(مرفوع) حدثنا إسحاق الواسطي، حدثنا خالد، عن بيان، عن قيس، قال: سمعته يقول: قال جرير بن عبد الله رضي الله عنه:" ما حجبني رسول الله صلى الله عليه وسلم منذ اسلمت ولا رآني إلا ضحك".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ بَيَانٍ، عَنْ قَيْسٍ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: قَالَ جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" مَا حَجَبَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنْذُ أَسْلَمْتُ وَلَا رَآنِي إِلَّا ضَحِكَ".
ہم سے اسحاق واسطی نے بیان کیا کہا، ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے بیان نے کہ میں نے قیس سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا جب سے میں اسلام میں داخل ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (گھر کے اندر آنے سے) نہیں روکا (جب بھی میں نے اجازت چاہی) اور جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھتے تو مسکراتے۔
(موقوف ، مرفوع) وعن قيس عن جرير بن عبد الله، قال: كان في الجاهلية بيت، يقال له: ذو الخلصة وكان، يقال له: الكعبة اليمانية او الكعبة الشامية، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هل انت مريحي من ذي الخلصة؟"، قال: فنفرت إليه في خمسين ومائة فارس من احمس، قال: فكسرنا وقتلنا من وجدنا عنده , فاتيناه فاخبرناه , فدعا لنا ولاحمس".(موقوف ، مرفوع) وَعَنْ قَيْسٍ عن جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ بَيْتٌ، يُقَالُ لَهُ: ذُو الْخَلَصَةِ وَكَانَ، يُقَالُ لَهُ: الْكَعْبَةُ الْيَمَانِيَةُ أَوْ الْكَعْبَةُ الشَّأْمِيَّةُ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلْ أَنْتَ مُرِيحِي مِنْ ذِي الْخَلَصَةِ؟"، قَالَ: فَنَفَرْتُ إِلَيْهِ فِي خَمْسِينَ وَمِائَةِ فَارِسٍ مِنْ أَحْمَسَ، قَالَ: فَكَسَرْنَا وَقَتَلْنَا مَنْ وَجَدْنَا عِنْدَهُ , فَأَتَيْنَاهُ فَأَخْبَرْنَاهُ , فَدَعَا لَنَا وَلِأَحْمَسَ".
اور قیس سے روایت ہے کہ جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا زمانہ جاہلیت میں ”ذوالخلصہ“ نامی ایک بت کدہ تھا اسے «الكعبة اليمانية» یا «الكعبة الشأمية» بھی کہتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ”ذی الخلصہ کے وجود سے میں جس اذیت میں مبتلا ہوں، کیا تم مجھے اس سے نجات دلا سکتے ہو؟“ انہوں نے بیان کیا کہ پھر قبیلہ احمس کے ڈیڑھ سو سواروں کو میں لے کر چلا، انہوں نے بیان کیا اور ہم نے بت کدے کو ڈھا دیا اور اس میں جو تھے ان کو قتل کر دیا، پھر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی تو آپ نے ہمارے لیے اور قبیلہ احمس کے لیے دعا فرمائی۔
Jarir bin 'Abdullah narrated: There was a house called Dhul-Khalasa in the Pre-lslamic Period and it was also called Al-Ka'ba Al-Yamaniya or Al-Ka'ba Ash-Shamiya. Allah's Apostle said to me, "Will you relieve me from Dhul-Khalasa?" So I left for it with 150 cavalrymen from the tribe of Ahmas and then we destroyed it and killed whoever we found there. Then we came to the Prophet and informed him about it. He invoked good upon us and upon the tribe of Ahmas.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 160
