صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
The Virtues and Merits of The Companions of The Prophet
5. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً»:
5. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اگر میں کسی کو جانی دوست بناتا تو ابوبکر کو بناتا۔
(5) Chapter. The saying of the Prophet: “If I were to take a Khalil...".
حدیث نمبر: 3674
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن مسكين ابو الحسن، حدثنا يحيى بن حسان، حدثنا سليمان، عن شريك بن ابي نمر، عن سعيد بن المسيب، قال:اخبرني ابو موسى الاشعري، انه توضا في بيته ثم خرج، فقلت: لالزمن رسول الله صلى الله عليه وسلم ولاكونن معه يومي هذا، قال: فجاء المسجد فسال عن النبي صلى الله عليه وسلم، فقالوا: خرج ووجه ها هنا فخرجت على إثره اسال عنه حتى دخل بئر اريس فجلست عند الباب وبابها من جريد حتى قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم حاجته , فتوضا فقمت إليه فإذا هو جالس على بئر اريس وتوسط قفها وكشف عن ساقيه ودلاهما في البئر , فسلمت عليه ثم انصرفت فجلست عند الباب، فقلت: لاكونن بواب رسول الله صلى الله عليه وسلم اليوم فجاء ابو بكر فدفع الباب، فقلت: من هذا؟، فقال: ابو بكر، فقلت: على رسلك ثم ذهبت، فقلت: يا رسول الله هذا ابو بكر يستاذن، فقال:" ائذن له وبشره بالجنة" , فاقبلت حتى قلت: لابي بكر ادخل ورسول الله صلى الله عليه وسلم يبشرك بالجنة , فدخل ابو بكر فجلس عن يمين رسول الله صلى الله عليه وسلم معه في القف ودلى رجليه في البئر كما صنع النبي صلى الله عليه وسلم وكشف عن ساقيه، ثم رجعت فجلست وقد تركت اخي يتوضا ويلحقني، فقلت: إن يرد الله بفلان خيرا يريد اخاه يات به فإذا إنسان يحرك الباب، فقلت: من هذا؟، فقال: عمر بن الخطاب، فقلت: على رسلك ثم جئت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فسلمت عليه، فقلت: هذا عمر بن الخطاب يستاذن، فقال:" ائذن له وبشره بالجنة" , فجئت فقلت: ادخل وبشرك رسول الله صلى الله عليه وسلم بالجنة , فدخل فجلس مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في القف عن يساره ودلى رجليه في البئر ثم رجعت فجلست، فقلت: إن يرد الله بفلان خيرا يات به فجاء إنسان يحرك الباب، فقلت: من هذا؟، فقال: عثمان بن عفان، فقلت: على رسلك فجئت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبرته، فقال:" ائذن له وبشره بالجنة على بلوى تصيبه" , فجئته فقلت: له ادخل وبشرك رسول الله صلى الله عليه وسلم بالجنة على بلوى تصيبك فدخل فوجد القف قد ملئ فجلس وجاهه من الشق الآخر، قال: شريك بن عبد الله، قال: سعيد بن المسيب فاولتها قبورهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِسْكِينٍ أَبُو الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ:أَخْبَرَنِي أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ، أَنَّهُ تَوَضَّأَ فِي بَيْتِهِ ثُمَّ خَرَجَ، فَقُلْتُ: لَأَلْزَمَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَأَكُونَنَّ مَعَهُ يَوْمِي هَذَا، قَالَ: فَجَاءَ الْمَسْجِدَ فَسَأَلَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: خَرَجَ وَوَجَّهَ هَا هُنَا فَخَرَجْتُ عَلَى إِثْرِهِ أَسْأَلُ عَنْهُ حَتَّى دَخَلَ بِئْرَ أَرِيسٍ فَجَلَسْتُ عِنْدَ الْبَابِ وَبَابُهَا مِنْ جَرِيدٍ حَتَّى قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجَتَهُ , فَتَوَضَّأَ فَقُمْتُ إِلَيْهِ فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ عَلَى بِئْرِ أَرِيسٍ وَتَوَسَّطَ قُفَّهَا وَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ وَدَلَّاهُمَا فِي الْبِئْرِ , فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ ثُمَّ انْصَرَفْتُ فَجَلَسْتُ عِنْدَ الْبَابِ، فَقُلْتُ: لَأَكُونَنَّ بَوَّابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيَوْمَ فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ فَدَفَعَ الْبَابَ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟، فَقَالَ: أَبُو بَكْرٍ، فَقُلْتُ: عَلَى رِسْلِكَ ثُمَّ ذَهَبْتُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا أَبُو بَكْرٍ يَسْتَأْذِنُ، فَقَالَ:" ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ" , فَأَقْبَلْتُ حَتَّى قُلْتُ: لِأَبِي بَكْرٍ ادْخُلْ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبَشِّرُكَ بِالْجَنَّةِ , فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ فَجَلَسَ عَنْ يَمِينِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُ فِي الْقُفِّ وَدَلَّى رِجْلَيْهِ فِي الْبِئْرِ كَمَا صَنَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ، ثُمَّ رَجَعْتُ فَجَلَسْتُ وَقَدْ تَرَكْتُ أَخِي يَتَوَضَّأُ وَيَلْحَقُنِي، فَقُلْتُ: إِنْ يُرِدِ اللَّهُ بِفُلَانٍ خَيْرًا يُرِيدُ أَخَاهُ يَأْتِ بِهِ فَإِذَا إِنْسَانٌ يُحَرِّكُ الْبَابَ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟، فَقَالَ: عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقُلْتُ: عَلَى رِسْلِكَ ثُمَّ جِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ: هَذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَسْتَأْذِنُ، فَقَالَ:" ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ" , فَجِئْتُ فَقُلْتُ: ادْخُلْ وَبَشَّرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْجَنَّةِ , فَدَخَلَ فَجَلَسَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقُفِّ عَنْ يَسَارِهِ وَدَلَّى رِجْلَيْهِ فِي الْبِئْرِ ثُمَّ رَجَعْتُ فَجَلَسْتُ، فَقُلْتُ: إِنْ يُرِدِ اللَّهُ بِفُلَانٍ خَيْرًا يَأْتِ بِهِ فَجَاءَ إِنْسَانٌ يُحَرِّكُ الْبَابَ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟، فَقَالَ: عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، فَقُلْتُ: عَلَى رِسْلِكَ فَجِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ:" ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تُصِيبُهُ" , فَجِئْتُهُ فَقُلْتُ: لَهُ ادْخُلْ وَبَشَّرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تُصِيبُكَ فَدَخَلَ فَوَجَدَ الْقُفَّ قَدْ مُلِئَ فَجَلَسَ وِجَاهَهُ مِنَ الشَّقِّ الْآخَرِ، قَالَ: شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ فَأَوَّلْتُهَا قُبُورَهُمْ.
