(مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن منصور، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، قال:" لعن الله الواشمات، والموتشمات، والمتنمصات، والمتفلجات للحسن المغيرات خلق الله"، فبلغ ذلك امراة من بني اسد، يقال لها ام يعقوب، فجاءت، فقالت: إنه بلغني عنك انك لعنت كيت وكيت، فقال:" وما لي العن من لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ومن هو في كتاب الله"، فقالت: لقد قرات ما بين اللوحين فما وجدت فيه ما تقول، قال:" لئن كنت قراتيه لقد وجدتيه اما قرات: وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا سورة الحشر آية 7، قالت: بلى، قال: فإنه قد نهى عنه، قالت: فإني ارى اهلك يفعلونه، قال: فاذهبي فانظري، فذهبت فنظرت فلم تر من حاجتها شيئا، فقال:" لو كانت كذلك ما جامعتها".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" لَعَنَ اللَّهُ الْوَاشِمَاتِ، وَالْمُوتَشِمَاتِ، وَالْمُتَنَمِّصَاتِ، وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّهِ"، فَبَلَغَ ذَلِكَ امْرَأَةً مِنْ بَنِي أَسَدٍ، يُقَالُ لَهَا أُمُّ يَعْقُوبَ، فَجَاءَتْ، فَقَالَتْ: إِنَّهُ بَلَغَنِي عَنْكَ أَنَّكَ لَعَنْتَ كَيْتَ وَكَيْتَ، فَقَالَ:" وَمَا لِي أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ هُوَ فِي كِتَابِ اللَّهِ"، فَقَالَتْ: لَقَدْ قَرَأْتُ مَا بَيْنَ اللَّوْحَيْنِ فَمَا وَجَدْتُ فِيهِ مَا تَقُولُ، قَالَ:" لَئِنْ كُنْتِ قَرَأْتِيهِ لَقَدْ وَجَدْتِيهِ أَمَا قَرَأْتِ: وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا سورة الحشر آية 7، قَالَتْ: بَلَى، قَالَ: فَإِنَّهُ قَدْ نَهَى عَنْهُ، قَالَتْ: فَإِنِّي أَرَى أَهْلَكَ يَفْعَلُونَهُ، قَالَ: فَاذْهَبِي فَانْظُرِي، فَذَهَبَتْ فَنَظَرَتْ فَلَمْ تَرَ مِنْ حَاجَتِهَا شَيْئًا، فَقَالَ:" لَوْ كَانَتْ كَذَلِكَ مَا جَامَعْتُهَا".
ہم سے محمد بن یوسف بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، بیان کیا، ان سے منصور بن معتمر نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے گودوانے والیوں اور گودنے والیوں پر لعنت بھیجی ہے چہرے کے بال اکھاڑنے والیوں اور حسن کے لیے آگے کے دانتوں میں کشادگی کرنے والیوں پر لعنت بھیجی ہے کہ یہ اللہ کی پیدا کی ہوئی صورت میں تبدیلی کرتی ہیں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ کلام قبیلہ بنی اسد کی ایک عورت کو معلوم ہوا جو ام یعقوب کے نام سے معروف تھی وہ آئی اور کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے اس طرح کی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے؟ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا آخر کیوں نہ میں انہیں لعنت کروں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے اور جو کتاب اللہ کے حکم کے مطابق ملعون ہے۔ اس عورت نے کہا کہ قرآن مجید تو میں نے بھی پڑھا ہے لیکن آپ جو کچھ کہتے ہیں میں نے تو اس میں کہیں یہ بات نہیں دیکھی۔ انہوں نے کہا کہ اگر تم نے بغور پڑھا ہوتا تو تمہیں ضرور مل جاتا کیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی «وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا» کہ ”رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہیں جو کچھ دیں لے لیا کرو اور جس سے تمہیں روک دیں، رک جایا کرو۔“ اس نے کہا کہ پڑھی ہے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں سے روکا ہے۔ اس پر عورت نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ آپ کی بیوی بھی ایسا کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اچھا جاؤ اور دیکھ لو۔ وہ عورت گئی اور اس نے دیکھا لیکن اس طرح کی ان کے یہاں کوئی معیوب چیز اسے نہیں ملی۔ پھر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میری بیوی اسی طرح کرتی تو بھلا وہ میرے ساتھ رہ سکتی تھی؟ ہرگز نہیں۔