(مرفوع) حدثني إسماعيل بن خليل، اخبرنا سلمة بن رجاء، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها، قالت:" لما كان يوم احد هزم المشركون هزيمة بينة , فصاح إبليس اي عباد الله اخراكم فرجعت اولاهم على اخراهم , فاجتلدت اخراهم , فنظر حذيفة فإذا هو بابيه فنادى اي عباد الله ابي ابي، فقالت: فوالله ما احتجزوا حتى قتلوه، فقال: حذيفة غفر الله لكم، قال ابي: فوالله ما زالت في حذيفة منها بقية خير حتى لقي الله عز وجل".(مرفوع) حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ خَلِيلٍ، أَخْبَرَنَا سَلَمَةُ بْنُ رَجَاءٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ هُزِمَ الْمُشْرِكُونَ هَزِيمَةً بَيِّنَةً , فَصَاحَ إِبْلِيسُ أَيْ عِبَادَ اللَّهِ أُخْرَاكُمْ فَرَجَعَتْ أُولَاهُمْ عَلَى أُخْرَاهُمْ , فَاجْتَلَدَتْ أُخْرَاهُمْ , فَنَظَرَ حُذَيْفَةُ فَإِذَا هُوَ بِأَبِيهِ فَنَادَى أَيْ عِبَادَ اللَّهِ أَبِي أَبِي، فَقَالَتْ: فَوَاللَّهِ مَا احْتَجَزُوا حَتَّى قَتَلُوهُ، فَقَالَ: حُذَيْفَةُ غَفَرَ اللَّهُ لَكُمْ، قَالَ أَبِي: فَوَاللَّهِ مَا زَالَتْ فِي حُذَيْفَةَ مِنْهَا بَقِيَّةُ خَيْرٍ حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ".
مجھ سے اسماعیل بن خلیل نے بیان کیا، کہا ہم سے سلمہ بن رجاء نے، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ احد کی لڑائی میں جب مشرکین ہار چکے تو ابلیس نے چلا کر کہا: اے اللہ کے بندو! پیچھے والوں کو (قتل کرو) چنانچہ آگے کے مسلمان پیچھے والوں پر پل پڑے اور انہیں قتل کرنا شروع کر دیا۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے جو دیکھا تو ان کے والد (یمان رضی اللہ عنہ) بھی وہیں موجود تھے انہوں نے پکار کر کہا: اے اللہ کے بندو یہ تو میرے والد ہیں میرے والد! عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا: اللہ کی قسم! اس وقت تک لوگ وہاں سے نہیں ہٹے جب تک انہیں قتل نہ کر لیا۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے صرف اتنا کہا اللہ تمہاری مغفرت کرے۔ (ہشام نے بیان کیا کہ) اللہ کی قسم! حذیفہ رضی اللہ عنہ برابر یہ کلمہ دعائیہ کہتے رہے (کہ اللہ ان کے والد پر حملہ کرنے والوں کو بخشے جو کہ محض غلط فہمی کی وجہ سے یہ حرکت کر بیٹھے) یہ دعا مرتے دم تک کرتے رہے۔
Narrated `Aisha: On the day of the battle of Uhud the pagans were defeated completely. Then Satan shouted loudly, "O Allah's slaves! Beware the ones behind you!" So the front files attacked the back ones. Then Hudhaifa looked and saw his father, and said loudly, "O Allah's slaves! My father! My father!" By Allah, they did not stop till they killed him (i.e. Hudaifa's father). Hudhaifa said, "May Allah forgive you!" The sub-narrator said, "By Allah, because of what Hudhaifa said, he remained in a good state till he met Allah (i.e. died).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 161
(مرفوع) وقال عبدان: اخبرنا عبد الله، اخبرنا يونس، عن الزهري، حدثني عروة، ان عائشة رضي الله عنها، قالت: جاءت هند بنت عتبة، قالت: يا رسول الله ما كان على ظهر الارض من اهل خباء احب إلي ان يذلوا من اهل خبائك، ثم ما اصبح اليوم على ظهر الارض اهل خباء احب إلي، ان يعزوا من اهل خبائك، قال:" وايضا والذي نفسي بيده"، قالت: يا رسول الله إن ابا سفيان رجل مسيك فهل علي حرج ان اطعم من الذي له عيالنا، قال:" لا اراه إلا بالمعروف"(مرفوع) وَقَالَ عَبْدَانُ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: جَاءَتْ هِنْدٌ بِنْتُ عُتْبَةَ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا كَانَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ مِنْ أَهْلِ خِبَاءٍ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يَذِلُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ، ثُمَّ مَا أَصْبَحَ الْيَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَهْلُ خِبَاءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ، أَنْ يَعِزُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ، قَالَ:" وَأَيْضًا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ"، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ مِسِّيكٌ فَهَلْ عَلَيَّ حَرَجٌ أَنْ أُطْعِمَ مِنَ الَّذِي لَهُ عِيَالَنَا، قَالَ:" لَا أُرَاهُ إِلَّا بِالْمَعْرُوفِ"
