(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن إسماعيل، قال: حدثني قيس بن ابي حازم، قال: قال لي جرير، قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الا تريحني من ذي الخلصة وكان بيتا في خثعم يسمى كعبة اليمانية، قال: فانطلقت في خمسين ومائة فارس من احمس وكانوا اصحاب خيل، قال: وكنت لا اثبت على الخيل فضرب في صدري حتى رايت اثر اصابعه في صدري، وقال: اللهم ثبته واجعله هاديا مهديا فانطلق إليها فكسرها وحرقها، ثم بعث إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يخبره، فقال رسول جرير: والذي بعثك بالحق ما جئتك حتى تركتها كانها جمل اجوف او اجرب، قال: فبارك في خيل احمس ورجالها خمس مرات".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنِي قَيْسُ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: قَالَ لِي جَرِيرٌ، قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَا تُرِيحُنِي مِنْ ذِي الْخَلَصَةِ وَكَانَ بَيْتًا فِي خَثْعَمَ يُسَمَّى كَعْبَةَ الْيَمَانِيَةِ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ فِي خَمْسِينَ وَمِائَةِ فَارِسٍ مِنْ أَحْمَسَ وَكَانُوا أَصْحَابَ خَيْلٍ، قَالَ: وَكُنْتُ لَا أَثْبُتُ عَلَى الْخَيْلِ فَضَرَبَ فِي صَدْرِي حَتَّى رَأَيْتُ أَثَرَ أَصَابِعِهِ فِي صَدْرِي، وَقَالَ: اللَّهُمَّ ثَبِّتْهُ وَاجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا فَانْطَلَقَ إِلَيْهَا فَكَسَرَهَا وَحَرَّقَهَا، ثُمَّ بَعَثَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخْبِرُهُ، فَقَالَ رَسُولُ جَرِيرٍ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا جِئْتُكَ حَتَّى تَرَكْتُهَا كَأَنَّهَا جَمَلٌ أَجْوَفُ أَوْ أَجْرَبُ، قَالَ: فَبَارَكَ فِي خَيْلِ أَحْمَسَ وَرِجَالِهَا خَمْسَ مَرَّاتٍ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا ‘ ان سے اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا مجھ سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ذوالخلصہ کو (برباد کر کے) مجھے راحت کیوں نہیں دے دیتے۔ یہ ذوالخلصہ قبیلہ خثعم کا ایک بت خانہ تھا اور اسے «كعبة اليمانية» کہتے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں قبیلہ احمس کے ایک سو پچاس سواروں کو لے کر چلا۔ یہ سب حضرات بڑے اچھے گھوڑ سوار تھے۔ لیکن میں گھوڑے کی سواری اچھی طرح نہیں کر پاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر (اپنے ہاتھ سے) مارا ‘ میں نے انگشت ہائے مبارک کا نشان اپنے سینے پر دیکھا۔ فرمایا: اے اللہ! گھوڑے کی پشت پر اسے ثبات عطا فرما ‘ اور اسے دوسروں کو ہدایت کی راہ دکھانے والا اور خود ہدایت یافتہ بنا ‘ اس کے بعد جریر رضی اللہ عنہ روانہ ہوئے ‘ اور ذوالخلصہ کی عمارت کو گرا کر اس میں آگ لگا دی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر بھجوائی۔ جریر رضی اللہ عنہ کے قاصد (ابو ارطاۃ حصین بن ربیعہ) نے خدمت نبوی میں حاضر ہو کر عرض کیا اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ میں اس وقت تک آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوا ‘ جب تک ہم نے ذوالخلصہ کو ایک خالی پیٹ والے اونٹ کی طرح نہیں بنا دیا ‘ یا (انہوں نے کہا) خارش والے اونٹ کی طرح (مراد ویرانی سے ہے) جریر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ احمس کے سواروں اور قبیلوں کے تمام لوگوں کے لیے پانچ مرتبہ برکتوں کی دعا فرمائی۔
