صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
1. بَابٌ:
1. باب:۔۔۔
(1) Chapter.
حدیث نمبر: Q4680-2
Save to word اعراب English
وقال ابن عباس: {فاختلط} فنبت بالماء من كل لون. و{قالوا اتخذ الله ولدا سبحانه هو الغني}. وقال زيد بن اسلم: {ان لهم قدم صدق} محمد صلى الله عليه وسلم وقال مجاهد خير. يقال: {تلك آيات} يعني هذه اعلام القرآن ومثله. {حتى إذا كنتم في الفلك وجرين بهم} المعنى بكم. {دعواهم} دعاؤهم {احيط بهم} دنوا من الهلكة {احاطت به خطيئته} فاتبعهم واتبعهم واحد. {عدوا} من العدوان. وقال مجاهد: {يعجل الله للناس الشر استعجالهم بالخير} قول الإنسان لولده وماله إذا غضب اللهم لا تبارك فيه والعنه {لقضي إليهم اجلهم} لاهلك من دعي عليه ولاماته. {للذين احسنوا الحسنى} مثلها حسنى {وزيادة} مغفرة. {الكبرياء} الملك.وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: {فَاخْتَلَطَ} فَنَبَتَ بِالْمَاءِ مِنْ كُلِّ لَوْنٍ. وَ{قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا سُبْحَانَهُ هُوَ الْغَنِيُّ}. وَقَالَ زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ: {أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ} مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ مُجَاهِدٌ خَيْرٌ. يُقَالُ: {تِلْكَ آيَاتُ} يَعْنِي هَذِهِ أَعْلاَمُ الْقُرْآنِ وَمِثْلُهُ. {حَتَّى إِذَا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِمْ} الْمَعْنَى بِكُمْ. {دَعْوَاهُمْ} دُعَاؤُهُمْ {أُحِيطَ بِهِمْ} دَنَوْا مِنَ الْهَلَكَةِ {أَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ} فَاتَّبَعَهُمْ وَأَتْبَعَهُمْ وَاحِدٌ. {عَدْوًا} مِنَ الْعُدْوَانِ. وَقَالَ مُجَاهِدٌ: {يُعَجِّلُ اللَّهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُمْ بِالْخَيْرِ} قَوْلُ الإِنْسَانِ لِوَلَدِهِ وَمَالِهِ إِذَا غَضِبَ اللَّهُمَّ لاَ تُبَارِكْ فِيهِ وَالْعَنْهُ {لَقُضِيَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْ} لأُهْلِكُ مَنْ دُعِيَ عَلَيْهِ وَلأَمَاتَهُ. {لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى} مِثْلُهَا حُسْنَى {وَزِيَادَةٌ} مَغْفِرَةٌ. {الْكِبْرِيَاءُ} الْمُلْكُ.
‏‏‏‏ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «فاختلط» کا معنی یہ ہے کہ پانی برسنے کی وجہ سے زمین سے ہر قسم کا سبزہ اگا۔ یعنی عیسائی کہتے ہیں کہ اللہ نے ایک بیٹا بنا رکھا ہے۔ سبحان اللہ، وہ بےنیاز ہے اور زید بن اسلم نے کہا کہ «أن لهم قدم صدق‏» سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں۔ اور مجاہد نے بیان کیا کہ اس سے بھلائی مراد ہے۔ «تلك آيات‏» میں «تلك» جو حاضر کے لیے ہے مراد اس سے غائب ہے۔ یعنی یہ قرآن کی نشانیاں ہیں، اسی طرح اس آیت۔ «حتى إذا كنتم في الفلك وجرين بهم‏» میں «بهم‏» سے «بكم‏.‏» مراد ہے یعنی غائب سے حاضر مراد ہے۔ «دعواهم‏» ای «دعاؤهم‏» ان کی دعا «أحيط بهم‏» یعنی ہلاکت و بربادی کے قریب آ گئے، جیسے «أحاطت به خطيئته‏» یعنی گناہوں نے اس کو سب طرف سے گھیر لیا۔ «فاتبعهم» اور «وأتبعهم» کے ایک معنی ہیں۔ «عدوا‏»، «عدوان‏.‏» سے نکلا ہے۔ آیت «يعجل الله للناس الشر استعجالهم بالخير‏» کے متعلق مجاہد نے کہا کہ اس سے مراد غصہ کے وقت آدمی کا اپنی اولاد اور اپنے مال کے متعلق یہ کہنا کہ اے اللہ! اس میں برکت نہ فرما اور اس کو اپنی رحمت سے دور کر دے تو (بعض اوقات ان کی یہ دعا نہیں لگتی) کیونکہ ان کی تقدیر کا فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہوتا ہے اور (بعض اوقات) جس پر بددعا کی جاتی ہے، وہ ہلاک و برباد ہو جاتے ہیں۔ «للذين أحسنوا الحسنى‏» میں مجاہد نے کہا «زيادة‏» سے مغفرت اور اللہ کی رضا مندی مراد ہے دوسرے لوگوں نے کہا «وزيادة‏» سے اللہ کا دیدار مراد ہے۔ «الكبرياء‏» سے سلطنت اور بادشاہی مراد ہے۔
2. بَابُ: {وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَعَدْوًا حَتَّى إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنْتُ أَنَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ}:
2. باب: آیت کی تفسیر ”اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر کے پار کر دیا، پھر فرعون اور اس کے لشکر نے ظلم کرنے کے (ارادہ) سے ان کا پیچھا کیا۔ (وہ سب سمندر میں ڈوب گئے اور فرعون بھی ڈوبنے لگا تو وہ بولا) میں ایمان لاتا ہوں کہ کوئی خدا نہیں سوائے اس کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں بھی مسلمان ہوتا ہوں“۔
(2) Chapter. “And We took the Children of Israel across the sea, and Firaun (Pharaoh) and his hosts followed them in oppression and enmity, till when the drowning overtook him, he said, ’I believe that La ilaha illa (Huwa) (none has the right to be worshipped but) He (Allah), in Whom the Children of Israel believe, and I am one of the Muslims (those who submit to Allah’s Will).’ " (V.10:90)
حدیث نمبر: Q4680
Save to word اعراب English
ننجيك: نلقيك على نجوة من الارض وهو النشز المكان المرتفع.نُنَجِّيكَ: نُلْقِيكَ عَلَى نَجْوَةٍ مِنَ الْأَرْضِ وَهُوَ النَّشَزُ الْمَكَانُ الْمُرْتَفِعُ.
‏‏‏‏ «ننجيك» بمعنی «نلقيك» ۔ «على نجوة من الأرض» میں «نجوة» بمعنی «وهو النشز المكان المرتفع» یعنی ہم تیری لاش کو «نجوة» (اونچی جگہ) پر ڈال دیں گے جس کو سب دیکھیں اور عبرت حاصل کریں۔
حدیث نمبر: 4680
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن ابي بشر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة، واليهود تصوم عاشوراء، فقالوا: هذا يوم ظهر فيه موسى على فرعون، فقال: النبي صلى الله عليه وسلم لاصحابه:" انتم احق بموسى منهم، فصوموا".(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، وَالْيَهُودُ تَصُومُ عَاشُورَاءَ، فَقَالُوا: هَذَا يَوْمٌ ظَهَرَ فِيهِ مُوسَى عَلَى فِرْعَوْنَ، فَقَالَ: النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ:" أَنْتُمْ أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْهُمْ، فَصُومُوا".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہود عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اسی دن موسیٰ علیہ السلام کو فرعون پر فتح ملی تھی۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام کے ہم ان سے بھی زیادہ مستحق ہیں اس لیے تم بھی روزہ رکھو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn `Abbas: When the Prophet arrived at Medina, the Jews were observing the fast on 'Ashura' (10th of Muharram) and they said, "This is the day when Moses became victorious over Pharaoh," On that, the Prophet said to his companions, "You (Muslims) have more right to celebrate Moses' victory than they have, so observe the fast on this day."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 202


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
11. سورة هُودٍ:
11. باب: سورۃ ہود کی تفسیر۔
(11) SURAH HUD (The Prophet Hud)
حدیث نمبر: Q4681-2
Save to word اعراب English
وقال ابو ميسرة الاواه الرحيم: بالحبشية، وقال ابن عباس: بادئ الراي: ما ظهر لنا، وقال مجاهد: الجودي: جبل بالجزيرة، وقال الحسن: إنك لانت الحليم، يستهزئون به، وقال ابن عباس: اقلعي: امسكي، عصيب: شديد، لا جرم: بلى، وفار التنور: نبع الماء، وقال عكرمة: وجه الارض.وَقَالَ أَبُو مَيْسَرَةَ الْأَوَّاهُ الرَّحِيمُ: بِالْحَبَشِيَّةِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: بَادِئَ الرَّأْيِ: مَا ظَهَرَ لَنَا، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: الْجُودِيُّ: جَبَلٌ بِالْجَزِيرَةِ، وَقَالَ الْحَسَنُ: إِنَّكَ لَأَنْتَ الْحَلِيمُ، يَسْتَهْزِئُونَ بِهِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَقْلِعِي: أَمْسِكِي، عَصِيبٌ: شَدِيدٌ، لَا جَرَمَ: بَلَى، وَفَارَ التَّنُّورُ: نَبَعَ الْمَاءُ، وَقَالَ عِكْرِمَةُ: وَجْهُ الْأَرْضِ.