ہم سے ابوالحسن محمد بن مسکین نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن حسان نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان نے بیان کیا، ان سے شریک بن ابی نمر نے، ان سے سعید بن مسیب نے بیان کیا، کہا مجھ کو ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہوں نے ایک دن اپنے گھر میں وضو کیا اور اس ارادہ سے نکلے کہ آج دن بھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑوں گا۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر وہ مسجد نبوی میں حاضر ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھا تو وہاں موجود لوگوں نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو تشریف لے جا چکے ہیں اور آپ اس طرف تشریف لے گئے ہیں۔ چنانچہ میں آپ کے متعلق پوچھتا ہوا آپ کے پیچھے پیچھے نکلا اور آخر میں نے دیکھا کہ آپ (قباء کے قریب) بئراریس میں داخل ہو رہے ہیں، میں دروازے پر بیٹھ گیا اور اس کا دروازہ کھجور کی شاخوں سے بنا ہوا تھا۔ جب آپ قضائے حاجت کر چکے اور آپ نے وضو بھی کر لیا تو میں آپ کے پاس گیا۔ میں نے دیکھا کہ آپ بئراریس (اس باغ کے کنویں) کی منڈیر پر بیٹھے ہوئے ہیں، اپنی پنڈلیاں آپ نے کھول رکھی ہیں اور کنویں میں پاؤں لٹکائے ہوئے ہیں۔ میں نے آپ کو سلام کیا اور پھر واپس آ کر باغ کے دروازے پر بیٹھ گیا۔ میں نے سوچا کہ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دربان رہوں گا۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور دروازہ کھولنا چاہا تو میں نے پوچھا کہ کون صاحب ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ابوبکر! میں نے کہا تھوڑی دیر ٹھہر جائیے۔ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ابوبکر دروازے پر موجود ہیں اور اندر آنے کی اجازت آپ سے چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی۔ میں دروازہ پر آیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سے میں نے کہا کہ اندر تشریف لے جائیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ اندر داخل ہوئے اور اسی کنویں کی منڈیر پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داہنی طرف بیٹھ گئے اور اپنے دونوں پاؤں کنویں میں لٹکا لیے۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لٹکائے ہوئے تھے اور اپنی پنڈلیوں کو بھی کھول لیا تھا۔ پھر میں واپس آ کر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ میں آتے وقت اپنے بھائی کو وضو کرتا ہوا چھوڑ آیا تھا۔ وہ میرے ساتھ آنے والے تھے۔ میں نے اپنے دل میں کہا، کاش اللہ تعالیٰ فلاں کو خبر دے دیتا۔ ان کی مراد اپنے بھائی سے تھی اور انہیں یہاں پہنچا دیتا۔ اتنے میں کسی صاحب نے دروازہ پر دستک دی میں نے پوچھا کون صاحب ہیں؟ کہا کہ عمر بن خطاب۔ میں نے کہا کہ تھوڑی دیر کے لیے ٹھہر جائیے، چنانچہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کے بعد عرض کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ دروازے پر کھڑے ہیں اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی پہنچا دو۔ میں واپس آیا اور کہا کہ اندر تشریف لے جائیے اور آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی ہے۔ وہ بھی داخل ہوئے اور آپ کے ساتھ اسی منڈیر پر بائیں طرف بیٹھ گئے اور اپنے پاؤں کنویں میں لٹکا لیے۔ میں پھر دروازے پر آ کر بیٹھ گیا اور سوچتا رہا کہ اگر اللہ تعالیٰ فلاں (ان کے بھائی) کے ساتھ خیر چاہے گا تو اسے یہاں پہنچا دے گا، اتنے میں ایک اور صاحب آئے اور دروازے پر دستک دی، میں نے پوچھا کون صاحب ہیں؟ بولے کہ عثمان بن عفان، میں نے کہا تھوڑی دیر کے لیے رک جائیے، میں آپ کے پاس آیا اور میں نے آپ کو ان کی اطلاع دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور ایک مصیبت پر جو انہیں پہنچے گی جنت کی بشارت پہنچا دو۔ میں دروازے پر آیا اور میں نے ان سے کہا کہ اندر تشریف لے جائیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہے، ایک مصیبت پر جو آپ کو پہنچے گی۔ وہ جب داخل ہوئے تو دیکھا چبوترہ پر جگہ نہیں ہے اس لیے وہ دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گئے۔ شریک نے بیان کیا کہ سعید بن مسیب نے کہا میں نے اس سے ان کی قبروں کی تاویل لی ہے (کہ اسی طرح بنیں گی)۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Musa Al-Ash`ari: I performed ablution in my house and then went out and said, "Today I shall stick to Allah's Apostle and stay with him all this day of mine (in his service)." I went to the Mosque and asked about the Prophet . They said, "He had gone in this direction." So I followed his way, asking about him till he entered a place called Bir Aris. I sat at its gate that was made of date-palm leaves till the Prophet finished answering the call of nature and performed ablution. Then I went up to him to see him sitting at the well of Aris at the middle of its edge with his legs uncovered, hanging in the well. I greeted him and went back and sat at the gate. I said, "Today I will be the gatekeeper of the Prophet." Abu Bakr came and pushed the gate. I asked, "Who is it?" He said, "Abu Bakr." I told him to wait, went in and said, "O Allah's Apostle! Abu Bakr