Narrated Alqama: `Abdullah (bin Masud) said. "Allah curses those ladies who practice tattooing and those who get themselves tattooed, and those ladies who remove the hair from their faces and those who make artificial spaces between their teeth in order to look more beautiful whereby they change Allah's creation." His saying reached a lady from Bani Asd called Um Yaqub who came (to `Abdullah) and said, "I have come to know that you have cursed such-and-such (ladies)?" He replied, "Why should I not curse these whom Allah's Messenger has cursed and who are (cursed) in Allah's Book!" Um Yaqub said, "I have read the whole Qur'an, but I did not find in it what you say." He said, "Verily, if you have read it (i.e. the Qur'an), you have found it. Didn't you read: 'And whatsoever the Apostle gives you take it and whatsoever he forbids you, you abstain (from it). (59.7) She replied, "Yes, I did," He said, "Verily, Allah's Messenger forbade such things." "She said, "But I see your wife doing these things?" He said, "Go and watch her." She went and watched her but could not see anything in support of her statement. On that he said, "If my wife was as you thought, I would not keep her in my company."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 408
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے بیان کیا کہ میں نے عبدالرحمٰن بن عابس سے منصور بن معتمر کی حدیث کا ذکر کیا جو وہ ابراہیم سے بیان کرتے تھے کہ ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر کے قدرتی بالوں کے ساتھ مصنوعی بال لگانے والیوں پر لعنت بھیجی تھی۔ عبدالرحمٰن بن عابس نے کہا کہ میں نے بھی ام یعقوب نامی ایک عورت سے سنا تھا وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ منصور کی حدیث کے مثل بیان کرتی تھی۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن يونس، حدثنا ابو بكر يعني ابن عياش، عن حصين، عن عمرو بن ميمون، قال: قال عمر رضي الله عنه: اوصي الخليفة بالمهاجرين الاولين ان يعرف لهم حقهم، واوصي الخليفة بالانصار الذين تبوءوا الدار والإيمان من قبل ان يهاجر النبي صلى الله عليه وسلم، ان يقبل من محسنهم، ويعفو عن مسيئهم".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ يَعْنِي ابْنَ عَيَّاشٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أُوصِي الْخَلِيفَةَ بِالْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ أَنْ يَعْرِفَ لَهُمْ حَقَّهُمْ، وَأُوصِي الْخَلِيفَةَ بِالْأَنْصَارِ الَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُهَاجِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ يَقْبَلَ مِنْ مُحْسِنِهِمْ، وَيَعْفُوَ عَنْ مُسِيئِهِمْ".
ہم سے احمد بن یونس بیان کیا، کہا ہم سے ابوبکر نے بیان کیا، ان سے حصین نے، ان سے عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے (زخمی ہونے کے بعد انتقال سے پہلے) فرمایا تھا میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو مہاجرین اولین کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ وہ ان کا حق پہچانے اور میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں جو دارالسلام اور ایمان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے ہی سے قرار پکڑے ہوئے ہیں یہ کہ ان میں جو نیکوکار ہیں ان کی عزت کرے اور ان کے غلط کاروں سے درگزر کرے۔
Narrated `Umar: I recommend that my successor should take care of and secure the rights of the early emigrants; and I also advise my successor to be kind to the Ansar who had homes (in Medina) and had adopted the Faith, before the Prophet migrated to them, and to accept the good from their good ones and excuse their wrong doers.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 410
الخصاصة الفاقة المفلحون الفائزون بالخلود والفلاح البقاء حي على الفلاح عجل، وقال الحسن: حاجة حسدا.الْخَصَاصَةُ الْفَاقَةُ الْمُفْلِحُونَ الْفَائِزُونَ بِالْخُلُودِ وَالْفَلَاحُ الْبَقَاءُ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ عَجِّلْ، وَقَالَ الْحَسَنُ: حَاجَةً حَسَدًا.
