سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسریٰ، قیصر، نجاشی اور ہر ایک حاکم کو لکھا، ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے تھے اور یہ نجاشی وہ نہیں تھا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھی تھی۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے ان سے بالمشافہ بیان کیا کہ میں اس مدت میں جو میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ٹھہری تھی (یعنی صلح حدیبیہ کی مدت) ملک شام میں تھا کہ ہرقل شاہ روم کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط لایا گیا جو کہ دحیہ کلبی لے کر آئے تھے۔ انہوں نے بصرہ کے رئیس کو دیا اور بصریٰ کے رئیس نے ہرقل کو دیا۔ ہرقل نے پوچھا کہ یہاں اس شخص کی قوم کا کوئی آدمی ہے جو پیغمبری کا دعویٰ کرتا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں۔ ابوسفیان نے کہا کہ میں قریش کے چند آدمیوں کے ساتھ بلایا گیا۔ ہم ہرقل کے پاس پہنچے تو اس نے ہمیں اپنے سامنے بٹھایا اور پوچھا کہ تم میں سے رشتہ میں اس شخص سے، جو اپنے آپ کو پیغمبر کہتا ہے، زیادہ نزدیک کون ہے۔ ابوسفیان نے کہا کہ میں ہوں (یہ ہرقل نے اس لئے دریافت کیا کہ جو نسب میں زیادہ نزدیک ہو گا وہ بہ نسبت دوسروں کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال زیادہ جانتا ہو گا) پھر مجھے ہرقل کے سامنے بٹھایا اور میرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھایا۔ اس کے بعد اس نے اپنے ترجمان کو بلایا (جو دوسرے ملک کے لوگوں کی زبان بادشاہ کو سمجھاتا ہے) اور اس سے کہا کہ ان لوگوں سے کہہ کہ میں اس شخص (یعنی ابوسفیان) سے اس شخص کا حال پوچھوں گا جو اپنے آپ کو پیغمبر کہتا ہے، پھر اگر یہ جھوٹ بولے تو تم اس کا جھوٹ بیان کر دینا۔ ابوسفیان نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی قسم اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ میری طرف جھوٹ کی نسبت کی جائے گی (اور میری ذلت ہو گی) تو میں جھوٹ بولتا (کیونکہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت تھی)۔ پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس سے پوچھ کہ اس شخص (یعنی محمد) کا حسب و نسب (یعنی خاندان) کیسا ہے؟۔ ابوسفیان نے کہا کہ ان کا حسب تو ہم میں بہت عمدہ ہے۔ ہرقل نے پوچھا کہ کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ ہوا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ ہرقل نے کہا کہ دعویٰ (نبوت) سے پہلے کبھی تم نے ان کو جھوٹ بولتے ہوئے سنا؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ ہرقل نے کہا کہ اچھا! ان کی پیروی بڑے بڑے رئیس لوگ کرتے ہیں یا غریب لوگ؟ میں نے کہا کہ غریب لوگ کرتے ہیں۔ ہرقل نے کہا کہ ان کے تابعدار بڑھتے جاتے ہیں یا کم ہوتے جاتے ہیں؟ میں نے کہا کہ بڑھتے جاتے ہیں ہرقل نے کہا کہ ان کے تابعداروں میں سے کوئی ان کے دین میں آ کر اور پھر اس دین کو برا جان کر پھرا؟ میں نے کہا نہیں۔ ہرقل نے کہا کہ تم نے ان سے لڑائی بھی کی ہے؟ میں نے کہا ہاں۔ ہرقل نے کہا کہ ان کی تم سے کیسے لڑائی ہوئی ہے (یعنی کون غالب رہتا ہے)؟ میں نے کہا کہ ہماری ان کی لڑائی ڈولوں کی طرح کبھی ادھر کبھی ادھر ہوتی ہے (جیسے کنوئیں سے ڈول پانی کھینچنے میں ایک ادھر آتا ہے اور ایک ادھر اور اسی طرح لڑائی میں کبھی ہماری فتح ہوتی ہے کبھی ان کی فتح ہوتی ہے) وہ ہمارا نقصان کرتے ہیں ہم ان کا نقصان کرتے ہیں۔ ہرقل نے کہا کہ وہ معاہدہ کو توڑتے ہیں؟ میں نے کہا نہیں۔ ہاں اب ایک مدت کے لئے ہمارے او ران کے درمیان اقرار ہوا ہے، دیکھئیے اب وہ اس میں کیا کرتے ہیں؟ (یعنی آئندہ شاید عہد شکنی کریں) ابوسفیان نے کہا کہ اللہ کی قسم مجھے سوائے اس بات کے اور کسی بات میں اپنی طرف سے کوئی فقرہ لگانے کا موقعہ نہیں ملا (تو اس میں میں نے عداوت کی راہ سے اتنا بڑھا دیا کہ یہ جو صلح کی مدت اب ٹھہری ہے شاید اس میں وہ دغا کریں) ہرقل نے کہا کہ ان سے پہلے بھی (ان کی قوم یا ملک میں) کسی نے پیغمبری کا دعویٰ کیا تھا؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ تب ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ تم اس شخص سے یعنی ابوسفیان سے کہو کہ میں نے تجھ سے ان کا حسب و نسب پوچھا تو تو نے کہا کہ ان کا حسب بہت عمدہ ہے اور پیغمبروں کا یہی قاعدہ ہے وہ ہمیشہ اپنی قوم کے عمدہ خاندانوں میں پیدا ہوئے ہیں۔ پھر میں نے تجھ سے پوچھا کہ ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟ تو نے کہا نہیں، یہ اس لئے میں نے پوچھا کہ اگر ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ ہوتا، تو یہ گمان ہو سکتا تھا کہ وہ اپنے بزرگوں کی سلطنت چاہتے ہیں۔ اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ ان کی پیروی کرنے والے بڑے لوگ ہیں یا غریب لوگ؟ تو تو نے کہا کہ غریب لوگ اور ہمیشہ (پہلے پہل) پیغمبروں کی پیروی غریب لوگ ہی کرتے ہیں۔ (کیونکہ بڑے آدمیوں کو کسی کی اطاعت کرتے ہوئے شرم آتی ہے اور غریبوں کو نہیں آتی) اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ نبوت کے دعویٰ سے پہلے تم نے کبھی ان کا جھوٹ دیکھا ہے؟ تو نے کہا کہ نہیں اس سے میں نے یہ نکالا کہ یہ ممکن نہیں کہ لوگوں سے تو جھوٹ نہ بولے اور اللہ پر جھوٹ باندھنے لگے۔ (جھوٹا دعویٰ کر کے) اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ کوئی ان کے دین میں آنے کے بعد پھر اس کو برا سمجھ کر پھر جاتا ہے؟ تو نے کہا نہیں اور ایمان جب دل میں سما جاتا ہے تو ایسے ہی ہوتا ہے۔ اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ ان کے پیروکار بڑھ رہے ہیں یا کم ہوتے جاتے ہیں؟ تو نے کہا کہ وہ بڑھتے جاتے ہیں اور یہی ایمان کا حال ہے اس وقت تک کہ پورا ہو (پھر کمال کے بعد اگر گھٹے تو قباحت نہیں) اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ تم ان سے لڑتے ہو؟ تو نے کہا کہ ہم لڑتے ہیں اور ہمارے ان کی لڑائی برابر ہے ڈول کی طرح کبھی ادھر اور کبھی ادھر۔ تم ان کا نقصان کرتے ہو وہ تمہارا نقصان کرتے ہیں اور اسی طرح آزمائش ہوتی ہے پیغمبروں کی (تاکہ ان کو صبر و تکلیف کا اجر ملے اور ان کے پیروکاروں کے درجے بڑھیں)، پھر آخر میں وہی غالب آتے ہیں اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ وہ دغا کرتے ہیں؟ تو نے کہا کہ وہ دغا نہیں کرتے اور پیغمبروں کا یہی حال ہے وہ دغا (یعنی عہد شکنی) نہیں کرتے اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ ان سے پہلے بھی کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے؟ تو نے کہا کہ نہیں۔ یہ میں نے اس لئے پوچھا کہ اگر ان سے پہلے کسی نے یہ دعویٰ کیا ہوتا تو گمان ہوتا کہ اس شخص نے بھی اس کی پیروی کی ہے پھر ہرقل نے کہا کہ وہ تمہیں کن باتوں کا حکم کرتے ہیں؟ میں نے کہا کہ وہ نماز پڑھنے کا، زکوٰۃ دینے، رشتہ داروں سے اچھے سلوک کرنے اور بری باتوں سے بچنے کا حکم کرتے ہیں۔ ہرقل نے کہا کہ اگر ان کا یہی حال ہے جو تم نے بیان کیا تو بیشک وہ پیغمبر ہیں اور (پہلی کتابیں پڑھنے کی وجہ سے) میں جانتا تھا کہ یہ پیغمبر پیدا ہوں گے لیکن مجھے یہ خیال نہ تھا کہ وہ تم لوگوں میں پیدا ہوں گے اور اگر میں یہ سمجھتا کہ میں ان تک پہنچ جاؤں گا، تو میں ان سے ملنا پسند کرتا۔ (بخاری کی روایت میں ہے کہ میں کسی طرح بھی محنت مشقت اٹھا کر ملتا) اور جو میں ان کے پاس ہوتا، تو ان کے پاؤں دھوتا اور یقیناً ان کی حکومت یہاں تک آ جائے گی جہاں اب میرے دونوں پاؤں ہیں۔ پھر ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا اور اس کو پڑھا اس میں یہ لکھا تھا کہ: ”شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ تعالیٰ کے رسول کی طرف سے ہرقل کی طرف جو کہ روم کا رئیس ہے۔ سلام اس شخص پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اس کے بعد میں تجھے دعوت اسلام کی طرف بلاتا ہوں کہ مسلمان ہو جائے تو سلامت رہے گا (یعنی تیری حکومت اور جان اور عزت سب سلامت اور محفوظ رہے گی) مسلمان ہو جا، اللہ تجھے دہرا ثواب دے گا۔ اگر تو نہ مانے گا، تو اریسیین کا وبال بھی تجھ پر ہو گا۔ اے اہل کتاب! مان لو ایک بات کہ جو سیدھی اور صاف ہے ہمارے اور تمہارے درمیان کی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہرائیں اور ہم ایک دوسرے کو اللہ کے علاوہ رب نہ بنائیں۔ اگر اہل کتاب پھر جائیں تو تم کہو یقیناً ہم تو مسلمان (فرمانبردار) ہیں“۔ (سورۃ: آل عمران: 64) پھر جب ہرقل اس خط کے پڑھنے سے فارغ ہوا تو، لوگوں کی آوازیں بلند ہوئیں اور بک بک بہت ہوئی اور ہم باہر نکال دیئے گئے۔ ابوسفیان نے کہا کہ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابوکبشہ کے بیٹے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کا درجہ بہت بڑھ گیا، ان سے بنی اصفر کا بادشاہ ڈرتا ہے۔ ابوسفیان نے کہا کہ اس دن سے مجھے یقین تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامیاب اور غالب ہوں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی مسلمان کر دیا۔
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے، جس کی کاٹھی کے نیچے (شہر) فدک کی (بنی ہوئی) چادر پڑی تھی اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنی حارث بن خزرج کے محلہ میں، سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کو تشریف لے جا رہے تھے۔ اور یہ واقعہ جنگ بدر سے پہلے کا ہے۔ راستے میں مسلمانوں، بتوں کے پجاری مشرکوں اور یہود پر مشتمل ایک ملی جلی مجلس پر سے گزرے، جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول (مشہور منافق) بھی تھا۔ (اس وقت تک عبداللہ بن ابی ظاہر میں بھی مسلمان نہیں ہوا تھا)۔ اس مجلس میں سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ (مشہور صحابی) بھی موجود تھے۔ جب گدھے کے پاؤں کی گرد مجلس والوں پر پڑنے لگی (یعنی سواری قریب آ پہنچی) تو عبداللہ بن ابی نے اپنی ناک چادر سے ڈھک لی اور کہا کہ ہم پر گرد مت اڑاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا اور پھر ٹھہر گئے اور سواری سے اتر کر ان کو قرآن پڑھ کر سنانے لگے اور (ان مجلس والوں کو) اللہ کی طرف بلایا۔ اس وقت عبداللہ بن ابی نے کہا اے شخص! اگر یہ سچ ہے تو بھی ہمیں ہماری مجلسوں میں مت سنا۔ اپنے گھر کو جا، وہاں جو تیرے پاس آئے اس کو یہ قصے سنا۔ سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! نہیں بلکہ آپ ہماری ہر ایک مجلس میں ضرور آیا کیجئے، ہمیں یہ بہت اچھا لگتا ہے۔ اس بات پر مسلمانوں، مشرکوں اور یہودیوں میں گالی گلوچ ہونے لگی اور قریب تھا کہ لڑائی شروع ہو جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کو چپ کرانے لگے (آخر کار وہ سب خاموش ہو گئے) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ہاں گئے اور ان سے فرمایا اے سعد! تو نے ابوحباب کی باتیں نہیں سنیں؟ } ابوحباب سے عبداللہ بن ابی مراد ہے { اس نے ایسا ایسا کہا ہے۔ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ اسے معاف کر دیجئیے اور اس سے درگزر فرمائیے اور قسم اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب نازل کی ہے کہ اللہ کی جانب سے جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا ہے وہ برحق اور سچ ہے۔ (وجہ یہ ہے کہ) اس بستی کے لوگوں نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے) یہ فیصلہ کیا تھا کہ عبداللہ بن ابی کو سرداری کا تاج پہنائیں گے اور اس کو اپنا والی اور رئیس بنائیں گے۔ پس جب اللہ نے یہ بات (عبداللہ بن ابی کا سردار ہونا) نہ چاہی بوجہ اس حق کے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا ہے، تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حسد میں مبتلا ہو گیا ہے اس لئے اس نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے) ایسے برے کلمات کہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا قصور معاف کر دیا۔
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر دغاباز کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا، جو اس کی دغابازی کے موافق بلند کیا جائے گا اور کوئی دغاباز اس سے بڑھ کر نہیں جو خلق اللہ کا حاکم ہو کر دغابازی کرے۔
سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں بدر میں صرف اسی وجہ سے شریک نہ ہوا کہ میں اپنے والد حسیل کے ساتھ نکلا (یہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے والد کا نام ہے اور بعض لوگوں نے حسل کہا ہے اور یمان ان کا لقب ہے اور اسی سے مشہور ہیں) تو ہمیں قریش کے کافروں نے پکڑ لیا اور کہا کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانا چاہتے ہو؟ پس ہم نے کہا کہ ہم ان کے پاس نہیں جانا چاہتے بلکہ ہم تو صرف مدینہ جانا چاہتے ہیں۔ پھر انہوں نے ہم سے اللہ کا نام لے کر عہد اور اقرار لیا کہ ہم مدینہ کو جائیں گے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو کر نہیں لڑیں گے۔ پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور یہ سب قصہ بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم مدینہ کو چلے جاؤ کہ ہم ان کا معاہدہ پورا کریں گے اور ان پر اللہ سے مدد چاہیں گے۔
ابوالنضر سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی جو کہ قبیلہ اسلم سے تعلق رکھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے، کی کتاب سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عمر بن عبیداللہ کو کہ جب وہ حروریہ کی طرف (لڑائی) کے لئے نکلے تو لکھا اور وہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی خبر دینا چاہتے تھے کہ جن دنوں رسول صلی اللہ علیہ وسلم دشمن سے لڑائی کی حالت میں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زوال آفتاب تک انتظار کیا اور پھر لوگوں (صحابہ کرام) میں کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! دشمن سے (لڑائی) ملاقات کی آرزو مت کرو اور اللہ تعالیٰ سے سلامتی کی آرزو کرو۔ (لیکن) جب آمنا سامنا ہو جائے تو صبر سے کام لو اور جان رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور یوں دعا فرمائی کہ اے اللہ! کتاب نازل فرمانے والے، بادلوں کو چلانے والے اور جتھوں کو بھگانے والے، ان کو بھگا دے اور ان پر ہماری مدد فرما۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احد کے دن یہ فریاد کر رہے تھے کہ اے اللہ! اگر تو چاہے تو زمین میں کوئی تیری پرستش کرنے والا نہ رہے گا۔ (یہ حدیث کا ایک ٹکڑا ہے۔ پوری حدیث میں ہے کہ اگر آج مسلمان مغلوب ہو گئے تو اہل توحید مٹ جائیں گے)۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لڑائی مکر اور حیلہ ہے۔ (یعنی اپنے بچاؤ اور دشمن کو نقصان پہنچانے کے لئے حیلہ اور مکروفریب کرنا جائز ہے)
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ بدر کی طرف نکلے۔ جب (مقام) حرۃ الوبرہ (جو مدینہ سے چار میل پر ہے) میں پہنچے، تو ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا، جس کی بہادری اور اصالت کا شہرہ تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اس کو دیکھ کر خوش ہوئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا تو اس نے کہا کہ میں اس لئے آیا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلوں اور جو ملے اس میں حصہ پاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہے؟ اس نے کہا کہ نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو لوٹ جا، میں مشرک کی مدد نہیں چاہتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے جب شجرہ (مقام) پہنچے تو وہ شخص پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا اور وہی کہا جو پہلے کہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی وہی فرمایا جو پہلے فرمایا تھا اور فرمایا کہ لوٹ جا میں مشرک کی مدد نہیں چاہتا۔ پھر وہ لوٹ گیا اس کے بعد پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (مقام) بیداء میں ملا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی فرمایا جو پہلے فرمایا تھا کہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر یقین رکھتا ہے؟ اب وہ شخص بولا کہ ہاں میں یقین رکھتا ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر چل۔