سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ مسلمان کو کوئی سختی (اور بیماری یا رنج و غم اور تکلیف) وغیرہ نہیں پہنچتی مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کے عوض میں اس کے گناہ مٹا دیتا ہے یہاں تک کہ اگر کوئی کانٹا بھی چبھ جائے (تو اس کے بدلے میں بھی کوئی گناہ مٹا دیا جاتا ہے)۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”مومن کی مثال تازہ کھیتی کی مانند ہے کہ جس طرف سے ہوا آتی ہے اسے جھکا دیتی ہے اور ہوا کے نہ ہونے کے وقت سیدھی ہو جاتی ہے پس مومن، بلا سے اس طرح بچا رہتا ہے اور گنہگار کی مثال صنوبر کے پیڑ کی سی ہے کہ سیدھا سخت کھڑا رہتا ہے (تو) اللہ جب چاہتا ہے اسے اکھیڑ دیتا ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے بیماری کی اتنی سختی کسی اور پر نہیں دیکھی جتنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر واقع ہوئی تھی۔
سیدنا عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے وقت حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سخت بخار تھا۔ میں نے عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو بہت ہی سخت بخار ہے۔ (شاید) اس لیے ہو گا کہ آپ کو دو اجر ملیں گے فرمایا: ”ہاں! مسلمان کو کوئی تکلیف نہیں پہنچنے پاتی مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کے عوض گناہ معاف نہ کر دیتا ہو جس طرح خشک درخت کے پتے جھڑ جاتے ہیں۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انھوں نے اپنے بعض ساتھیوں سے کہا کہ کیا میں تمہیں جنتی عورت دکھلاؤں؟ انھوں نے کہا ہاں کیوں نہیں۔ کہا یہی سانولی سی عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور عرض کی کہ مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے اور میرا جسم ظاہر ہو جاتا ہے۔ میرے لیے دعا کر دیجئیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو چاہے تو صبر کر لے تو تجھے جنت ملے گی ورنہ میں اللہ سے دعا کروں گا وہ تجھے صحت دیدے گا۔“ اس نے عرض کی (کہ بہتر ہے) میں صبر کر لوں گی (لیکن) یہ میرا بدن جو ظاہر ہو جاتا ہے اس کے لیے اللہ سے دعا کر دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کر دی (پھر اس کا بدن کبھی نظر نہ آیا)۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اللہ بزرگ و برتر فرماتا ہے کہ جس وقت میں اپنے بندہ کو اس کی دو پیاری چیزوں کی تکلیف دیتا ہوں اور وہ اس پر صبر کر لیتا ہے تو ضرور ان دونوں کے عوض جنت دیتا ہوں۔“(ان سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد آنکھیں تھیں۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس میری عیادت کے لیے ایسے حال میں تشریف لائے کہ نہ خچر پر سوار تھے اور نہ گھوڑے پر۔
6. مریض یوں کہہ سکتا ہے کہ میں بیمار ہوں یا میرا سر پھٹا جاتا ہے یا مجھے سخت تکلیف ہے وغیرہ۔ اور ایوب علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے (عاجزی سے) دعا مانگی کہ اے پروردگار! مجھ کو بیماری لگ گئی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔“ (سورۃ الانبیاء: 83)۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا ”ہائے میرا سر پھٹا جاتا ہے۔“ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر) فرمایا: ”(غم نہ کرو بلکہ) اسی درد میں اور میری زندگی میں تمہارا خاتمہ ہو جائے تو بہتر ہے تاکہ میں تمہارے لیے دعا اور استغفار کروں۔“ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا ”ہائے افسوس اللہ کی قسم میں گمان کرتی ہوں کہ آپ میرا مرنا ہی چاہتے ہیں بلکہ اگر میں مر جاؤں تو آپ اسی دن شام کو اپنی بیویوں میں سے ایک کے ساتھ رات گزاریں گے۔ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ بات ہرگز نہیں بلکہ میں درد سر میں (خود مبتلا) ہوں اور میں چاہتا ہوں یا ارادہ کرتا ہوں (راوی کو شک ہے) کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے کے پاس کسی کو بھیج کر (ان لوگوں کو بلا لوں اور خلافت کی) وصیت کر دوں تاکہ بعد میں کوئی کچھ نہ کہے سکے اور نہ کوئی (خلافت کی) آرزو کر سکے (مگر) پھر میں نے سوچا کہ اللہ کو خود (کسی دوسرے کی خلافت) منظور نہیں اور نہ مسلمان منظور کریں گے۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”ہر آدمی کو چاہیے کہ وہ رنج و مصیبت پر ہرگز موت کی آرزو نہ کرے اور اگر کوئی ایسی ہی مجبوری ہو تو اس طرح دعا کرے: ”اے اللہ! جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہو مجھ کو زندہ رکھ اور جب مرنا میرے لیے بہتر ہو تو مجھے کو اٹھالے۔“