«الخصاصة» کے معنی فاقہ کے ہیں۔ «المفلحون» ہمیشہ کامیاب رہنے والے۔ «الفلاح» باقی رہنا۔ «حي على الفلاح» بقا کی طرف جلد آؤ یعنی اس کام کی طرف جس سے حیات ابدی حاصل ہو اور امام حسن بصری نے کہا «لا يجيدون في صدورهم»، «حاجة» میں «حاجت» سے «حسد» مراد ہے۔
(مرفوع) حدثني يعقوب بن إبراهيم بن كثير، حدثنا ابو اسامة، حدثنا فضيل بن غزوان، حدثنا ابو حازم الاشجعي، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: اتى رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، اصابني الجهد، فارسل إلى نسائه، فلم يجد عندهن شيئا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الا رجل يضيفه هذه الليلة يرحمه الله"، فقام رجل من الانصار، فقال: انا يا رسول الله، فذهب إلى اهله، فقال لامراته: ضيف رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تدخريه شيئا، قالت: والله ما عندي إلا قوت الصبية، قال: فإذا اراد الصبية العشاء فنوميهم وتعالي، فاطفئي السراج، ونطوي بطوننا الليلة، ففعلت، ثم غدا الرجل على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" لقد عجب الله عز وجل او ضحك من فلان وفلانة، فانزل الله عز وجل: ويؤثرون على انفسهم ولو كان بهم خصاصة سورة الحشر آية 9".(مرفوع) حَدَّثَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ غَزْوَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ الْأَشْجَعِيُّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَتَى رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَصَابَنِي الْجَهْدُ، فَأَرْسَلَ إِلَى نِسَائِهِ، فَلَمْ يَجِدْ عِنْدَهُنَّ شَيْئًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَا رَجُلٌ يُضَيِّفُهُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ يَرْحَمُهُ اللَّهُ"، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَذَهَبَ إِلَى أَهْلِهِ، فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ: ضَيْفُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَدَّخِرِيهِ شَيْئًا، قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا عِنْدِي إِلَّا قُوتُ الصِّبْيَةِ، قَالَ: فَإِذَا أَرَادَ الصِّبْيَةُ الْعَشَاءَ فَنَوِّمِيهِمْ وَتَعَالَيْ، فَأَطْفِئِي السِّرَاجَ، وَنَطْوِي بُطُونَنَا اللَّيْلَةَ، فَفَعَلَتْ، ثُمَّ غَدَا الرَّجُلُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" لَقَدْ عَجِبَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَوْ ضَحِكَ مِنْ فُلَانٍ وَفُلَانَةَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ سورة الحشر آية 9".
