سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کے پاس خمس لینے کے لیے بھیجا اور میں نے انھیں برا سمجھا (کیونکہ انھوں نے ایک لونڈی سے صحبت کی اور) انھوں نے وہاں غسل کیا۔ میں نے سیدنا خالد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم ان کو دیکھتے نہیں؟ جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ قصہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے بریدہ! کیا تم علی رضی اللہ عنہ سے عداوت رکھتے ہو؟ میں نے کہا جی ہاں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو ان سے عداوت مت رکھ کیونکہ ان کا خمس میں اس سے بھی زیادہ حصہ ہے۔ (پھر وہ میرے محبوب بن گئے)۔“
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یمن سے سونے کا ایک ٹکڑا صاف کیے ہوئے چمڑے میں رکھ کر بھیجا، ابھی وہ سونا مٹی سے جدا نہیں کیا گیا تھا۔ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا، عینیہ بن بدر اور اقرع بن حابس اور زید (عرف) خیل اور چوتھا علقمہ یا عامر بن طفیل (رضی اللہ عنہم)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے کہا کہ ہم اس مال کے ان سے زیادہ مستحق ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم مجھے امانتدار نہیں سمجھتے؟ حالانکہ میں اس کا امانتدار ہوں جو آسمانوں میں ہے اور میرے پاس آسمان کی خبر صبح و شام آتی ہے۔“ پھر کہتے ہیں کہ ایک شخص دھنسی ہوئی آنکھوں والا، جس کے رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئی تھیں، اونچی، پیشانی، گھنی ڈاڑھی، سر منڈا ہوا، اونچی ازار باندھے ہوئے کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! اللہ سے ڈرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”اللہ تجھے ہلاک کرے کیا میں ساری زمین والوں میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا نہیں ہوں؟“(پھر) کہتے ہیں کہ پھر وہ شخص چلا گیا۔ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں شاید وہ نماز پڑھتا ہو۔ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بولے کہ بہت سے نمازی ایسے (منافق ہوتے ہیں) ہیں جو زبان سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے مجھے یہ حکم نہیں دیا کہ میں لوگوں کے دلوں میں نقب لگا کر دیکھوں اور نہ یہ (حکم دیا) کہ میں ان کے پیٹ چیروں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا جب کہ وہ پیٹھ موڑے جا رہا تھا، پھر کہا: ”اس شخص کی نسل سے وہ قوم نکلے گی جو قرآن کو مزے سے پڑھیں گے، حالانکہ وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا، وہ لوگ دین سے ایسے خارج ہو جائیں گے جیسے تیر شکار (کے جسم) سے پار نکل جاتا ہے۔“(راوی کہتا ہے) میں گمان کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی کہا: ”اگر وہ قوم مجھے ملے تو میں انھیں قوم ثمود کی طرح قتل کر دوں۔“
سیدنا جریر رضی اللہ عنہ کی حدیث اس بیان میں کہ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تو مجھے ذی الخلصہ سے آرام نہ دے گا؟“ پہلے گزر چکی ہے (دیکھئیے کتاب جہاد اور جنگی حالات کے بیان میں۔۔۔ باب: گھروں اور باغوں کا جلا دینا) اس روایت میں سیدنا جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ذی الخلصہ یمن میں قوم خثعم اور بجیلہ کا ایک مکان (بت خانہ) تھا، جس میں بت رکھے تھے، جن کی عبادت کی جاتی۔ (راوی نے) کہا کہ جب سیدنا جریر رضی اللہ عنہ یمن میں پہنچے تو وہاں ایک شخص تھا جو تیروں سے فال کھولتا تھا۔ کسی نے اس سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد یہاں پر (موجود) ہے، اگر اس کے تو ہتھے چڑھ گیا تو وہ تیری گردن اڑا دے گا۔ (راوی نے) کہا کہ اتفاقاً ایک دن وہ فال نکال رہا تھا کہ اس کے پاس سیدنا جریر رضی اللہ عنہ پہنچ گئے اور کہا کہ انھیں توڑ کر کلمہ شہادت ”لا الہٰ الا اللہ“ پڑھ لے ورنہ میں تیری گردن اڑا دوں گا۔ راوی کہتا ہے کہ اس شخص نے انھیں توڑ کر کلمہ شہادت پڑھ لیا۔
