الخصاصة الفاقة المفلحون الفائزون بالخلود والفلاح البقاء حي على الفلاح عجل، وقال الحسن: حاجة حسدا.الْخَصَاصَةُ الْفَاقَةُ الْمُفْلِحُونَ الْفَائِزُونَ بِالْخُلُودِ وَالْفَلَاحُ الْبَقَاءُ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ عَجِّلْ، وَقَالَ الْحَسَنُ: حَاجَةً حَسَدًا.
«الخصاصة» کے معنی فاقہ کے ہیں۔ «المفلحون» ہمیشہ کامیاب رہنے والے۔ «الفلاح» باقی رہنا۔ «حي على الفلاح» بقا کی طرف جلد آؤ یعنی اس کام کی طرف جس سے حیات ابدی حاصل ہو اور امام حسن بصری نے کہا «لا يجيدون في صدورهم»، «حاجة» میں «حاجت» سے «حسد» مراد ہے۔
(مرفوع) حدثني يعقوب بن إبراهيم بن كثير، حدثنا ابو اسامة، حدثنا فضيل بن غزوان، حدثنا ابو حازم الاشجعي، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: اتى رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، اصابني الجهد، فارسل إلى نسائه، فلم يجد عندهن شيئا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الا رجل يضيفه هذه الليلة يرحمه الله"، فقام رجل من الانصار، فقال: انا يا رسول الله، فذهب إلى اهله، فقال لامراته: ضيف رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تدخريه شيئا، قالت: والله ما عندي إلا قوت الصبية، قال: فإذا اراد الصبية العشاء فنوميهم وتعالي، فاطفئي السراج، ونطوي بطوننا الليلة، ففعلت، ثم غدا الرجل على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" لقد عجب الله عز وجل او ضحك من فلان وفلانة، فانزل الله عز وجل: ويؤثرون على انفسهم ولو كان بهم خصاصة سورة الحشر آية 9".(مرفوع) حَدَّثَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ غَزْوَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ الْأَشْجَعِيُّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَتَى رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَصَابَنِي الْجَهْدُ، فَأَرْسَلَ إِلَى نِسَائِهِ، فَلَمْ يَجِدْ عِنْدَهُنَّ شَيْئًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَا رَجُلٌ يُضَيِّفُهُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ يَرْحَمُهُ اللَّهُ"، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَذَهَبَ إِلَى أَهْلِهِ، فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ: ضَيْفُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَدَّخِرِيهِ شَيْئًا، قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا عِنْدِي إِلَّا قُوتُ الصِّبْيَةِ، قَالَ: فَإِذَا أَرَادَ الصِّبْيَةُ الْعَشَاءَ فَنَوِّمِيهِمْ وَتَعَالَيْ، فَأَطْفِئِي السِّرَاجَ، وَنَطْوِي بُطُونَنَا اللَّيْلَةَ، فَفَعَلَتْ، ثُمَّ غَدَا الرَّجُلُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" لَقَدْ عَجِبَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَوْ ضَحِكَ مِنْ فُلَانٍ وَفُلَانَةَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ سورة الحشر آية 9".