Narrated Jarir: Allah's Apostles said to me, "Will you relieve me from Dhul-Khalasa? Dhul-Khalasa was a house (of an idol) belonging to the tribe of Khath'am called Al-Ka`ba Al-Yama-niya. So, I proceeded with one hundred and fifty cavalry men from the tribe of Ahmas, who were excellent knights. It happened that I could not sit firm on horses, so the Prophet , stroke me over my chest till I saw his finger-marks over my chest, he said, 'O Allah! Make him firm and make him a guiding and rightly guided man.' " Jarir proceeded towards that house, and dismantled and burnt it. Then he sent a messenger to Allah's Apostle informing him of that. Jarir's messenger said, "By Him Who has sent you with the Truth, I did not come to you till I had left it like an emancipated or gabby camel (i.e. completely marred and spoilt)." Jarir added, "The Prophet asked for Allah's Blessings for the horses and the men of Ahmas five times."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 262
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو سفیان بن عیینہ نے خبر دی ‘ انہیں موسیٰ بن عقبہ نے ‘ انہیں نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہود) بنو نضیر کے کھجور کے باغات جلوا دیئے تھے۔
(مرفوع) حدثنا علي بن مسلم، حدثنا يحيى بن زكرياء بن ابي زائدة، قال: حدثني ابي، عن ابي إسحاق، عن البراء بن عازب رضي الله عنهما، قال:" بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم رهطا من الانصار إلى ابي رافع ليقتلوه فانطلق رجل منهم فدخل حصنهم، قال: فدخلت في مربط دواب لهم، قال: واغلقوا باب الحصن، ثم إنهم فقدوا حمارا لهم فخرجوا يطلبونه، فخرجت فيمن خرج اريهم انني اطلبه معهم، فوجدوا الحمار فدخلوا ودخلت واغلقوا باب الحصن ليلا، فوضعوا المفاتيح في كوة حيث اراها فلما ناموا اخذت المفاتيح ففتحت باب الحصن، ثم دخلت عليه، فقلت: يا ابا رافع فاجابني فتعمدت الصوت فضربته، فصاح، فخرجت، ثم جئت، ثم رجعت كاني مغيث، فقلت: يا ابا رافع وغيرت صوتي، فقال: ما لك لامك الويل، قلت: ما شانك، قال: لا ادري من دخل علي فضربني، قال: فوضعت سيفي في بطنه، ثم تحاملت عليه حتى قرع العظم، ثم خرجت وانا دهش فاتيت سلما لهم لانزل منه فوقعت، فوثئت رجلي، فخرجت إلى اصحابي، فقلت: ما انا ببارح حتى اسمع الناعية، فما برحت حتى سمعت نعايا ابي رافع تاجر اهل الحجاز، قال: فقمت وما بي قلبة حتى اتينا النبي صلى الله عليه وسلم فاخبرناه".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّاءَ بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَهْطًا مِنْ الْأَنْصَارِ إِلَى أَبِي رَافِعٍ لِيَقْتُلُوهُ فَانْطَلَقَ رَجُلٌ مِنْهُمْ فَدَخَلَ حِصْنَهُمْ، قَالَ: فَدَخَلْتُ فِي مَرْبِطِ دَوَابَّ لَهُمْ، قَالَ: وَأَغْلَقُوا بَابَ الْحِصْنِ، ثُمَّ إِنَّهُمْ فَقَدُوا حِمَارًا لَهُمْ فَخَرَجُوا يَطْلُبُونَهُ، فَخَرَجْتُ فِيمَنْ خَرَجَ أُرِيهِمْ أَنَّنِي أَطْلُبُهُ مَعَهُمْ، فَوَجَدُوا الْحِمَارَ فَدَخَلُوا وَدَخَلْتُ وَأَغْلَقُوا بَابَ الْحِصْنِ لَيْلًا، فَوَضَعُوا الْمَفَاتِيحَ فِي كَوَّةٍ حَيْثُ أَرَاهَا فَلَمَّا نَامُوا أَخَذْتُ الْمَفَاتِيحَ فَفَتَحْتُ بَابَ الْحِصْنِ، ثُمَّ دَخَلْتُ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا رَافِعٍ فَأَجَابَنِي فَتَعَمَّدْتُ الصَّوْتَ فَضَرَبْتُهُ، فَصَاحَ، فَخَرَجْتُ، ثُمَّ جِئْتُ، ثُمَّ رَجَعْتُ كَأَنِّي مُغِيثٌ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا رَافِعٍ وَغَيَّرْتُ صَوْتِي، فَقَالَ: مَا لَكَ لِأُمِّكَ الْوَيْلُ، قُلْتُ: مَا شَأْنُكَ، قَالَ: لَا أَدْرِي مَنْ دَخَلَ عَلَيَّ فَضَرَبَنِي، قَالَ: فَوَضَعْتُ سَيْفِي فِي بَطْنِهِ، ثُمَّ تَحَامَلْتُ عَلَيْهِ حَتَّى قَرَعَ الْعَظْمَ، ثُمَّ خَرَجْتُ وَأَنَا دَهِشٌ فَأَتَيْتُ سُلَّمًا لَهُمْ لِأَنْزِلَ مِنْهُ فَوَقَعْتُ، فَوُثِئَتْ رِجْلِي، فَخَرَجْتُ إِلَى أَصْحَابِي، فَقُلْتُ: مَا أَنَا بِبَارِحٍ حَتَّى أَسْمَعَ النَّاعِيَةَ، فَمَا بَرِحْتُ حَتَّى سَمِعْتُ نَعَايَا أَبِي رَافِعٍ تَاجِرِ أَهْلِ الْحِجَازِ، قَالَ: فَقُمْتُ وَمَا بِي قَلَبَةٌ حَتَّى أَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْنَاهُ".