‏‏‏‏ ابومیسرہ (عمرو بن شرحبیل) نے کہا «الأواه» ‏‏‏‏ حبشی زبان میں مہربان، رحم دل کو کہتے ہیں۔ اور ابن عباس نے کہا «بادئ الرأي» کا معنی جو ہم کو ظاہر ہوا۔ اور مجاہد نے کہا «جودي» ایک پہاڑ ہے اس جزیرے میں جو دجلہ اور فرات کے بیچ میں موصل کے قریب ہے۔ اور امام حسن بصری نے کہا۔ «إنك لأنت الحليم» یہ کافروں نے شعیب کو ٹھٹھے کی راہ سے کہا تھا۔ اور ابن عباس نے کہا «أقلعي» ‏‏‏‏ کے معنی تھم جا۔ «عصيب» کے معنی سخت۔ «لا جرم» کا معنی کیوں نہیں (یعنی ضروری ہے)۔ «وفار التنور» کا معنی پانی پھوٹ نکلا۔ عکرمہ نے کہا «تنور» سطح زمین کو کہتے ہیں۔
1. بَابُ: {أَلاَ إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ أَلاَ حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ}:
1. باب: آیت کی تفسیر ”خبردار ہو، وہ لوگ جو اپنے سینوں کو دہرا کئے دیتے ہیں، تاکہ اپنی باتیں اللہ سے چھپا سکیں وہ غلطی پر ہیں، اللہ سینے کے بھیدوں سے واقف ہے۔ خبردار رہو! وہ لوگ جس وقت چھپنے کے لیے اپنے کپڑے لپیٹتے ہیں (اس وقت بھی) وہ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں، بیشک وہ (ان کے) دلوں کے اندر (کی باتوں) سے خوب خبردار ہے“۔
(1) Chapter. “No doubt! They did fold up their breasts, that they may from Him. Surely, even when they cover themselves with their garments, He knows what they conceal and what they reveal. Verily, He is the All- Knower of the (innermost secrets) of the breasts." (V.11:5)
حدیث نمبر: Q4681
Save to word اعراب English
وقال غيره: {وحاق} نزل، يحيق ينزل. يئوس فعول من يئست. وقال مجاهد: {تبتئس} تحزن. {يثنون صدورهم} شك وامتراء في الحق. {ليستخفوا منه} من الله إن استطاعوا.وَقَالَ غَيْرُهُ: {وَحَاقَ} نَزَلَ، يَحِيقُ يَنْزِلُ. يَئُوسٌ فَعُولٌ مِنْ يَئِسْتُ. وَقَالَ مُجَاهِدٌ: {تَبْتَئِسْ} تَحْزَنْ. {يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ} شَكٌّ وَامْتِرَاءٌ فِي الْحَقِّ. {لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ} مِنَ اللَّهِ إِنِ اسْتَطَاعُوا.
