صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
The Virtues and Merits of The Companions of The Prophet
حدیث نمبر: 3665
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن مقاتل، اخبرنا عبد الله، اخبرنا موسى بن عقبة، عن سالم بن عبد الله، عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من جر ثوبه خيلاء لم ينظر الله إليه يوم القيامة"، فقال ابو بكر: إن احد شقي ثوبي يسترخي إلا ان اتعاهد ذلك منه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنك لست تصنع ذلك خيلاء"، قال موسى: فقلت لسالم: اذكر عبد الله من جر إزاره، قال: لم اسمعه ذكر إلا ثوبه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ خُيَلَاءَ لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ أَحَدَ شِقَّيْ ثَوْبِي يَسْتَرْخِي إِلَّا أَنْ أَتَعَاهَدَ ذَلِكَ مِنْهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّكَ لَسْتَ تَصْنَعُ ذَلِكَ خُيَلَاءَ"، قَالَ مُوسَى: فَقُلْتُ لِسَالِمٍ: أَذَكَرَ عَبْدُ اللَّهِ مَنْ جَرَّ إِزَارَهُ، قَالَ: لَمْ أَسْمَعْهُ ذَكَرَ إِلَّا ثَوْبَهُ.
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو موسیٰ بن عقبہ نے خبر دی، انہیں سالم بن عبداللہ نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنا کپڑا (پاجامہ یا تہبند وغیرہ) تکبر اور غرور کی وجہ سے زمین پر گھسیٹتا چلے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا بھی نہیں، اس پر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میرے کپڑے کا ایک حصہ لٹک جایا کرتا ہے۔ البتہ اگر میں پوری طرح خیال رکھوں تو وہ نہیں لٹک سکے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ تو ایسا تکبر کے خیال سے نہیں کرتے (اس لیے آپ اس حکم میں داخل نہیں ہیں) موسیٰ نے کہا کہ میں نے سالم سے پوچھا، کیا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس حدیث میں یہ فرمایا تھا کہ جو اپنی ازار کو گھسیٹتے ہوئے چلے، تو انہوں نے کہا کہ میں نے تو ان سے یہی سنا کہ جو کوئی اپنا کپڑا لٹکائے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Abdullah bin `Umar: That Allah's Apostle said, "Allah will not look on the Day of Judgment at him who drags his robe (behind him) out of pride." Abu Bakr said "One side of my robe slacks down unless I get very cautious about it." Allah's Apostle said, "But you do not do that with a pride."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 57, Number 17


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 3666
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، حدثنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني حميد بن عبد الرحمن بن عوف، ان ابا هريرة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" من انفق زوجين من شيء من الاشياء في سبيل الله دعي من ابواب يعني الجنة يا عبد الله هذا خير، فمن كان من اهل الصلاة دعي من باب الصلاة , ومن كان من اهل الجهاد دعي من باب الجهاد , ومن كان من اهل الصدقة دعي من باب الصدقة , ومن كان من اهل الصيام دعي من باب الصيام وباب الريان"، فقال ابو بكر: ما على هذا الذي يدعى من تلك الابواب من ضرورة، وقال: هل يدعى منها كلها احد يا رسول الله، قال:" نعم وارجو ان تكون منهم يا ابا بكر".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ مِنْ شَيْءٍ مِنَ الْأَشْيَاءِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ دُعِيَ مِنْ أَبْوَابِ يَعْنِي الْجَنَّةَ يَا عَبْدَ اللَّهِ هَذَا خَيْرٌ، فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّلَاةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّلَاةِ , وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجِهَادِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الْجِهَادِ , وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّدَقَةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّدَقَةِ , وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصِّيَامِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصِّيَامِ وَبَابِ الرَّيَّانِ"، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: مَا عَلَى هَذَا الَّذِي يُدْعَى مِنْ تِلْكَ الْأَبْوَابِ مِنْ ضَرُورَةٍ، وَقَالَ: هَلْ يُدْعَى مِنْهَا كُلِّهَا أَحَدٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" نَعَمْ وَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ يَا أَبَا بَكْرٍ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعیب نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اللہ کے راستے میں کسی چیز کا ایک جوڑا خرچ کیا (مثلاً دو روپے، دو کپڑے، دو گھوڑے اللہ تعالیٰ کے راستے میں دیے) تو اسے جنت کے دروازوں سے بلایا جائے گا کہ اے اللہ کے بندے! ادھر آ، یہ دروازہ بہتر ہے پس جو شخص نمازی ہو گا اسے نماز کے دروازے سے بلایا جائے گا، جو شخص مجاہد ہو گا اسے جہاد کے دروازے سے بلایا جائے گا، جو شخص اہل صدقہ میں سے ہو گا اسے صدقہ کے دروازہ سے بلایا جائے گا اور جو شخص روزہ دار ہو گا اسے صیام اور ریان (سیرابی) کے دروازے سے بلایا جائے گا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا جس شخص کو ان تمام ہی دروازوں سے بلایا جائے گا پھر تو اسے کسی قسم کا خوف باقی نہیں رہے گا اور پوچھا کیا کوئی شخص ایسا بھی ہو گا جسے ان تمام دروازوں سے بلایا جائے گا یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اور مجھے امید ہے کہ تم بھی انہیں میں سے ہو گے اے ابوبکر!۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: I heard Allah's Apostle saying, "Anybody who spends a pair of something in Allah's Cause will be called from all the gates of Paradise, "O Allah's slave! This is good.' He who is amongst those who pray will be called from the gate of the prayer (in Paradise) and he who is from the people of Jihad will be called from the gate of Jihad, and he who is from those' who give in charity (i.e. Zakat) will be called from the gate of charity, and he who is amongst those who observe fast will be called from the gate of fasting, the gate of Raiyan." Abu Bakr said, "He who is called from all those gates will need nothing," He added, "Will anyone be called from all those gates, O Allah's Apostle?" He said, "Yes, and I hope you will be among those, O Abu Bakr."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 57, Number 18


