Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ
کتاب: انصار کے مناقب
22. بَابُ ذِكْرُ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ الْعَبْسِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
باب: حذیفہ بن یمان عبسی رضی اللہ عنہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 3824
حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ خَلِيلٍ، أَخْبَرَنَا سَلَمَةُ بْنُ رَجَاءٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ هُزِمَ الْمُشْرِكُونَ هَزِيمَةً بَيِّنَةً , فَصَاحَ إِبْلِيسُ أَيْ عِبَادَ اللَّهِ أُخْرَاكُمْ فَرَجَعَتْ أُولَاهُمْ عَلَى أُخْرَاهُمْ , فَاجْتَلَدَتْ أُخْرَاهُمْ , فَنَظَرَ حُذَيْفَةُ فَإِذَا هُوَ بِأَبِيهِ فَنَادَى أَيْ عِبَادَ اللَّهِ أَبِي أَبِي، فَقَالَتْ: فَوَاللَّهِ مَا احْتَجَزُوا حَتَّى قَتَلُوهُ، فَقَالَ: حُذَيْفَةُ غَفَرَ اللَّهُ لَكُمْ، قَالَ أَبِي: فَوَاللَّهِ مَا زَالَتْ فِي حُذَيْفَةَ مِنْهَا بَقِيَّةُ خَيْرٍ حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ".
مجھ سے اسماعیل بن خلیل نے بیان کیا، کہا ہم سے سلمہ بن رجاء نے، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ احد کی لڑائی میں جب مشرکین ہار چکے تو ابلیس نے چلا کر کہا: اے اللہ کے بندو! پیچھے والوں کو (قتل کرو) چنانچہ آگے کے مسلمان پیچھے والوں پر پل پڑے اور انہیں قتل کرنا شروع کر دیا۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے جو دیکھا تو ان کے والد (یمان رضی اللہ عنہ) بھی وہیں موجود تھے انہوں نے پکار کر کہا: اے اللہ کے بندو یہ تو میرے والد ہیں میرے والد! عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا: اللہ کی قسم! اس وقت تک لوگ وہاں سے نہیں ہٹے جب تک انہیں قتل نہ کر لیا۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے صرف اتنا کہا اللہ تمہاری مغفرت کرے۔ (ہشام نے بیان کیا کہ) اللہ کی قسم! حذیفہ رضی اللہ عنہ برابر یہ کلمہ دعائیہ کہتے رہے (کہ اللہ ان کے والد پر حملہ کرنے والوں کو بخشے جو کہ محض غلط فہمی کی وجہ سے یہ حرکت کر بیٹھے) یہ دعا مرتے دم تک کرتے رہے۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3824 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3824  
حدیث حاشیہ:
اس سے ان کے صبر و استقلال اور فہم و فراست کا پتہ چلتا ہے۔
غلط فہمی میں انسان کیا سے کیا کر بیٹھتا ہے۔
ا س لئے اللہ کا ارشاد ہے کہ ہر سنی سنائی خبر کا یقین نہ کرلیا کرو جب تک اس کی تحقیق نہ کر لو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3824   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3824  
حدیث حاشیہ:

ممکن ہے کہ ابلیس نے مشرکین کو آواز دے کر کہا ہو کہ تم اپنے پچھلے لوگوں پر حملہ کروجو مسلمان ہیں، لیکن اس سے مسلمان غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے۔
چونکہ وہ شدت کی لڑائی تھی اور اس میں غلطی سے حضرت حذیفہ ؓ کے والد محترم حضرت یمان ؓ مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے جنھوں نے اسے قتل کیاتھا وہ عقبہ بن مسعود ؓ تھے، حضرت حذیفہ ؓ نے انھیں معاف کردیا اور ان کے قاتل کے لیے ہمیشہ دعا اور استغفار کرتے رہے۔