‏‏‏‏ عکرمہ کے سوا اور لوگوں نے کہا کہ «حاق» کا معنی اتر پڑا اسی سے ہے «يحيق ينزل» اترتا ہے۔ «انه ليوس كفور» میں «يوس» کا معنی ناامید ہونا۔ جو بروزن «فعول» ہے۔ یہ «يئست» سے نکلا ہے اور مجاہد نے کہا «لا تبتئس» کا معنی غم نہ کھا «يثنون صدورهم» کا مطلب یہ ہے کہ حق بات میں شک و شبہ کرتے ہیں۔ «ليستخفوا منه» یعنی اگر ہو سکے تو اللہ سے چھپا لیں۔
حدیث نمبر: 4681
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثنا الحسن بن محمد بن صباح، حدثنا حجاج، قال: قال ابن جريج: اخبرني محمد بن عباد بن جعفر، انه سمع ابن عباس يقرا: 0 الا إنهم تثنوني صدورهم 0، قال:" سالته عنها"، فقال:" اناس كانوا يستحيون ان يتخلوا، فيفضوا إلى السماء وان يجامعوا نساءهم، فيفضوا إلى السماء فنزل ذلك فيهم".(موقوف) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ صَبَّاحٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادِ بْنِ جَعْفَرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقْرَأُ: 0 أَلَا إِنَّهُمْ تَثْنَوْنِي صُدُورُهُمْ 0، قَالَ:" سَأَلْتُهُ عَنْهَا"، فَقَالَ:" أُنَاسٌ كَانُوا يَسْتَحْيُونَ أَنْ يَتَخَلَّوْا، فَيُفْضُوا إِلَى السَّمَاءِ وَأَنْ يُجَامِعُوا نِسَاءَهُمْ، فَيُفْضُوا إِلَى السَّمَاءِ فَنَزَلَ ذَلِكَ فِيهِمْ".
ہم سے حسن بن محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے حجاج بن محمد اعور نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، کہا کہ مجھ کو محمد بن عباد بن جعفر نے خبر دی اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ آپ آیت کی قرآت اس طرح کرتے تھے «ألا إنهم تثنوني صدورهم‏» میں نے ان سے آیت کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ اس میں حیاء کرتے تھے کہ کھلی ہوئی جگہ میں حاجت کے لیے بیٹھنے میں، آسمان کی طرف ستر کھولنے میں، اس طرح صحبت کرتے وقت آسمان کی طرف کھولنے میں پروردگار سے شرماتے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Muhammad bin `Abbas bin Ja`far: That he heard Ibn `Abbas reciting: "No doubt! They fold up their breasts." (11.5) and asked him about its explanation. He said, "Some people used to hide themselves while answering the call of nature in an open space lest they be exposed to the sky, and also when they had sexual relation with their wives in an open space lest they be exposed to the sky, so the above revelation was sent down regarding them."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 203


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4682
Save to word اعراب English
(موقوف) حدثني إبراهيم بن موسى، اخبرنا هشام، عن ابن جريج، واخبرني محمد بن عباد بن جعفر، ان ابن عباس، قرا: 0 الا إنهم تثنوني صدورهم 0، قلت:" يا ابا العباس، ما تثنوني صدورهم؟ قال: كان الرجل يجامع امراته فيستحي، او يتخلى، فيستحي، فنزلت 0 الا إنهم تثنوني صدورهم 0".(موقوف) حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، وَأَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادِ بْنِ جَعْفَرٍ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَرَأَ: 0 أَلَا إِنَّهُمْ تَثْنَوْنِي صُدُورُهُمْ 0، قُلْتُ:" يَا أَبَا الْعَبَّاسِ، مَا تَثْنَوْنِي صُدُورُهُمْ؟ قَالَ: كَانَ الرَّجُلُ يُجَامِعُ امْرَأَتَهُ فَيَسْتَحِي، أَوْ يَتَخَلَّى، فَيَسْتَحِي، فَنَزَلَتْ 0 أَلَا إِنَّهُمْ تَثْنَوْنِي صُدُورُهُمْ 0".
مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے، انہیں محمد بن عباد بن جعفر نے خبر دی کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اس طرح قرآت کرتے تھے «ألا إنهم تثنوني صدورهم‏» محمد بن عباد نے پوچھا: اے ابو العباس! «تثنوني صدورهم‏» کا کیا مطلب ہے؟ بتلایا کہ کچھ لوگ اپنی بیوی سے ہمبستری کرنے میں حیاء کرتے اور خلاء کے لیے بیٹھتے ہوئے بھی حیاء کرتے تھے۔ انہیں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ «ألا إنهم تثنوني صدورهم‏» آخر آیت تک۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Muhammad bin `Abbas bin Ja`far: Ibn `Abbas recited. "No doubt! They fold up their breasts." I said, "O Abu `Abbas! What is meant by "They fold up their breasts?" He said, "A man used to feel shy on having sexual relation with his wife or on answering the call of nature (in an open space) so this Verse was revealed:-- "No doubt! They fold up their breasts."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 204


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4683
Save to word اعراب English
(موقوف) حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، حدثنا عمرو، قال: قرا ابن عباس: الا إنهم يثنون صدورهم ليستخفوا منه الا حين يستغشون ثيابهم سورة هود آية 5. وقال غيره عن ابن عباس: {يستغشون} يغطون رءوسهم {سيء بهم} ساء ظنه بقومه. {وضاق بهم} باضيافه {بقطع من الليل} بسواد. وقال مجاهد: {انيب} ارجع.(موقوف) حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو، قَالَ: قَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ أَلا حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ سورة هود آية 5. وَقَالَ غَيْرُهُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: {يَسْتَغْشُونَ} يُغَطُّونَ رُءُوسَهُمْ {سِيءَ بِهِمْ} سَاءَ ظَنُّهُ بِقَوْمِهِ. {وَضَاقَ بِهِمْ} بِأَضْيَافِهِ {بِقِطْعٍ مِنَ اللَّيْلِ} بِسَوَادٍ. وَقَالَ مُجَاهِدٌ: {أُنِيبُ} أَرْجِعُ.
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت کی قرآت اس طرح کی تھی «ألا إنهم يثنون صدورهم ليستخفوا منه ألا حين يستغشون ثيابهم‏» اور عمرو بن دینار کے علاوہ اوروں نے بیان کیا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ «يستغشون‏» یعنی اپنے سر چھپا لیتے ہیں۔ «سيء بهم‏» یعنی اپنی قوم سے وہ بدگمان ہوا۔ «وضاق بهم‏» یعنی اپنے مہمانوں کو دیکھ کر وہ بدگمان ہوا کہ ان کی قوم انہیں بھی پریشان کرے گی۔ «بقطع من الليل‏» یعنی رات کی سیاہی میں اور مجاہد نے کہا «أنيب‏» کے معنی میں رجوع کرتا ہوں (متوجہ ہوتا ہوں)۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Amr: Ibn `Abbas recited:-- "No doubt! They fold up their breasts in order to hide from Him. Surely! Even when they cover themselves with their garments.." (11.5)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 205


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
2. بَابُ قَوْلِهِ: {وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ}:
2. باب: آیت کی تفسیر ”اللہ کا عرش پانی پر تھا“۔
(2) Chapter. The Statement of Allah: “...And His Throne was on the water...” (V.11:7)
حدیث نمبر: 4684
Save to word مکررات اعراب English
حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، حدثنا ابو الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: قال الله عز وجل:" انفق، انفق عليك، وقال: يد الله ملاى لا تغيضها نفقة سحاء الليل والنهار، وقال: ارايتم ما انفق منذ خلق السماء والارض، فإنه لم يغض ما في يده، وكان عرشه على الماء، وبيده الميزان، يخفض، ويرفع". {اعتراك} افتعلت من عروته اي اصبته، ومنه يعروه واعتراني {آخذ بناصيتها} اي في ملكه وسلطانه. عنيد وعنود وعاند واحد، هو تاكيد التجبر، {استعمركم} جعلكم عمارا، اعمرته الدار فهي عمرى جعلتها له. {نكرهم} وانكرهم واستنكرهم واحد {حميد مجيد} كانه فعيل من ماجد. محمود من حمد. سجيل الشديد الكبير. سجيل وسجين واللام والنون اختان، وقال تميم بن مقبل: ورجلة يضربون البيض ضاحية ** ضربا تواصى به الابطال سجينا.حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:" أَنْفِقْ، أُنْفِقْ عَلَيْكَ، وَقَالَ: يَدُ اللَّهِ مَلْأَى لَا تَغِيضُهَا نَفَقَةٌ سَحَّاءُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ، وَقَالَ: أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ، فَإِنَّهُ لَمْ يَغِضْ مَا فِي يَدِهِ، وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ، وَبِيَدِهِ الْمِيزَانُ، يَخْفِضُ، وَيَرْفَعُ". {اعْتَرَاكَ} افْتَعَلْتَ مِنْ عَرَوْتُهُ أَيْ أَصَبْتُهُ، وَمِنْهُ يَعْرُوهُ وَاعْتَرَانِي {آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا} أَيْ فِي مِلْكِهِ وَسُلْطَانِهِ. عَنِيدٌ وَعَنُودٌ وَعَانِدٌ وَاحِدٌ، هُوَ تَأْكِيدُ التَّجَبُّرِ، {اسْتَعْمَرَكُمْ} جَعَلَكُمْ عُمَّارًا، أَعْمَرْتُهُ الدَّارَ فَهْيَ عُمْرَى جَعَلْتُهَا لَهُ. {نَكِرَهُمْ} وَأَنْكَرَهُمْ وَاسْتَنْكَرَهُمْ وَاحِدٌ {حَمِيدٌ مَجِيدٌ} كَأَنَّهُ فَعِيلٌ مِنْ مَاجِدٍ. مَحْمُودٌ مِنْ حَمِدَ. سِجِّيلٌ الشَّدِيدُ الْكَبِيرُ. سِجِّيلٌ وَسِجِّينٌ وَاللاَّمُ وَالنُّونُ أُخْتَانِ، وَقَالَ تَمِيمُ بْنُ مُقْبِلٍ: وَرَجْلَةٍ يَضْرِبُونَ الْبَيْضَ ضَاحِيَةً ** ضَرْبًا تَوَاصَى بِهِ الأَبْطَالُ سِجِّينَا.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندو! (میری راہ میں) خرچ کرو تو میں بھی تم پر خرچ کروں گا اور فرمایا، اللہ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے۔ رات اور دن مسلسل کے خرچ سے بھی اس میں کم نہیں ہوتا اور فرمایا تم نے دیکھا نہیں جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے، مسلسل خرچ کئے جا رہا ہے لیکن اس کے ہاتھ میں کوئی کمی نہیں ہوئی، اس کا عرش پانی پر تھا اور اس کے ہاتھ میں میزان عدل ہے جسے وہ جھکاتا اور اٹھاتا رہتا ہے۔ «اعتراك‏» باب «افتعال» سے ہے «عروته» سے یعنی میں نے اس کو پکڑ پایا اسی سے ہے۔ «يعروه» مضارع کا صیغہ اور «اعتراني آخذ بناصيتها‏» یعنی اس کی حکومت اور قبضہ قدرت میں ہیں۔ «عنيد»، «عنود» اور «عاند» سب کے معنی ایک ہی ہیں یعنی سرکش مخالف اور یہ «جبار» کی تاکید ہے۔ «استعمركم‏» تم کو بسایا، آباد کیا۔ عرب لوگ کہتے ہیں «أعمرته الدار فهى عمرى» یعنی یہ گھر میں نے اس کو عمر بھر کے لیے دے ڈالا۔ «نكرهم‏»، «أنكرهم» اور «استنكرهم» سب کے ایک ہی معنی ہیں۔ یعنی ان کو پردیسی سمجھا۔ «حميد»، «فعيل» کے وزن پر ہے بہ معنی «محمود» میں سراہا گیا اور «مجيد‏»، «ماجد‏.‏» کے معنی میں ہے (یعنی کرم کرنے والا)۔ «سجيل» اور «سجين» دونوں کے معنی سخت اور بڑا کے ہیں۔ «لام» اور «نون» بہنیں ہیں (ایک دوسرے سے بدلی جاتی ہیں)۔ تمیم بن مقبل شاعر کہتا ہے۔ بعضے پیدل دن دھاڑے خود پر ضرب لگاتے ہیں ایسی ضرب جس کی سختی کے لیے بڑے بڑے پہلوان اپنے شاگردوں کو وصیت کیا کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: Allah's Messenger said, "Allah said, 'Spend (O man), and I shall spend on you." He also said, "Allah's Hand is full, and (its fullness) is not affected by the continuous spending night and day." He also said, "Do you see what He has spent since He created the Heavens and the Earth? Nevertheless, what is in His Hand is not decreased, and His Throne was over the water; and in His Hand there is the balance (of justice) whereby He raises and lowers (people).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 206


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
3. بَابُ: {وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا}:
3. باب: آیت کی تفسیر ”اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو (بھیجا)“۔
(3) Chapter. "And to the Madyan (Midian) people (We sent) their brother Shuaib.