مجھ سے یعقوب بن ابراہیم بن کثیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے فضیل بن غزوان نے بیان کیا، ان سے ابوحازم اشجعی نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صاحب خود (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ) حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں فاقہ سے ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ازواج مطہرات کے پاس بھیجا (کہ وہ آپ کی دعوت کریں) لیکن ان کے پاس کوئی چیز کھانے کی نہیں تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا کوئی شخص ایسا نہیں جو آج رات اس مہمان کی میزبانی کرے؟ اللہ اس پر رحم کرے گا۔ اس پر ایک انصاری صحابی (ابوطلحہ) کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ آج میرے مہمان ہیں پھر وہ انہیں اپنے ساتھ گھر لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان ہیں، کوئی چیز ان سے بچا کے نہ رکھنا۔ بیوی نے کہا اللہ کی قسم میرے پاس اس وقت بچوں کے کھانے کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے۔ انصاری صحابی نے کہا اگر بچے کھانا مانگیں تو انہیں سلا دو اور آؤ یہ چراغ بھی بجھا دو، آج رات ہم بھوکے ہی رہ لیں گے۔ بیوی نے ایسا ہی کیا۔ پھر وہ انصاری صحابی صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں (انصاری صحابی) اور ان کی بیوی (کے عمل) کو پسند فرمایا۔ یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ) اللہ تعالیٰ مسکرایا پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ويؤثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة» یعنی اور اپنے سے مقدم رکھتے ہیں اگرچہ خود فاقہ میں ہی ہوں۔
Narrated Abu Huraira: A man came to Allah's Messenger and said, "O Allah's Messenger ! I am suffering from fatigue and hunger." The Prophet sent (somebody) to his wives (to get something), but the messenger found nothing with them. Then Allah's Messenger said (to his companions). "Isn't there anybody who can entertain this man tonight so that Allah may be merciful to him?" An Ansari man got up and said, "I (will, entertain him), O Allah's Messenger !" So he went to his wife and said to her, "This is the guest of Allah's Messenger , so do not keep anything away from him." She said. "By Allah, I have nothing but the children's food." He said, "When the children ask for their dinner, put them to bed and put out the light; we shall not take our meals tonight," She did so. In the morning the Ansari man went to Allah's Messenger who said, "Allah was pleased with (or He bestowed His Mercy) on so-and-so and his wife (because of their good deed)." Then Allah revealed: 'But give them preference over themselves even though they were in need of that.' (59.9)
USC-MSA web (English) Reference: Volume ., Book ., Number .
وقال مجاهد: لا تجعلنا فتنة: لا تعذبنا بايديهم، فيقولون: لو كان هؤلاء على الحق ما اصابهم هذا، بعصم الكوافر: امر اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم بفراق نسائهم كن كوافر بمكة.وَقَالَ مُجَاهِدٌ: لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً: لَا تُعَذِّبْنَا بِأَيْدِيهِمْ، فَيَقُولُونَ: لَوْ كَانَ هَؤُلَاءِ عَلَى الْحَقِّ مَا أَصَابَهُمْ هَذَا، بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ: أُمِرَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِفِرَاقِ نِسَائِهِمْ كُنَّ كَوَافِرَ بِمَكَّةَ.
مجاہد نے کہا «لا تجعلنا فتنة للذين كفروا» کا معنی یہ ہے کہ کافروں کے ہاتھوں سے ہم کو تکلیف نہ پہنچا، وہ یوں کہنے لگیں اگر ان مسلمانوں کا دین سچا ہوتا تو یہ ہمارے ہاتھ سے مغلوب کیوں ہوتے ایسی تکلیفیں کیوں اٹھاتے۔ «بعصم الكوافر» سے یہ مراد ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو یہ حکم ہوا کہ ان کافر عورتوں کو چھوڑ دیں جو مکہ میں بحالت کفر رہ گئیں ہیں۔
