Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة
کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
5. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً»:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اگر میں کسی کو جانی دوست بناتا تو ابوبکر کو بناتا۔
حدیث نمبر: 3671
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا جَامِعُ بْنُ أَبِي رَاشِدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو يَعْلَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي:" أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ، قَالَ: ثُمَّ عُمَرُ وَخَشِيتُ أَنْ يَقُولَ: عُثْمَانُ، قُلْتُ: ثُمَّ أَنْتَ، قَالَ: مَا أَنَا إِلَّا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ".
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، کہا ہم سے جامع بن ابی راشد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابویعلیٰ نے بیان کیا، ان سے محمد بن حنفیہ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد (علی رضی اللہ عنہ) سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل صحابی کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ میں نے پوچھا پھر کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا، اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔ مجھے اس کا اندیشہ ہوا کہ اب (پھر میں نے پوچھا کہ اس کے بعد؟) کہہ دیں گے کہ عثمان رضی اللہ عنہ اس لیے میں نے خود کہا، اس کے بعد آپ ہیں؟ یہ سن کر وہ بولے کہ میں تو صرف عام مسلمانوں کی جماعت کا ایک شخص ہوں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3671 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3671  
حدیث حاشیہ:
حضرت علی ؓ کے اس قول سے ان لوگوں نے دلیل لی ہے جو حضرت ابوبکر ؓ کو آنحضرت ﷺ کے بعد سب سے افضل کہتے ہیں، پھر ان کے بعد حضرت عمر ؓ کو جیسے جمہور اہل سنت کا قول ہے۔
عبدالرزاق محدث فرماتے ہیں کہ حضرت علی ؓ نے خود شیخین کو اپنے اوپر فضیلت دی ہے لہذا میں بھی فضیلت دیتاہوں ورنہ کبھی فضیلت نہ دیتا، دوسری روایت میں حضرت علی ؓ سے منقول ہے کہ جو کوئی مجھ کو شیخین کے اوپر فضیلت دے میں اس کو مفتری کی حد لگاؤں گا۔
اس سے اُن سُنّی حضرات کو سبق لینا چاہیے جو حضرت علی ؓ کی تفضیل کے قائل ہیں جب کہ خود حضرت علی ؓ ہی ان کو مفتری قرار دے رہے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3671   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3671  
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مقام
تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے نزدیک خلیفۂ اول سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کا بہت بڑا مقام ہے۔
جیسا کہ صحیح روایات میں آیا ہے کہ سیدنا و مولانا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت میں سب سے بہتر ابوبکر ہیں، پھر عمر ہیں۔ رضی اللہ عنہما
اس مفہوم اور الفاظ کے معمولی اختلاف والی روایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے درج ذیل راویوں نے بیان کی ہے:
1— محمد بن علی بن ابی طالب یعنی ابن الحنفیہ رحمہ اللہ [ثقہ عالم]
2— ابو جحیفہ وہب بن عبد اللہ الخیر السوائی رضی اللہ عنہ [صحابی]
3— عبد خیر بن یزید الہمدانی الکوفی رحمہ اللہ [ثقۃ، مخضرم من کبار التابعین]