اور عبدان نے بیان کیا، انہیں عبداللہ نے خبر دی انہیں یونس نے خبر دی، انہیں زہری نے، ان سے عروہ نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا: ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اسلام لانے کے بعد) حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں یا رسول اللہ! روئے زمین پر کسی گھرانے کی ذلت آپ کے گھرانے کی ذلت سی زیادہ میرے لیے خوشی کا باعث نہیں تھی لیکن آج کسی گھرانے کی عزت روئے زمین پر آپ کے گھرانے کی عزت سے زیادہ میرے لیے خوشی کی وجہ نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اس میں ابھی اور ترقی ہو گی۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے“ پھر ہند نے کہا: یا رسول اللہ! ابوسفیان بہت بخیل ہیں تو کیا اس میں کچھ حرج ہے اگر میں ان کے مال میں سے (ان کی اجازت کے بغیر) بال بچوں کو کھلا دیا اور پلا دیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا ہاں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ دستور کے مطابق ہونا چاہئے۔
Narrated 'Aishah (ra): Hind bint 'Utba came and said, "O Allah's Messenger! (Before I embraced Islam) there was no family on the surface of the earth I wished to see in degradation more than I did your family, but today there is no family on the surface of the earth I wish to see honored more than I did yours." The Prophet (saws) said, "I thought similarly, by Him in whose Hand my soul is!" She further said, "O Allah's Messenger ! Abu Sufyan is a miser, so, is it sinful of me to feed my children from his property ?" He said, "I do not allow it unless you take for your needs what is just and reasonable."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 161
(مرفوع) حدثني محمد بن ابي بكر، حدثنا فضيل بن سليمان، حدثنا موسى بن عقبة، حدثنا سالم بن عبد الله، عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، ان النبي صلى الله عليه وسلم:" لقي زيد بن عمرو بن نفيل باسفل بلدح قبل ان ينزل على النبي صلى الله عليه وسلم الوحي , فقدمت إلى النبي صلى الله عليه وسلم سفرة فابى ان ياكل منها، ثم قال زيد: إني لست آكل مما تذبحون على انصابكم ولا آكل إلا ما ذكر اسم الله عليه , وان زيد بن عمرو كان يعيب على قريش ذبائحهم، ويقول: الشاة خلقها الله وانزل لها من السماء الماء وانبت لها من الارض ثم تذبحونها على غير اسم الله إنكارا لذلك وإعظاما له".(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَقِيَ زَيْدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ بِأَسْفَلِ بَلْدَحٍ قَبْلَ أَنْ يَنْزِلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَحْيُ , فَقُدِّمَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُفْرَةٌ فَأَبَى أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا، ثُمَّ قَالَ زَيْدٌ: إِنِّي لَسْتُ آكُلُ مِمَّا تَذْبَحُونَ عَلَى أَنْصَابِكُمْ وَلَا آكُلُ إِلَّا مَا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ , وَأَنَّ زَيْدَ بْنَ عَمْرٍو كَانَ يَعِيبُ عَلَى قُرَيْشٍ ذَبَائِحَهُمْ، وَيَقُولُ: الشَّاةُ خَلَقَهَا اللَّهُ وَأَنْزَلَ لَهَا مِنَ السَّمَاءِ الْمَاءَ وَأَنْبَتَ لَهَا مِنَ الْأَرْضِ ثُمَّ تَذْبَحُونَهَا عَلَى غَيْرِ اسْمِ اللَّهِ إِنْكَارًا لِذَلِكَ وَإِعْظَامًا لَهُ".