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 3667
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسماعيل بن عبد الله، حدثنا سليمان بن بلال، عن هشام بن عروة، قال: اخبرني عروة بن الزبير، عن عائشة رضي الله عنها زوج النبي صلى الله عليه وسلم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم مات وابو بكر بالسنح، قال إسماعيل: يعني بالعالية , فقام عمر، يقول: والله ما مات رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت: وقال عمر: والله ما كان يقع في نفسي إلا ذاك وليبعثنه الله فليقطعن ايدي رجال وارجلهم فجاء ابو بكر فكشف عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فقبله، قال: بابي انت وامي طبت حيا وميتا , والذي نفسي بيده لا يذيقك الله الموتتين ابدا ثم خرج، فقال:" ايها الحالف على رسلك" , فلما تكلم ابو بكر جلس عمر.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاتَ وَأَبُو بَكْرٍ بِالسُّنْحِ، قَالَ إِسْمَاعِيلُ: يَعْنِي بِالْعَالِيَةِ , فَقَامَ عُمَرُ، يَقُولُ: وَاللَّهِ مَا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: وَقَالَ عُمَرُ: وَاللَّهِ مَا كَانَ يَقَعُ فِي نَفْسِي إِلَّا ذَاكَ وَلَيَبْعَثَنَّهُ اللَّهُ فَلَيَقْطَعَنَّ أَيْدِيَ رِجَالٍ وَأَرْجُلَهُمْ فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ فَكَشَفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَبَّلَهُ، قَالَ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي طِبْتَ حَيًّا وَمَيِّتًا , وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يُذِيقُكَ اللَّهُ الْمَوْتَتَيْنِ أَبَدًا ثُمَّ خَرَجَ، فَقَالَ:" أَيُّهَا الْحَالِفُ عَلَى رِسْلِكَ" , فَلَمَّا تَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ جَلَسَ عُمَرُ.
مجھ سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جب وفات ہوئی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ اس وقت مقام سنح میں تھے۔ اسماعیل نے کہا یعنی عوالی کے ایک گاؤں میں۔ آپ کی خبر سن کر عمر رضی اللہ عنہ اٹھ کر یہ کہنے لگے کہ اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات نہیں ہوئی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے اللہ کی قسم اس وقت میرے دل میں یہی خیال آتا تھا اور میں کہتا تھا کہ اللہ آپ کو ضرور اس بیماری سے اچھا کر کے اٹھائے گا اور آپ ان لوگوں کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیں گے (جو آپ کی موت کی باتیں کرتے ہیں) اتنے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے اور اندر جا کر آپ کی نعش مبارک کے اوپر سے کپڑا اٹھایا اور بوسہ دیا اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ آپ زندگی میں بھی پاکیزہ تھے اور وفات کے بعد بھی اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اللہ تعالیٰ آپ پر دو مرتبہ موت ہرگز طاری نہیں کرے گا۔ اس کے بعد آپ باہر آئے اور عمر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے، اے قسم کھانے والے! ذرا تامل کر۔ پھر جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے گفتگو شروع کی تو عمر رضی اللہ عنہ خاموش بیٹھ گئے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated 'Aisha: (the wife of the Prophet) Allah's Apostle died while Abu Bakr was at a place called As-Sunah (Al-'Aliya) 'Umar stood up and said, "By Allah! Allah's Apostle is not dead!" 'Umar (later on) said, "By Allah! Nothing occurred to my mind except that." He said, "Verily! Allah will resurrect him and he will cut the hands and legs of some men." Then Abu Bakr came and uncovered the face of Allah's Apostle, kissed him and said, "Let my mother and father be sacrificed for you, (O Allah's Apostle), you are good in life and in death. By Allah in Whose Hands my life is, Allah will never make you taste death twice." Then he went out and said, "O oath-taker! Don't be hasty." When Abu Bakr spoke, 'Umar sat down.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 57, Number 19


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 3668
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) فحمد الله ابو بكر واثنى عليه، وقال:" الا من كان يعبد محمدا صلى الله عليه وسلم فإن محمدا قد مات , ومن كان يعبد الله فإن الله حي لا يموت"، وقال: إنك ميت وإنهم ميتون سورة الزمر آية 30، وقال: وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل افإن مات او قتل انقلبتم على اعقابكم ومن ينقلب على عقبيه فلن يضر الله شيئا وسيجزي الله الشاكرين سورة آل عمران آية 144، قال: فنشج الناس يبكون، قال: واجتمعت الانصار إلى سعد بن عبادة في سقيفة بني ساعدة، فقالوا: منا امير ومنكم امير فذهب إليهم ابو بكر , وعمر بن الخطاب , وابو عبيدة بن الجراح، فذهب عمر يتكلم فاسكته ابو بكر وكان عمر، يقول: والله ما اردت بذلك إلا اني قد هيات كلاما قد اعجبني خشيت ان لا يبلغه ابو بكر ثم تكلم ابو بكر فتكلم ابلغ الناس، فقال: في كلامه نحن الامراء وانتم الوزراء، فقال: حباب بن المنذر لا والله لا نفعل منا امير ومنكم امير، فقال ابو بكر: لا ولكنا الامراء وانتم الوزراء هم اوسط العرب دارا واعربهم احسابا , فبايعوا عمر او ابا عبيدة بن الجراح، فقال عمر: بل نبايعك انت فانت سيدنا وخيرنا , واحبنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم , فاخذ عمر بيده فبايعه وبايعه الناس، فقال: قائل قتلتم سعد بن عبادة، فقال: عمر قتله الله.