Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
کتاب: جہاد کا بیان
155. بَابُ قَتْلِ النَّائِمِ الْمُشْرِكِ:
باب: (حربی) مشرک سو رہا ہو تو اس کا مار ڈالنا درست ہے۔
حدیث نمبر: 3022
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّاءَ بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَهْطًا مِنْ الْأَنْصَارِ إِلَى أَبِي رَافِعٍ لِيَقْتُلُوهُ فَانْطَلَقَ رَجُلٌ مِنْهُمْ فَدَخَلَ حِصْنَهُمْ، قَالَ: فَدَخَلْتُ فِي مَرْبِطِ دَوَابَّ لَهُمْ، قَالَ: وَأَغْلَقُوا بَابَ الْحِصْنِ، ثُمَّ إِنَّهُمْ فَقَدُوا حِمَارًا لَهُمْ فَخَرَجُوا يَطْلُبُونَهُ، فَخَرَجْتُ فِيمَنْ خَرَجَ أُرِيهِمْ أَنَّنِي أَطْلُبُهُ مَعَهُمْ، فَوَجَدُوا الْحِمَارَ فَدَخَلُوا وَدَخَلْتُ وَأَغْلَقُوا بَابَ الْحِصْنِ لَيْلًا، فَوَضَعُوا الْمَفَاتِيحَ فِي كَوَّةٍ حَيْثُ أَرَاهَا فَلَمَّا نَامُوا أَخَذْتُ الْمَفَاتِيحَ فَفَتَحْتُ بَابَ الْحِصْنِ، ثُمَّ دَخَلْتُ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا رَافِعٍ فَأَجَابَنِي فَتَعَمَّدْتُ الصَّوْتَ فَضَرَبْتُهُ، فَصَاحَ، فَخَرَجْتُ، ثُمَّ جِئْتُ، ثُمَّ رَجَعْتُ كَأَنِّي مُغِيثٌ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا رَافِعٍ وَغَيَّرْتُ صَوْتِي، فَقَالَ: مَا لَكَ لِأُمِّكَ الْوَيْلُ، قُلْتُ: مَا شَأْنُكَ، قَالَ: لَا أَدْرِي مَنْ دَخَلَ عَلَيَّ فَضَرَبَنِي، قَالَ: فَوَضَعْتُ سَيْفِي فِي بَطْنِهِ، ثُمَّ تَحَامَلْتُ عَلَيْهِ حَتَّى قَرَعَ الْعَظْمَ، ثُمَّ خَرَجْتُ وَأَنَا دَهِشٌ فَأَتَيْتُ سُلَّمًا لَهُمْ لِأَنْزِلَ مِنْهُ فَوَقَعْتُ، فَوُثِئَتْ رِجْلِي، فَخَرَجْتُ إِلَى أَصْحَابِي، فَقُلْتُ: مَا أَنَا بِبَارِحٍ حَتَّى أَسْمَعَ النَّاعِيَةَ، فَمَا بَرِحْتُ حَتَّى سَمِعْتُ نَعَايَا أَبِي رَافِعٍ تَاجِرِ أَهْلِ الْحِجَازِ، قَالَ: فَقُمْتُ وَمَا بِي قَلَبَةٌ حَتَّى أَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْنَاهُ".