سیدنا جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں یمن میں تھا کہ یمن کے دو آدمیوں ذوکلاع اور ذوعمرو سے ملا اور میں ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں باتیں کرنے لگا۔ ذوعمرو نے مجھ سے کہا کہ جو کچھ تو بیان کرتا ہے اگر تیرے صاحب کے بارے میں درست ہے تو اسے تو وفات پائے ہوئے تین روز ہو گئے اور پھر دونوں میرے ہمراہ مدینہ آئے، رستے میں کچھ سوار مدینہ کی طرف سے آتے ہوئے دکھائی دیے تو ہم نے ان سے پوچھا تو وہ بولے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رضامندی عام خلیفہ ہو گئے اور باقی سب خیریت ہے۔ ان دونوں (ذوکلاع اور ذوعمرو) نے کہا کہ اپنے صاحب کو خبر کر دینا کہ ہم یہاں تک کہ آئے تھے، اگر اللہ نے چاہا تو ہم پھر آئیں گے اور وہ دونوں یمن کی طرف چلے گئے۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر سمندر کے کنارے روانہ کیا اور سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو سپہ سالار مقرر کیا اور یہ تین سو (آدمی) تھے۔ ہم روانہ ہوئے۔ جب تھوڑی دور پہنچ گئے تو زادراہ ختم ہو گیا۔ سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے سب کے توشے ایک جگہ جمع کرنے کا حکم دیا تو وہ جمع کیے گئے، میرا توشہ صرف ایک کھجور تھا، وہ ہمیں روز تھوڑا تھوڑا دیتے رہے۔ پھر وہ بھی ختم ہو گیا تو ہمیں روزانہ صرف ایک ایک کھجور ملا کرتی۔ (راوی کہتے ہیں کہ) میں نے پوچھا کہ تمہارا ایک کھجور سے کیا پیٹ بھرتا ہو گا؟ تو سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب وہ بھی ختم ہو چکی تو ہمیں اس کی قدر معلوم ہوئی پھر ہم سمندر پر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک مچھلی مثل پہاڑ کے موجود ہے پس لوگوں نے اس میں سے اٹھارہ راتوں تک کھایا پھر سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا تو اس کی دو پسلیاں کھڑی کی گئیں، وہ اتنی اونچی تھیں کہ اونٹ پر کجاوہ رکھ کر ان کے نیچے سے گزارا گیا تو وہ ان کے نیچے سے صاف صاف نکل گیا۔
سیدنا جریر رضی اللہ عنہ دوسری روایت میں کہتے ہیں کہ سمندر نے اللہ کے حکم سے ایک (مچھلی) جانور نکال پھینکا جسے عنبر کہتے ہیں، آدھا مہینہ تک ہم اس کا گوشت کھاتے رہے اور اس کی چربی بدن پر لگاتے رہے تو ہمارے جسم پہلے جیسے موٹے تازے ہو گئے، ایک اور روایت میں کہتے ہیں کہ سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے (ہم سے) کہا تم اسے کھاؤ۔ جب ہم مدینہ میں آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھا لو، یہ اللہ کا بھیجا ہوا رزق تھا، اگر تمہارے پاس کچھ ہو تو ہمیں بھی کھلاؤ۔“ کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لا کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کھایا۔
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنی تمیم کے سوار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا (یا نبی اللہ!) ان کا امیر قعقاء بن معبد بن زرارہ (رضی اللہ عنہ) کو بنا دیجئیے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بولے (نہیں) بلکہ اقرع بن حابس (رضی اللہ عنہ) کو امیر بنایے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے تم محض میری مخالفت کرنا چاہتے ہو (اور کوئی غرض نہیں)۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بولے کہ میری غرض تمہاری مخالفت کرنا نہیں۔ چنانچہ وہ دونوں جھگڑنے لگے یہاں تک کہ ان کی آوازیں بلند ہو گئیں، اسی دوران یہ آیت نازل ہوئی: ”اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے نہ بڑھو“ پوری آیت۔ (الحجرات: 1)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں مسیلمہ کذاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں آیا اور کہنے لگا کہ اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے بعد مجھے اپنا خلیفہ بنا دیں تو میں ان کی اطاعت کروں گا اور وہ اپنی قوم (بنی حنیفہ) کے اکثر لوگوں کو ہمراہ لایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، خطیب انصار سیدنا ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کے ہمراہ اس کے پاس تشریف لے گئے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں شاخ خرما کی