(مرفوع) فَحَمِدَ اللَّهَ أَبُو بَكْرٍ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَقَالَ:" أَلَا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ , وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ"، وَقَالَ: إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ سورة الزمر آية 30، وَقَالَ: وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ سورة آل عمران آية 144، قَالَ: فَنَشَجَ النَّاسُ يَبْكُونَ، قَالَ: وَاجْتَمَعَتْ الْأَنْصَارُ إِلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ، فَقَالُوا: مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ فَذَهَبَ إِلَيْهِمْ أَبُو بَكْرٍ , وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ , وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، فَذَهَبَ عُمَرُ يَتَكَلَّمُ فَأَسْكَتَهُ أَبُو بَكْرٍ وَكَانَ عُمَرُ، يَقُولُ: وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ بِذَلِكَ إِلَّا أَنِّي قَدْ هَيَّأْتُ كَلَامًا قَدْ أَعْجَبَنِي خَشِيتُ أَنْ لَا يَبْلُغَهُ أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ تَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ فَتَكَلَّمَ أَبْلَغَ النَّاسِ، فَقَالَ: فِي كَلَامِهِ نَحْنُ الْأُمَرَاءُ وَأَنْتُمُ الْوُزَرَاءُ، فَقَالَ: حُبَابُ بْنُ الْمُنْذِرِ لَا وَاللَّهِ لَا نَفْعَلُ مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: لَا وَلَكِنَّا الْأُمَرَاءُ وَأَنْتُمُ الْوُزَرَاءُ هُمْ أَوْسَطُ الْعَرَبِ دَارًا وَأَعْرَبُهُمْ أَحْسَابًا , فَبَايِعُوا عُمَرَ أَوْ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ، فَقَالَ عُمَرُ: بَلْ نُبَايِعُكَ أَنْتَ فَأَنْتَ سَيِّدُنَا وَخَيْرُنَا , وَأَحَبُّنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَأَخَذَ عُمَرُ بِيَدِهِ فَبَايَعَهُ وَبَايَعَهُ النَّاسُ، فَقَالَ: قَائِلٌ قَتَلْتُمْ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، فَقَالَ: عُمَرُ قَتَلَهُ اللَّهُ.
‏‏‏‏ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ پھر فرمایا: لوگو! دیکھو اگر کوئی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو پوجتا تھا (یعنی یہ سمجھتا تھا کہ وہ آدمی نہیں ہیں، وہ کبھی نہیں مریں گے) تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی ہے اور جو شخص اللہ کی پوجا کرتا تھا تو اللہ ہمیشہ زندہ ہے اسے موت کبھی نہیں آئے گی۔ (پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سورۃ الزمر کی یہ آیت پڑھی) «إنك ميت وإنهم ميتون‏» اے پیغمبر! تو بھی مرنے والا ہے اور وہ بھی مریں گے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا «وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل أفإن مات أو قتل انقلبتم على أعقابكم ومن ينقلب على عقبيه فلن يضر الله شيئا وسيجزي الله الشاكرين‏» محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک رسول ہیں۔ اس سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ پس کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا انہیں شہید کر دیا جائے تو تم اسلام سے پھر جاؤ گے اور جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے تو وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور اللہ عنقریب شکر گزار بندوں کو بدلہ دینے والا ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ یہ سن کر لوگ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ راوی نے بیان کیا کہ انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہو گئے اور کہنے لگے کہ ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر تم (مہاجرین) میں سے ہو گا (دونوں مل کر حکومت کریں گے) پھر ابوبکر، عمر بن خطاب اور ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہم ان کی مجلس میں پہنچے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے گفتگو کرنی چاہی لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے خاموش رہنے کے لیے کہا۔ عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ اللہ کی قسم میں نے ایسا صرف اس وجہ سے کیا تھا کہ میں نے پہلے ہی سے ایک تقریر تیار کر لی تھی جو مجھے بہت پسند آئی تھی پھر بھی مجھے ڈر تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی برابری اس سے بھی نہیں ہو سکے گی۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انتہائی بلاغت کے ساتھ بات شروع کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ ہم (قریش) امراء ہیں اور تم (جماعت انصار) وزارء ہو۔ اس پر حباب بن منذر رضی اللہ عنہ بولے کہ نہیں اللہ کی قسم ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے، ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر تم میں سے ہو گا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نہیں ہم امراء ہیں تم وزارء ہو (وجہ یہ ہے کہ) قریش کے لوگ سارے عرب میں شریف خاندان شمار کیے جاتے ہیں اور ان کا ملک (یعنی مکہ) عرب کے بیچ میں ہے تو اب تم کو اختیار ہے یا تو عمر رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لو یا ابوعبیدہ بن جراح کی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں ہم آپ کی ہی بیعت کریں گے۔ آپ ہمارے سردار ہیں، ہم میں سب سے بہتر ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک آپ ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی پھر سب لوگوں نے بیعت کی۔ اتنے میں کسی کی آواز آئی کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو تم لوگوں نے مار ڈالا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: انہیں اللہ نے مار ڈالا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Abu Bakr praised and glorified Allah and said, No doubt! Whoever worshipped Muhammad, then Muhammad is dead, but whoever worshipped Allah, then Allah is Alive and shall never die." Then he recited Allah's Statement.:-- "(O Muhammad) Verily you will die, and they also will die." (39.30) He also recited:-- "Muhammad is no more than an Apostle; and indeed many Apostles have passed away, before him, If he dies Or is killed, will you then Turn back on your heels? And he who turns back On his heels, not the least Harm will he do to Allah And Allah will give reward to those Who are grateful." (3.144) The people wept loudly, and the Ansar were assembled with Sad bin 'Ubada in the shed of Bani Saida. They said (to the emigrants). "There should be one 'Amir from us and one from you." Then Abu Bakr, Umar bin Al-Khattab and Abu 'baida bin Al-Jarrah went to them. 