asks for permission to enter." He said, "Admit him and give him the glad tidings that he will be in Paradise." So I went out and said to Abu Bakr, "Come in, and Allah's Apostle gives you the glad tidings that you will be in Paradise" Abu Bakr entered and sat on the right side of Allah's Apostle on the built edge of the well and hung his legs n the well as the Prophet did and uncovered his legs. I then returned and sat (at the gate). I had left my brother performing ablution and he intended to follow me. So I said (to myself). "If Allah wants good for so-and-so (i.e. my brother) He will bring him here." Suddenly somebody moved the door. I asked, "Who is it?" He said, "`Umar bin Al-Khattab." I asked him to wait, went to Allah's Apostle, greeted him and said, `Umar bin Al-Khattab asks the permission to enter." He said, "Admit him, and give him the glad tidings that he will be in Paradise." I went to "`Umar and said "Come in, and Allah's Apostle, gives you the glad tidings that you will be in Paradise." So he entered and sat beside Allah's Apostle on the built edge of the well on the left side and hung his legs in the well. I returned and sat (at the gate) and said, (to myself), "If Allah wants good for so-and-so, He will bring him here." Somebody came and moved the door. I asked "Who is it?" He replied, "Uthman bin `Affan." I asked him to wait and went to the Prophet and informed him. He said, "Admit him, and give him the glad tidings of entering Paradise, I asked him to wait and went to the Prophet and informed him. He said, "Adult him, and give him the glad tidings of entering Paradise after a calamity that will befall him." So I went up to him and said to him, "Come in; Allah's Apostle gives you the glad tidings of entering Paradise after a calamity that will befall you. "Uthman then came in and found that the built edge of the well was occupied, so he sat opposite to the Prophet on the other side. Sa`id bin Al-Musaiyab said, "I interpret this (narration) in terms of their graves."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 57, Number 23


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري6216عبد الله بن قيسافتح له وبشره بالجنة فذهبت فإذا أبو بكر ففتحت له وبشرته بالجنة استفتح رجل آخر فقال افتح له وبشره بالجنة فإذا عمر ففتحت له وبشرته بالجنة استفتح رجل آخر وكان متكئا فجلس فقال افتح له وبشره بالجنة على بلوى تصيبه أو تكون فذهبت فإذا عثمان فقمت ففتحت له وبشر
   صحيح البخاري3674عبد الله بن قيسائذن له وبشره بالجنة فأقبلت حتى قلت لأبي بكر ادخل ورسول الله يبشرك بالجنة فدخل أبو بكر فجلس عن يمين رسول الله معه في القف ودلى رجليه في البئر كما صنع النبي وكشف عن ساقيه رجعت
   صحيح البخاري7097عبد الله بن قيسائذن له وبشره بالجنة فدخل فجاء عن يمين النبي فكشف عن ساقيه ودلاهما في البئر جاء عمر فقلت كما أنت حتى أستأذن لك فقال النبي ائذن له وبشره بالجنة فجاء عن يسار النبي فكشف عن ساقيه فدلاهما في البئر
   صحيح البخاري3695عبد الله بن قيسائذن له وبشره بالجنة فإذا أبو بكر جاء آخر يستأذن فقال ائذن له وبشره بالجنة فإذا عمر جاء آخر يستأذن فسكت هنيهة ثم قال ائذن له وبشره بالجنة على بلوى ستصيبه فإذا عثمان بن عفان
   صحيح البخاري3693عبد الله بن قيسافتح له وبشره بالجنة ففتحت له فإذا أبو بكر فبشرته بما قال النبي فحمد الله جاء رجل فاستفتح فقال النبي افتح له وبشره بالجنة ففتحت له فإذا هو عمر فأخبرته بما قال النبي فحمد الله استفتح رجل فقال لي
   صحيح البخاري7262عبد الله بن قيسائذن له وبشره بالجنة فإذا أبو بكر جاء عمر فقال ائذن له وبشره بالجنة جاء عثمان فقال ائذن له وبشره بالجنة
   صحيح مسلم6214عبد الله بن قيسائذن له وبشره بالجنة قال فأقبلت حتى قلت لأبي بكر ادخل ورسول الله يبشرك بالجنة قال فدخل أبو بكر فجلس عن يمين رسول الله على في القف ودلى رجليه في البئر كما صنع النبي وكشف عن ساقيه رجعت فجلست وقد ترك
   صحيح مسلم6212عبد الله بن قيسافتح وبشره بالجنة قال فإذا أبو بكر ففتحت له وبشرته بالجنة استفتح رجل آخر فقال افتح وبشره بالجنة قال فذهبت فإذا هو عمر ففتحت له وبشرته بالجنة استفتح رجل آخر قال فجلس النبي فقال افتح وبشره بالجنة على بلوى تكون قال فذهبت فإذا ه وعثما
   جامع الترمذي3710عبد الله بن قيسائذن له وبشره بالجنة فدخل وبشرته بالجنة جاء رجل آخر فضرب الباب فقلت من هذا فقال عمر فقلت يا رسول الله هذا عمر يستأذن قال افتح له وبشره بالجنة ففتحت الباب ودخل وبشرته بالجنة جاء رجل آخر فضرب الباب فقلت من هذا قال عثمان فقلت يا رسول الله هذا عثمان يست

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3674 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3674  
حدیث حاشیہ:
یہ سعید بن مسیب کی کمال دانائی تھی حقیقت میں ایسا ہی ہوا۔
حضرت ابوبکر اور عمر ؓ تو آنحضرت ﷺ کے پاس دفن ہوئے اور حضرت عثمانؓ آپ کے سامنے بقیع غرقد میں۔