(مرفوع) حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، حدثنا عمرو بن دينار، قال: حدثني الحسن بن محمد بن علي، انه سمع عبيد الله بن ابي رافع كاتب علي، يقول: سمعت عليا رضي الله عنه، يقول: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم انا والزبير والمقداد، فقال:" انطلقوا حتى تاتوا روضة خاخ، فإن بها ظعينة معها كتاب، فخذوه منها، فذهبنا تعادى بنا خيلنا حتى اتينا الروضة، فإذا نحن بالظعينة، فقلنا: اخرجي الكتاب، فقالت: ما معي من كتاب، فقلنا: لتخرجن الكتاب، او لنلقين الثياب، فاخرجته من عقاصها، فاتينا به النبي صلى الله عليه وسلم، فإذا فيه من حاطب بن ابي بلتعة إلى اناس من المشركين ممن بمكة يخبرهم ببعض امر النبي صلى الله عليه وسلم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ما هذا يا حاطب؟" قال: لا تعجل علي يا رسول الله، إني كنت امرا من قريش ولم اكن من انفسهم، وكان من معك من المهاجرين لهم قرابات يحمون بها اهليهم واموالهم بمكة، فاحببت إذ فاتني من النسب فيهم ان اصطنع إليهم يدا يحمون قرابتي وما فعلت ذلك كفرا ولا ارتدادا عن ديني، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" إنه قد صدقكم" فقال عمر: دعني يا رسول الله، فاضرب عنقه، فقال:" إنه شهد بدرا وما يدريك لعل الله عز وجل اطلع على اهل بدر، فقال:" اعملوا ما شئتم فقد غفرت لكم"، قال عمرو: ونزلت فيه يايها الذين آمنوا لا تتخذوا عدوي وعدوكم اولياء سورة الممتحنة آية 1، قال: لا ادري الآية في الحديث، او قول عمرو. حدثنا علي، قال: قيل لسفيان في هذا، فنزلت لا تتخذوا عدوي وعدوكم اولياء سورة الممتحنة آية 1 الآية، قال سفيان: هذا في حديث الناس حفظته من عمرو ما تركت منه حرفا وما ارى احدا حفظه غيري.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي رَافِعٍ كَاتِبَ عَلِيٍّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَالزُّبَيْرَ وَالْمِقْدَادَ، فَقَالَ:" انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ، فَإِنَّ بِهَا ظَعِينَةً مَعَهَا كِتَابٌ، فَخُذُوهُ مِنْهَا، فَذَهَبْنَا تَعَادَى بِنَا خَيْلُنَا حَتَّى أَتَيْنَا الرَّوْضَةَ، فَإِذَا نَحْنُ بِالظَّعِينَةِ، فَقُلْنَا: أَخْرِجِي الْكِتَابَ، فَقَالَتْ: مَا مَعِي مِنْ كِتَابٍ، فَقُلْنَا: لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ، أَوْ لَنُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ، فَأَخْرَجَتْهُ مِنْ عِقَاصِهَا، فَأَتَيْنَا بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا فِيهِ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى أُنَاسٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ مِمَّنْ بِمَكَّةَ يُخْبِرُهُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا هَذَا يَا حَاطِبُ؟" قَالَ: لَا تَعْجَلْ عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ امْرَأً مِنْ قُرَيْشٍ وَلَمْ أَكُنْ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، وَكَانَ مَنْ مَعَكَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ لَهُمْ قَرَابَاتٌ يَحْمُونَ بِهَا أَهْلِيهِمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِمَكَّةَ، فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِي مِنَ النَّسَبِ فِيهِمْ أَنْ أَصْطَنِعَ إِلَيْهِمْ يَدًا يَحْمُونَ قَرَابَتِي وَمَا فَعَلْتُ ذَلِكَ كُفْرًا وَلَا ارْتِدَادًا عَنْ دِينِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُ قَدْ صَدَقَكُمْ" فَقَالَ عُمَرُ: دَعْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، فَقَالَ:" إِنَّهُ شَهِدَ بَدْرًا وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ:" اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ"، قَالَ عَمْرٌو: وَنَزَلَتْ فِيهِ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ سورة الممتحنة آية 1، قَالَ: لَا أَدْرِي الْآيَةَ فِي الْحَدِيثِ، أَوْ قَوْلُ عَمْرٍو. حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، قَالَ: قِيلَ لِسُفْيَانَ فِي هَذَا، فَنَزَلَتْ لا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ سورة الممتحنة آية 1 الْآيَةَ، قَالَ سُفْيَانُ: هَذَا فِي حَدِيثِ النَّاسِ حَفِظْتُهُ مِنْ عَمْرٍو مَا تَرَكْتُ مِنْهُ حَرْفًا وَمَا أُرَى أَحَدًا حَفِظَهُ غَيْرِي.