حدیث نمبر: Q4685-2
Save to word اعراب English
إلى اهل مدين لان مدين بلد، ومثله: {واسال القرية} واسال {العير} يعني اهل القرية {واصحاب} العير {وراءكم ظهريا} يقول لم تلتفتوا إليه، ويقال إذا لم يقض الرجل حاجته ظهرت بحاجتي وجعلتني ظهريا، والظهري هاهنا ان تاخذ معك دابة او وعاء تستظهر به. {اراذلنا} سقاطنا. {إجرامي} هو مصدر من اجرمت وبعضهم يقول جرمت. الفلك والفلك واحد وهي السفينة والسفن. {مجراها} مدفعها وهو مصدر اجريت، وارسيت حبست ويقرا: {مرساها} من رست هي، و{مجراها} من جرت هي و{مجريها ومرسيها} من فعل بها، الراسيات ثابتات.إِلَى أَهْلِ مَدْيَنَ لأَنَّ مَدْيَنَ بَلَدٌ، وَمِثْلُهُ: {وَاسْأَلِ الْقَرْيَةَ} وَاسْأَلِ {الْعِيرَ} يَعْنِي أَهْلَ الْقَرْيَةِ {وَأَصْحَابَ} الْعِيرِ {وَرَاءَكُمْ ظِهْرِيًّا} يَقُولُ لَمْ تَلْتَفِتُوا إِلَيْهِ، وَيُقَالُ إِذَا لَمْ يَقْضِ الرَّجُلُ حَاجَتَهُ ظَهَرْتَ بِحَاجَتِي وَجَعَلْتَنِي ظِهْرِيًّا، وَالظِّهْرِيُّ هَاهُنَا أَنْ تَأْخُذَ مَعَكَ دَابَّةً أَوْ وِعَاءً تَسْتَظْهِرُ بِهِ. {أَرَاذِلُنَا} سُقَاطُنَا. {إِجْرَامِي} هُوَ مَصْدَرٌ مِنْ أَجْرَمْتُ وَبَعْضُهُمْ يَقُولُ جَرَمْتُ. الْفُلْكُ وَالْفَلَكُ وَاحِدٌ وَهْيَ السَّفِينَةُ وَالسُّفُنُ. {مُجْرَاهَا} مَدْفَعُهَا وَهْوَ مَصْدَرُ أَجْرَيْتُ، وَأَرْسَيْتُ حَبَسْتُ وَيُقْرَأُ: {مَرْسَاهَا} مِنْ رَسَتْ هِيَ، وَ{مَجْرَاهَا} مِنْ جَرَتْ هِيَ وَ{مُجْرِيهَا وَمُرْسِيهَا} مِنْ فُعِلَ بِهَا، الرَّاسِيَاتُ ثَابِتَاتٌ.
‏‏‏‏ «وإلى مدين» یعنی مدین والوں کی طرف کیونکہ مدین ایک شہر کا نام ہے جسے دوسری جگہ فرمایا «واسأل القرية» یعنی گاؤں والوں سے پوچھ۔ «واسأل العير» یعنی قافلہ والوں سے پوچھ۔ «وراءكم ظهريا» یعنی پس پشت ڈال دیا اس کی طرف التفات نہ کیا۔ جب کوئی کسی کا مقصد پورا نہ کرے تو عرب لوگ کہتے ہیں «ظهرت بحاجتي» اور «جعلتني ظهريا» اس جگہ «ظهري» کا معنی وہ جانور یا برتن ہے جس کو تو اپنے کام کے لیے ساتھ رکھے۔ «أراذلنا» ہمارے میں سے کمینے لوگ۔ «إجرام»، «أجرمت» کا مصدر ہے یا «جرمت ثلاثى» مجرد۔ «فلك» اور «فلك» جمع اور مفرد دونوں کے لیے آتا ہے۔ ایک کشتی اور کئی کشتیوں کو بھی کہتے ہیں۔ «مجراها» کشتی کا چلنا یہ «أجريت» کا مصدر ہے۔ اسی طرح «مرساها»، «أرسيت» کا مصدر ہے یعنی میں نے کشتی تھما لی (لنگر کر دیا) بعضوں نے «مرساها» بفتح میم پڑھا ہے «رست» سے۔ اسی طرح «مجراها» بھی «جرت» سے ہے۔ بعضوں نے «مجريها»، «مرسيها» یعنی اللہ اس کو چلانے والا ہے اور وہی اس کا تھمانے والا ہے یہ معنوں میں مفعول کے ہیں۔ «راسيات» کے معنی جمی ہوئی کے ہیں۔

Previous    24    25    26    27    28    29    30    31    32    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.