سعید کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ابوبکر وعمر ؓ آپ کے دائیں بائیں دفن ہوں گے کیونکہ ایسا نہیں ہے۔
حضرت ابوبکرؓکی قبر آنحضرتﷺکی بائیں طرف ہے اور حضرت عمر ؓ کی قبر حضرت ابوبکر کے بائیں طرف ہے۔
آنحضرت ﷺ کی ان مبارک نشانیوں کی بنا پر متعلقہ جملہ حضرات صحابہ کرامؓ کا جنتی ہونا یقینی امر ہے۔
پھر بھی امت میں ایک ایسا گروہ موجود ہے جو حضرات شیخین کرام کی توہین کرتا ہے، اس گروہ سے اسلام کو جو نقصان پہنچا ہے وہ تاریخ ماضی کے اوراق پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے، حضرت عثمان غنی ؓکی بابت آپ نے ان کی شہادت کی طرف اشارہ فرمایا جو خدا کے ہاں مقدر تھی اور وہ وقت آیا کہ خود اسلام کے فرزندوں نے حضرت عثمان ؓجیسے جلیل القدر خلیفہ راشد کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔
آخر ان کو شہید کرکے دم لیا۔
1390ھ کے حج کے موقع پر بقیع غرقد مدینہ میں جب حضرت عثمان کی قبر پر حاضر ہوا تو دیر تک ماضی کے تصورات میں کھویا ہوا آپ کی جلالت شان اور ملت کے بعض لوگوں کی غداری پر سوچتا رہا۔
اللہ پاک ان جملہ بزرگوں کو ہمارا سلام پہنچائے اور قیامت کے دن سب سے ملاقات نصیب کرے۔
آمین۔
مذکورہ اریس مدینہ کے ایک مشہور باغ کانام تھا۔
اس باغ کے کنویں میں آنحضرت ﷺکی انگوٹھی جو حضرت عثمان ؓ کی انگلی میں تھی۔
گرگئی تھی جو تلاش بسیار کے باوجود نہ مل سکی۔
آج کل یہ کنواں مسجد قبا کے پاس کھنڈر کی شکل میں خشک موجود ہے۔
اسی جگہ یہ باغ واقع تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3674   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3674  
حدیث حاشیہ:

اریس،مدینہ طیبہ ایک مشہور باغ ہے جو قباء کے قریب واقع ہے۔
اسی کنویں میں رسول اللہ ﷺ کی وہ انگوٹھی گری جسے حضرت عثمان ؓ نے پہن رکھا تھا۔

اس حدیث میں خلفائے ثلاثہ کی فضیلت کا واضح بیان ہے اور ان میں حضرت ابوبکر ؓ افضل ہیں کیونکہ ان کو جنت کی بشارت پہلے دی گئی جبکہ ان کی نشست بھی رسول اللہ ﷺکے دائیں جانب تھی۔
ایک روایت کے مطابق جب حضرت عثمان ؓ آئے تو آپ کچھ دیر خاموش رہے،پر انھیں اندر آنے کی اجازت اور مصیبت آنے پر جنت کی بشارت دی۔
(صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم، حدیث: 3695)
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بشارت سن کر اللہ کا شکر اد کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے:
اللہ المستعان۔
اس حدیث میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق واضح پیش گوئی ہے کہ وہ ایک سنگین فتنے کی زد میں آئیں گے۔
مسند احمد میں صراحت ہے کہ آپ کو ظلم کے طور پر شہید کیا جائے گا۔
(مسند أحمد: 115/2)
چنانچہ یہ پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی۔

حضرت سعید بن مسیب کی کمال دامائی تھی،حقیقت میں ایسا ہوا ہے۔
حضرت ابوبکرؓ تورسول اللہﷺکے پاس دفن ہوئے اور حضرت عثمان ؓ آپ کے سامے بقیع غرقد میں ہیں۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حضرت ابوبکرؓ آپ کے دائیں جانب اور حضرت عمر ؓآپ کے بائیں جانب ہوں گے کیونکہ ایسا امرواقعہ کے خلاف ہے،چنانچہ انھوں نے ایک دوسری روایت میں وضاحت کی ہے کہ اس سے مراد ہے کہ شیخین کی قبریں اکٹھی اور حضرت عثمان ؓ کی قبر الگ ہوگی۔
(صحیح البخاري، الفتن، حدیث: 7097)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3674   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3710  
´عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان`
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا، آپ انصار کے ایک باغ میں داخل ہوئے اور اپنی حاجت پوری کی، پھر آپ نے مجھ سے فرمایا: ابوموسیٰ! تم دروازہ پر رہو کوئی بغیر اجازت کے اندر داخل نہ ہونے پائے، پھر ایک شخص نے آ کر دروازہ کھٹکھٹایا، تو میں نے کہا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: ابوبکر ہوں، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ابوبکر اجازت مانگ رہے ہیں، آپ نے فرمایا: انہیں آنے دو، اور انہیں جنت کی بشارت دے دو، چنانچہ وہ اندر آئے اور میں نے انہیں جنت کی بشارت دی، پھر ایک دوسرے شخص آئے او۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3710]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے آپﷺ کا اشارہ اس حادثہ کی طرف تھا جس سے عثمان رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے آخری دور میں دوچار ہوئے پھر جام شہادت نوش کیا،
نیز اس حدیث سے ان تینوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے،
اوریہ کہ ان کے درمیان خلافت میں یہی ترتیب ہو گی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3710   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6212  
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے باغوں میں سے ایک باغ میں ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے تھے آپ کے پاس جو لکڑی تھی اس(کی نوک) کو پانی اور مٹی کے درمیان ماررہے تھے کہ ایک شخص نے(باغ کا دروازہ) کھولنے کی درخواست کی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"دروازہ کھول دو اور اس(آنے والے)کو جنت کی خوشخبری سنادو۔"(ابو موسیٰ ؑ نے) کہا: وہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے،میں نے ان کے لئے دروازہ کھولا اور انھیں جنت کی بشارت دی،کہا:پھر ایک اور شخص... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6212]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