اس حدیث سے حضرت حذیفہ ؓ کے صبرواستقلال اور ان کی فہم وفراست کا پتہ چلتا ہے۔

غلط فہمی سے انسان کیا سے کیا کر بیٹھتا ہے، اس لیے حکم ہے کہ ہر سنی سنائی بات کا یقین نہ کرو جب تک اس کی تحقیق نہ کرلو۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3824   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3290  
3290. حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب غزوہ احد میں مشرکین شکست خوردہ ہوئے تو ابلیس نے چلا کر کہا: اللہ کے بندو! اپنے پیچھے والوں کی خبر لو۔ آگے والے پچھلوں پر ٹوٹ پڑے اور آپس میں الجھ گئے۔ اس دوران میں حضرت حذیفہ ؓنے دیکھاکہ ان کے والد حضرت یمان ؓبھی پیچھے تھے۔ انھوں نے کہا: اللہ کے بندو!یہ میرے والد ہیں، یہ میرے والد ہیں، لیکن اللہ کی قسم! مسلمان نہ رکے حتیٰ کہ انھوں نے ان کو قتل کردیا۔ حضرت حذیفہ ؓنے صرف اتنا کہا: اللہ تمھیں معاف کرے (یہ تم نے کیاکیا ہے؟) حضرت عروہ فرماتے ہیں: پھر حضرت حذیفہ ہمیشہ (آخری دم تک اپنے والد کے قاتلوں کے لیے) دعائے خیر کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ سے جاملے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3290]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ کو معلوم ہوا تو حذیفہ ؓ کو ان کے باپ کی دیت آپ دلانے گئے۔
لیکن حذیفہ ؓ نے وہ بھی مسلمانوں کو معاف کردیا، سبحان اللہ! صحابہ ؓکی ایک ایک نیکی ہماری عمر بھر کی عبادت سے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3290   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6668  
6668. سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے عنہا روایت ہے انہوں نے فرمایا: غزوہ احد میں مشرکین شکست سے دوچار ہوئے اور اپنی شکست ان میں مشہور ہوگئی تو شیطان لعین زور سے چلایا: اللہ کے بندو اپنے پیچھے سے دشمن کا خیال کرو، چنانچہ آگے والے لوگ پیچھے کی طرف پلٹ پڑے پھر یہ (آگے والے) اور پیچھے والے باہم مصروف پیکار ہو گئے۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ اچانک ان کے والد اس جماعت میں ہیں۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ پکارنے لگے: یہ میرا باپ ہے۔ یہ میرا باپ ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اللہ کی قسم! لوگ پھر بھی نہ رکے حتی کہ انہیں قتل کر دیا۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالٰی تمہاری مغفرت کرے۔ حضرت عروہ نے کہا: اللہ کی قسم! حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو اپنے والد گرامی کی اس طرح شہادت کا آخر وقت افسوس رہا یہاں تک کہ وہ اپنے اللہ سے جا ملے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6668]
حدیث حاشیہ:
جنگ احد میں ابلیس معلون نے دھوکا دیا پیچھے سے مسلمان ہی آ رہے تھے مگر ان کو کافر بتلا کر آگے والے مسلمانوں کو ان سے ڈرایا وہ گھڑاہٹ میں اپنے ہی لوگوں پر پلٹ پڑے اورحضرت حذیفہ کے والد یمان کو شہید کر دیا۔
اس روایت کی مطابقت باب سے یوں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے قسم کھا کر کہا۔
بعضوں نے یہ مطابقت بتلائی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ان مسلمانوں سےکچھ نہیں کہا جنہوں نے حذیفہ کے باپ کو بھول سے قتل كر دیا تھا تو اس طرح بھول چوک سے اگر قسم توڑ دے تو کفارہ واجب نہ ہوگا۔
حضرت حذیفہ کو رسو ل کریم ﷺ کا خاص رازداں کہا گیا ہے۔
شہادت عثمان کے چالیس دن بعد 35ھ میں مدائن میں ان کا انتقال ہوا۔
رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
ایک روایت میں بقیة خیر کا لفظ ہے تو ترجمہ یہ ہوگا کہ حذیفہ پر مرتے دم تک اس خیر وبرکت کا اثر رہا یعنی اس دعا کا جو انہوں نے مسلمانوں کے لیے کی تھی کہ اللہ تم کو بخشے اس روایت کی مطابقت باب سے یوں ہےکہ حضرت عائشہ ؓ نے قسم کھا کر کہا فواللہ مازالت في حذیفة۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6668   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3290  
3290. حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب غزوہ احد میں مشرکین شکست خوردہ ہوئے تو ابلیس نے چلا کر کہا: اللہ کے بندو! اپنے پیچھے والوں کی خبر لو۔ آگے والے پچھلوں پر ٹوٹ پڑے اور آپس میں الجھ گئے۔ اس دوران میں حضرت حذیفہ ؓنے دیکھاکہ ان کے والد حضرت یمان ؓبھی پیچھے تھے۔ انھوں نے کہا: اللہ کے بندو!یہ میرے والد ہیں، یہ میرے والد ہیں، لیکن اللہ کی قسم! مسلمان نہ رکے حتیٰ کہ انھوں نے ان کو قتل کردیا۔ حضرت حذیفہ ؓنے صرف اتنا کہا: اللہ تمھیں معاف کرے (یہ تم نے کیاکیا ہے؟) حضرت عروہ فرماتے ہیں: پھر حضرت حذیفہ ہمیشہ (آخری دم تک اپنے والد کے قاتلوں کے لیے) دعائے خیر کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ سے جاملے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3290]
حدیث حاشیہ:

ابلیس لعین کا یہ مقصد تھا کہ مسلمانوں کو غلط فہمی میں مبتلا کرکے انھیں آپس میں لڑادے، چنانچہ اگلے لوگوں نے پچھلوں کو مشرک سمجھتے ہوئے ان پر حملہ کردیا اور وہ آپس میں الجھ کررہ گئے۔
اس بھگدڑ کے نتیجے میں حضرت یمان ؓقتل کردیے گئے۔

بہرحال یہ ابلیس کا ایک فریب تھا، جس میں وہ کامیاب ہوا جو کہ شدت کی جنگ تھی۔
مسلمان غلط فہمی کا شکار ہوگئے تھے، اس لیے اس غلطی میں حضرت حذیفہ ؓ کے والد گرامی قتل ہوگئے۔
حضرت حذیفہ ؓ نے اپنے باپ کے قاتلوں کو معاف کردیا اور ہمیشہ ان کے لیے دعا اور استغفار کرتے رہے۔
اگرہمارے جیسا کوئی ہوتا تو ایسے موقع پر ہنگامہ کھڑا کردیتا لیکن یہ صحابہ کرام ؓ کی عظمت تھی کہ وہ مشکل حالات میں بھی آپے سے باہر نہیں ہوتے تھے۔
۔
۔
رضوان اللہ عنھم أجمعین۔
۔
۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3290   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6668  
6668. سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے عنہا روایت ہے انہوں نے فرمایا: غزوہ احد میں مشرکین شکست سے دوچار ہوئے اور اپنی شکست ان میں مشہور ہوگئی تو شیطان لعین زور سے چلایا: اللہ کے بندو اپنے پیچھے سے دشمن کا خیال کرو، چنانچہ آگے والے لوگ پیچھے کی طرف پلٹ پڑے پھر یہ (آگے والے) اور پیچھے والے باہم مصروف پیکار ہو گئے۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ اچانک ان کے والد اس جماعت میں ہیں۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ پکارنے لگے: یہ میرا باپ ہے۔ یہ میرا باپ ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اللہ کی قسم! لوگ پھر بھی نہ رکے حتی کہ انہیں قتل کر دیا۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالٰی تمہاری مغفرت کرے۔ حضرت عروہ نے کہا: اللہ کی قسم! حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو اپنے والد گرامی کی اس طرح شہادت کا آخر وقت افسوس رہا یہاں تک کہ وہ اپنے اللہ سے جا ملے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6668]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ''بقية خير'' کے الفاظ ہیں۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4065)
اس روایت کے مطابق ترجمہ یوں ہو گا:
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ پر مرتے دم تک اس دعا کی خیر و برکت کا اثر رہا جو اس وقت انہوں نے اپنے باپ کے قاتلوں کے لیے کی تھی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں معاف فرمائے۔
(فتح الباري: 674/11) (2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو کچھ نہیں کہا جنہوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے والد کو بھول کر غلطی اور لاعلمی میں شہید کر دیا تھا۔
اسی طرح اگر کوئی شخص بھول چوک سے اپنی قسم توڑ دے تو اس پر کفارہ واجب نہیں ہو گا۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6668