مجھ سے محمد بن ابی بکر نے بیان کیا، کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے موسیٰ نے بیان کیا، ان سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ سے (وادی) بلدح کے نشیبی علاقہ میں ملاقات ہوئی، یہ قصہ نزول وحی سے پہلے کا ہے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک دستر خوان بچھایا گیا تو زید بن عمرو بن نفیل نے کھانے سے انکار کر دیا اور جن لوگوں نے دستر خوان بچھایا تھا ان سے کہا کہ اپنے بتوں کے نام پر جو تم ذبیحہ کرتے ہو میں اسے نہیں کھاتا میں تو بس وہی ذبیحہ کھایا کرتا ہوں جس پر صرف اللہ کا نام لیا گیا ہو، زید بن عمرو قریش پر ان کے ذبیحے کے بارے میں عیب لگایا کرتے اور کہتے تھے کہ بکری کو پیدا تو کیا اللہ تعالیٰ نے، اسی نے اس کے لیے آسمان سے پانی برسایا ہے اسی نے اس کے لیے زمین سے گھاس اگائی، پھر تم لوگ اللہ کے سوا دوسرے (بتوں کے) ناموں پر اسے ذبح کرتے ہو۔ زید نے یہ کلمات ان کے ان کاموں پر اعتراض کرتے ہوئے اور ان کے اس عمل کو بہت بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے کہے تھے۔
Narrated 'Abdullah bin 'Umar: The Prophet met Zaid bin 'Amr bin Nufail in the bottom of (the valley of) Baldah before any Divine Inspiration came to the Prophet. A meal was presented to the Prophet but he refused to eat from it. (Then it was presented to Zaid) who said, "I do not eat anything which you slaughter in the name of your stone idols. I eat none but those things on which Allah's Name has been mentioned at the time of slaughtering." Zaid bin 'Amr used to criticize the way Quraish used to slaughter their animals, and used to say, "Allah has created the sheep and He has sent the water for it from the sky, and He has grown the grass for it from the earth; yet you slaughter it in other than the Name of Allah. He used to say so, for he rejected that practice and considered it as something abominable.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 169
(موقوف ، موقوف) قال قال موسى: حدثني سالم بن عبد الله، ولا اعلمه إلا تحدث به، عن ابن عمر، ان زيد بن عمرو بن نفيل خرج إلى الشام يسال عن الدين ويتبعه فلقي عالما من اليهود فساله عن دينهم، فقال: إني لعلي ان ادين دينكم فاخبرني، فقال: لا تكون على ديننا حتى تاخذ بنصيبك من غضب الله، قال زيد: ما افر إلا من غضب الله ولا احمل من غضب الله شيئا ابدا وانى استطيعه , فهل تدلني على غيره؟ قال: ما اعلمه إلا ان يكون حنيفا، قال: زيد وما الحنيف، قال: دين إبراهيم لم يكن يهوديا ولا نصرانيا، ولا يعبد إلا الله , فخرج زيد فلقي عالما من النصارى فذكر مثله، فقال: لن تكون على ديننا حتى تاخذ بنصيبك من لعنة الله، قال: ما افر إلا من لعنة الله ولا احمل من لعنة الله، ولا من غضبه شيئا ابدا وانى استطيع فهل تدلني على غيره؟ قال: ما اعلمه إلا ان يكون حنيفا، قال: وما الحنيف؟ قال: دين إبراهيم لم يكن يهوديا ولا نصرانيا , ولا يعبد إلا الله , فلما راى زيد قولهم في إبراهيم عليه السلام خرج , فلما برز رفع يديه، فقال:" اللهم إني اشهد اني على دين إبراهيم .(موقوف ، موقوف) قَالَ قَالَ مُوسَى: حَدَّثَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا تَحَدَّثَ بِهِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ خَرَجَ إِلَى الشَّأْمِ يَسْأَلُ عَنِ الدِّينِ وَيَتْبَعُهُ فَلَقِيَ عَالِمًا مِنْ الْيَهُودِ فَسَأَلَهُ عَنْ دِينِهِمْ، فَقَالَ: إِنِّي لَعَلِّي أَنْ أَدِينَ دِينَكُمْ فَأَخْبِرْنِي، فَقَالَ: لَا تَكُونُ عَلَى دِينِنَا حَتَّى تَأْخُذَ بِنَصِيبِكَ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ، قَالَ زَيْدٌ: مَا أَفِرُّ إِلَّا مِنْ غَضَبِ اللَّهِ وَلَا أَحْمِلُ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ شَيْئًا أَبَدًا وَأَنَّى أَسْتَطِيعُهُ , فَهَلْ تَدُلُّنِي عَلَى غَيْرِهِ؟ قَالَ: مَا أَعْلَمُهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ حَنِيفًا، قَالَ: زَيْدٌ وَمَا الْحَنِيفُ، قَالَ: دِينُ إِبْرَاهِيمَ لَمْ يَكُنْ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا، وَلَا يَعْبُدُ إِلَّا اللَّهَ , فَخَرَجَ زَيْدٌ فَلَقِيَ عَالِمًا مِنْ النَّصَارَى فَذَكَرَ مِثْلَهُ، فَقَالَ: لَنْ تَكُونَ عَلَى دِينِنَا حَتَّى تَأْخُذَ بِنَصِيبِكَ مِنْ لَعْنَةِ اللَّهِ، قَالَ: مَا أَفِرُّ إِلَّا مِنْ لَعْنَةِ اللَّهِ وَلَا أَحْمِلُ مِنْ لَعْنَةِ اللَّهِ، وَلَا مِنْ غَضَبِهِ شَيْئًا أَبَدًا وَأَنَّى أَسْتَطِيعُ فَهَلْ تَدُلُّنِي عَلَى غَيْرِهِ؟ قَالَ: مَا أَعْلَمُهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ حَنِيفًا، قَالَ: وَمَا الْحَنِيفُ؟ قَالَ: دِينُ إِبْرَاهِيمَ لَمْ يَكُنْ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا , وَلَا يَعْبُدُ إِلَّا اللَّهَ , فَلَمَّا رَأَى زَيْدٌ قَوْلَهُمْ فِي إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام خَرَجَ , فَلَمَّا بَرَزَ رَفَعَ يَدَيْهِ، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أَشْهَدُ أَنِّي عَلَى دِينِ إِبْرَاهِيمَ .