البلوي اور بلية:
مصیبت،
آزمائش۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6212   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6214  
سیدنا ابوموسیٰ اشعری ؓ بیان کرتے ہیں، کہ انہوں نے اپنے گھر میں وضو کیا، پھر باہر نکلے۔ سیدنا ابوموسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ آج میں دن بھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑوں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی رہوں گا۔ کہتے ہیں کہ پھر مسجد میں آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا۔ لوگوں نے کہا کہ باہر اس طرف تشریف لے گئے ہیں۔ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نشان پر چلا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6214]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
وجه ههنا:
اس طرف کا رخ کر لیا۔
(2)
توسط قفها:
منڈیر کے درمیان بیٹھ گئے۔
(3)
دلاهما:
ادلي کے معنی میں ہے،
دونوں کو لٹکا لیا۔
(4)
لاكونن بواب رسول الله:
حضرت ابو موسیٰ اشعری،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو باغ میں داخل ہوتے جا ملے تو آپ نے انہیں دروازہ پر بیٹھنے کا حکم دیا،
جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔
(5)
امر بحفظ الباب:
آپ نے اسے دروازے کی نگرانی کا حکم دیا،
اس سے آپ کا مقصد یکسوئی سے قضائے حاجت سے فراغت حاصل کرنا تھا،
جب آپ قضائے حاجت سے فارغ ہو گئے اور ابو موسیٰ آپ کے پاس آ گئے تو پھر اپنی مرضی سے واپس جا کر دربان بن بیٹھے،
اس لیے بعض روایات میں ہے۔
(6)
ولم يامرني:
آپ نے مجھے حکم نہیں دیا تھا۔
(7)
علي رسلك:
ذرا ٹھہریے،
کچھ توقف کیجئے۔
(8)
دلي رجليه في البئر:
ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں اپنی ٹانگیں کنویں میں لٹکا لیں تاکہ آپ اسی حالت میں بیٹھے رہیں،
اگر وہ اپنے پاؤں نہ لٹکاتے تو شاید آپ اس حالت میں رہنا گوارا نہ فرماتے۔
(9)
ان يرد الله بفلان خيرا:
اگر اللہ کو فلاں کی بھلائی منظور ہو گی اور ابو موسیٰ اشعری نے،
جب یہ دیکھا کہ آپ کی حاضری کی اجازت طلب کرنے والے کو جنت کی بشارت دے رہے ہیں تو ان کے دل میں یہ تمنا اور خواہش پیدا ہوئی کہ ان کا بھائی بھی آ جائے،
تاکہ اسے بھی یہ سعادت و بشارت حاصل ہو سکے۔
(10)
مع بلوي تصيبه:
ان کو مصائب سے گزرنا پڑے گا،
اس میں ان مصائب اور مشکلات کی طرف اشارہ ہے،
جن سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنی خلافت کے آخری سالوں میں گزرنا پڑا اور آخر مظلوم شہید ٹھہرے،
جیسا کہ ایک دوسری روایت میں آپ نے حضرت عثمان کے گزرنے پر فرمایا تھا:
يقتل فيها هذا يومئذ ظلما:
اس فتنہ میں یہ ظلماً شہید ہوں گے۔
(تکملہ ج 5 ص 100)
۔
(11)
جلس وجاههم:
ان کے سامنے بیٹھ گئے،
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ جگہ نہ ملی،
اس سے حضرت سعید بن المسیب نے یہ بات کہی کہ ان تینوں کی قبریں اکٹھی ہوئیں اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو الگ دفن کیا گیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6214   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6216  
6216. حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے کہ وہ مدینہ طیبہ کے باغوں میں سے کسی باغ میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھے۔ نبی ﷺ کے دست مبارک میں ایک چھڑی تھی جسے آپ پانی اور مٹی میں مارر ہے تھے۔ اس دوران میں ایک آدمی آیا اور اس نے دروازہ کھلوانا چاہا۔ نبی ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ان کے لیے دروازہ کھول دو انہیں جنت کی خوشخبری سنا دو۔ میں گیا تو وہاں حضرت ابوبکر صدیق ؓ موجود تھے۔ میں نے ان کے لیے دروازہ کھولا اور انہیں جنت کی خوشخبری سنائی۔ پھر ایک اور آدمی نے دروازہ کھلوانا چاہا تو آپ نے فرمایا: اس کے لیے دروازہ کھول دو اور اسے بھی جنت کی خوشخبری دو۔ اس مرتبہ حضرت عمر بن خطاب ؓ تھے۔ میں نے ان کے لیے دروازہ کھولا اور انہیں جنت کی بشارت دی۔ پھر ایک تیسرے آدمی نے دروازہ کھلوانا چاہا۔ اس وقت آپ ﷺ ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے تھے، اب سیدھے ہوکر بیٹھ گئے، پھر فرمایا: ان کے لیے دروازہ کھول دو اور انہیں جنت کی خوشخبری سنا دو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6216]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بڑا معجزہ ہے۔
آپ نے جیسا فرمایا تھا ویسا ہی ہوا۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو آخر خلافت میں بڑی مصیبت پیش آئی لیکن انہوں نے صبر کیا اور شہید ہوئے۔
ابو بکر رضی اللہ عنہ کے لیے دروازہ سب سے پہلے کھولا گیا۔
پہلے آپ کا نام عبدالکعبہ تھا۔
اسلام لانے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام عبداللہ رکھ دیا لقب صدیق اور کنیت ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ کی خلافت دو سال تین ماہ اور دس دن رہی۔
وفات63 سال کی عمر میں 21جمادی الثانی 13ھ میں بخار سے واقع ہوئی۔
7تاریخ جمادی الثانی سے آپ کو بخار آنا شروع ہوا تھا۔
رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
عمر رضی اللہ عنہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے غلام ابو لولو فیروز ایرانی کے ہاتھ سے شہید ہوئے۔