'Umar wanted to speak but Abu Bakr stopped him. 'Umar later on used to say, "By Allah, I intended only to say something that appealed to me and I was afraid that Abu Bakr would not speak so well. Then Abu Bakr spoke and his speech was very eloquent. He said in his statement, "We are the rulers and you (Ansars) are the ministers (i.e. advisers)," Hubab bin Al-Mundhir said, "No, by Allah we won't accept this. But there must be a ruler from us and a ruler from you." Abu Bakr said, "No, we will be the rulers and you will be the ministers, for they (i.e. Quarish) are the best family amongst the 'Arabs and of best origin. So you should elect either 'Umar or Abu 'Ubaida bin Al-Jarrah as your ruler." 'Umar said (to Abu Bakr), "No but we elect you, for you are our chief and the best amongst us and the most beloved of all of us to Allah's Apostle." So 'Umar took Abu Bakr's hand and gave the pledge of allegiance and the people too gave the pledge of allegiance to Abu Bakr. Someone said, "You have killed Sad bin Ubada." 'Umar said, "Allah has killed him."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5 , Book 57 , Number 19


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 3669
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) وقال عبد الله بن سالم: عن الزبيدي، قال عبد الرحمن بن القاسم، اخبرني القاسم، ان عائشة رضي الله عنها قالت: شخص بصر النبي صلى الله عليه وسلم، ثم قال: في الرفيق الاعلى ثلاثا وقص الحديث، قالت: فما كانت من خطبتهما من خطبة إلا نفع الله بها لقد خوف عمر الناس وإن فيهم لنفاقا فردهم الله بذلك.(مرفوع) وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَالِمٍ: عَنْ الزُّبَيْدِيِّ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، أَخْبَرَنِي الْقَاسِمُ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: شَخَصَ بَصَرُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَى ثَلَاثًا وَقَصَّ الْحَدِيثَ، قَالَتْ: فَمَا كَانَتْ مِنْ خُطْبَتِهِمَا مِنْ خُطْبَةٍ إِلَّا نَفَعَ اللَّهُ بِهَا لَقَدْ خَوَّفَ عُمَرُ النَّاسَ وَإِنَّ فِيهِمْ لَنِفَاقًا فَرَدَّهُمُ اللَّهُ بِذَلِكَ.
اور عبداللہ بن سالم نے زبیدی سے نقل کیا کہ عبدالرحمٰن بن قاسم نے بیان کیا، انہیں قاسم نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر (وفات سے پہلے) اٹھی اور آپ نے فرمایا:اے اللہ! مجھے رفیق اعلیٰ میں (داخل کر) آپ نے یہ جملہ تین مرتبہ فرمایا اور راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما دونوں ہی کے خطبوں سے نفع پہنچا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو دھمکایا کیونکہ ان میں بعض منافقین بھی تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس طرح (غلط افواہیں پھیلانے سے) ان کو باز رکھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

'Aisha said (in another narration), ("When the Prophet was on his death-bed) he looked up and said thrice, (Amongst) the Highest Companion (See Qur'an 4.69)' Aisha said, Allah benefited the people by their two speeches. 'Umar frightened the people some of whom were hypocrites whom Allah caused to abandon Islam because of 'Umar's speech.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 57, Number 19


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 3670
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) ثم لقد بصر ابو بكر الناس الهدى وعرفهم الحق الذي عليهم وخرجوا به يتلون وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل إلى الشاكرين سورة آل عمران آية 144".(مرفوع) ثُمَّ لَقَدْ بَصَّرَ أَبُو بَكْرٍ النَّاسَ الْهُدَى وَعَرَّفَهُمُ الْحَقَّ الَّذِي عَلَيْهِمْ وَخَرَجُوا بِهِ يَتْلُونَ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ إِلَى الشَّاكِرِينَ سورة آل عمران آية 144".
‏‏‏‏ اور بعد میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جو حق اور ہدایت کی بات تھی وہ لوگوں کو سمجھا دی اور ان کو بتلا دیا جو ان پر لازم تھا (یعنی اسلام پر قائم رہنا) اور وہ یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے باہر آئے «وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل‏» محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک رسول ہیں اور ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں «الشاكرين‏» تک۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Then Abu Bakr led the people to True Guidance and acquainted them with the right path they were to follow so that they went out reciting:-- "Muhammad is no more than an Apostle and indeed many Apostles have passed away before him.." (3.144)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5 , Book 57 , Number 19


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 3671
Save to word اعراب English
(موقوف) حدثنا محمد بن كثير، اخبرنا سفيان، حدثنا جامع بن ابي راشد، حدثنا ابو يعلى، عن محمد بن الحنفية، قال: قلت لابي:" اي الناس خير بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال ابو بكر: قلت: ثم من، قال: ثم عمر وخشيت ان يقول: عثمان، قلت: ثم انت، قال: ما انا إلا رجل من المسلمين".(موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا جَامِعُ بْنُ أَبِي رَاشِدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو يَعْلَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي:" أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ، قَالَ: ثُمَّ عُمَرُ وَخَشِيتُ أَنْ يَقُولَ: عُثْمَانُ، قُلْتُ: ثُمَّ أَنْتَ، قَالَ: مَا أَنَا إِلَّا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ".