موسیٰ نے بیان کیا، ان سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا اور مجھے یقین ہے کہ انہوں نے یہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا تھا کہ زید بن عمرو بن نفیل شام گئے دین (خالص) کی تلاش میں نکلے، وہاں وہ ایک یہودی عالم سے ملے تو انہوں نے ان کے دین کے بارے میں پوچھا اور کہا ممکن ہے کہ میں تمہارا دین اختیار کر لوں اس لیے تم مجھے اپنے دین کے متعلق بتاؤ یہودی عالم نے کہا کہ ہمارے دین میں تم اس وقت تک داخل نہیں ہو سکتے جب تک تم اللہ کے غضب کے ایک حصہ کے لیے تیار نہ ہو جاؤ، اس پر زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ واہ میں اللہ کے غضب ہی سے بھاگ کر آیا ہوں، پھر اللہ کے غضب کو میں اپنے اوپر کبھی نہ لوں گا اور نہ مجھ کو اسے اٹھانے کی طاقت ہے! کیا تم مجھے کسی اور دوسرے دین کا کچھ پتہ بتا سکتے ہو؟ اس عالم نے کہا میں نہیں جانتا (کوئی دین سچا ہو تو دین حنیف ہو)۔ زید رضی اللہ عنہ نے پوچھا دین حنیف کیا ہے؟ اس عالم نے کہا کہ ابراہیم علیہ السلام کا دین جو نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی اور وہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے تھے۔ زید رضی اللہ عنہ وہاں سے چلے آئے اور ایک نصرانی پادری سے ملے، ان سے بھی اپنا خیال بیان کیا اس نے بھی یہی کہا کہ تم ہمارے دین میں آؤ گے تو اللہ تعالیٰ کی لعنت میں سے ایک حصہ لو گے۔ زید رضی اللہ عنہ نے کہا میں اللہ کی لعنت سے ہی بچنے کے لیے تو یہ سب کچھ کر رہا ہوں اللہ کی لعنت اٹھانے کی مجھ میں طاقت نہیں اور نہ میں اس کا یہ غضب کس طرح اٹھا سکتا ہوں! کیا تم میرے لیے اس کے سوا کوئی اور دین بتلا سکتے ہو؟ پادری نے کہا کہ میری نظر میں ہو تو صرف ایک دین حنیف سچا دین ہے زید نے پوچھا دین حنیف کیا ہے؟ کہا کہ وہ دین ابراہیم ہے جو نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی اور اللہ کے سوا وہ کسی کی پوجا نہیں کرتے تھے۔ زید نے جب دین ابراہیم کے بارے میں ان کی یہ رائے سنی تو وہاں سے روانہ ہو گئے اور اس سر زمین سے باہر نکل کر اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور یہ دعا کی «اللهم إني أشهد أني على دين إبراهيم.» اے اللہ! میں گواہی دیتا ہوں کہ میں دین ابراہیم پر ہوں۔
Narrated Ibn 'Umar: Zaid bin 'Amr bin Nufail went to Sham, inquiring about a true religion to follow. He met a Jewish religious scholar and asked him about their religion. He said, "I intend to embrace your religion, so tell me some thing about it." The Jew said, "You will not embrace our religion unless you receive your share of Allah's Anger." Zaid said, "'I do not run except from Allah's Anger, and I will never bear a bit of it if I have the power to avoid it. Can you tell me of some other religion?" He said, "I do not know any other religion except the Hanif." Zaid enquired, "What is Hanif?" He said, "Hanif is the religion of (the prophet) Abraham who was neither a Jew nor a Christian, and he used to worship None but Allah (Alone)" Then Zaid went out and met a Christian religious scholar and told him the same as before. The Christian said, "You will not embrace our religion unless you get a share of Allah's Curse." Zaid replied, "I do not run except from Allah's Curse, and I will never bear any of Allah's Curse and His Anger if I have the power to avoid them. Will you tell me of some other religion?" He replied, "I do not know any other religion except Hanif." Zaid enquired, "What is Hanif?" He replied, Hanif is the religion of (the prophet) Abraham who was neither a Jew nor a Christian and he used to worship None but Allah (Alone)" When Zaid heard their Statement about (the religion of) Abraham, he left that place, and when he came out, he raised both his hands and said, "O Allah! I make You my Witness that I am on the religion of Abraham."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 169
(موقوف ، موقوف) وقال الليث: كتب إلي هشام , عن ابيه , عن اسماء بنت ابي بكر رضي الله عنهما، قالت: رايت زيد بن عمرو بن نفيل قائما مسندا ظهره إلى الكعبة، يقول: يا معاشر قريش والله ما منكم على دين إبراهيم غيري , وكان يحيي الموءودة، يقول: للرجل إذا اراد ان يقتل ابنته لا تقتلها انا اكفيكها مئونتها فياخذها فإذا ترعرعت، قال: لابيها إن شئت دفعتها إليك وإن شئت كفيتك مئونتها".(موقوف ، موقوف) وَقَالَ اللَّيْثُ: كَتَبَ إِلَيَّ هِشَامٌ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَتْ: رَأَيْتُ زَيْدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ قَائِمًا مُسْنِدًا ظَهْرَهُ إِلَى الْكَعْبَةِ، يَقُولُ: يَا مَعَاشِرَ قُرَيْشٍ وَاللَّهِ مَا مِنْكُمْ عَلَى دِينِ إِبْرَاهِيمَ غَيْرِي , وَكَانَ يُحْيِي الْمَوْءُودَةَ، يَقُولُ: لِلرَّجُلِ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَقْتُلَ ابْنَتَهُ لَا تَقْتُلْهَا أَنَا أَكْفِيكَهَا مَئُونَتَهَا فَيَأْخُذُهَا فَإِذَا تَرَعْرَعَتْ، قَالَ: لِأَبِيهَا إِنْ شِئْتَ دَفَعْتُهَا إِلَيْكَ وَإِنْ شِئْتَ كَفَيْتُكَ مَئُونَتَهَا".