اس وقت ان کی عمر63 سال کی تھی 27 ذی الحجہ23ھ میں بدھ کے دن انتقال فرمایا رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
آپ کی مدت خلافت ساڑھے دس سال سے کچھ زیادہ ہے۔
حضرت عثمان کے زمانہ میں کچھ منافقوں نے بغاوت کی۔
آخر آپ کو 18ذی الحجہ35ھ میں ان ظالموں نے بہت بری طرح سے شہید کر دیا۔
إنا للہ و إنا إلیه راجعون۔
(رضي اللہ عنهم)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6216   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3695  
3695. حضرت ابو موسیٰ اشعریٰ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک باغ میں داخل ہوئے تو مجھے حکم دیا کہ باغ کے دروازے کی نگرانی کروں، چنانچہ ایک آدمی آیا اور اس نے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے اجازت دو اور جنت کی بشارت بھی سنادو۔ وہ حضرت عمر ؓ تھے۔ پھر ایک تیسرا شخص آیا تو اس نے بھی اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ تھوڑی دیر خاموش رہے۔ پھر آپ نے فرمایا: اسے اجازت دو اور جنت کی بشارت بھی دو اس مصیبت پر جو اسے پہنچے گی۔ وہ حضرت عثمان ؓ تھے۔ حماد نے کہا: ہم سے عاصم احول اور علی بن حکم نے بیان کیا، انھوں نے ابو عثمان کو ابوموسیٰ اشعری ؓ سے اس طرح بیان کرتے ہوئے سنا۔ عاصم نے اس میں یہ اضافہ ذکر کیا ہے کہ نبی ﷺ ایک جگہ تشریف فر ماتھے جہاں پانی تھا۔ جبکہ آپ نے دونوں گھٹنوں یا ایک گھٹنے سے کپڑا اٹھا رکھا تھا، جب حضرت عثمان ؓ اندر آئے تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3695]
حدیث حاشیہ:
اس روایت کو طبرانی نے نکالا، لیکن حماد بن زید سے نہ کہ حماد بن سلمہ سے، البتہ حماد بن سلمہ نے صرف علی بن حکم سے روایت کی ہے، اس کو ابن ابی خیثمہ نے تاریخ میں نکالا۔
آپ نے حضرت عثمان ؓ کی شرم وحیا کا خیال کرکے گھٹنا ڈھانک لیا تھا۔
اگر وہ ستر ہوتا تو حضرت ابوبکر و عمر ؓ کے سامنے بھی کھلا نہ رکھتے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3695   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7097  
7097. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ مدینہ طیبہ کے باغات میں سے کسی باغ کی طرف اپنی کسی ضرورت کے لیے تشریف لے گئے۔ میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے گیا۔ جب آپ باغ میں داخل ہوئے تو میں اس کے دروازے پر بیٹھ گیا اور نے (دل میں)کہا: آج میں نبی ﷺ کا چوکیدار بنوں گا حالانکہ آپ نے مجھے حکم نہیں دیا تھا، چنانچہ نبی ﷺ تشریف لے گئے، اپنی حاجت کو پورا کیا پھر واپس آکر کنویں کی منڈیر پر بیٹھ گئے۔ آپ نے اپنی دونوں پنڈلیاں کھول کر انہیں کنویں میں لٹکا لیا۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر ؓ آئے اور اندر جانے کی اجازت طلب کی۔ میں نے ان سے کہا: میں آپ کے لیے اجازت لے کر آتا ہوں۔ چنانچہ وہ کھڑے رہے اور میں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا یا نبی اللہ! ابوبکر ؓ آپ کے پاس آنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: انہیں اجازت دے دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو۔ چنانچہ وہ اندر گئے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7097]
حدیث حاشیہ:
حضرت عثمان پر بلا سے باغیوں کا بلوہ، ان کو گھیر لینا، ان کے ظلم اور تعدی کی شکایتیں کرنا، خلافت سے اتار دینے کی سازشیں کرنا مراد ہے گو حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے مگر ان پر یہ آفتیں نہیں آئیں بلکہ ایک نے دھوکے سے ان کو مار ڈالا وہ بھی عین نماز میں۔
باب کا مطلب یہیں سے نکلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان کی نسبت یہ فرمایا کہ ایک بلا یعنی فتنے میں مبتلا ہوں گے اور یہ فتنہ بہت بڑا تھا اسی کی وجہ سے جنگ جمل اور جنگ صفین واقع ہوئی جس میں بہت سے مسلمان شہید ہوئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7097   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7262  
7262. سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک باغ میں تشریف لے گئے اور مجھے دروازے کی نگرانی کا حکم دیا۔ پھر ایک آدمی آیا اور وہ اجازت طلب کرتا تھا۔ آپ ﷺ نےفرمایا: اسے اجازت کےساتھ جنت کی بھی بشارت دے دو۔ وہ ابو بکر ؓ تھے۔ پھر سیدنا عمر ؓ آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: انہیں بھی اجازت دے دو اور جنت کی بشارت سنا دو۔ پھر سیدنا عثمان ؓ آئے تو آپ نے فرمایا: انہیں بھی اجازت کے ساتھ جنت کی خوشخبری دے دو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7262]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب کی مطابقت ظاہر ہے کہ انہوں نے ایک شخص یعنی ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی اجازت کو کافی سمجھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7262   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3693  