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، کہا ہم سے جامع بن ابی راشد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابویعلیٰ نے بیان کیا، ان سے محمد بن حنفیہ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد (علی رضی اللہ عنہ) سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل صحابی کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ میں نے پوچھا پھر کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا، اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔ مجھے اس کا اندیشہ ہوا کہ اب (پھر میں نے پوچھا کہ اس کے بعد؟) کہہ دیں گے کہ عثمان رضی اللہ عنہ اس لیے میں نے خود کہا، اس کے بعد آپ ہیں؟ یہ سن کر وہ بولے کہ میں تو صرف عام مسلمانوں کی جماعت کا ایک شخص ہوں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Muhammad bin Al-Hanafiya: I asked my father (`Ali bin Abi Talib), "Who are the best people after Allah's Apostle ?" He said, "Abu Bakr." I asked, "Who then?" He said, "Then `Umar. " I was afraid he would say "Uthman, so I said, "Then you?" He said, "I am only an ordinary person.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 57, Number 20


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 3672
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، عن مالك، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها , انها قالت:" خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض اسفاره حتى إذا كنا بالبيداء او بذات الجيش انقطع عقد لي فاقام رسول الله صلى الله عليه وسلم على التماسه، واقام الناس معه وليسوا على ماء وليس معهم ماء فاتى الناس ابا بكر، فقالوا: الا ترى ما صنعت عائشة اقامت برسول الله صلى الله عليه وسلم وبالناس معه , وليسوا على ماء وليس معهم ماء , فجاء ابو بكر ورسول الله صلى الله عليه وسلم واضع راسه على فخذي قد نام، فقال: حبست رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس وليسوا على ماء وليس معهم ماء، قالت: فعاتبني، وقال: ما شاء الله ان يقول: وجعل يطعنني بيده في خاصرتي فلا يمنعني من التحرك إلا مكان رسول الله صلى الله عليه وسلم على فخذي , فنام رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى اصبح على غير ماء , فانزل الله آية التيمم , فتيمموا، فقال: اسيد بن الحضير ما هي باول بركتكم يا آل ابي بكر، فقالت عائشة: فبعثنا البعير الذي كنت عليه فوجدنا العقد تحته".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , أَنَّهَا قَالَتْ:" خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ أَوْ بِذَاتِ الْجَيْشِ انْقَطَعَ عِقْدٌ لِي فَأَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْتِمَاسِهِ، وَأَقَامَ النَّاسُ مَعَهُ وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ فَأَتَى النَّاسُ أَبَا بَكْرٍ، فَقَالُوا: أَلَا تَرَى مَا صَنَعَتْ عَائِشَةُ أَقَامَتْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِالنَّاسِ مَعَهُ , وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ , فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاضِعٌ رَأْسَهُ عَلَى فَخِذِي قَدْ نَامَ، فَقَالَ: حَبَسْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسَ وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، قَالَتْ: فَعَاتَبَنِي، وَقَالَ: مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ: وَجَعَلَ يَطْعُنُنِي بِيَدِهِ فِي خَاصِرَتِي فَلَا يَمْنَعُنِي مِنَ التَّحَرُّكِ إِلَّا مَكَانُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَخِذِي , فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَصْبَحَ عَلَى غَيْرِ مَاءٍ , فَأَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ التَّيَمُّمِ , فَتَيَمَّمُوا، فَقَالَ: أُسَيْدُ بْنُ الْحُضَيْرِ مَا هِيَ بِأَوَّلِ بَرَكَتِكُمْ يَا آلَ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَبَعَثْنَا الْبَعِيرَ الَّذِي كُنْتُ عَلَيْهِ فَوَجَدْنَا الْعِقْدَ تَحْتَهُ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے مالک نے، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک سفر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے جب ہم مقام بیداء یا مقام ذات الجیش پر پہنچے تو میرا ایک ہار ٹوٹ کر گر گیا، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تلاش کے لیے وہاں ٹھہر گئے اور صحابہ بھی آپ کے ساتھ ٹھہرے لیکن نہ اس جگہ پانی تھا اور نہ ان کے پاس پانی تھا۔ لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر کہنے لگے کہ آپ ملاحظہ نہیں فرماتے، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہیں روک لیا ہے۔ اتنے صحابہ آپ کے ساتھ ہیں۔ نہ تو یہاں پانی ہے اور نہ لوگ اپنے ساتھ (پانی) لیے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ اندر آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اپنا سر مبارک میری ران پر رکھے ہوئے سو رہے تھے۔ وہ کہنے لگے، تمہاری وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور سب لوگوں کو رکنا پڑا۔ اب نہ یہاں کہیں پانی ہے اور نہ لوگوں کے پاس پانی ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھ پر غصہ کیا اور جو کچھ اللہ کو منظور تھا انہوں نے کہا اور اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں کچوکے لگانے لگے۔ میں ضرور تڑپ اٹھتی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری ران پر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے رہے۔ جب صبح ہوئی تو پانی نہیں تھا اور اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے تیمم کا حکم نازل فرمایا اور سب نے تیمم کیا۔ اس پر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے آل ابوبکر! یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر ہم نے جب اس اونٹ کو اٹھایا جس پر میں سوار تھی تو ہار اسی کے نیچے ہمیں ملا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Aisha: We went out with Allah's Apostle on one of his journeys till we reached Al-Baida or Dhatul-Jaish where my necklace got broken (and lost). Allah's Apostle stopped to search for it and the people too stopped with him. There was no water at that place and they had no water with them. So they went to Abu Bakr and said, "Don't you see what `Aisha has done? She has made Allah's Apostle and the people stop where there is no water and they have no water with them. Abu Bakr came while Allah's Apostle was sleeping with his head on my thigh and said, "You detained Allah Apostle and the people where there is no water and they have no water." He then admonished me and said what Allah wished and pinched me at my flanks with his hands, but I did not move because the head of Allah's Apostle was on my thigh . Allah's Apostle kept on sleeping till be got up in the morning and found no water. Then Allah revealed the Divine Verse of Tayammum, and the people performed Tayammum. Usaid bin AlHudair said. "O family of Abu Bakr! This is not the first blessings of yours." We urged the camel on which I was sitting to get up from its place and the necklace was found under it.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 57, Number 21


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 3673
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا آدم بن ابي إياس , حدثنا شعبة، عن الاعمش، قال: سمعت ذكوان يحدث، عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه , قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" لا تسبوا اصحابي فلو ان احدكم انفق مثل احد ذهبا ما بلغ مد احدهم ولا نصيفه". تابعه جرير , وعبد الله بن داود , وابو معاوية , ومحاضر، عن الاعمش.(مرفوع) حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، قَالَ: سَمِعْتُ ذَكْوَانَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ". تَابَعَهُ جَرِيرٌ , وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ , وَأَبُو مُعَاوِيَةَ , وَمُحَاضِرٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ.
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، کہا میں نے ذکوان سے سنا اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے اصحاب کو برا بھلا مت کہو۔ اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا (اللہ کی راہ میں) خرچ کر ڈالے تو ان کے ایک مد غلہ کے برابر بھی نہیں ہو سکتا اور نہ ان کے آدھے مد کے برابر۔ شعبہ کے ساتھ اس حدیث کو جریر، عبداللہ بن داود، ابومعاویہ اور محاضر نے بھی اعمش سے روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Sa`id: The Prophet said, "Do not abuse my companions for if any one of you spent gold equal to Uhud (in Allah's Cause) it would not be equal to a Mud or even a half Mud spent by one of them."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 57, Number 22


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 3674
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن مسكين ابو الحسن، حدثنا يحيى بن حسان، حدثنا سليمان، عن شريك بن ابي نمر، عن سعيد بن المسيب، قال:اخبرني ابو موسى الاشعري، انه توضا في بيته ثم خرج، فقلت: لالزمن رسول الله صلى الله عليه وسلم ولاكونن معه يومي هذا، قال: فجاء المسجد فسال عن النبي صلى الله عليه وسلم، فقالوا: خرج ووجه ها هنا فخرجت على إثره اسال عنه حتى دخل بئر اريس فجلست عند الباب وبابها من جريد حتى قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم حاجته , فتوضا فقمت إليه فإذا هو جالس على بئر اريس وتوسط قفها وكشف عن ساقيه ودلاهما في البئر , فسلمت عليه ثم انصرفت فجلست عند الباب، فقلت: لاكونن بواب رسول الله صلى الله عليه وسلم اليوم فجاء ابو بكر فدفع الباب، فقلت: من هذا؟