مختصر صحيح مسلم
سیر و سیاحت اور لشکر کشی
اللہ تعالیٰ کی طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اور منافقوں کی تکالیف پر صبر۔
حدیث نمبر: 1123
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے، جس کی کاٹھی کے نیچے (شہر) فدک کی (بنی ہوئی) چادر پڑی تھی اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنی حارث بن خزرج کے محلہ میں، سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کو تشریف لے جا رہے تھے۔ اور یہ واقعہ جنگ بدر سے پہلے کا ہے۔ راستے میں مسلمانوں، بتوں کے پجاری مشرکوں اور یہود پر مشتمل ایک ملی جلی مجلس پر سے گزرے، جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول (مشہور منافق) بھی تھا۔ (اس وقت تک عبداللہ بن ابی ظاہر میں بھی مسلمان نہیں ہوا تھا)۔ اس مجلس میں سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ (مشہور صحابی) بھی موجود تھے۔ جب گدھے کے پاؤں کی گرد مجلس والوں پر پڑنے لگی (یعنی سواری قریب آ پہنچی) تو عبداللہ بن ابی نے اپنی ناک چادر سے ڈھک لی اور کہا کہ ہم پر گرد مت اڑاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا اور پھر ٹھہر گئے اور سواری سے اتر کر ان کو قرآن پڑھ کر سنانے لگے اور (ان مجلس والوں کو) اللہ کی طرف بلایا۔ اس وقت عبداللہ بن ابی نے کہا اے شخص! اگر یہ سچ ہے تو بھی ہمیں ہماری مجلسوں میں مت سنا۔ اپنے گھر کو جا، وہاں جو تیرے پاس آئے اس کو یہ قصے سنا۔ سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! نہیں بلکہ آپ ہماری ہر ایک مجلس میں ضرور آیا کیجئے، ہمیں یہ بہت اچھا لگتا ہے۔ اس بات پر مسلمانوں، مشرکوں اور یہودیوں میں گالی گلوچ ہونے لگی اور قریب تھا کہ لڑائی شروع ہو جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کو چپ کرانے لگے (آخر کار وہ سب خاموش ہو گئے) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ہاں گئے اور ان سے فرمایا اے سعد! تو نے ابوحباب کی باتیں نہیں سنیں؟ } ابوحباب سے عبداللہ بن ابی مراد ہے { اس نے ایسا ایسا کہا ہے۔ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ اسے معاف کر دیجئیے اور اس سے درگزر فرمائیے اور قسم اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب نازل کی ہے کہ اللہ کی جانب سے جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا ہے وہ برحق اور سچ ہے۔ (وجہ یہ ہے کہ) اس بستی کے لوگوں نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے) یہ فیصلہ کیا تھا کہ عبداللہ بن ابی کو سرداری کا تاج پہنائیں گے اور اس کو اپنا والی اور رئیس بنائیں گے۔ پس جب اللہ نے یہ بات (عبداللہ بن ابی کا سردار ہونا) نہ چاہی بوجہ اس حق کے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا ہے، تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حسد میں مبتلا ہو گیا ہے اس لئے اس نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے) ایسے برے کلمات کہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا قصور معاف کر دیا۔