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے حسن بن محمد بن علی نے بیان کیا، انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کے کاتب عبیداللہ بن ابی رافع سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، زبیر اور مقداد رضی اللہ عنہما کو روانہ کیا اور فرمایا کہ چلے جاؤ اور جب مقام خاخ کے باغ پر پہنچ جاؤ گے (جو مکہ اور مدینہ کے درمیان تھا) تو وہاں تمہیں ہودج میں ایک عورت ملے گی، اس کے ساتھ ایک خط ہو گا، وہ خط تم اس سے لے لینا۔ چنانچہ ہم روانہ ہوئے ہمارے گھوڑے ہمیں تیز رفتاری کے ساتھ لے جا رہے تھے۔ آخر جب ہم اس باغ پر پہنچے تو واقعی وہاں ہم نے ہودج میں اس عورت کو پا لیا ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال۔ اس نے کہا میرے پاس کوئی خط نہیں ہے ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال دے ورنہ ہم تیرا سارا کپڑا اتار کر تلاشی لیں گے۔ آخر اس نے اپنی چوٹی سے خط نکالا ہم لوگ وہ خط لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس خط میں لکھا ہوا تھا کہ حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین کے چند آدمیوں کی طرف جو مکہ میں تھے اس خط میں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیاری کا ذکر لکھا تھا (کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بڑی فوج لے کر آتے ہیں تم اپنا بچاؤ کر لو)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: حاطب! یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے معاملہ میں جلدی نہ فرمائیں میں قریش کے ساتھ بطور حلیف (زمانہ قیام مکہ میں) رہا کرتا تھا لیکن ان کے قبیلہ و خاندان سے میرا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کے برخلاف آپ کے ساتھ جو دوسرے مہاجرین ہیں ان کی قریش میں رشتہ داریاں ہیں اور ان کی رعایت سے قریش مکہ میں رہ جانے والے ان کے اہل و عیال اور مال کی حفاظت کرتے ہیں۔ میں نے چاہا کہ جبکہ ان سے میرا کوئی نسبی تعلق نہیں ہے تو اس موقع پر ان پر ایک احسان کر دوں اور اس کی وجہ سے وہ میرے رشتہ داروں کی مکہ میں حفاظت کریں۔ یا رسول اللہ! میں نے یہ عمل کفر یا اپنے دین سے پھر جانے کی وجہ سے نہیں کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یقیناً انہوں نے تم سے سچی بات کہہ دی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ بولے کہ یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن مار دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بدر کی جنگ میں ہمارے ساتھ موجود تھے۔ تمہیں کیا معلوم، اللہ تعالیٰ بدر والوں کے تمام حالات سے واقف تھا اور اس کے باوجود ان کے متعلق فرما دیا کہ جو جی چاہے کرو کہ میں نے تمہیں معاف کر دیا۔ عمرو بن دینار نے کہا کہ حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ ہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی «يا أيها الذين آمنوا لا تتخذوا عدوي وعدوكم» کہ الایۃ۔ ”اے ایمان والو! تم میرے دشمن اور اپنے دشمن کو دوست نہ بنا لینا۔“ سفیان بن عیینہ نے کہا کہ مجھے اس کا علم نہیں کہ اس آیت کا ذکر حدیث میں داخل ہے یا نہیں یہ عمرو بن دینار کا قول ہے۔ ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا کہ سفیان بن عیینہ سے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا آیت «لا تتخذوا عدوي» انہیں کے بارے میں نازل ہوئی تھی؟ سفیان نے کہا کہ لوگوں کی روایت میں تو یونہی ہے لیکن میں نے عمرو سے حدیث یاد کی اس میں سے ایک حرف بھی میں نے نہیں چھوڑا اور میں نہیں سمجھتا کہ میرے سوا اور کسی نے اس حدیث کو عمرو سے خوب یاد رکھا ہو۔