ہم سے علی بن مسلم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ نے بیان کیا ‘ کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ‘ ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے چند آدمیوں کو ابورافع (یہودی) کو قتل کرنے کے لیے بھیجا ‘ ان میں سے ایک صاحب (عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ) آگے چل کر اس قلعہ کے اندر داخل ہو گئے۔ انہوں نے بیان کیا کہ اندر جانے کے بعد میں اس مکان میں گھس گیا ‘ جہاں ان کے جانور بندھا کرتے تھے۔ بیان کیا کہ انہوں نے قلعہ کا دروازہ بند کر لیا ‘ لیکن اتفاق کہ ان کا ایک گدھا ان کے مویشیوں میں سے گم تھا۔ اس لیے اسے تلاش کرنے کے لیے باہر نکلے۔ (اس خیال سے کہ کہیں پکڑا نہ جاؤں) نکلنے والوں کے ساتھ میں بھی باہر آ گیا ‘ تاکہ ان پر یہ ظاہر کر دوں کہ میں بھی تلاش کرنے والوں میں سے ہوں ‘ آخر گدھا انہیں مل گیا ‘ اور وہ پھر اندر آ گئے۔ میں بھی ان کے ساتھ اندر آ گیا اور انہوں نے قلعہ کا دروازہ بند کر لیا ‘ رات کا وقت تھا ‘ کنجیوں کا گچھا انہوں نے ایک ایسے طاق میں رکھا ‘ جسے میں نے دیکھ لیا تھا۔ جب وہ سب سو گئے تو میں نے چابیوں کا گچھا اٹھایا اور دروازہ کھول کر ابورافع کے پاس پہنچا۔ میں نے اسے آواز دی ‘ ابورافع! اس نے جواب دیا اور میں فوراً اس کی آواز کی طرف بڑھا اور اس پر وار کر بیٹھا۔ وہ چیخنے لگا تو میں باہر چلا آیا۔ اس کے پاس سے واپس آ کر میں پھر اس کے کمرہ میں داخل ہوا ‘ گویا میں اس کی مدد کو پہنچا تھا۔ میں نے پھر آواز دی ابورافع! اس مرتبہ میں نے اپنی آواز بدل لی تھی، اس نے کہا کہ کیا کر رہا ہے، تیری ماں برباد ہو۔ میں نے پوچھا، کیا بات پیش آئی؟ وہ کہنے لگا ‘ نہ معلوم کون شخص میرے کمرے میں آ گیا ‘ اور مجھ پر حملہ کر بیٹھا ہے ‘ انہوں نے کہا کہ اب کی بار میں نے اپنی تلوار اس کے پیٹ پر رکھ کر اتنی زور سے دبائی کہ اس کی ہڈیوں میں اتر گئی ‘ جب میں اس کے کمرہ سے نکلا تو بہت دہشت میں تھا۔ پھر قلعہ کی ایک سیڑھی پر میں آیا تاکہ اس سے نیچے اتر جاؤں مگر میں اس پر سے گر گیا ‘ اور میرے پاؤں میں موچ آ گئی ‘ پھر جب میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا تو میں نے ان سے کہا کہ میں تو اس وقت تک یہاں سے نہیں جاؤں گا جب تک اس کی موت کا اعلان خود نہ سن لوں۔ چنانچہ میں وہیں ٹھہر گیا۔ اور میں نے رونے والی عورتوں سے ابورافع حجاز کے سوداگر کی موت کا اعلان بلند آواز سے سنا۔ انہوں نے کہا کہ پھر میں وہاں سے اٹھا ‘ اور مجھے اس وقت کچھ بھی درد معلوم نہیں ہوا ‘ پھر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی بشارت دی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3022 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3022  
حدیث حاشیہ:

ابورافع یہودی ایسا بدبخت انسان تھا جو رسول اللہ ﷺ کے خلاف بہت بغض وعداوت رکھتاتھا،نیز وہ مشرکین مکہ کو آپ کے خلاف مشورے دیتا اور آپ کے ساتھ جنگ کے لیے انھیں اکساتا تھا۔
اسی نےقبائل کو مشتعل کرکے مدینہ طیبہ پر چڑھائی کا مشورہ دیا۔
بالآخر قدرت نے اس سے پورا پورا انتقام لیا۔

رسول اللہ ﷺ نے اس کا کام تمام کرنے کے لیے عبداللہ بن عتیک،عبداللہ بن عتبہ،عبداللہ بن انیس،ابوقتادہ،اسود بن خزاعی،مسعود بن سنان،عبداللہ بن عقبہ اور اسعد بن حرام ؓ کو روانہ فرمایا۔

حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ نے ابورافع عبداللہ بن ابی الحقیق کو سوتے میں قتل کیا۔
حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ نے اگرچہ ابورافع کو جگایا مگر یہ جگانا صرف اس کی جگہ معلوم کرنے کے لیے تھا،تاہم وہ سونے والے کے حکم میں تھا کیونکہ وہ اسی جگہ پڑارہا وہاں سے ادھر اُدھر نہیں بھاگاتھا،لہذا اس کے متعلق بھی یہی کہاجائے گا کہ اسے سوتے میں قتل کردیا تھا۔
ممکن ہے کہ امام بخاری ؒنے عنوان قائم کرکے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہو جس میں یہ صراحت ہے کہ عبداللہ ؓنے ابورافع کوسوتے میں قتل کیاجیسا کہ درج ذیل حدیث میں ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3022   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3023  
3023. حضرت براء بن عازب ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے انصار کا ایک گروہ ابو رافع کی طرف روانہ کیا، چنانچہ رات کے وقت حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ اسکے قلعے میں داخل ہوگئے اوراسے سوتے میں قتل کردیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3023]
حدیث حاشیہ:
عبداللہ ؓ ابو رافع کی آواز پہچانتے تھے‘ وہاں اندھیرا چھایا ہوا تھا‘ انہوں نے یہ خیال کیا‘ ایسا نہ ہو میں اور کسی کو مار ڈالوں‘ اس لئے انہوں نے ابو رافع کو پکارا اور اس کی آواز پر ضرب لگائی۔
گو ابو رافع کو عبداللہ نے جگا دیا مگر یہ جگانا صرف اس کی جگہ معلوم کرنے کے لئے تھا۔
ابو رافع وہیں پڑا رہا‘ تو گویا سوتا ہی رہا۔
اس لئے باب کی مطابقت حاصل ہوئی۔
بعضوں نے کہا کہ حضرت امام بخاری ؒ نے اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا‘ جس میں یہ صراحت ہے کہ عبداللہ ؓ نے ابو رافع کو سوتے میں مارا۔
یہ ابو رافع (سلام بن ابی الحقیق یہودی)
کافروں کو مسلمانوں پر جنگ کے لئے ابھارتا اور ہر وقت فساد کرانے پر آمادہ رہتا تھا۔
اس لئے ملک میں قیام امن کے لئے اس کا ختم کرنا ضروری ہوا۔
اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس ظالم کو نیست و نابود کرایا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3023   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4040  
4040. حضرت براء بن عازب ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے چند انصار کو ابو رافع یہودی کے پاس بھیجا اور ان پر حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ کو امیر مقرر فرمایا۔ یہ ابو رافع رسول اللہ ﷺ کو سخت اذیت دیا کرتا تھا اور آپ کے مخالفین کی اعانت کرتا تھا۔ زمین حجاز میں اس کا قلعہ تھا اور وہ اس میں رہائش پذیر تھا۔ جب یہ لوگ اس کے پاس پہنچے تو سورج غروب ہو چکا تھا اور شام کے وقت لوگ اپنے مویشی واپس لا رہے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: تم اپنی جگہ پر ٹھہرو، میں جاتا ہوں اور دربان سے مل کر اس سے نرم نرم باتیں کر کے قلعے کے اندر جانے کی کوئی تدبیر کرتا ہوں، چنانچہ وہ قلعے کی طرف روانہ ہوئے اور دروازے کے قریب پہنچ کر خود کو کپڑوں میں اس طرح چھپا لیا گویا وہ قضائے حاجت کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس وقت اہل قلعہ اندر جا چکے تھے۔ دربان نے اپنا آدمی سمجھ کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4040]
حدیث حاشیہ:
ابورافع یہودی خیبر میں رہتا تھا۔
رئیس التجار اور تاجر الحجاز سے مشہور تھا۔
اسلام کا سخت ترین دشمن ہر وقت رسول کریم ﷺ کی ہجو کیا کرتا تھا۔
غزوئہ خندق کے موقع پر عرب کے مشہور قبائل کو مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے اس نے ابھارا تھا۔
