صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابُ: {أَلاَ إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ أَلاَ حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ} :
باب: آیت کی تفسیر ”خبردار ہو، وہ لوگ جو اپنے سینوں کو دہرا کئے دیتے ہیں، تاکہ اپنی باتیں اللہ سے چھپا سکیں وہ غلطی پر ہیں، اللہ سینے کے بھیدوں سے واقف ہے۔ خبردار رہو! وہ لوگ جس وقت چھپنے کے لیے اپنے کپڑے لپیٹتے ہیں (اس وقت بھی) وہ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں، بیشک وہ (ان کے) دلوں کے اندر (کی باتوں) سے خوب خبردار ہے“۔
حدیث نمبر: 4683
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو، قَالَ: قَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ أَلا حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ سورة هود آية 5. وَقَالَ غَيْرُهُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: {يَسْتَغْشُونَ} يُغَطُّونَ رُءُوسَهُمْ {سِيءَ بِهِمْ} سَاءَ ظَنُّهُ بِقَوْمِهِ. {وَضَاقَ بِهِمْ} بِأَضْيَافِهِ {بِقِطْعٍ مِنَ اللَّيْلِ} بِسَوَادٍ. وَقَالَ مُجَاهِدٌ: {أُنِيبُ} أَرْجِعُ.
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت کی قرآت اس طرح کی تھی «ألا إنهم يثنون صدورهم ليستخفوا منه ألا حين يستغشون ثيابهم» اور عمرو بن دینار کے علاوہ اوروں نے بیان کیا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ «يستغشون» یعنی اپنے سر چھپا لیتے ہیں۔ «سيء بهم» یعنی اپنی قوم سے وہ بدگمان ہوا۔ «وضاق بهم» یعنی اپنے مہمانوں کو دیکھ کر وہ بدگمان ہوا کہ ان کی قوم انہیں بھی پریشان کرے گی۔ «بقطع من الليل» یعنی رات کی سیاہی میں اور مجاہد نے کہا «أنيب» کے معنی میں رجوع کرتا ہوں (متوجہ ہوتا ہوں)۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4683 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4683
حدیث حاشیہ:
1۔
ان احادیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر تمھیں بوقت ضرورت بدن کھولنے میں اللہ تعالیٰ سے شرم آتی ہے اور اس طرح جھکے جاتے ہو تو کیا جس وقت تم کپڑے اُتارتے اور پہنتے ہوتو اس وقت تمہارا ظاہر اور باطن اللہ کے سامنے نہیں ہوتا؟ جب انسان اللہ تعالیٰ سے کسی وقت بھی چھپ نہیں سکتا تو پھر ضرورت بشریہ سے متعلق اس قدر تشدد سے کام لینا درست نہیں، تمہاراشرم وحیاء کا جذبہ اپنی جگہ بہت اچھاہے لیکن اس میں غلو صحیح نہیں، اس لیے کہ جس ذات کی خاطر وہ ایسا کرتے ہیں اس سے تو پھر وہ نہیں چھپ سکتے تو پھر اس طرح کے تکلفات کا کیا فائدہ؟ 2۔
واضح رہے کہ مشہور قراءت(يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ)
ہے لیکن حضرت ابن عباس ؓ نے اسے(تَثْنَوْنِي صُدُورُهُمْ)
پڑھاہے۔
اسے علم قراءت میں "قراءۃ شاذہ" کا نام دیاجاتا ہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4683