Narrated `Ali: Allah's Messenger sent me along with AzZubair and Al-Miqdad and said, "Proceed till you reach a place called Raudat-Khakh where there is a lady travelling in a howda on a camel. She has a letter. Take the letter from her." So we set out, and our horses ran at full pace till we reached Raudat Khakh, and behold, we saw the lady and said (to her), "Take out the letter!" She said, "I have no letter with me." We said, "Either you take out the letter or we will strip you of your clothes." So she took the letter out of her hair braid. We brought the letter to the Prophet and behold, it was addressed by Hatib bin Abi Balta'a to some pagans at Mecca, informing them of some of the affairs of the Prophet. The Prophet said, "What is this, O Hatib?" Hatib replied, "Do not be hasty with me, O Allah's Messenger ! I am an Ansari man and do not belong to them (Quraish infidels) while the emigrants who were with you had their relatives who used to protect their families and properties at Mecca. So, to compensate for not having blood relation with them.' I intended to do them some favor so that they might protect my relatives (at Mecca), and I did not do this out of disbelief or an inclination to desert my religion." The Prophet then said (to his companions), "He (Hatib) has told you the truth." `Umar said, "O Allah's Apostle! Allow me to chop his head off?" The Apostle said, "He is one of those who witnessed (fought in) the Battle of Badr, and what do you know, perhaps Allah looked upon the people of Badr (Badr warriors) and said, 'Do what you want as I have forgiven you.' " (`Amr, a sub-narrator, said,: This Verse was revealed about him (Hatib): 'O you who believe! Take not My enemies and your enemies as friends or protectors.' (60.1) Narrated `Ali: Sufyan was asked whether (the Verse): 'Take not My enemies and your enemies...' was revealed in connection with Hatib. Sufyan replied, "This occurs only in the narration of the people. I memorized the Hadith from `Amr, not overlooking even a single letter thereof, and I do not know of anybody who remembered it by heart other than myself."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 412, 413
(مرفوع) حدثنا إسحاق، حدثنا يعقوب بن إبراهيم بن سعد، حدثنا ابن اخي ابن شهاب، عن عمه، اخبرني عروة، ان عائشة رضي الله عنها زوج النبي صلى الله عليه وسلم اخبرته، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يمتحن من هاجر إليه من المؤمنات بهذه الآية بقول الله: يايها النبي إذا جاءك المؤمنات يبايعنك إلى قوله غفور رحيم سورة الممتحنة آية 12، قال عروة، قالت عائشة: فمن اقر بهذا الشرط من المؤمنات، قال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قد بايعتك"، كلاما ولا والله ما مست يده يد امراة قط في المبايعة ما يبايعهن إلا بقوله قد بايعتك على ذلك". تابعه يونس، ومعمر، وعبد الرحمن بن إسحاق، عن الزهري، وقال إسحاق بن راشد: عن الزهري، عن عروة، وعمرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَمِّهِ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْتَحِنُ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ بِهَذِهِ الْآيَةِ بِقَوْلِ اللَّهِ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ إِلَى قَوْلِهِ غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة الممتحنة آية 12، قَالَ عُرْوَةُ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَمَنْ أَقَرَّ بِهَذَا الشَّرْطِ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ، قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ بَايَعْتُكِ"، كَلَامًا وَلَا وَاللَّهِ مَا مَسَّتْ يَدُهُ يَدَ امْرَأَةٍ قَطُّ فِي الْمُبَايَعَةِ مَا يُبَايِعُهُنَّ إِلَّا بِقَوْلِهِ قَدْ بَايَعْتُكِ عَلَى ذَلِكِ". تَابَعَهُ يُونُسُ، وَمَعْمَرٌ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، وَقَالَ إِسْحَاقُ بْنُ رَاشِدٍ: عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، وَعَمْرَةَ.