4— عبد اللہ بن سلمہ المرادی الکوفی رحمہ اللہ [صدوق، تغیر حفظہ / حدث بہ قبل اختلاطہ]
5— عمرو بن حریث بن عمرو بن عثمان المخزومی رضی اللہ عنہ [صحابی]
6— علی بن ربیعہ بن نضلہ الوالبی الکوفی رحمہ اللہ [ثقۃ]
7— نزال بن سبرہ الہلالی الکوفی رحمہ اللہ [ثقۃ]
8— ابو الجعد رافع الغطفانی الاشجعی رحمہ اللہ [صدوق و ثقہ ابن حبان والامام مسلم وقیل: ھو صحابی]
9— ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ [صحابی]
اب ان روایات کی تفصیل درج ذیل ہے:
1— محمد بن علی بن ابی طالب رحمہ اللہ سے درج ذیل راویوں نے یہ روایت بیان کی ہے:
1: ابو یعلیٰ منذر بن یعلیٰ الثوری الکوفی رحمہ اللہ [ثقہ]
صحیح بخاری (3671 وسندہ صحیح) سنن ابی داود (4629 وسندہ صحیح) مصنف ابن ابی شیبہ (12/12 ح 31936) زوائد القطیعی علیٰ فضائل الصحابۃ لاحمد بن حنبل (ح 136، وسندہ صحیح)
صحیح بخاری میں اس روایت کا متن درج ذیل ہے:
محمد بن الحنفیہ نے کہا کہ میں نے اپنے والد (سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ) سے پوچھا: رسول اللہ ﷺ کے بعد لوگوں میں کون (سب سے) بہتر ہے؟ انھوں نے فرمایا: ابو بکر۔ میں نے کہا: پھر کون ہے؟ انھوں نے فرمایا: پھر عمر ہیں۔ (مع فتح الباری 20/7)
امام دارقطنی نے فرمایا: وھو صحیح عنہ اور وہ آپ سے صحیح (ثابت) ہے۔ (کتاب العلل 4/ 124 سوال 464)
2: ابو مکین نوح بن ربیعہ الانصاری البصری رحمہ اللہ [صدوق]
کتاب السنۃ لابن ابی عاصم (1204، نسخۃ محققۃ: 1238، وسندہ حسن)
2— ابو جحیفہ وہب بن عبد اللہ الخیر السوائی رحمہ اللہ سے درج ذیل راویوں نے یہ حدیث بیان کی ہے:
1: عامر بن شراحیل الشعبی رحمہ اللہ [ثقۃ مشھور فقیۃ فاضل]
زوائد مسند الامام احمد (1/ 110 ح 878 وسندہ صحیح، 106/1 ح 834 بسند آخر وسندہ حسن) مسند احمد (1/ 106 ح 135، وسندہ صحیح علیٰ شرط مسلم)
2: زربن حبیش الاسدی الکوفی رحمہ اللہ [ثقۃ جلیل مخضرم]
زوائد مسند احمد (1/ 106 ح 833 من حدیث عاصم بن ابی النجود عنہ وسندہ حسن، 1/ 110 ح 871 وسندہ حسن)
3: عون بن ابی جحیفہ رحمہ اللہ [ثقۃ]
زوائد مسند احمد (1/ 106 ح 837 وسندہ حسن) الغیلانیات (ح 72 بسند آخر وسندہ حسن، نسخۃ اخریٰ: 68) المخلصیات (2/ 98 ح 1119، وسندہ حسن)
4: حکم بن عتیبہ الکندی الکوفی رحمہ اللہ [ثقۃ ثبت فقیہ إلا أنہ ربما دلّس]
فضائل الصحابہ للامام احمد بن حنبل (44 وسندہ صحیح، الحکم بن عتیبہ صرح بالسماع) تاریخ دمشق (44/ 202 وسندہ صحیح)
5: عبد اللہ بن ابی السفر رحمہ اللہ [ثقۃ]
تاریخ دمشق لابن عساکر (44/ 202 وسندہ حسن)
3— عبد خیر بن یزید الہمدانی رحمہ اللہ سے درج ذیل راویوں نے یہ روایت بیان کی ہے:
1: المسیب بن عبد خیر رحمہ اللہ [ثقۃ]
زوائد مسند احمد (1/ 115 ح 926 وسندہ صحیح، 1/ 125 ح 1030)
2: خالد بن علقمہ ابو حیۃ الوادعی رحمہ اللہ [صدوق]
زوائد مسند احمد (1/ 125 ح 1031، وسندہ صحیح)
3: عبد الملک بن سلع الہمدانی رحمہ اللہ [صدوق]
کتاب الشریعۃ للآجری (5/ 2319 ح 1804، وسندہ حسن) مصنف ابن ابی شیبہ (571/14 ح 37042 وسندہ صحیح)
4: طلحہ بن مصرف بن عمرو بن کعب الیامی الکوفی (ثقۃ قارئ فاضل]
المخلصیات (3/ 339 ح 2663)
5: ابراہیم بن عبد الرحمن بن عوف [ثقۃ، رضی اللہ عنہ]
(فضائل الصحابۃ، زیادات القطیعی: 533 وسندہ حسن)
4— عبد اللہ بن سلمہ المرادی رحمہ اللہ [صدوق حسن الحدیث وثقہ الجمہور]
خیر الناس بعد رسول اللہ ﷺ أبو بکر و خیر الناس بعد أبي بکر عمر
رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے بہتر ابو بکر ہیں اور ابو بکر کے بعد سب سے بہتر عمر ہیں۔
