صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
5. بَابُ: {وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالإِيمَانَ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور ان لوگوں کا (بھی حق ہے) جو دارالسلام اور ایمان میں ان سے پہلے ہی ٹھکانا پکڑے ہوئے ہیں“، آیت میں انصار مراد ہیں۔
حدیث نمبر: 4888
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ يَعْنِي ابْنَ عَيَّاشٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أُوصِي الْخَلِيفَةَ بِالْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ أَنْ يَعْرِفَ لَهُمْ حَقَّهُمْ، وَأُوصِي الْخَلِيفَةَ بِالْأَنْصَارِ الَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُهَاجِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ يَقْبَلَ مِنْ مُحْسِنِهِمْ، وَيَعْفُوَ عَنْ مُسِيئِهِمْ".
ہم سے احمد بن یونس بیان کیا، کہا ہم سے ابوبکر نے بیان کیا، ان سے حصین نے، ان سے عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے (زخمی ہونے کے بعد انتقال سے پہلے) فرمایا تھا میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو مہاجرین اولین کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ وہ ان کا حق پہچانے اور میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں جو دارالسلام اور ایمان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے ہی سے قرار پکڑے ہوئے ہیں یہ کہ ان میں جو نیکوکار ہیں ان کی عزت کرے اور ان کے غلط کاروں سے درگزر کرے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4888 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4888
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب زخمی ہوئے تو شہادت سے پہلے انھوں نے یہ وصیت فرمائی:
میرے بعد جو خلیفہ ہو اسے چاہیے کہ پہلے پہلے ہجرت کرنے والے حضرات کا خیال رکھے کیونکہ انھوں نے دین اسلام کی سربلندی کے لیے اپنا وطن، مال و دولت اور گھر باور سب کو چھوڑ دیا۔
مہاجرین اولین وہ صحابہ ہیں جو تحویل قبلہ (قبلے کی تبدیلی)
سے پہلے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ آگئے تھے۔
اسی طرح انھوں نے انصارکے متعلق بھی وصیت فرمائی کہ انھوں نے بے یار و مدد گار مہاجرین کو مشکل وقت میں سنبھالا اور ان کا تعاون کیا، ان سے بھی خصوصی رعایت کی جائے۔
2۔
اس وصیت کا بقیہ حصہ مندرجہ ذیل ہے:
میں آنے والے خلیفے کو شہری آبادی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ یہ لوگ اسلام کی مدد کرنے والے، مال جمع کرنے والے اور دشمنان اسلام کے لیے ایک مصیبت ہیں، نیز ان سے وہی کچھ وصول کیا جائے جو ان کے پاس ان کی ضرورت سے زائد ہو اور ان کی خوشی سے لیا جائے۔
میں نے آنے والے خلیفہ کو دیہی آبادی کے ساتھ اچھا معاملہ کرنے کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ اصل عرب ہیں اور اسلام کی جڑ ہیں۔
ان سے بچا کچھا مال وصول کیا جائے اور ان کے ضرورت مند لوگوں پر خرچ کیا جائے۔
(صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه و سلم، حدیث: 3700)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4888