مجھ سے یعقوب بن ابراہیم بن کثیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے فضیل بن غزوان نے بیان کیا، ان سے ابوحازم اشجعی نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صاحب خود (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ) حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں فاقہ سے ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ازواج مطہرات کے پاس بھیجا (کہ وہ آپ کی دعوت کریں) لیکن ان کے پاس کوئی چیز کھانے کی نہیں تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا کوئی شخص ایسا نہیں جو آج رات اس مہمان کی میزبانی کرے؟ اللہ اس پر رحم کرے گا۔ اس پر ایک انصاری صحابی (ابوطلحہ) کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ آج میرے مہمان ہیں پھر وہ انہیں اپنے ساتھ گھر لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان ہیں، کوئی چیز ان سے بچا کے نہ رکھنا۔ بیوی نے کہا اللہ کی قسم میرے پاس اس وقت بچوں کے کھانے کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے۔ انصاری صحابی نے کہا اگر بچے کھانا مانگیں تو انہیں سلا دو اور آؤ یہ چراغ بھی بجھا دو، آج رات ہم بھوکے ہی رہ لیں گے۔ بیوی نے ایسا ہی کیا۔ پھر وہ انصاری صحابی صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں (انصاری صحابی) اور ان کی بیوی (کے عمل) کو پسند فرمایا۔ یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ) اللہ تعالیٰ مسکرایا پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ويؤثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة» یعنی اور اپنے سے مقدم رکھتے ہیں اگرچہ خود فاقہ میں ہی ہوں۔
Narrated Abu Huraira: A man came to Allah's Messenger and said, "O Allah's Messenger ! I am suffering from fatigue and hunger." The Prophet sent (somebody) to his wives (to get something), but the messenger found nothing with them. Then Allah's Messenger said (to his companions). "Isn't there anybody who can entertain this man tonight so that Allah may be merciful to him?" An Ansari man got up and said, "I (will, entertain him), O Allah's Messenger !" So he went to his wife and said to her, "This is the guest of Allah's Messenger , so do not keep anything away from him." She said. "By Allah, I have nothing but the children's food." He said, "When the children ask for their dinner, put them to bed and put out the light; we shall not take our meals tonight," She did so. In the morning the Ansari man went to Allah's Messenger who said, "Allah was pleased with (or He bestowed His Mercy) on so-and-so and his wife (because of their good deed)." Then Allah revealed: 'But give them preference over themselves even though they were in need of that.' (59.9)
USC-MSA web (English) Reference: Volume ., Book ., Number .
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4889
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں تعجب اور ضحک دو صفتوں کا اللہ کے لئے ذکر ہے جو بر حق ہے ان کی کیفیت میں بحث کرنا بدعت ہے اور ظاہر پر ایمان لانا واجب ہے۔ صفات الہیہ کو بغیر تاویل کے تسلیم کرنا ضروری ہے۔ سلف صالحین کا یہی طریقہ ہے۔ ایمان کے سلامتی اسی میں ہے کہ صرف مسلک سلف کا اتباع کیا جائے اور بس۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4889
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4889
حدیث حاشیہ: انصار کی مہاجرین کے بارے میں ایثار اور ہمدردی لازوال، باکمال اور بے مثال تھی۔ اس کے متعلق درج ذیل خوبصورت واقعہ بھی درج کیا جاتا ہے: حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ طیبہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور سعد بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان بھائی چارا کرا دیا۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت دولت مند تھے۔ انھوں نے حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا: انصار کو معلوم ہے کہ میں ان سے سب سے زیادہ مال دار ہوں، اب میں اپنا آدھا مال اپنے اور آپ کے درمیان بانٹ دینا چاہتا ہوں اور میری دو بیویاں ہیں، ان میں سے جو آپ کو پسند ہو میں اسے طلاق دے دوں گا۔ اس کی عدت گزر جانے کے بعد آپ اس سے نکاح کرلیں۔ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث: 3781) کیا اس قسم کا ایثار دنیا کی تاریخ میں ملتاہے؟!
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4889
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5359
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہنے لگا: میں بھوکا ہوں تو آپ نے اپنی کسی بیوی کے پاس پیغام بھیجا، اس نے کہا: اس ذات کی قسم، جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے، میرے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں، پھر آپ نے دوسری کی طرف پیغام بھیجا تو اس نے بھی یہ بات کہی، حتی کہ ان سب نے یہی جواب دیا، نہیں، اس ذات کی قسم، جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے، میرے پاس صرف پانی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:5359]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ضرورت مند اور محتاج کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی سے پیش آنا چاہیے، اگر انسان خود یہ کام نہ کر سکتا ہو تو پھر دوسروں کو اس کی ترغیب دے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اپنے گھروں سے اس کو کھانا مہیا کرنے کی کوشش فرمائی، یہ نہ ہو سکا تو پھر دوسروں کو ترغیب دی، پھر حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ جو ایک مالدار صحابی تھے، وہ اس کو ساتھ لے گئے، لیکن اتفاقا اس رات ان کے گھر میں مہمان کے لیے وافر کھانا نہ تھا، اس لیے انہوں نے ایک تدبیر کے ذریعہ اسے کھانا کھلایا اور اسے یہ محسوس نہ ہونے دیا کہ ان کے پاس کھانا کم ہے، اس سے سب سیر نہیں ہو سکتے، تاکہ وہ کھانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کرے۔