، فقال: ابو بكر، فقلت: على رسلك ثم ذهبت، فقلت: يا رسول الله هذا ابو بكر يستاذن، فقال:" ائذن له وبشره بالجنة" , فاقبلت حتى قلت: لابي بكر ادخل ورسول الله صلى الله عليه وسلم يبشرك بالجنة , فدخل ابو بكر فجلس عن يمين رسول الله صلى الله عليه وسلم معه في القف ودلى رجليه في البئر كما صنع النبي صلى الله عليه وسلم وكشف عن ساقيه، ثم رجعت فجلست وقد تركت اخي يتوضا ويلحقني، فقلت: إن يرد الله بفلان خيرا يريد اخاه يات به فإذا إنسان يحرك الباب، فقلت: من هذا؟، فقال: عمر بن الخطاب، فقلت: على رسلك ثم جئت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فسلمت عليه، فقلت: هذا عمر بن الخطاب يستاذن، فقال:" ائذن له وبشره بالجنة" , فجئت فقلت: ادخل وبشرك رسول الله صلى الله عليه وسلم بالجنة , فدخل فجلس مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في القف عن يساره ودلى رجليه في البئر ثم رجعت فجلست، فقلت: إن يرد الله بفلان خيرا يات به فجاء إنسان يحرك الباب، فقلت: من هذا؟، فقال: عثمان بن عفان، فقلت: على رسلك فجئت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبرته، فقال:" ائذن له وبشره بالجنة على بلوى تصيبه" , فجئته فقلت: له ادخل وبشرك رسول الله صلى الله عليه وسلم بالجنة على بلوى تصيبك فدخل فوجد القف قد ملئ فجلس وجاهه من الشق الآخر، قال: شريك بن عبد الله، قال: سعيد بن المسيب فاولتها قبورهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِسْكِينٍ أَبُو الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ:أَخْبَرَنِي أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ، أَنَّهُ تَوَضَّأَ فِي بَيْتِهِ ثُمَّ خَرَجَ، فَقُلْتُ: لَأَلْزَمَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَأَكُونَنَّ مَعَهُ يَوْمِي هَذَا، قَالَ: فَجَاءَ الْمَسْجِدَ فَسَأَلَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: خَرَجَ وَوَجَّهَ هَا هُنَا فَخَرَجْتُ عَلَى إِثْرِهِ أَسْأَلُ عَنْهُ حَتَّى دَخَلَ بِئْرَ أَرِيسٍ فَجَلَسْتُ عِنْدَ الْبَابِ وَبَابُهَا مِنْ جَرِيدٍ حَتَّى قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجَتَهُ , فَتَوَضَّأَ فَقُمْتُ إِلَيْهِ فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ عَلَى بِئْرِ أَرِيسٍ وَتَوَسَّطَ قُفَّهَا وَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ وَدَلَّاهُمَا فِي الْبِئْرِ , فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ ثُمَّ انْصَرَفْتُ فَجَلَسْتُ عِنْدَ الْبَابِ، فَقُلْتُ: لَأَكُونَنَّ بَوَّابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيَوْمَ فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ فَدَفَعَ الْبَابَ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟، فَقَالَ: أَبُو بَكْرٍ، فَقُلْتُ: عَلَى رِسْلِكَ ثُمَّ ذَهَبْتُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا أَبُو بَكْرٍ يَسْتَأْذِنُ، فَقَالَ:" ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ" , فَأَقْبَلْتُ حَتَّى قُلْتُ: لِأَبِي بَكْرٍ ادْخُلْ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبَشِّرُكَ بِالْجَنَّةِ , فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ فَجَلَسَ عَنْ يَمِينِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُ فِي الْقُفِّ وَدَلَّى رِجْلَيْهِ فِي الْبِئْرِ كَمَا صَنَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ، ثُمَّ رَجَعْتُ فَجَلَسْتُ وَقَدْ تَرَكْتُ أَخِي يَتَوَضَّأُ وَيَلْحَقُنِي، فَقُلْتُ: إِنْ يُرِدِ اللَّهُ بِفُلَانٍ خَيْرًا يُرِيدُ أَخَاهُ يَأْتِ بِهِ فَإِذَا إِنْسَانٌ يُحَرِّكُ الْبَابَ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟، فَقَالَ: عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقُلْتُ: عَلَى رِسْلِكَ ثُمَّ جِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ: هَذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَسْتَأْذِنُ، فَقَالَ:" ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ" , فَجِئْتُ فَقُلْتُ: ادْخُلْ وَبَشَّرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْجَنَّةِ , فَدَخَلَ فَجَلَسَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقُفِّ عَنْ يَسَارِهِ وَدَلَّى رِجْلَيْهِ فِي الْبِئْرِ ثُمَّ رَجَعْتُ فَجَلَسْتُ، فَقُلْتُ: إِنْ يُرِدِ اللَّهُ بِفُلَانٍ خَيْرًا يَأْتِ بِهِ فَجَاءَ إِنْسَانٌ يُحَرِّكُ الْبَابَ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟، فَقَالَ: عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، فَقُلْتُ: عَلَى رِسْلِكَ فَجِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ:" ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تُصِيبُهُ" , فَجِئْتُهُ فَقُلْتُ: لَهُ ادْخُلْ وَبَشَّرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تُصِيبُكَ فَدَخَلَ فَوَجَدَ الْقُفَّ قَدْ مُلِئَ فَجَلَسَ وِجَاهَهُ مِنَ الشَّقِّ الْآخَرِ، قَالَ: شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ فَأَوَّلْتُهَا قُبُورَهُمْ.