آخر چند خزرجی صحابیوں کی خواہش پر آنحضرت ﷺ نے عبد اللہ بن عتیک انصاری کی قیادت میں پانچ آدمیوں کو اس کے قتل پر مامور فرمایا تھا۔
ساتھ میں تاکید فرمائی کہ عورتوں اور بچوں کو ہرگز قتل نہ کرنا۔
چنانچہ وہ ہوا جو حدیث بالا میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔
بعض دفعہ قیام امن کے لیے ایسے مفسدوں کا قتل کرنا دنیا کے ہر قانون میں ضروری ہوجاتا ہے۔
حافظ صاحب فرماتے ہیں:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ مِمَّا صَنَعَ اللَّهُ لِرَسُولِهِ أَنَّ الْأَوْسَ وَالْخَزْرَجَ كَانَا يَتَصَاوَلَانِ تَصَاوُلَ الْفَحْلَيْنِ لَا تَصْنَعُ الْأَوْسُ شَيْئًا إِلَّا قَالَتِ الْخَزْرَجُ وَاللَّهِ لَا تَذْهَبُونَ بِهَذِهِ فَضْلًا عَلَيْنَا وَكَذَلِكَ الْأَوْسُ فَلَمَّا أَصَابَتِ الْأَوْسُ كَعْبَ بْنَ الْأَشْرَفِ تَذَاكَرَتِ الْخَزْرَجُ مَنْ رَجُلٌ لَهُ مِنَ الْعَدَاوَةِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا كَانَ لِكَعْبٍ فَذكرُوا بن أَبِي الْحُقَيْقِ وَهُوَ بِخَيْبَرَ (فتح الباري)
یعنی اوس اور خزرج کا باہمی حال یہ تھا کہ وہ دونوں قبیلے آپس میں اس طرح رشک کرتے تھے جیسے دو سانڈ آپس میں رشک کرتے ہیں۔
جب قبیلہ اوس کے ہاتھوں کوئی اہم کام انجام پاتا تو خزرج والے کہتے کہ قسم اللہ کی اس کام کو کرکے تم فضیلت میں ہم سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔
ہم اس سے بھی بڑا کوئی کام انجام دیں گے۔
اوس کا بھی یہی خیال رہتا تھا۔
جب قبیلہ اوس نے کعب بن اشرف کو ختم کیا تو خزرج نے سوچا کہ ہم کسی اس سے بڑے دشمن کا خاتمہ کریں گے جو رسول کریم ﷺ کی عداوت میں اس سے بڑھ کر ہو گا۔
چنانچہ انہوں نے ابن ابی الحقیق کا انتخاب کیا جو خیبر میں رہتا تھا اور رسول کریم ﷺ کی عداوت میں یہ کعب بن اشرف سے بھی آگے بڑھا ہوا تھا۔
چنانچہ اوس کے جوانوں نے اس ظالم کا خاتمہ کیا۔
جس کی تفصیل یہاں مذکور ہے۔
روایت میں ابورافع کی جو رو کے جاگنے کا ذکر آیا ہے۔
ابن اسحاق کی روایت میں ہے کہ وہ جاگ کر چلانے لگی۔
عبداللہ بن عتیک ؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس پر تلوار اٹھائی لیکن فوراً مجھ کو فرمان نبوی یاد آگیا اور میں نے اسے نہیں مارا۔
آگے حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ کی ہڈی سرک جانے کا ذکر ہے۔
اگلی روایت میں پنڈلی ٹوٹ جانے کا ذکر ہے۔
اور اس میں جوڑ کھل جانے کا دونوں باتوں میں اختلاف نہیں ہے کیونکہ احتمال ہے کہ پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی ہو اور جوڑ بھی کسی جگہ سے کھل گیا ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4040   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3023  
3023. حضرت براء بن عازب ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے انصار کا ایک گروہ ابو رافع کی طرف روانہ کیا، چنانچہ رات کے وقت حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ اسکے قلعے میں داخل ہوگئے اوراسے سوتے میں قتل کردیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3023]
حدیث حاشیہ:
کسی مشرک کو سوتے میں قتل کرنا اس وقت جائز ہے جبکہ اسے دعوت اسلام پہنچ چکی ہو اور اس کے باوجود وہ کفر و شرک پر اڑا رہے یا اس کے ایمان لانے سے مایوسی ہوچکی ہو جیسا کہ ابورافع یہودی کے متعلق روایات ہیں کہ وہ کعب بن اشرف ملعون کی طرح رسول اللہ ﷺ کو ستاتا تھا۔
آپ کی ہجوکرتا اور دوسرے مشرکین کو آپ سے لڑنے کے لیے ابھارتا تھا،اس لیے ملک میں قیام امن کے لیے اس کو ختم کرنا ضروری تھا۔
اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس ظالم کو نیست و نابود کیا اور صفحہ ہستی سے اس کانشان مٹایا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3023   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4040  
4040. حضرت براء بن عازب ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے چند انصار کو ابو رافع یہودی کے پاس بھیجا اور ان پر حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ کو امیر مقرر فرمایا۔ یہ ابو رافع رسول اللہ ﷺ کو سخت اذیت دیا کرتا تھا اور آپ کے مخالفین کی اعانت کرتا تھا۔ زمین حجاز میں اس کا قلعہ تھا اور وہ اس میں رہائش پذیر تھا۔ جب یہ لوگ اس کے پاس پہنچے تو سورج غروب ہو چکا تھا اور شام کے وقت لوگ اپنے مویشی واپس لا رہے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: تم اپنی جگہ پر ٹھہرو، میں جاتا ہوں اور دربان سے مل کر اس سے نرم نرم باتیں کر کے قلعے کے اندر جانے کی کوئی تدبیر کرتا ہوں، چنانچہ وہ قلعے کی طرف روانہ ہوئے اور دروازے کے قریب پہنچ کر خود کو کپڑوں میں اس طرح چھپا لیا گویا وہ قضائے حاجت کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس وقت اہل قلعہ اندر جا چکے تھے۔ دربان نے اپنا آدمی سمجھ کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4040]
حدیث حاشیہ:

ابورافع یہودی کی اہل اسلام کے خلاف خباثتیں انتہاء کو پہنچ چکی تھیں۔
وہ ہروقت رسول اللہ ﷺکی ہجو کرتا تھا۔
ایسے حالات میں اسے قتل کرنا ضروری ہوگیا تھا۔
آخر کار رسول اللہ ﷺنے چند خزرجی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی خواہش پر حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ کی قیادت میں پانچ آدمیوں پر مشتمل ایک دستہ اس کے قتل پر مامور کیا۔
انھوں نے اس بدطینت کو صفحہ ہستی سے نیست ونابود کیا۔
پہلی حدیث میں حضرت عبداللہ بن عتیکؓ کی پنڈلی ٹوٹ جانے کا ذکرتھا جبکہ دوسری حدیث میں پاؤں کا جوڑ کھل جانے کا بیان ہے؟ ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ پنڈلی بھی ٹوٹی تھی اور پاؤں کا جوڑ بھی کھلا تھا۔
ان دونوں احادیث میں مختلف طرق سے ابورافع یہودی کے قتل کا بیان ہے۔

واضح رہے کہ ابورافع خیبر کے جس قلعے میں رہتا تھا وہ سرزمین حجاز کے قریب تھا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے وہ حجاز میں رہ کر تکلیفیں دیا کرتا تھا، پھر جلاوطنی کے بعد خیبر چلا گیا اور قتل کے وقت وہ اسی قلعے میں تھا۔
یہ ممکن ہے کہ پہلے وہ حجاز میں رہ کرتکلیفیں دیا کرتا تھا، پھر جلاوطنی کے بعد خیبر چلا گیا اور قتل کے وقت وہ اسی قعلے میں تھا۔
یہ ممکن ہے کہ اس کا ایک مکان خیبر میں ہو اوردوسراحجاز میں۔
بہرحال قتل کے وقت وہ خیبر کے قلعے میں تھا۔

ابورافع کے دو بھائی بھی تھے:
ایک تو کنانہ جو حضرت صفیہ ؓ کا خاوند تھا اور دوسرا ربیع بن ابی الحقیق۔
ان دونوں کو فتح خیبر کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔
(فتح الباري: 427/7)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ ان دونوں سرداروں کے قتل سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرکین کے حالات کا تجسس کرناجائز ہے۔
اور جب ان کی ایذارسانی حد سے بڑھ جائے توان کی بے عزتی کرنا اور انھیں اچانک قتل کرناجائز ہے نیز کسی کافر کو اپنے کفر پراصرار ہوتو ایسے لوگوں کو قبل از قتل دعوت دینے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
(فتح الباري: 431/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4040