چھڑی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسیلمہ کذاب اور اس کے ساتھیوں کے پاس ٹھہرے اور فرمایا: ”اگر تو مجھ سے یہ ٹکڑا بھی مانگے تو میں تجھے نہ دوں گا اور اللہ نے جو تیری تقدیر میں لکھ دیا ہے، تو اس سے بچ نہیں سکتا اور اگر تو مجھ سے منہ موڑے گا تو اللہ تجھے ہلاک کر دے گا اور میں تجھے دیکھتا ہوں کہ تو وہی ہے جس کا حال خواب میں مجھ سے بیان کیا گیا اور یہ ثابت بن قیس ہے جو تجھے میری طرف سے جواب دے گا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کا مطلب دریافت کیا کہ ”تو وہی ہے جس کا حال خواب میں مجھ سے بیان کیا گیا“ تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”ایک بار میں سویا ہوا تھا تو میں نے خواب میں اپنے ہاتھوں میں دو کنگن دیکھے، میں اس سے فکرمند ہوا۔ پھر خواب ہی میں بذریعہ وحی مجھے اشارہ ہوا کہ ان دونوں کو پھونک مار دو۔ میں نے ان دونوں کو پھونکا تو وہ دونوں اڑ گئے۔ ان کی تعبیر میں نے یہ لی کہ دو جھوٹے شخص میرے بعد نبوت کا دعویٰ کریں گے، ایک اسودعنسی اور دوسرا مسیلمہ۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف کچھ سوار روانہ فرمائے تو وہ ایک شخص کو پکڑ لائے جو قوم بنی حنیفہ میں سے تھا اور اسے ثمامہ بن اثال کہتے تھے، پھر اسے مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پاس جا کر کہا: ”اے ثمامہ! تیرا کیا خیال ہے؟“(کہ میں تیرے ساتھ کیا کروں گا) وہ بولا کہ اے محمد! میرا خیال بہتر ہے، اگر آپ مجھے مار ڈالیں گے تو بھی کوئی قباحت نہیں کیونکہ میں نے بھی جنگ میں مسلمانوں کو مارا ہے اور اگر آپ احسان کر کے مجھے چھوڑ دیں گے تو میں آپ کا شکرگزار ہوں گا اور اگر آپ مال و دولت چاہتے ہوں تو وہ بھی حاضر ہے، جتنا آپ چاہیں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے، دوسرے دن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اے ثمامہ! تیرا کیا خیال ہے؟“ وہ بولا کہ میرا خیال وہی ہے جو میں عرض کر چکا کہ اگر آپ احسان کر کے چھوڑ دیں گے تو میں شکرگزار ہوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ویسا ہی بندھا رہنے دیا۔ پھر تیسرے دن پوچھا: ”اے ثمامہ! تیرا کیا گمان ہے؟“ وہ بولا کہ وہی جو میں عرض کر چکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ثمامہ کو آزاد کر دو۔“ لوگوں نے تعمیل کر کے چھوڑ دیا۔ ثمامہ ایک تالاب پر جو مسجد کے قریب تھا، گیا اور غسل کر کے مسجد میں آیا اور کہنے لگا کہ ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اے محمد! اللہ کی قسم مجھے تمام روئے زمین پر کسی کا چہرہ دیکھ کر اتنا غصہ نہیں آتا تھا جتنا آپ کا چہرہ دیکھ کر آتا تھا۔ اب آج کے دن آپ کا چہرہ مبارک سب سے زیادہ مجھ کو پسند ہے اور اللہ کی قسم آپ کے دین سے زیادہ کوئی دین مجھے برا معلوم نہ ہوتا تھا اور اب آپ کا دین مجھے سب سے بھلا معلوم ہوتا ہے اور اللہ کی قسم! میرے نزدیک آپ کے شہر سے برا کوئی شہر نہ تھا اور اب آپ کا شہر میرے نزدیک سب شہروں سے بہتر ہو گیا، آپ کے سواروں نے مجھ گرفتار کیا، جب کہ میں عمرہ کے ارادہ سے جا رہا تھا، اب آپ کیا فرماتے ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مبارکباد دی اور اسے عمرے کا حکم دیا۔ جب وہ مکہ میں آئے تو کسی نے اس سے کہا کہ تم بےدین ہو گئے ہو؟ وہ بولے نہیں اللہ کی قسم! بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسلمان ہو گیا ہوں اور اللہ کی قسم! تمہارے پاس یمامہ سے گیہوں کا ایک دانہ بھی نہ آنے پائے گا جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حکم نہ دیں گے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں سو رہا تھا کہ اسی حالت میں زمین کے خزانے میرے پاس لائے گئے اور میرے ہاتھوں میں سونے کے دو کنگن رکھ دیے گئے۔ مجھے یہ برا معلوم ہوا تو مجھے بذریعہ وحی کہا گیا کہ میں انھیں پھونک ماروں۔ تب میں نے انھیں پھونکا تو وہ دونوں اڑ گئے۔ میں نے اس کی تعبیر یہ سمجھی کہ ان کنگنوں سے وہ دونوں کذاب مراد ہیں جن کے درمیان میں، میں ہوں، وہ دونوں صاحب صنعاء (یعنی اسودعنسی) اور یمامہ والا (مسیلمہ کذاب) ہیں۔“