ہم سے ابوالحسن محمد بن مسکین نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن حسان نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان نے بیان کیا، ان سے شریک بن ابی نمر نے، ان سے سعید بن مسیب نے بیان کیا، کہا مجھ کو ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہوں نے ایک دن اپنے گھر میں وضو کیا اور اس ارادہ سے نکلے کہ آج دن بھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑوں گا۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر وہ مسجد نبوی میں حاضر ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھا تو وہاں موجود لوگوں نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو تشریف لے جا چکے ہیں اور آپ اس طرف تشریف لے گئے ہیں۔ چنانچہ میں آپ کے متعلق پوچھتا ہوا آپ کے پیچھے پیچھے نکلا اور آخر میں نے دیکھا کہ آپ (قباء کے قریب) بئراریس میں داخل ہو رہے ہیں، میں دروازے پر بیٹھ گیا اور اس کا دروازہ کھجور کی شاخوں سے بنا ہوا تھا۔ جب آپ قضائے حاجت کر چکے اور آپ نے وضو بھی کر لیا تو میں آپ کے پاس گیا۔ میں نے دیکھا کہ آپ بئراریس (اس باغ کے کنویں) کی منڈیر پر بیٹھے ہوئے ہیں، اپنی پنڈلیاں آپ نے کھول رکھی ہیں اور کنویں میں پاؤں لٹکائے ہوئے ہیں۔ میں نے آپ کو سلام کیا اور پھر واپس آ کر باغ کے دروازے پر بیٹھ گیا۔ میں نے سوچا کہ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دربان رہوں گا۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور دروازہ کھولنا چاہا تو میں نے پوچھا کہ کون صاحب ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ابوبکر! میں نے کہا تھوڑی دیر ٹھہر جائیے۔ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ابوبکر دروازے پر موجود ہیں اور اندر آنے کی اجازت آپ سے چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی۔ میں دروازہ پر آیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سے میں نے کہا کہ اندر تشریف لے جائیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ اندر داخل ہوئے اور اسی کنویں کی منڈیر پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داہنی طرف بیٹھ گئے اور اپنے دونوں پاؤں کنویں میں لٹکا لیے۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لٹکائے ہوئے تھے اور اپنی پنڈلیوں کو بھی کھول لیا تھا۔ پھر میں واپس آ کر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ میں آتے وقت اپنے بھائی کو وضو کرتا ہوا چھوڑ آیا تھا۔ وہ میرے ساتھ آنے والے تھے۔ میں نے اپنے دل میں کہا، کاش اللہ تعالیٰ فلاں کو خبر دے دیتا۔ ان کی مراد اپنے بھائی سے تھی اور انہیں یہاں پہنچا دیتا۔ اتنے میں کسی صاحب نے دروازہ پر دستک دی میں نے پوچھا کون صاحب ہیں؟ کہا کہ عمر بن خطاب۔ میں نے کہا کہ تھوڑی دیر کے لیے ٹھہر جائیے، چنانچہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کے بعد عرض کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ دروازے پر کھڑے ہیں اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی پہنچا دو۔ میں واپس آیا اور کہا کہ اندر تشریف لے جائیے اور آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی ہے۔ وہ بھی داخل ہوئے اور آپ کے ساتھ اسی منڈیر پر بائیں طرف بیٹھ گئے اور اپنے پاؤں کنویں میں لٹکا لیے۔ میں پھر دروازے پر آ کر بیٹھ گیا اور سوچتا رہا کہ اگر اللہ تعالیٰ فلاں (ان کے بھائی) کے ساتھ خیر چاہے گا تو اسے یہاں پہنچا دے گا، اتنے میں ایک اور صاحب آئے اور دروازے پر دستک دی، میں نے پوچھا کون صاحب ہیں؟ بولے کہ عثمان بن عفان، میں نے کہا تھوڑی دیر کے لیے رک جائیے، میں آپ کے پاس آیا اور میں نے آپ کو ان کی اطلاع دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور ایک مصیبت پر جو انہیں پہنچے گی جنت کی بشارت پہنچا دو۔ میں دروازے پر آیا اور میں نے ان سے کہا کہ اندر تشریف لے جائیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہے، ایک مصیبت پر جو آپ کو پہنچے گی۔ وہ جب داخل ہوئے تو دیکھا چبوترہ پر جگہ نہیں ہے اس لیے وہ دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گئے۔ شریک نے بیان کیا کہ سعید بن مسیب نے کہا میں نے اس سے ان کی قبروں کی تاویل لی ہے (کہ اسی طرح بنیں گی)۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Musa Al-Ash`ari: I performed ablution in my house and then went out and said, "Today I shall stick to Allah's Apostle and stay with him all this day of mine (in his service)." I went to the Mosque and asked about the Prophet . They said, "He had gone in this direction." So I followed his way, asking about him till he entered a place called Bir Aris. I sat at its gate that was made of date-palm leaves till the Prophet finished answering the call of nature and performed ablution. Then I went up to him to see him sitting at the well of Aris at the middle of its edge with his legs uncovered, hanging in the well. I greeted him and went back and sat at the gate. I said, "Today I will be the gatekeeper of the Prophet." Abu Bakr came and pushed the gate. I asked, "Who is it?" He said, "Abu Bakr." I told him to wait, went in and said, "O Allah's Apostle! Abu Bakr asks for permission to enter." He said, "Admit him and give him the glad tidings that he will be in Paradise." So I went out and said to Abu Bakr, "Come in, and Allah's Apostle gives you the glad tidings that you will be in Paradise" Abu Bakr entered and sat on the right side of Allah's Apostle on the built edge of the well and hung his legs n the well as the Prophet did and uncovered his legs. I then returned and sat (at the gate). I had left my brother performing ablution and he intended to follow me. So I said (to myself). "If Allah wants good for so-and-so (i.e. my brother) He will bring him here." Suddenly somebody moved the door. I asked, "Who is it?" He said, "`Umar bin Al-Khattab." I asked him to wait, went to Allah's Apostle, greeted him and said, `Umar bin Al-Khattab asks the permission to enter." He said, "Admit him, and give him the glad tidings that he will be in Paradise." I went to "`Umar and said "Come in, and Allah's Apostle, gives you the glad tidings that you will be in Paradise." So he entered and sat beside Allah's Apostle on the built edge of the well on the left side and hung his legs in the well. I returned and sat (at the gate) and said, (to myself), "If Allah wants good for so-and-so, He will bring him here." Somebody came and moved the door. I asked "Who is it?" He replied, "Uthman bin `Affan." I asked him to wait and went to the Prophet and informed him. He said, "Admit him, and give him the glad tidings of entering Paradise, I asked him to wait and went to the Prophet and informed him. He said, "Adult him, and give him the glad tidings of entering Paradise after a calamity that will befall him." So I went up to him and said to him, "Come in; Allah's Apostle gives you the glad tidings of entering Paradise after a calamity that will befall you. "Uthman then came in and found that the built edge of the well was occupied, so he sat opposite to the Prophet on the other side. Sa`id bin Al-Musaiyab said, "I interpret this (narration) in terms of their graves."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 57, Number 23


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.