ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوتے، تو جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ دعا پڑھتے کہ ”اللہ تعالیٰ کے نام سے میں مدد چاہتا ہوں وہ تم کو ہر بیماری سے اچھا کرے گا، تم کو ہر حسد کرنے والے کی برائی سے محفوظ رکھے گا اور ہر بری نظر ڈالنے والے کی نظر سے تمہیں بچائے گا“۔
عبدالعزیز بن صہیب، ابونضرہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے کہ جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تم بیمار ہو گئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔ سیدنا جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ ”میں اللہ تعالیٰ کے نام سے تم پر دم کرتا ہوں ہر اس چیز سے جو تمہیں ستائے اور ہر جان کی برائی سے یا حاسد کی نگاہ سے، اللہ تمہیں شفاء دے اللہ کے نام سے میں تم پر دم کرتا ہوں“۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بنی زریق کے ایک یہودی لبید بن اعصم نے جادو کیا۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال آتا کہ میں یہ کام کر رہا ہوں حالانکہ وہ کام کرتے نہ تھے۔ ایک دن یا ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی، پھر دعا کی، پھر فرمایا کہ اے عائشہ! تجھے معلوم ہوا کہ اللہ جل جلالہ نے مجھے وہ بتلا دیا جو میں نے اس سے پوچھا؟۔ میرے پاس دو آدمی آئے، ایک میرے سر کے پاس بیٹھا اور دوسرا پاؤں کے پاس (وہ دونوں فرشتے تھے) جو سر کے پاس بیٹھا تھا، اس نے دوسرے سے کہا جو پاؤں کے پاس بیٹھا تھا اس نے سر کے پاس بیٹھے ہوئے سے کہا کہ اس شخص کو کیا بیماری ہے؟ وہ بولا کہ اس پر جادو ہوا ہے۔ اس نے کہا کہ کس نے جادو کیا ہے؟ وہ بولا کہ لبید بن اعصم نے۔ پھر اس نے کہا کہ کس میں جادو کیا ہے؟ وہ بولا کہ کنگھی میں اور ان بالوں میں جو کنگھی سے جھڑے اور نر کھجور کے گابھے کے ریشے میں۔ اس نے کہا کہ یہ کہاں رکھا ہے؟ وہ بولا کہ ذی اروان کے کنوئیں میں۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند اصحاب کے ساتھ اس کنوئیں پر گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ! اللہ کی قسم اس کنوئیں کا پانی ایسا تھا جیسے مہندی کا زلال اور وہاں کے کھجور کے درخت ایسے تھے جیسے شیطانوں کے سر۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جلا کیوں نہیں دیا؟ (یعنی وہ جو بال وغیرہ نکلے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تو اللہ نے ٹھیک کر دیا، اب مجھے لوگوں میں فساد بھڑکانا برا معلوم ہوا، پس میں نے حکم دیا اور وہ دفن کر دیا گیا۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب گھر میں کوئی بیمار ہوتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر معوذات (سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) پڑھ کر پھونکتے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے، جس بیماری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پھونکتی اور آپ ہی کا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پھیرتی تھی کیونکہ آپ کے ہاتھ مبارک میں میرے ہاتھ سے زیادہ برکت تھی۔
سیدنا عثمان بن ابی العاص ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ایک درد کی شکایت کی، جو ان کے بدن میں پیدا ہو گیا تھا جب سے وہ مسلمان ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنا ہاتھ درد کی جگہ پر رکھو اور تین بار ((بسم اللہ)) کہو، اس کے بعد سات بار یہ کہو کہ ”میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں اس چیز کی برائی سے جس کو پاتا ہوں اور جس سے ڈرتا ہوں“۔
ابوالعلاء سے روایت ہے سیدنا عثمان بن ابوالعاص رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ یا رسول اللہ! شیطان میری نماز میں حائل ہو جاتا ہے اور مجھے قرآن بھلا دیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شیطان کا نام خنزب ہے، جب تجھے اس شیطان کا اثر معلوم ہو تو اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ اور (نماز کے اندر ہی) بائیں طرف تین بار تھوک لے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے ایسا ہی کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس شیطان کو مجھ سے دور کر دیا۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کچھ لوگ سفر میں تھے اور عرب کے کسی قبیلہ کے پاس سے گزرے، ان سے مہمان نوازی چاہی تو انہوں نے مہمانی نہ کی۔ وہ کہنے لگے کہ تم میں سے کسی کو منتر یاد ہے؟ ان کے سردار کو بچھو نے کاٹا تھا۔ صحابہ میں سے ایک شخص بولا کہ ہاں مجھے منتر آتا ہے۔ پھر اس نے سورۃ الفاتحہ پڑھ کر اسے دم کیا تو وہ اچھا ہو گیا۔ پس انہیں بکریوں کا ایک گلہ دیا گیا، تو انہوں نے نہ لیا اور یہ کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر بیان کیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! اللہ کی قسم میں نے کچھ نہیں کیا سوائے سورۃ الفاتحہ کے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا کہ تجھے کیسے معلوم ہوا کہ وہ منتر ہے؟ پھر فرمایا کہ وہ بکریوں کا گلہ لے لے اور اپنے ساتھ ایک حصہ میرے لئے بھی لگانا (کیونکہ قرآن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا)۔
اسود کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دم کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے ایک گھر والوں کو زہر کے لئے دم کرنے کی اجازت دی تھی (جیسے سانپ بچھو کے کاٹنے سے)۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر، ڈنگ (زہر) اور نملہ کے لئے دم کرنے کی رخصت دی۔ (نملہ ایک پھنسی ہے جس میں جلن ہوتی ہے اور جگہ بدلتی رہتی ہے یا وہ پھنسیاں جو بغل میں ہوں)۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دم سے منع کیا تو عمرو بن حزم کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ یا رسول اللہ! ہمارے پاس بچھو کا دم ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دم کرنے سے منع فرمایا ہے؟ راوی کہتے ہیں کہ انہوں نے وہ دم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا، تم میں اگر کوئی اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکتا ہو تو پہنچائے۔