وہ تمام کام لیے جائیں گے جو اصل سے لیے جاتے ہیں۔
شریعت نے ان دونوں کو ایک ہی درجہ دیا ہے جس طرح ایک وضو سے ہر قسم کی نمازیں:
فرائض، نوافل فوت شدہ نمازیں عیدین اور نماز جنازہ وغیرہ ادا کیا جا سکتا ہے، اسی طرح ایک تیمم سے بھی سب کام لیے جائیں گے اور یہ ہر وقت کے ختم ہونے سے ختم نہیں ہو گا۔
البتہ نواقض تیمم میں ایک چیز نواقض وضو سے زائد ہے اور وہ ہے پانی کا دستیاب ہونا، یعنی پانی دستیاب ہوتے ہی تیمم ختم ہوجائے گا۔
بعض حضرات کے نزدیک تیمم طہارت ضروریہ ہے، یعنی تیمم کے ذریعے سے طہارت حاصل کرنا مجبوری کے درجے کی چیز ہے جتنی ضرورت ہو، اتنے وقت تک تیمم سے کام لے سکتے ہیں، ضرورت پوری ہوتے ہی یہ طہارت ختم ہو جائے گی۔
ایک تیمم سے وقت کے دوران میں صرف وقتی فریضہ ہی ادا کیا جا سکتا ہے، کسی دوسرے فریضے کی قضا بھی نہیں دے سکتے، اس کے لیے دوسرا تیمم کرنا ہوگا۔
دوسرے لفظوں میں تیمم رافع حدث نہیں بلکہ صرف استباحت صلاۃ کا کام دے سکتا ہے۔
امام بخاری ؒ اس رائے سے متفق نہیں وہ فرماتے ہیں کہ پاک مٹی مومن کے حق میں وضو کی جگہ ہے، اگر پانی میسر نہ ہوتو یہ اس سے بے نیاز کر دیتی ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ تیمم مطلق طور پر وجہ ارض سے جائز ہے، خواہ وہ زرخیز ہو یا بنجر بعض حضرات یہ فرق کرتے ہیں کہ تراب منبت (زرخیز مٹی)
سے جائز ہے، غیر منبت سے جائز نہیں، امام بخاری ؒ اس فرق کو قبول نہیں کرتے۔
وہ فرماتے ہیں:
زمین شور(بنجر زمین)
پر بھی تیمم کیا جا سکتا ہے، اس کی وضاحت بھی پہلے ہو چکی ہے۔
ہم نے اس سلسلے میں امام ابن خزیمہ ؒ کے ایک وقیع استدلال کا بھی حوالہ دیا تھا۔

اس روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز فجر نیند کی وجہ سے قضا ہو گئی تھی جبکہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ کی آنکھیں بند ہو جاتی تھیں دل بیدار رہتا تھا، بظاہر ان دونوں روایات میں تعارض ہے اس تعارض کو دو طرح سے دور کیا گیا ہے۔
دل کے بیدار رہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے محسوسات کا ادراک کرتا ہے جو اس سے براہ راست متعلق ہیں، جیسے حدث وغیرہ لیکن جو محسوسات آنکھ یا کسی اور چیز سے متعلق ہیں، ان کا ادراک دل نہیں کرتا، یہاں طلوع سحر کے ادراک کا تعلق دل سے نہیں آنکھ سے ہے جو اس وقت سو چکی تھی۔
دل کی دو حالتیں ہیں ایک بیداری جو عام طور پر رہتی تھی دوسری نیند جو کبھی کبھار پیش آتی تھی، اتفاق سے یہ واقعہ دل کی حالت نیند میں پیش آگیا۔
بعض حضرات نے یہ جواب دیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو بعض اوقات بیداری کی حالت میں بعض مصالح کے پیش نظر سہو ہوتا تھا۔
پھر جب بیداری میں سہو کی صورت پیش آسکتی ہے تو نیند کی حالت میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔
(فتح الباري: 583/1)