3693. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں مدینہ طیبہ کے باغات میں سے ایک باغ میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھا۔ اچانک ایک شخص آیا اور اس نے دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: دروازہ کھول دواور انے والے کو جنت کی بشارت دو۔ میں نے دروازہ کھولا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ ابوبکر ؓ ہیں۔ میں نے انھیں وہ خوشخبری دی جو نبی ﷺ نے فرمائی تھی۔ انھوں نے اس پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے بھی دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا تو نبی ﷺ نے فرمایا: دروازہ کھولو اور اسے جنت کی بشارت سناؤ۔ میں نے دروازہ کھولا تو وہ حضرت عمر ؓ تھے۔ میں نے انھیں بشارت دی جو نبی ﷺ نے فرمائی تھی۔ انھوں نے بھی اس پر اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا کی۔ پھر ایک اور شخص نے دروازہ کھلوانا چاہا تو نبی ﷺ نے مجھے فرمایا: دروازہ کھولو اور آنے والے کو جنت کی بشارت دو اس مصیبت پر جو اسے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3693]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں حضرت عمر ؓ کے متعلق جنت کی بشارت ہے۔
یہ آپ کی بہت بڑی فضیلت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں دنیا ہی میں جنت کی بشارت دے دی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت عمر ؓ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔

اس حدیث سے متعلقہ دیگرمباحث پہلے بیان ہوچکے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3693   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3695  
3695. حضرت ابو موسیٰ اشعریٰ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک باغ میں داخل ہوئے تو مجھے حکم دیا کہ باغ کے دروازے کی نگرانی کروں، چنانچہ ایک آدمی آیا اور اس نے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے اجازت دو اور جنت کی بشارت بھی سنادو۔ وہ حضرت عمر ؓ تھے۔ پھر ایک تیسرا شخص آیا تو اس نے بھی اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ تھوڑی دیر خاموش رہے۔ پھر آپ نے فرمایا: اسے اجازت دو اور جنت کی بشارت بھی دو اس مصیبت پر جو اسے پہنچے گی۔ وہ حضرت عثمان ؓ تھے۔ حماد نے کہا: ہم سے عاصم احول اور علی بن حکم نے بیان کیا، انھوں نے ابو عثمان کو ابوموسیٰ اشعری ؓ سے اس طرح بیان کرتے ہوئے سنا۔ عاصم نے اس میں یہ اضافہ ذکر کیا ہے کہ نبی ﷺ ایک جگہ تشریف فر ماتھے جہاں پانی تھا۔ جبکہ آپ نے دونوں گھٹنوں یا ایک گھٹنے سے کپڑا اٹھا رکھا تھا، جب حضرت عثمان ؓ اندر آئے تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3695]
حدیث حاشیہ:

مذکورہ حدیث متعدد مرتبہ پہلے بیان ہو چکی ہے۔
اس میں حضرت عثمان ؓ کے متعلق ایک واضح فضیلت کا ذکر ہے کہ آپ جنتی ہیں لیکن آپ نے یہ بشارت دینے میں کچھ توقف فرمایا کہ میں پورے واقعے کی اطلاع کروں یا صرف دخول جنت کی بشارت سناؤں جب پورا واقعہ سنانے کی پختہ رائے ہوگئی تو دونوں معاملات کی خبر دی تاکہ آپ مصیبت پر صبر کریں۔

اس حدیث کے آخر میں حضرت عاصم احول کے اضافے کا ذکر ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت عثمان ؓ کو دیکھ کر اپنی ران ڈھانپ لی۔
صحیح مسلم کی روایت میں ران ڈھانپنے کی وجہ بیان فرمائی:
کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔
(صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث: 6209۔
(2401)
صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عثمان بہت حیادار انسان ہیں اگر مجھے اس حالت میں پاتے تو اپنی حاجت پوری نہ کرپاتے۔
(صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث: 6220۔
(2402)
حضرت عثمان ؓ کو حیا ہی مناسب تھی کیونکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے داماد تھے اور داماد اپنے سسر سے حیا کیا کرتے ہیں اس کے علاوہ حیا داری آپ کی خاص صفت تھی جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے خود اشارہ فرمایاہے۔
ان سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3695   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6216  
6216. حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے کہ وہ مدینہ طیبہ کے باغوں میں سے کسی باغ میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھے۔ نبی ﷺ کے دست مبارک میں ایک چھڑی تھی جسے آپ پانی اور مٹی میں مارر ہے تھے۔ اس دوران میں ایک آدمی آیا اور اس نے دروازہ کھلوانا چاہا۔ نبی ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ان کے لیے دروازہ کھول دو انہیں جنت کی خوشخبری سنا دو۔ میں گیا تو وہاں حضرت ابوبکر صدیق ؓ موجود تھے۔ میں نے ان کے لیے دروازہ کھولا اور انہیں جنت کی خوشخبری سنائی۔ پھر ایک اور آدمی نے دروازہ کھلوانا چاہا تو آپ نے فرمایا: اس کے لیے دروازہ کھول دو اور اسے بھی جنت کی خوشخبری دو۔ اس مرتبہ حضرت عمر بن خطاب ؓ تھے۔ میں نے ان کے لیے دروازہ کھولا اور انہیں جنت کی بشارت دی۔ پھر ایک تیسرے آدمی نے دروازہ کھلوانا چاہا۔ اس وقت آپ ﷺ ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے تھے، اب سیدھے ہوکر بیٹھ گئے، پھر فرمایا: ان کے لیے دروازہ کھول دو اور انہیں جنت کی خوشخبری سنا دو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6216]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بہت بڑا معجزہ بیان ہوا ہے کیونکہ آپ نے جیسا فرمایا تھا ویسا ہی ہوا۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنی خلافت کے آخری دور میں کڑی آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑا لیکن انہوں نے صبر کرتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس عنوان کی فقاہت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پانی یا کیچڑ میں لکڑی مارنا کوئی فضول حرکت نہیں کیونکہ یہ کام وہ عقلمند کرتا ہے جو کسی چیز میں غوروفکر کر رہا ہو۔