اور لیث بن سعد نے کہا کہ مجھے ہشام نے لکھا، اپنے والد (عروہ بن زبیر) سے اور انہوں نے کہا کہ ہم سے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے زید بن عمرو بن نفیل کو کعبہ سے اپنی پیٹھ لگائے ہوئے کھڑے ہو کر یہ کہتے سنا، اے قریش کے لوگو! اللہ کی قسم میرے سوا اور کوئی تمہارے یہاں دین ابراہیم پر نہیں ہے اور زید بیٹیوں کو زندہ نہیں گاڑتے تھے اور ایسے شخص سے جو اپنی بیٹی کو مار ڈالنا چاہتا کہتے اس کی جان نہ لے اس کے تمام اخراجات کا ذمہ میں لیتا ہوں، چنانچہ لڑکی کو اپنی پرورش میں رکھ لیتے جب وہ بڑی ہو جاتی تو اس کے باپ سے کہتے اب اگر تم چاہو تو میں تمہاری لڑکی کو تمہارے حوالے کر سکتا ہوں اور اگر تمہاری مرضی ہو تو میں اس کے سب کام پورے کر دوں گا۔
Narrated Asma bint Abi Bakr: I saw Zaid bin Amr bin Nufail standing with his back against the Ka'ba and saying, "O people of Quraish! By Allah, none amongst you is on the religion of Abraham except me." He used to preserve the lives of little girls: If somebody wanted to kill his daughter he would say to him, "Do not kill her for I will feed her on your behalf." So he would take her, and when she grew up nicely, he would say to her father, "Now if you want her, I will give her to you, and if you wish, I will feed her on your behalf."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 169
(مرفوع) حدثني محمود، حدثنا عبد الرزاق، قال: اخبرني ابن جريج، قال: اخبرني عمرو بن دينار، سمع جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، قال:" لما بنيت الكعبة ذهب النبي صلى الله عليه وسلم وعباس ينقلان الحجارة، فقال عباس للنبي صلى الله عليه وسلم: اجعل إزارك على رقبتك يقيك من الحجارة فخر إلى الارض وطمحت عيناه إلى السماء ثم افاق، فقال:" إزاري إزاري" , فشد عليه إزاره.(مرفوع) حَدَّثَنِي مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" لَمَّا بُنِيَتْ الْكَعْبَةُ ذَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَبَّاسٌ يَنْقُلَانِ الْحِجَارَةَ، فَقَالَ عَبَّاسٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اجْعَلْ إِزَارَكَ عَلَى رَقَبَتِكَ يَقِيكَ مِنَ الْحِجَارَةِ فَخَرَّ إِلَى الْأَرْضِ وَطَمَحَتْ عَيْنَاهُ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ:" إِزَارِي إِزَارِي" , فَشَدَّ عَلَيْهِ إِزَارَهُ.