آخر میں امام بخاری ؒ نے لفظ صابي کی لغوی تحقیق فرمائی ہے، اس مناسبت سے قرآن کریم میں جو صابئین آیا ہے اس کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں، اس سلسلے میں انھوں نے ابو العالیہ کے قول کا حوالہ دیا ہے، جسے ابن ابی حاتم ؒ نے موصولاً بیان کیا ہے۔
ابن مردویہ ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ سے بإسناد حسن نقل کیا ہے کہ صابئین اہل کتاب نہیں تھے۔
امام بخاری ؓ نے یہ وضاحت اس لیے کی ہے کہ حدیث میں آنے والے لفظ صابي کی وضاحت ہو جائے کہ اس سے مراد وہ طائفہ نہیں جس کا ذکر قرآن میں ہے۔
(فتح الباري: 588/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 344   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 20  
´مشرکین کے زیر استعمال برتن`
«. . . ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم واصحابه توضئوا من مزادة امراة مشركة . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے ایک مشرکہ عورت کے مشکیزہ سے پانی لے کر اس سے وضو کیا . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 20]
لغوی تشریح:
«مَزَادَة» میم کے فتحہ اور زائے معجمہ کے ساتھ ہے۔ چمڑے کے مشکیزے کو کہتے ہیں جو دو چمڑوں سے بنایا جاتا ہے اور ان کے درمیان تیسرے کو بھی لگا دیا جاتا ہے تاکہ وہ وسیع ہو جائے۔

فائدہ:
اس حدیث سے اہل کتاب کے علاوہ مشرکین کے زیر استعمال برتنوں کے پاک ہونے کی رہنمائی ملتی ہے اور یہ اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ مردہ جانوروں کی کھال دباغت کے بعد پاک ہو جاتی ہے کیونکہ جس مشکیزے سے آپ نے پانی لیا وہ ایک مشرکہ عورت کے قبضے میں تھا اور مشرکین کے ذبح کردہ جانور کی کھال سے تیار کیا گیا تھا اور ان کے ذبائح تو مردار ہی ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین کے ایسے برتن جن میں نجاست وغیرہ کا اندیشہ نہ ہو، ان کا استعمال بغیر کسی تردد و تذبذب کے جائز اور درست ہے۔

راویٔ حدیث:
SR سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما: ER آپ خزاعی اور کعبی تھے۔ آپ کا شمار اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ہوتا ہے۔ آپ کی کنیت ابونجید تھی۔ غزوہ خیبر کے زمانے میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ بصرہ میں سکونت پذیر ہوئے اور وہیں 52 یا 53 ہجری میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 20   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1563  
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں، میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا کہ ہم رات بھر چلتے رہے حتیٰ کہ صبح کا وقت ہو گیا تو ہم نے پڑاؤ کیا اور ہم پر نیند نے غلبہ پا لیا، حتیٰ کہ سورج نکل آیا۔ ہم میں سب سے پہلے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیدار ہوئے۔ ہماری عادت تھی کہ جب نبی اکرم ﷺ سو جاتے تو ہم آپﷺ کو نیند سے جگاتے نہیں تھے، حتیٰ کہ آپﷺ خود ہی بیدار ہو جاتے، پھر (ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1563]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
أَدْلَجْنَا:
ہم تقریباً رات بھر چلتے رہے۔
(2)
بَزَغَتِ الشَّمْسُ:
سورج نکل آیا۔
(3)
سَادِلَةٍ:
لٹکائے ہوئے۔
(4)
مَزَادَتَيْنِ:
مَزَادَۃ بڑی مشک،
مَزَادَتَيْنِ وہ مشکیں جو اونٹ کے اوپر لادی جاتی ہیں۔
أَيْهَاهْ أَيْهَاهْ بہت دور جہاں پہنچنے کی جلد امید نہ ہو۔
(5)
فَلَمْ نُمَلِّكْهَا مِنْ أَمْرِهَا شَيْئًا:
ہم نے اس کو اپنی مرضی نہ کرنے دی۔
(6)
مُوتِمَةٌ:
یتیم بچوں والی جن کا باپ فوت ہوچکا ہے۔
(7)
رَاوِيَة:
پانی ڈھونے والے اونٹ۔
(8)
عَزْلَاوَيْنِ:
عَزْلَاء کی تثنیہ ہے،
پانی نکالنے والا منہ کبھی مشکیزے کے نچلے کی بجائے اوپر والے منہ کو بھی کہہ دیتے ہیں،
جس سے پانی ڈالا جاتا ہے۔
اس لیے یہاں اس کی صفت علیا لائی گئی ہے۔
(9)
تَنْضَرِجُ مِنَ الْمَاءِ:
پانی کی زیادتی سے پھٹنا۔
(10)
كِسَرٍ:
كسرةکی جمع ہے،
ٹکڑے۔
(11)
صَرَّ لَهَا صُرَّةً:
اس کےلیےتھیلی باندھی۔
(12)
صُرَّةً:
تھیلی۔
(13)
لَمْ نَرْزَأْ:
ہم نے کچھ کم نہیں کیا۔
(14)
ذَيْتَ ذَيْتَ:
كيت وكيت ياكذا وكذا کے ہم معنی ہے۔
یعنی یہ کام کیے یا اس اس طرح کیا۔
(15)
صَرْمَ:
گھروں کا اجتماع،
جماعت اور گروہ۔
فوائد ومسائل:

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم بشر تھے بشری تقاضا کی بنا پر ہی آپﷺ پر غلبہ پایا اور آپﷺ نے نیند سے مجبور ہو کر رات کےآخری حصے میں آرام کے لیے پڑاؤ کیا اور نماز کے لیے آپﷺ نے یہ انتظام کیا کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ جاگ کر صبح کا انتظار کریں اور جب فجر طلوع ہو تو ساتھیوں کو جگا دیں لیکن سفر کی تھکاوٹ کیوجہ سے وہ بھی سو گئے حتیٰ کہ سورج نکل آیا۔

صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ادب واحترام کی بنا پر جگاتے نہیں تھے اور یہ بات بھی ملحوظ ہوتی تھی کہ ممکن ہے آپﷺ پر نیند کی حالت میں وحی کا نزول ہو رہا ہو اور آپﷺ کو بیدار کرنا اس میں خلل اندازی کا سبب بنے اور سورج کے بلند ہونے کی صورت میں جب آپﷺ کو بیدار کرنے کی ضرورت لاحق ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مقصد کے لیے بلند آواز سے اللہ اکبر کہنا شروع کیا۔
آپﷺ کو براہ راست بیدار نہیں کیا۔
اس سے معلوم ہوا کسی بزرگ اور واجب الاحترام شخصیت کو نماز کے لیے بیدار کرنا بے ادبی یا گستاخی نہیں ہے۔

نیند کی وجہ سے اگر نماز قضا ہو جائے تو باعث افسوس تو ہے لیکن گناہ اور جرم نہیں ہے۔

جو شخص مسلمانوں کے ساتھ جماعت میں شریک نہ ہو۔
اس سے اس کا سبب معلوم کرنا چاہیے۔
اگر اس کا عذر شرعی ہو تو اسے قبول کر لینا چاہیے جیسا کہ جنبی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عدم واقفیت کی بنا پر تیمم نہ کیا۔
اس لیے نماز میں شریک نہ ہوا تو آپﷺ نے اس سے اس کا سبب پوچھا بتانے پر مسئلہ اس کو سمجھا دیا جس سے ثابت ہوا پانی اگر نہ ملے تو جنبی تیمم کر کے نماز پڑھ لے گا اور بعد میں پانی جب مل جائےگا تو غسل کر لے گا۔

ضرورت کے تحت اجنبی عورت سے بات چیت کرنا جائز ہے اور کافر کی چیز سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور کافر کے ساتھ احسان بھی کیا جا سکتا ہے۔

پیاس کی ضرورت غسل جنابت پرمقدم ہے۔
پانی پینے کی ضرورت سے زائد ہو تو اس سے غسل کیا جائے گا۔

اس واقعہ میں بھی آپﷺ کے اس معجزہ کا ظہور ہوا کہ آپﷺ نے مشکیزہ کا منہ کھول کر اس میں کلی فرمائی۔
اس مشکیزہ سے چالیس صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے وضو کیا۔
پانی پیا اور اپنے پانی کے تمام برتن بھر لیے۔
جنبی صحابی کو غسل کروایا۔
بعض مشکیزہ کے پانی میں کسی قسم کی کمی نہ ہوئی بلکہ وہ پہلے سے زیادہ بھرا معلوم ہوتا تھا۔

نیند کی حالت میں دل اگرچہ بیدار ہوتا تھا لیکن آنکھیں سو جاتی تھیں۔
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فجر کے طلوع ہونے اور سورج کے نکلنے کا پتہ نہ چل سکا کیونکہ سورج کا تعلق دیکھنے سے ہے جو آنکھوں کا فعل ہے،
دل کا نہیں۔

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صبح کی نماز فوت ہو گئی تو آپﷺ نے صبح کی نماز سے پہلے صبح کی سنتیں پڑھیں،
جس سے معلوم ہوا کہ قضاء شدہ نماز کے ساتھ اس کی سنتیں پڑھنا بہتر ہے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔
اورامام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے احناف کے نزدیک سنتوں کی قضائی نہیں ہے۔
بعض احناف کا خیال ہے اگر نماز کے ساتھ سنتیں قضا ہو جائیں تو پھر ان کی قضائی ہے۔
اگرصرف سنتیں رہ جائیں تو قضائی نہیں ہے۔
10۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قضا ہونے والی نماز کے لیے اذان کہی جائے گی اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے قول جدید کے مطابق تکبیر کہہ لینا ہی کافی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1563