(سنن ابن ماجہ: 106، وسندہ حسن)
عبد اللہ بن سلمہ نے یہ حدیث اختلاط سے پہلے بیان کی۔ (دیکھئے مسند الحمیدی بتحقیقی: 57)
5— سیدنا عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ
خیر ھذہ الأمۃ بعد نبیھا أبو بکر و عمر ……
اس امت میں نبی (ﷺ) کے بعد سب سے بہتر ابو بکر اور عمر ہیں۔
(زوائد فضائل الصحابۃ: 397 وسندہ حسن، البحر الزخار 2/ 130 ح 488، المعجم الکبیر للطبرانی 1/ 107 ح 178)
6— علی بن ربیعہ الوالبی رحمہ اللہ
إني لأعرف أخیار ھذہ الأمۃ بعد نبیھا: أبو بکر و عمر ……
(فضائل الصحابۃ لاحمد بن حنبل: 428 وسندہ حسن، وقاء بن ایاس الاسدی و ثقہ الجمہور فھو حسن الحدیث)
7— نزال بن سبرہ رحمہ اللہ
ألا أخبرکم بخیر ھذہ الأمۃ بعد نبیھا ثلاثۃ، ثم ذکر أبا بکر و عمر ……
(زوائد فضائل الصحابۃ: 429 وسندہ حسن)
8— ابو الجعد رافع الغطفان الاشجعی رحمہ اللہ
ألا أخبرکم بخیر الناس بعد نبیکم ﷺ: أبو بکر ثم عمر
(التاریخ الکبیر للبخاری 3/ 306 ت 1039، وسندہ حسن)
9— سیدنا ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ
ألا أخبر کم بخیر ھذہ الأمۃ بعد نبیھا ﷺ؟ …… أبو بکر رضي اللہ عنہ …… ثم قال …… عمر
(المعجم الکبیر للطبرانی 1/ 107 ح 177، وسندہ حسن)
روایت مذکورہ میں سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے افضل ابو بکر پھر عمر رضی اللہ عنہما ہیں۔
ان روایات میں سے ایک روایت بھی ضعیف نہیں اور یہ سب روایات باہم مل کر متواتر کے درجے پر پہنچ گئی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے متواتر قرار دیا ہے۔ (دیکھئے الوصیۃ الکبریٰ ص 40 فقرہ: 62، نظم المتناثر من الحدیث المتواتر للکتانی ص 203 ح 227)
یعنی اہل سنت کے نزدیک یہ روایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے متواتر ہے۔
………… اصل مضمون …………
اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (جلد 6 صفحہ 51 تا 54) للشیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
   تحقیقی و علمی مقالات للشیخ زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 3671   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3671  
حدیث حاشیہ:

محمد ابن حنفیہِ،اپنی والدہ کی طرف منسوب ہیں اور وہ حضرت علی ؓ کے بیٹے ہیں۔
ان کی والدہ جنگ یمامہ میں قید ہوکر آئی تھیں۔
ممکن ہے کہ ان کے نزدیک حضرت علی حضرت عثمان ؓ سے افضل ہوں،اس لیے انھوں نے حضرت عثمان کے بجائے ان کا نام لے لیا لیکن اہل سنت کا امر پر اتفاق ہے کہ ان حضرات کی خلافت کی ترتیب کے مطابق ان کی فضیلت وبرتری میں بھی ترتیب ہے۔
بہرحال شیخین کی فضیلت پر امت کا اتفاق ہے۔
حنتین(دونوں دامادوں)
کی فضیلت کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے۔
بہرحال حضرت علی ؓ کے مذکورہ قول سے جمہور اہل علم نے دلیل لی ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ رسول اللہ ﷺ کے بعد امت میں سب سے افضل ہیں،پھر ان کے بعد حضرت عمر ؓ کا نمبر ہے۔

محمد ابن حنفیہ کا یہ فرمانا:
مجھے اس بات کا اندیشہ ہوا کہ اب آپ حضرت عثمان ؓ کا نام ذکر کریں گےبھی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کے ذہن میں جو ترتیب تھی وہ عمرفاروق کے بعد عثمان ذوالنورین کا نام ہی تھا،اسی لیے انھوں نے انداز استفسار تبدیل کیا۔

حضرت علی ؓ کا یہ کہنا کہ میں عام مسلمانوں میں سے ایک آدمی ہوں،تواضع وانکسار پر محمول ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3671