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن شہاب کے بھتیجے نے اپنے چچا محمد بن مسلم سے، انہیں عروہ نے خبر دی اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ان مومن عورتوں کا امتحان لیا کرتے تھے جو ہجرت کر کے مدینہ آتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تھا «يا أيها النبي إذا جاءك المؤمنات يبايعنك» کہ ”اے نبی! جب آپ سے مسلمان عورتیں بیعت کرنے کے لیے آئیں“ ارشاد «غفور رحيم» تک۔ عروہ نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا چنانچہ جو عورت اس شرط (آیت میں مذکور یعنی ایمان وغیرہ) کا اقرار کر لیتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے زبانی طور پر فرماتے کہ میں نے تمہاری بیعت قبول کر لی اور ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے کسی عورت کا ہاتھ بیعت لیتے وقت کبھی نہیں چھوا صرف آپ ان سے زبانی بیعت لیتے تھے کہ آیت میں مذکورہ باتوں پر قائم رہنا۔ اس روایت کی متابعت یونس، معمر اور عبدالرحمٰن بن اسحاق نے زہری سے کی اور اسحاق بن راشد نے زہری سے بیان کیا کہ ان سے عروہ اور عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے کہا۔
Narrated `Urwa: Aisha the wife of the Prophet, said, "Allah's Messenger used to examine the believing women who migrated to him in accordance with this Verse: 'O Prophet! When believing women come to you to take the oath of allegiance to you... Verily! Allah is Oft-Forgiving Most Merciful.' (60.12) `Aisha said, "And if any of the believing women accepted the condition (assigned in the above-mentioned Verse), Allah's Messenger would say to her. "I have accepted your pledge of allegiance." "He would only say that, for, by Allah, his hand never touched, any lady during that pledge of allegiance. He did not receive their pledge except by saying, "I have accepted your pledge of allegiance for that."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 414
(مرفوع) حدثنا ابو معمر، حدثنا عبد الوارث، حدثنا ايوب، عن حفصة بنت سيرين، عن ام عطية رضي الله عنها، قالت:" بايعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقرا علينا: ان لا يشركن بالله شيئا سورة الممتحنة آية 12، ونهانا عن النياحة، فقبضت امراة يدها، فقالت: اسعدتني فلانة اريد ان اجزيها، فما قال لها النبي صلى الله عليه وسلم شيئا، فانطلقت، ورجعت، فبايعها".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَ عَلَيْنَا: أَنْ لا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا سورة الممتحنة آية 12، وَنَهَانَا عَنِ النِّيَاحَةِ، فَقَبَضَتِ امْرَأَةٌ يَدَهَا، فَقَالَتْ: أَسْعَدَتْنِي فُلَانَةُ أُرِيدُ أَنْ أَجْزِيَهَا، فَمَا قَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، فَانْطَلَقَتْ، وَرَجَعَتْ، فَبَايَعَهَا".
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے، کہا ہم سے ایوب نے، ان سے حفصہ بنت سیرین نے اور ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تو آپ نے ہمارے سامنے اس آیت کی تلاوت کی «أن لا يشركن بالله شيئا» کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی اور ہمیں نوحہ (یعنی میت پر زور زور سے رونا پیٹنا) کرنے سے منع فرمایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ممانعت پر ایک عورت (خود ام عطیہ رضی اللہ عنہا) نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور عرض کیا کہ فلاں عورت نے نوحہ میں میری مدد کی تھی، میں چاہتی ہوں کہ اس کا بدلہ چکا آؤں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا چنانچہ وہ گئیں اور پھر دوبارہ آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔
Narrated Um Atiya: We took the oath of allegiance to Allah's Messenger and he recited to us: 'They will not associate anything in worship with Allah,' and forbade us to bewail the dead. Thereupon a lady withdrew her hand (refrained from taking the oath of allegiance), and said, "But such-and-such lady lamented over one of my relatives, so I must reward (do the same over the dead relatives of) hers." The Prophet did not object to that, so she went (there) and returned to the Prophet so he accepted her pledge of allegiance.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 415
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے میرے والد نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے زبیر سے سنا، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «ولا يعصينك في معروف» یعنی ”اور بھلی باتوں (اور اچھے کاموں میں) آپ کی نافرمانی نہ کریں گی۔“ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ بھی ایک شرط تھی جسے اللہ تعالیٰ نے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کے وقت) عورتوں کے لیے ضروری قرار دیا تھا۔
Narrated Ibn `Abbas: Regarding the saying of Allah: 'And they will not disobey you in any just matter.' (60.12) That was one of the conditions which Allah imposed on The believing) women (who came to take the oath of allegiance to the Prophet).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 416