مجھ سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے عمرو بن دینار نے خبر دی، انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ جب کعبہ کی تعمیر ہو رہی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور عباس رضی اللہ عنہ اس کے لیے پتھر ڈھو رہے تھے عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اپنا تہبند گردن پر رکھ لیں اس طرح پتھر کی (خراش لگنے سے) بچ جائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایسا کیا تو آپ زمین پر گر پڑے اور آپ کی نظر آسمان پر گڑ گئی جب ہوش ہوا تو آپ نے چچا سے فرمایا کہ میرا تہبند لائیں پھر انہوں نے آپ کا تہبند خوب مضبوط باندھ دیا۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: When the Ka`ba was rebuilt, the Prophet and `Abbas went to carry stones. `Abbas said to the Prophet "(Take off and) put your waist sheet over your neck so that the stones may not hurt you." (But as soon as he took off his waist sheet) he fell unconscious on the ground with both his eyes towards the sky. When he came to his senses, he said, "My waist sheet! My waist sheet!" Then he tied his waist sheet (round his waist).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 170
(مرفوع) حدثنا ابو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، عن عمرو بن دينار , وعبيد الله بن ابي يزيد , قالا:" لم يكن على عهد النبي صلى الله عليه وسلم حول البيت حائط , كانوا يصلون حول البيت حتى كان عمر فبنى حوله حائطا، قال عبيد الله: جدره قصير فبناه ابن الزبير".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ , وَعُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ , قَالَا:" لَمْ يَكُنْ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَوْلَ الْبَيْتِ حَائِطٌ , كَانُوا يُصَلُّونَ حَوْلَ الْبَيْتِ حَتَّى كَانَ عُمَرُ فَبَنَى حَوْلَهُ حَائِطًا، قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: جَدْرُهُ قَصِيرٌ فَبَنَاهُ ابْنُ الزُّبَيْرِ".
ہم سے ابونعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے اور عبیداللہ بن ابی زید نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بیت اللہ کے گرد احاطہٰ کی دیوار نہ تھی لوگ کعبہ کے گرد نماز پڑھتے تھے پھر جب عمر رضی اللہ عنہ کا دور آیا تو انہوں نے اس کے گرد دیوار بنوائی۔ عبیداللہ نے بیان کیا کہ یہ دیواریں بھی پست تھیں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے ان کو بلند کیا۔
Narrated `Amr bin Dinar and 'Ubaidullah bin Abi Yazid: In the lifetime of the Prophet there was no wall around the Ka`ba and the people used to pray around the Ka`ba till `Umar became the Caliph and he built the wall around it. 'Ubaidullah further said, "Its wall was low, so Ibn Az-Zubair built it."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 171
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، قال هشام: حدثني ابي، عن عائشة رضي الله عنها، قالت:" كان يوم عاشوراء يوما تصومه قريش في الجاهلية , وكان النبي صلى الله عليه وسلم يصومه , فلما قدم المدينة صامه وامر بصيامه , فلما نزل رمضان كان من شاء صامه ومن شاء لا يصومه".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ هِشَامٌ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ يَوْمًا تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ , وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ , فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ صَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ , فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ كَانَ مَنْ شَاءَ صَامَهُ وَمَنْ شَاءَ لَا يَصُومُهُ".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ عاشورا کا روزہ قریش کے لوگ زمانہ جاہلیت میں رکھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے باقی رکھا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس دن روزہ رکھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا لیکن جب رمضان کا روزہ ۲ ھ میں فرض ہوا تو اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جس کا جی چاہے عاشورا کا روزہ رکھے اور جو نہ چاہے نہ رکھے۔
Narrated `Aisha: 'Ashura' (i.e. the tenth of Muharram) was a day on which the tribe of Quraish used to fast in the prelslamic period of ignorance. The Prophet also used to fast on this day. So when he migrated to Medina, he fasted on it and ordered (the Muslims) to fast on it. When the fasting of Ramadan was enjoined, it became optional for the people to fast or not to fast on the day of Ashura.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 172