ہم سے علی بن مسلم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ نے بیان کیا ‘ کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ‘ ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے چند آدمیوں کو ابورافع (یہودی) کو قتل کرنے کے لیے بھیجا ‘ ان میں سے ایک صاحب (عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ) آگے چل کر اس قلعہ کے اندر داخل ہو گئے۔ انہوں نے بیان کیا کہ اندر جانے کے بعد میں اس مکان میں گھس گیا ‘ جہاں ان کے جانور بندھا کرتے تھے۔ بیان کیا کہ انہوں نے قلعہ کا دروازہ بند کر لیا ‘ لیکن اتفاق کہ ان کا ایک گدھا ان کے مویشیوں میں سے گم تھا۔ اس لیے اسے تلاش کرنے کے لیے باہر نکلے۔ (اس خیال سے کہ کہیں پکڑا نہ جاؤں) نکلنے والوں کے ساتھ میں بھی باہر آ گیا ‘ تاکہ ان پر یہ ظاہر کر دوں کہ میں بھی تلاش کرنے والوں میں سے ہوں ‘ آخر گدھا انہیں مل گیا ‘ اور وہ پھر اندر آ گئے۔ میں بھی ان کے ساتھ اندر آ گیا اور انہوں نے قلعہ کا دروازہ بند کر لیا ‘ رات کا وقت تھا ‘ کنجیوں کا گچھا انہوں نے ایک ایسے طاق میں رکھا ‘ جسے میں نے دیکھ لیا تھا۔ جب وہ سب سو گئے تو میں نے چابیوں کا گچھا اٹھایا اور دروازہ کھول کر ابورافع کے پاس پہنچا۔ میں نے اسے آواز دی ‘ ابورافع! اس نے جواب دیا اور میں فوراً اس کی آواز کی طرف بڑھا اور اس پر وار کر بیٹھا۔ وہ چیخنے لگا تو میں باہر چلا آیا۔ اس کے پاس سے واپس آ کر میں پھر اس کے کمرہ میں داخل ہوا ‘ گویا میں اس کی مدد کو پہنچا تھا۔ میں نے پھر آواز دی ابورافع! اس مرتبہ میں نے اپنی آواز بدل لی تھی، اس نے کہا کہ کیا کر رہا ہے، تیری ماں برباد ہو۔ میں نے پوچھا، کیا بات پیش آئی؟ وہ کہنے لگا ‘ نہ معلوم کون شخص میرے کمرے میں آ گیا ‘ اور مجھ پر حملہ کر بیٹھا ہے ‘ انہوں نے کہا کہ اب کی بار میں نے اپنی تلوار اس کے پیٹ پر رکھ کر اتنی زور سے دبائی کہ اس کی ہڈیوں میں اتر گئی ‘ جب میں اس کے کمرہ سے نکلا تو بہت دہشت میں تھا۔ پھر قلعہ کی ایک سیڑھی پر میں آیا تاکہ اس سے نیچے اتر جاؤں مگر میں اس پر سے گر گیا ‘ اور میرے پاؤں میں موچ آ گئی ‘ پھر جب میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا تو میں نے ان سے کہا کہ میں تو اس وقت تک یہاں سے نہیں جاؤں گا جب تک اس کی موت کا اعلان خود نہ سن لوں۔ چنانچہ میں وہیں ٹھہر گیا۔ اور میں نے رونے والی عورتوں سے ابورافع حجاز کے سوداگر کی موت کا اعلان بلند آواز سے سنا۔ انہوں نے کہا کہ پھر میں وہاں سے اٹھا ‘ اور مجھے اس وقت کچھ بھی درد معلوم نہیں ہوا ‘ پھر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی بشارت دی۔
Narrated Al-Bara bin Azib: Allah's Apostle sent a group of Ansari men to kill Abu-Rafi`. One of them set out and entered their (i.e. the enemies) fort. That man said, "I hid myself in a stable for their animals. They closed the fort gate. Later they lost a donkey of theirs, so they went out in its search. I, too, went out along with them, pretending to look for it. They found the donkey and entered their fort. And I, too, entered along with them. They closed the gate of the fort at night, and kept its keys in a small window where I could see them. When those people slept, I took the keys and opened the gate of the fort and came upon Abu Rafi` and said, 'O Abu Rafi`. When he replied me, I proceeded towards the voice and hit him. He shouted and I came out to come back, pretending to be a helper. I said, 'O Abu Rafi`, changing the tone of my voice. He asked me, 'What do you want; woe to your mother?' I asked him, 'What has happened to you?' He said, 