بعض دفعہ انسان سوچ بچار کے موقع پر بھی فضول حرکت کرتا ہے جیسا کہ انسان کے ہاتھ میں چھری ہو اور وہ کسی لکڑی کو کریدنا شروع کر دے، اس طرح اس کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔
ایسی حرکت بے فائدہ اور فضول شمار ہو گی۔
(فتح الباري: 732/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6216   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7097  
7097. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ مدینہ طیبہ کے باغات میں سے کسی باغ کی طرف اپنی کسی ضرورت کے لیے تشریف لے گئے۔ میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے گیا۔ جب آپ باغ میں داخل ہوئے تو میں اس کے دروازے پر بیٹھ گیا اور نے (دل میں)کہا: آج میں نبی ﷺ کا چوکیدار بنوں گا حالانکہ آپ نے مجھے حکم نہیں دیا تھا، چنانچہ نبی ﷺ تشریف لے گئے، اپنی حاجت کو پورا کیا پھر واپس آکر کنویں کی منڈیر پر بیٹھ گئے۔ آپ نے اپنی دونوں پنڈلیاں کھول کر انہیں کنویں میں لٹکا لیا۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر ؓ آئے اور اندر جانے کی اجازت طلب کی۔ میں نے ان سے کہا: میں آپ کے لیے اجازت لے کر آتا ہوں۔ چنانچہ وہ کھڑے رہے اور میں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا یا نبی اللہ! ابوبکر ؓ آپ کے پاس آنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: انہیں اجازت دے دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو۔ چنانچہ وہ اندر گئے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7097]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے جنت کی بشارت کے ساتھ ایک آزمائش کا بھی ذکر کیا جس سے وہ دوچار ہوں گے۔
واقعی وہ آزمائش سمندر کی طرح موجزن تھی۔
اگرچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شہید ہوئے تھے لیکن انھیں ایک بدبخت نے نماز فجر کے دوران میں دھوکے سے شہید کیا لیکن انھیں وہ آفتیں نہ آئیں جن سے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دوچار ہونا پڑا،چنانچہ ایک سازشی گروہ نے محض تخریب وانتشار کی خاطر آپ پر گھناؤ نے الزامات لگائے۔
آپ کو اقرباء پروری، بیت المال کے بے جا استعمال کا طعنہ دیا، نیز بئر رومہ جسے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود خرید کرمسلمانوں کے لیے وقف کیا تھا، اس کا پانی آپ کے لیے بند کر دیا۔
مسجد نبوی جس کی توسیع آپ نےاپنی جیب خاص سے کی تھی، اس میں نماز پڑھنے سے آپ کو روک دیا، پھر یہ بھی مطالبہ کیا کہ خود خلافت سے دستبردار ہو جائیں۔
حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں فرمایا تھا کہ لوگ تم سے خلعت امامت اتارنا چاہیں گے ان کے کہنے پر یہ اقدام نہ کرنا۔
(جامع الترمذي، المناقب، حدیث: 3705)

اس سازشی گروہ نے اس حد تک ظلم وزیادتی کی کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں گھس گئے اور آپ کے اہل خانہ کو بھی زخمی کیا۔
ایسے حالات میں آپ کی مظلومانہ شہادت عمل میں آئی۔
کہتے ہیں کہ شہادت کے وقت حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن مجید کی تلاوت کر رہے تھے۔
چنانچہ قدرت نے پھر ان ظالموں سے انتقام لیا جس کی تفصیل تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔
بہرحال حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مظلومانہ شہادت کا فتنہ بہت بڑا فتنہ تھا۔
اس کی کوکھ سے جنگ صفین اور جنگ جمل نے جنم لیا جس میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمان شہید ہوئے اور اس شہادت نے اُمت مسلمہ کو ہلاک کر دیا۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7097   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7262  
7262. سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک باغ میں تشریف لے گئے اور مجھے دروازے کی نگرانی کا حکم دیا۔ پھر ایک آدمی آیا اور وہ اجازت طلب کرتا تھا۔ آپ ﷺ نےفرمایا: اسے اجازت کےساتھ جنت کی بھی بشارت دے دو۔ وہ ابو بکر ؓ تھے۔ پھر سیدنا عمر ؓ آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: انہیں بھی اجازت دے دو اور جنت کی بشارت سنا دو۔ پھر سیدنا عثمان ؓ آئے تو آپ نے فرمایا: انہیں بھی اجازت کے ساتھ جنت کی خوشخبری دے دو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7262]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت کے مطابق حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دروازے پر بیٹھنے کا حکم نہیں دیا تھا۔
(صحیح البخاري، الفتن، حدیث: 7097)
جبکہ اس روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا؟ ان دونوں روایات میں کوئی تضاد اور اختلاف نہیں ہے کیونکہ ابتدا میں انھوں نے خود اس چوکیداری کو اپنے ذمے لیا تھا لیکن جب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ذمے داری انھیں سونپ دی تھی۔

بہر حال امام بخاری نے اس حدیث سے خبر واحد کی حجیت کو ثابت کیا ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اکیلے ان حضرات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے مطلع کرتے تھے اور یہ قابل قدر حضرات اس پر یقین اور اعتماد کرتے تھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7262   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.