سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (اب کی دفعہ لوٹ جانے اور) دوبارہ آنے کا حکم فرمایا: ”اس نے کہا کہ بتلائیے! اگر میں آؤں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ملیں تو؟ گویا وہ کہنا چاہتی تھی کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا جائیں تو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں نہ ہوں تو ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کے پاس آنا۔“(وہ عورت مالی تعاون کے سلسلہ میں آئی تھی)۔
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے، اپنے کپڑے کا کونا اٹھائے ہوئے یہاں تک کہ گھٹنہ کھل گیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے صاحب (سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ) کسی سے لڑ کر آ رہے ہیں۔“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سلام کیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! مجھ میں اور ابن خطاب (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ) میں کچھ تکرار ہو گئی، میں جلدی سے ان کو سخت سست کہہ دیا پھر میں شرمندہ ہوا اور ان سے معافی چاہی لیکن انھوں نے انکار کیا، اب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ہوں، (آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں سمجھایے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر! اللہ تمہیں بخشے۔“ تین بار یہی فرمایا پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ شرمندہ ہوئے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر آئے اور پوچھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں؟ انھوں (گھر والوں) نے کہا کہ نہیں۔ پس وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور سلام کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا یہاں تک کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ڈر گئے (کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر خفا نہ ہو جائیں) اور دو زانوں ہو کر بیٹھ گئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! میری ہی غلطی تھی۔ دو دفعہ یوں کہا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(لوگو!) اللہ نے مجھے تمہاری طرف پیغمبر بنا کر بھیجا لیکن تم نے مجھے جھوٹا کہا اور ابوبکر نے سچا کہا اور اپنے مال اور جان سے میری خدمت کی، کیا تم میری خاطر میرے دوست کو ستانا چھوڑ سکتے ہو؟“ دو دفعہ یہی فرمایا: پھر اس کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کسی نے نہیں ستایا۔
سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی (مسلمان) نہ تھا سوائے پانچ غلام، دو عورتیں اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے (جو کہ مسلمان ہو چکے تھے)۔
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ذات السلاسل کی لڑائی میں لشکر کا سردار بنا کر بھیجا پس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ آپ کو لوگوں میں سب سے زیادہ کس سے محبت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ سے۔“ میں نے کہا کہ مردوں میں سے؟ فرمایا:“ اس کے والد سے (سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ)۔“ میں نے کہا پھر کس سے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر عمر بن خطاب سے۔“ اور اسی طرح کئی آدمیوں کے نام لیے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص غرور اور تکبر کی وجہ سے (کے لیے) اپنا کپڑا لٹکائے اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے روز (رحمت کی نگاہ سے) دیکھے گا بھی نہیں۔“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرا کپڑا چلنے میں ایک طرف لٹک جاتا ہے، اگر خیال رکھوں (اور مضبوط باندھوں) تو شاید نہ لٹکے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک تو غرور اور تکبر سے یوں نہیں کرتا۔“
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے اپنے گھر میں وضو کیا، پھر باہر نکلے۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ آج میں دن بھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑوں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی رہوں گا۔ کہتے ہیں کہ پھر مسجد میں آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا۔ لوگوں نے کہا کہ باہر اس طرف تشریف لے گئے ہیں۔ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نشان پر چلا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں لوگوں سے پوچھتا جاتا تھا، چلتے چلتے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام اریس کے باغ میں گئے ہیں میں دروازے کے قریب بیٹھ گیا جو کھجور کی ڈالیوں کا بنا ہوا تھا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حاجت سے فارغ ہوئے اور وضو کر چکے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل دیا۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اریس کنویں کی منڈیر پر بیٹھے ہیں، اس کے بیچا بیچ میں اور دونوں پنڈلیاں کھول کر کنویں میں لٹکا دی ہیں۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا پھر میں لوٹ آیا اور دروازے کے قریب بیٹھ گیا۔ میں نے (دل میں) کہا کہ میں آج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دربان رہوں گا۔ اتنے میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور دروازے کو دھکیلا۔ میں نے پوچھا کون ہے؟ انھوں نے کہا: ”ابوبکر ہوں، میں نے کہا ذرا ٹھہرو۔ پھر میں گیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! ابوبکر رضی اللہ عنہ اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کو آنے دو اور جنت کی خوشخبری سنا دو۔ میں آیا اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اندر داخل ہو جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنت کی خوشخبری دی ہے۔ پس سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی داہنی طرف اسی منڈیر پر دونوں پاؤں لٹکا کر پنڈلیاں کھول کر جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے، بیٹھ گئے۔ میں لوٹ آیا اور پھر بیٹھ گیا اور میں اپنے بھائی (عامر) کو گھر میں وضو کرتے چھوڑ آیا تھا۔ میں نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ کو فلاں (یعنی) میرے بھائی کی بھلائی منظور ہے تو اس کو یہاں لے آئے گا۔ اتنے میں (کیا دیکھتا ہوں کہ) کوئی دروازہ ہلانے لگا۔ میں پوچھا کون ہے؟ جواب آیا کہ عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ)۔ میں نے کہا ٹھہر جائیں۔ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور سلام کیا اور کہا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ فرمایا: ”انھیں اجازت دو اور جنت کی خوشخبری بھی دو۔“ پس میں گیا اور کہا کہ اندر داخل ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھے جنت کی خوشخبری دی ہے۔ پس وہ بھی داخل ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف اسی منڈیر پر بیٹھ گئے اور دونوں پاؤں کنویں میں لٹکا دیے۔ پھر میں لوٹ آیا اور (دروازے پر) بیٹھ گیا۔ میں نے کہا کہ اگر اللہ کو فلاں آدمی (عامر) کی بھلائی منظور ہے تو اس کو بھی لے آئے گا۔ اتنے میں ایک اور آدمی نے دروازہ ہلایا میں نے کہا کہ کون ہے؟ جواب دیا کہ عثمان بن عفان۔ میں نے کہا کہ ٹھہر جائیں، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انھیں اجازت دو اور جنت کی خوشخبری دو مگر وہ ایک بلا میں مبتلا ہوں گے۔“ میں آیا اور ان سے کہا کہ داخل ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھے جنت کی خوشخبری دی ہے مگر ایک بلا کے بعد جو تم پر آئے گی۔ پس وہ بھی داخل ہوئے اور دیکھا کہ منڈیر کا ایک حصہ بھر گیا ہے پس وہ دوسرے کنارے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گئے۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے اصحاب کو برا نہ کہو، اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا (اللہ کی راہ میں) خرچ کرے تو ان کے مد یا آدھے مد (غلہ) کے برابر نہیں ہو سکتا۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم احد پہاڑ پر چڑھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا ابوبکر اور عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم بھی چڑھے۔ اتنے میں پہاڑ کو جنبش ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے احد (پہاڑ) ٹھہرا رہ، بیشک تجھ پر اور کوئی نہیں سوائے ایک پیغمبر، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں کھڑا تھا جو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے لیے مغفرت کی دعا کر رہے تھے، ان کا جنازہ رکھا ہوا تھا۔ اتنے میں ایک شخص نے پیچھے سے اپنی کہنی میرے کندھے پر رکھی اور کہنے لگا کہ (اے عمر!) اللہ تجھ پر رحم کرے، مجھے یہی امید تھی کہ اللہ تمہیں تمہارے دونوں ساتھیوں (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ) کے ساتھ ہی رکھے گا کیونکہ میں نے اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”(فلاں جگہ) میں تھا اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہ (بھی تھے)، میں نے یہ کیا اور ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہ نے بھی کیا)، میں چلا اور ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہ) بھی (ساتھ تھے)۔“ پس مجھے امید ہے کہ اللہ تمہیں ان کے ساتھ رکھے گا۔ (سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ) میں نے نگاہ پھیری تو (دیکھا کہ) یہ کہنے والے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے (خواب میں) دیکھا کہ میں جنت میں گیا ہوں، کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں ابوطلحہ کی بیوی رمیصاء (ام سلیم سیدنا انس کی والدہ) موجود ہیں اور میں نے پاؤں کی آہٹ سنی تو پوچھا کہ کون ہے؟ کسی نے کہا کہ یہ بلال ہیں اور میں نے ایک محل دیکھا اور اس کے ایک طرف ایک لڑکی وضو کر رہی تھی، میں نے پوچھا کہ یہ کس کا محل ہے؟ کسی نے کہا کہ عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) کا۔ میں نے چاہا کہ اس محل کے اندر داخل ہوں اور اسے دیکھوں لیکن (اے عمر!) تمہاری غیرت مجھے یاد آ گئی۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، کیا میں آپ پر غیرت کروں گا؟