'I don't know who came to me and hit me.' Then I drove my sword into his belly and pushed it forcibly till it touched the bone. Then I came out, filled with puzzlement and went towards a ladder of theirs in order to get down but I fell down and sprained my foot. I came to my companions and said, 'I will not leave till I hear the wailing of the women.' So, I did not leave till I heard the women bewailing Abu Rafi`, the merchant pf Hijaz. Then I got up, feeling no ailment, (and we proceeded) till we came upon the Prophet and informed him."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 264
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ بن آدم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ بن ابی زائدہ نے بیان کیا ‘ ان سے اس کے والد نے ‘ ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے چند آدمیوں کو ابورافع کے پاس (اسے قتل کرنے کے لیے) بھیجا تھا۔ چنانچہ رات میں عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ اس کے قلعہ میں داخل ہوئے اور اسے سوتے ہوئے قتل کیا۔
Narrated Al-Bara bin Azib: Allah's Apostle sent a group of the Ansar to Abu Rafi`. `Abdullah bin Atik entered his house at night and killed him while he was sleeping.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 265
ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے عاصم بن یوسف یربوعی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ابواسحاق فزاری نے بیان کیا ‘ ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا ‘ کہ مجھ سے عمر بن عبیداللہ کے غلام سالم ابوالنضر نے بیان کیا کہ میں عمر بن عبیداللہ کا منشی تھا۔ سالم نے بیان کیا کہ جب وہ خوارج سے لڑنے کے لیے روانہ ہوئے تو انہیں عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما کا خط ملا۔ میں نے اسے پڑھا تو اس میں انہوں نے لکھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لڑائی کے موقع پر انتظار کیا ‘ پھر جب سورج ڈھل گیا۔
Narrated Salim Abu An-Nadr: (the freed slave of 'Umar bin 'Ubaidullah) I was Umar's clerk. Once Abdullah bin Abi Aufa wrote a letter to 'Umar when he proceeded to Al-Haruriya. I read in it that Allah's Apostle in one of his military expeditions against the enemy, waited till the sun declined.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 266
(مرفوع) ثم قام في الناس فقال:" ايها الناس لا تمنوا لقاء العدو وسلوا الله العافية، فإذا لقيتموهم فاصبروا، واعلموا ان الجنة تحت ظلال السيوف، ثم قال: اللهم منزل الكتاب ومجري السحاب وهازم الاحزاب اهزمهم، وانصرنا عليهم". وقال موسى بن عقبة، حدثني سالم ابو النضر كنت كاتبا لعمر بن عبيد الله فاتاه كتاب عبد الله بن ابي اوفى رضي الله عنهما، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا تمنوا لقاء العدو".(مرفوع) ثُمَّ قَامَ فِي النَّاسِ فَقَالَ:" أَيُّهَا النَّاسُ لَا تَمَنَّوْا لِقَاءَ الْعَدُوِّ وَسَلُوا اللَّهَ الْعَافِيَةَ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاصْبِرُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ ظِلَالِ السُّيُوفِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ وَمُجْرِيَ السَّحَابِ وَهَازِمَ الْأَحْزَابِ اهْزِمْهُمْ، وَانْصُرْنَا عَلَيْهِمْ". وَقَالَ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، حَدَّثَنِي سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ كُنْت كَاتِبًا لِعُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ فَأَتَاهُ كِتَابُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تَمَنَّوْا لِقَاءَ الْعَدُوِّ".
