صحيح البخاري
كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ
کتاب: انصار کے مناقب
24. بَابُ حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ:
باب: زید بن عمرو بن نفیل کا بیان۔
حدیث نمبر: 3827
قَالَ قَالَ مُوسَى: حَدَّثَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا تَحَدَّثَ بِهِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ خَرَجَ إِلَى الشَّأْمِ يَسْأَلُ عَنِ الدِّينِ وَيَتْبَعُهُ فَلَقِيَ عَالِمًا مِنْ الْيَهُودِ فَسَأَلَهُ عَنْ دِينِهِمْ، فَقَالَ: إِنِّي لَعَلِّي أَنْ أَدِينَ دِينَكُمْ فَأَخْبِرْنِي، فَقَالَ: لَا تَكُونُ عَلَى دِينِنَا حَتَّى تَأْخُذَ بِنَصِيبِكَ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ، قَالَ زَيْدٌ: مَا أَفِرُّ إِلَّا مِنْ غَضَبِ اللَّهِ وَلَا أَحْمِلُ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ شَيْئًا أَبَدًا وَأَنَّى أَسْتَطِيعُهُ , فَهَلْ تَدُلُّنِي عَلَى غَيْرِهِ؟ قَالَ: مَا أَعْلَمُهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ حَنِيفًا، قَالَ: زَيْدٌ وَمَا الْحَنِيفُ، قَالَ: دِينُ إِبْرَاهِيمَ لَمْ يَكُنْ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا، وَلَا يَعْبُدُ إِلَّا اللَّهَ , فَخَرَجَ زَيْدٌ فَلَقِيَ عَالِمًا مِنْ النَّصَارَى فَذَكَرَ مِثْلَهُ، فَقَالَ: لَنْ تَكُونَ عَلَى دِينِنَا حَتَّى تَأْخُذَ بِنَصِيبِكَ مِنْ لَعْنَةِ اللَّهِ، قَالَ: مَا أَفِرُّ إِلَّا مِنْ لَعْنَةِ اللَّهِ وَلَا أَحْمِلُ مِنْ لَعْنَةِ اللَّهِ، وَلَا مِنْ غَضَبِهِ شَيْئًا أَبَدًا وَأَنَّى أَسْتَطِيعُ فَهَلْ تَدُلُّنِي عَلَى غَيْرِهِ؟ قَالَ: مَا أَعْلَمُهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ حَنِيفًا، قَالَ: وَمَا الْحَنِيفُ؟ قَالَ: دِينُ إِبْرَاهِيمَ لَمْ يَكُنْ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا , وَلَا يَعْبُدُ إِلَّا اللَّهَ , فَلَمَّا رَأَى زَيْدٌ قَوْلَهُمْ فِي إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام خَرَجَ , فَلَمَّا بَرَزَ رَفَعَ يَدَيْهِ، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أَشْهَدُ أَنِّي عَلَى دِينِ إِبْرَاهِيمَ .
موسیٰ نے بیان کیا، ان سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا اور مجھے یقین ہے کہ انہوں نے یہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا تھا کہ زید بن عمرو بن نفیل شام گئے دین (خالص) کی تلاش میں نکلے، وہاں وہ ایک یہودی عالم سے ملے تو انہوں نے ان کے دین کے بارے میں پوچھا اور کہا ممکن ہے کہ میں تمہارا دین اختیار کر لوں اس لیے تم مجھے اپنے دین کے متعلق بتاؤ یہودی عالم نے کہا کہ ہمارے دین میں تم اس وقت تک داخل نہیں ہو سکتے جب تک تم اللہ کے غضب کے ایک حصہ کے لیے تیار نہ ہو جاؤ، اس پر زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ واہ میں اللہ کے غضب ہی سے بھاگ کر آیا ہوں، پھر اللہ کے غضب کو میں اپنے اوپر کبھی نہ لوں گا اور نہ مجھ کو اسے اٹھانے کی طاقت ہے! کیا تم مجھے کسی اور دوسرے دین کا کچھ پتہ بتا سکتے ہو؟ اس عالم نے کہا میں نہیں جانتا (کوئی دین سچا ہو تو دین حنیف ہو)۔ زید رضی اللہ عنہ نے پوچھا دین حنیف کیا ہے؟ اس عالم نے کہا کہ ابراہیم علیہ السلام کا دین جو نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی اور وہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے تھے۔ زید رضی اللہ عنہ وہاں سے چلے آئے اور ایک نصرانی پادری سے ملے، ان سے بھی اپنا خیال بیان کیا اس نے بھی یہی کہا کہ تم ہمارے دین میں آؤ گے تو اللہ تعالیٰ کی لعنت میں سے ایک حصہ لو گے۔ زید رضی اللہ عنہ نے کہا میں اللہ کی لعنت سے ہی بچنے کے لیے تو یہ سب کچھ کر رہا ہوں اللہ کی لعنت اٹھانے کی مجھ میں طاقت نہیں اور نہ میں اس کا یہ غضب کس طرح اٹھا سکتا ہوں! کیا تم میرے لیے اس کے سوا کوئی اور دین بتلا سکتے ہو؟ پادری نے کہا کہ میری نظر میں ہو تو صرف ایک دین حنیف سچا دین ہے زید نے پوچھا دین حنیف کیا ہے؟ کہا کہ وہ دین ابراہیم ہے جو نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی اور اللہ کے سوا وہ کسی کی پوجا نہیں کرتے تھے۔ زید نے جب دین ابراہیم کے بارے میں ان کی یہ رائے سنی تو وہاں سے روانہ ہو گئے اور اس سر زمین سے باہر نکل کر اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور یہ دعا کی «اللهم إني أشهد أني على دين إبراهيم.» اے اللہ! میں گواہی دیتا ہوں کہ میں دین ابراہیم پر ہوں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3827 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3827
حدیث حاشیہ:
عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ مجھے زید بن عمرو نے کہا:
میں نے اپنی قوم کی مخالفت کی ہے اور حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کے دین کو اختیار کرلیا ہے۔
وہ دونوں اس قبلے کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے اور میں حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد سے"آخرالزمان "نبی کا انتظار کررہا ہوں۔
لیکن مجھےیقین ہے کہ میں انھیں نہیں پاسکوں گا اور میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور آپ کی تصدیق کرتا ہوں، شہادت دیتا ہوں کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ﷺ ہیں۔
اگر تمہاری زندگی لمبی ہوئی تو آپ کو میری طرف سے سلام کہہ دینا۔
حضرت عامر کہتے ہیں کہ میں نے جب اسلام قبول کیا تو رسول اللہ ﷺ سے یہ واقعہ عرض کیا۔
آپ نے اس کے سلام کا جواب دیتے ہوئے اس کے لیے رحمت کی دعا کی اور فرمایا:
میں اسے جنت میں دامن گھسیٹتا ہوا دیکھ رہا ہوں۔
(أخبار مکة للفاکھي: 205/6۔
و فتح الباري: 181/7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3827