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”اے لوگو! دشمن سے لڑائی بھڑائی کی تمنا نہ کرو ‘ بلکہ اللہ سے سلامتی مانگو۔ ہاں! جب جنگ چھڑ جائے تو پھر صبر کئے رہو اور ڈٹ کر مقابلہ کرو اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے میں ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دعا کی «اللهم منزل الكتاب ومجري السحاب وهازم الأحزاب اهزمهم وانصرنا عليهم»”اے اللہ! کتاب (قرآن) کے نازل فرمانے والے ‘ اے بادلوں کے چلانے والے! اے احزاب (یعنی کافروں کی جماعتوں کو غزوہ خندق کے موقع پر) شکست دینے والے! ہمارے دشمن کو شکست دے اور ان کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔“ اور موسیٰ بن عقبہ نے کہا کہ مجھ سے سالم ابوالنضر نے بیان کیا کہ میں عمر بن عبیداللہ کا منشی تھا۔ ان کے پاس عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما کا خط آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ”دشمن سے لڑائی لڑنے کی تمنا نہ کرو۔“
And then he got up amongst the people saying, "O people! Do not wish to meet the enemy, and ask Allah for safety, but when you face the enemy, be patient, and remember that Paradise is under the shades of swords." Then he said, "O Allah, the Revealer of the Holy Book, and the Mover of the clouds and the Defeater of the clans, defeat them, and grant us victory over them."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4 , Book 52 , Number 266
ابوعامر نے کہا ‘ ہم سے مغیرہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا ‘ ان سے ابوالزناد نے ‘ ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”دشمن سے لڑنے بھڑنے کی تمنا نہ کرو ‘ ہاں! اگر جنگ شروع ہو جائے تو پھر صبر سے کام لو۔“
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن همام، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" هلك كسرى، ثم لا يكون كسرى بعده وقيصر ليهلكن، ثم لا يكون قيصر بعده ولتقسمن كنوزها في سبيل الله.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" هَلَكَ كِسْرَى، ثُمَّ لَا يَكُونُ كِسْرَى بَعْدَهُ وَقَيْصَرٌ لَيَهْلِكَنَّ، ثُمَّ لَا يَكُونُ قَيْصَرٌ بَعْدَهُ وَلَتُقْسَمَنَّ كُنُوزُهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ.
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں ہمام نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کسریٰ (ایران کا بادشاہ) برباد و ہلاک ہو گیا ‘ اب اس کے بعد کوئی کسریٰ نہیں آئے گا۔ اور قیصر (روم کا بادشاہ) بھی ہلاک و برباد ہو گیا ‘ اور اس کے بعد (شام میں) کوئی قیصر باقی نہیں رہ جائے گا۔ اور ان کے خزانے اللہ کے راستے میں تقسیم ہوں گے۔“
Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "Khosrau will be ruined, and there will be no Khosrau after him, and Caesar will surely be ruined and there will be no Caesar after him, and you will spend their treasures in Allah's Cause."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 267
ہم سے ابوبکر بن اصرم نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں ہمام بن منبہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”لڑائی کیا ہے؟ ایک چال ہے۔“